https://youtu.be/j0XED6dIng8?si=IREaHGDTt__m6rt2&t=1320 اگر ایک شخص ڈٹا رہے اور کہتا رہے کہ چاہے جو مرضی مجھے تکلیفیں دو۔ چاہے جتنی مرضی لالچ دو، چاہے مجھے مار ہی ڈالو، جب ایک بارمیں نے خدا کو پہچان لیا ہے اور خدا مجھ سے باتیں بھی کرتا ہے تو میں خدا کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا۔ تو یقیناً ہمیں ماننا پڑے گا کہ ایسا شخص جو خدا پیش کر رہا ہے اُس پر سب سے پہلے وہ خود کامل طور پر ایمان رکھتا ہے۔ دلیل دوم عبد اللہ جلد ہی دوسری دلیل پڑھ کر واپس اپنے ابا کے پاس آگیا۔ اور کہنے لگا کہ دوسری دلیل خدا کے ہونے کی یہ ہے کہ دنیا میں جتنے نیک اور صالح لوگ گزرے ہیں مثلاً آنحضرت ﷺ جن کی سچائی کے لوگ ان کے دعویٰ سے قبل بھی قائل تھےاوران کو صادق کہا کرتے تھے، انہوں نے گواہی دی ہے کہ خدا ہے اور خدا ان سے باتیں کرتا ہے۔ اس کے ابا کہنے لگے کہ میں تمہاری بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن اگر تمہارا دوست جواباًیہ کہے کہ ہم تو خدا کو ہی نہیں مانتے تو انبیاء کی بات کیوں مانیں؟ تو کیا جواب دو گے؟ عبد اللہ کہنے لگا کہ اس کا جواب بھی اسی کتاب میں موجود ہے۔ یقیناً وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ خدا کے انبیاء کو۔ اور وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بے شک ان لوگوں نے پہلے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو مگر ممکن ہے کہ وہ اپنی صداقت کی مشہوری کا فائدہ اٹھا کر اس بار غلط بات کہہ رہے ہوں۔ لیکن اگر وہ یہ کہیں گے تو میں ان کو اس کتاب میں درج جواب دوں گا کہ تم اگر ان لوگوں پر ایمان نہیں رکھتے تو یہ الگ بات ہے مگر تم انسانی فطرت سے انکار نہیں کر سکتے۔ ایک شخص اگر اپنے آپ سے ایک بات بناکر پیش کرے تو چندلوگ اس کی بات مان لیتے ہیں جبکہ بعض انکار کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر انکار کرنے والوں کی طرف سے اس شخص کو ستانے کی کوششیں شروع ہو جائیں۔ اگر انکار کرنے والے اس شخص کو ہر قسم کی تکلیفیں دینا شروع کردیں اور ہر طرح کا دکھ دےکر اس کو باز آنے کی نصیحت کی جائے تو اگر وہ شخص اپنی ہی بنائی ہوئی بات پیش کر رہا ہےتو آج نہیں تو کل تکلیفوں کے بار سے تنگ آکر وہ بالآخر اپنی بات سے انکار کر دے گا۔ تاہم اس کے برعکس اگر ایک شخص ڈٹا رہے اور کہتا رہے کہ چاہے جو مرضی مجھے تکلیفیں دو۔ چاہے جتنی مرضی لالچ دو، چاہے مجھے مار ہی ڈالو، جب ایک بارمیں نے خدا کو پہچان لیا ہے اور خدا مجھ سے باتیں بھی کرتا ہے تو میں خدا کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا۔ تو یقیناً ہمیں ماننا پڑے گا کہ ایسا شخص جو خدا پیش کر رہا ہے اس پر سب سے پہلے وہ خود کامل طور پر ایمان رکھتا ہے۔ عبد اللہ کے ابا اس کی بات سن کر مسکرانے لگے اور عبداللہ کو شاباشی دی اور کہا کہ جاؤ اور باقی دلائل کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔ دلیل سوم تیسری دلیل پڑھتے ہی عبداللہ دوڑتا ہوا اپنے ابا کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ خدا کا ہونا تو ہمارے ضمیر سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کے لیے تو کہیں اور جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کے ابا نے پوچھا کہ اچھا؟ وہ کس طرح؟تو عبداللہ بتانے لگا کہ دیکھیں بعض برائیاں ایسی ہیں جن کا دنیا میں کرنے والا کوئی بھی ہو، چاہے وہ خدا پر ایمان لاتا ہو یا نہ لاتا ہو، اس کو وہ بُری معلوم ہوتی ہیں۔ اگرایک شخص عادتاً کوئی برائی بار بار کرے تو اور بات ہے کیونکہ آہستہ آہستہ اس کی وہ حس کمزور ہوجاتی ہے جو اس کو برائی کا بتاتی ہے مگر بچہ بھی بعض برائیوں کو مثلاً جھوٹ وغیرہ کو برا سمجھتا ہے۔ آخر کیا دلائل ہیں کہ جن کی وجہ سے بعض باتوں کو انسان کا ضمیر بد نما قرار دیتا ہے۔ اور یہ چیز ایک قوم یا ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ عالمگیر سطح پر دیکھی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ صرف مسلمان یا عیسائی جھوٹ کو برا سمجھتے ہیں بلکہ جو لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے وہ بھی جھوٹ کو برا کہتے ہیں۔ یہ بات خدا کے ہونے کا ثبوت ہے۔ آخر اگر کسی بالائی طاقت کا رعب اس کے دل پر نہیں تو وہ کیوں ان سے احتراز کرتا ہے؟ بہت سی ایسی برائیاں ہیں جو انسان اکیلےمیں بھی اس لیے نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ کرے تو اس کا دل اس کو ملامت کرتا ہے۔ اس لیے ہماراضمیر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی شریعت ہے جو ہمارے جذبات پر حکومت کر رہی ہے۔ اور یہ شریعت کہاں سے آئی ہے اگر محض اتفاق سے انسان پیدا ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی، عبداللہ کہنے لگا، میرے دوست کو ہی دینا ہوگا۔ (جاری ہے…) (م۔ ط۔ بشیر)