https://youtu.be/39ab6qFde0c ایسا ہی مجھے اور انگریزی خوانان اہل انصاف سے توقع ہے کہ اگر وہ بچشم انصاف انگریزی الہامات مؤلف کو پڑھیں یا بگوش انصاف سُنیں اور ساتھ ہی اِس کے ان کو یہ بھی تصدیق ہو کہ مؤلف انگریزی کا ایک حرف نہیں جانتا تو وہ اِس امر کا کرامت ہونا مان لیں براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو اعتراض دوم کا جواب (گذشتہ سے پیوستہ)ماہ صیام میں جبکہ میں سملہ پر تھا ایک بابو صاحب برہم سماج کے لکچرار و پریسٹ (جو میرے ہمسایہ تھے) مجھ سے قانون قدرت (جس کو لوگوں نے قانون سمجھ رکھا ہے اور درحقیقت وہ خدا کی قدر ت کا قانون نہیں ہے (دیکھو اشاعۃ السنۃ نمبر ۸ جلد ۴ میں مضمون ’’النیچر‘‘) کے تغیر و تبدل میں ہم کلام ہوئے۔ جب میں نے یہ ثابت کردیا اور اُن سے تسلیم کرا لیا کہ خدا کی قدرت انہی حالات و واقعات میں (جو ہم دیکھ رہے ہیں) محصور و محدود نہیں ہے بلکہ وہ اِس سے فوق الفوق اور وراء الوراء وسعت رکھتی ہے اور ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ ان اسباب و موجودات سے وہ کام لے جو اس وقت تک ان سے نہیں لئے گئے یا ہم نے نہیں دیکھے۔ تو وہ صاحب بولے کہ یہ امر ممکن تو ہے اور بہ نظر قدرت وسیع وغیرمحدود خداوندی ہم اِس امکان کو مانتے ہیں پر ہم اِس کی فعلیت (وقوع) کو کیونکر مان لیں جب تک اس کا مشاہدہ نہ کر لیں۔ اس پر میں نے مؤلف براہین احمدیہ کے الہامات انگریزی زبان کوپیش کیا اور یہ کہا کہ ایک شخص کا انگریزی زبان سے اُمی و اجنبی محض ہو کر (جس کو ہم روز مرہ کے مشاہدے و تجربے سے بخوبی جانتے ہیں اور دوسرے کو ثابت و معلوم کرا سکتے ہیں) بلا تعلیم و تعلم اِس زبان میں ایسی باتیں بیان کرنا (جن کا بیان انسانی طاقت سے خارج ہو) تمہاری تجویزی قانون قدرت کے مخالف نہیں تو کیا ہے؟ یہ سُن کر بابو صاحب موصوف نے سکوت کیا اور یہ فرمایا کہ ایسے شخص کو میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے یہ بھی سنا کہ انہوں نے ایک خط بھی متضمن اظہار اشتیاق ملاقات مؤلف براہین احمدیہ کے نام لکھا اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ اگر وہ اپنے ارادے و وعدے کو پورا کریں گے اور مؤلف کے زادبوم کے ساکنین ہندو مسلمانوں کی متواتر شہادت سے ان کا انگریزی زبان سے محض ناواقف ہونا ثابت کر لیں گے تو وہ اِس امر کا خرق عادت اور کرامت ہونا مان لیں گے۔ اور وہ جب الہامات یا مؤلف کی کسی اور پیشین گوئی کا خود تجربہ و مشاہدہ کر لیں گے تو قبول و اظہار اسلام سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ ایسا ہی مجھے اور انگریزی خوانان اہل انصاف سے توقع ہے کہ اگر وہ بچشم انصاف انگریزی الہامات مؤلف کو پڑھیں یا بگوش انصاف سُنیں اور ساتھ ہی اِس کے ان کو یہ بھی تصدیق ہو کہ مؤلف انگریزی کا ایک حرف نہیں جانتا تو وہ اِس امر کا کرامت ہونا مان لیں۔یہ لوگ جو اپنے تجویزی قانون کو قانون قدرت خداوندی سمجھتے ہیں اور اِس کے خلاف کو محال جانتے ہیں تو اِس کی وجہ یہی ہے کہ آج کل ان کو اِس قانون کے مخالف کچھ دکھانے والا کوئی نظر نہیں آیا۔ اور پچھلے خوارق انبیاء و اولیاء پر (جو بواسطہ نقل ان کو پہنچے) ان کو راستی کا گمان نہیں ہے اور جو اِن میں سے (جیسے حضرات نیچریہ جو مسلمان برہمو یا فلسفی مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں) اِس نقل کو راست جانتے ہیں وہ اِس میں تاویل و تصرف کر کے اِن خوارق کو امور عادیہ بنا لیتے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی کوئی ظاہر کرامات دکھانے والا نظر آوے تو امید ہے کہ ان کا انکار بھی مبدل باقبال ہو جائے۔اسی امید پر ہم مؤلف براہین احمدیہ کو یہ صلاح دیتے ہیں کہ جیسے آپ نے پادریوں اور برہم سماج و آریہ سماج کے سرگروہ داعیان کے نام خطوط متضمن وعدہ مشاہدہ خوارق تحریر کئے ہیں ویسے ہی سرگروہ فرقہ نیچریہ کے نام بھی ایک خط تحریر فرمائیں۔ اِس کے جواب میں اگر وہ یہ کہیں کہ ہم تو اسلام کو قرآن کو مانتے ہیں خدا کو خدا اور رسولؐ کو رسولؐ جانتے ہیں ہم کو خوارق و کرامات کی (جن کے مشاہدے سے صرف تصدیق نبوت مقصود ہوتی ہے) کیا ضرورت ہے۔ تو اِس کا جواب ان کو یہ دیں کہ آپ لوگ گو ذات یا لفظ خدا کو مانتے ہیں مگراس کے صفات پر پورا ایمان نہیں رکھتے اس کا قادر مطلق ہونا تسلیم نہیں کرتے اس بات پر کہ وہ آگ سے پانی کا اور پانی سے آگ کا کام لے قادر نہیں سمجھتے بلکہ اِس امر کو اس کی قدرت میں بٹہ لگانے والا خیال کرتے ہیں۔ (دیکھو تہذیب اخلاق رجب ۱۲۹۶ ہجری) اور خدا کو ایسا ماننا نہ ماننے کے برابر ہے۔ اس لئے آپ لوگوں کو بھی اِس امر کی سخت حاجت ہے کہ کرامات و خوارق کا بہ چشم خود ملاحظہ کریں اوراپنے اس ایمان کو صحیح یا کامل بناویں۔ تیسرا سر و فائدہ الہامات انگریزی زبان کا یہ ہے کہ جو لوگ انگریزی زبان کے پڑھنے بولنے کو کفر سمجھتے ہیں ان کا یہ خیالی کفر ٹوٹے اور ان کو (جب وہ انصاف سے کام لیں) اِس مسئلہ شرعیہ کا کہ ’’زبانیں سبھی خدا کی تعلیم و الہام سے ہیں اور کسی زبان کا بولنا پڑھنا منع نہیں ہے اور کسی زبان کو (عربی ہو خواہ فارسی ہندی ہو خواہ انگریزی) اِس کے مضامین سے نظر اٹھا کر اچھا یا بُرا نہیں کہا جاسکتا۔ (’’جس کا مفصل بیان و ثبوت شرعی اشاعۃ السنۃ نمبر ۶ جلد ۵ میں گزرا‘‘) یا مشاہدہ الہام سے ثبوت ملے۔ ہر چند قبل تسلیم الہام مؤلف یہ الہامات انگریزی زبان ان لوگوں پر حجت نہیں ہو سکتے۔ مگر جب وہ انصاف سے کام لیں گے اور اِس بات کو کہ مؤلف براہین احمدیہ انگریزی کا ایک حرف نہیں جانتا۔ اے A۔ بی B۔ سیC کی صورت تک نہیں پہچانتا متواتر شہادت سے محقق کرلیں گے اور ان الہامات کے مضامین مشتمل اخبار غیب کو (جن پر کوئی بشر بذات خود قادر نہیں) انصاف کی نظر سے دیکھیں گے تو انصاف ان کو ان الہامات کی تسلیم پر مجبور کر دے گا۔ اِس وقت ان کو اس مسئلہ قدیمہ شریعت محمدیہ کا بامشاہدہ الہام سے ثبوت ملے گا۔ ان کو انصاف نصیب نہ ہو گا تو یہ فائدہ انہی لوگوں کو ہوگا جو مؤلف کو سچا جانتے ہیں اور ان کے الہامات کو مانتے ہیں اور اِس سے پہلے وہ انگریزی زبان کو بُرا سمجھتے تھے اور انگریزی پڑھنے والوں کو سخت حقارت سے دیکھتے تھے۔ اب ان سے امید ہے کہ وہ اِس متعصبانہ جاہلانہ خیال کو دماغ سے نکال دیں گی اور دنیاوی اغراض کے لئے جیسے اپنے بچوں کو فارسی ہندی سکھاتے ہیں۔ انگریزی بھی سکھائیں گے اور اسباب ترقی حسن معاشرت سے جس میں اور لوگ بڑھے جاتے ہیں اور یہ باوجود طلب محض جہالت و تعصب سے پس ماندہ ہیں حصہ پائیں گے۔ بعض خوش فہم ان فوائد ظاہرہ کو سن کر غور و انصاف سے یکسو ہو کر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انگریزی زبان کے الہاموں میں یہ فوائد تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انگریزی زبان میں الہام کیوں نہ ہوا۔ اِس کا جواب ان فوائد کی تقریر کے ضمن میں ادا ہو چکا ہے مگر توفیق رفیق نہ ہو تو سمجھ میں کیونکر آوے اِن حضرات کے فہم پر ترس کھا کر ماعلم ضمناً (یعنی جو ضمناً معلوم ہوا) کی تصریح اور اس جواب کی بالاختصار تقریر کی جاتی ہے۔ (۱) آنحضرتؐ کے مخاطب وقت انگریزی خوان نہ تھے اس لئے آپ کو انگریزی زبان میں الہام نہ ہوا وہ لوگ عربی زبان تھے لہٰذا ان کو عربی زبان ہی میں قرآن نے اعجاز دکھایا۔ اس اعجاز کے علاوہ صدہا معجزات اور بھی اُن کو دکھائے گئے جواس وقت ان لوگوں کے مناسب حال تھے۔ (حاشیہ: خدائے تعالیٰ کی قدیم عادت ہے کہ ہر زمانے میں اِس قسم کے معجزات و خوارق منکرین کو دکھاتا ہے جو اُس کے زمانے کے لئے مناسب ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں سحر کا بڑا زور تھا۔ اس لئے اُن کو ایسا معجزہ (لاٹھی کا سانپ بن جانا وغیرہ) دیا جو سحر کا ہم جنس یا ہم صورت تھا اور پھر وہ سحر پر غالب آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب کا بڑا چرچا تھا اس لئے ان کو ایسا معجزہ (اندھے مادرزاد اور کوڑھی کو اچھا کرنا اور مردے کو زندہ کرنا) دیا گیا جس نے طبیبوں کو مغلوب کیا۔ آنحضرت صلعم کے مخاطبین وقت کو فصاحت کا ایسا دعوےٰ تھا کہ وہ اپنے سوا کسی کو اہل سخن نہ جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بلاد غیر کے لوگوں کا عجم (یعنی گونگے) نام رکھتے تھے۔ اِس لئے خدائے تعالیٰ نے انگریزی خوانوں پر (جو عربی سے محض ناآشنا ہیں اور سماعی باتوں پر وہ ایمان نہیں لاتے) دین محمدیؐ اور قرآن کا صدق ظاہر کرنا چاہا تو آنحضرتؐ کے امتیوں اور خادموں میں سے ایک شخص کو انگریزی الہامات سے (جو انگریزی خوانوں کے افحام یا افہام کا باعث ہوں ممتاز فرمایا۔) (۲) اور آنحضرتؐ کے زمانے میں اقوام غیر کی زبان سیکھنے کو بُرا نہ سمجھتا تھا بلکہ آنحضرتؐ نے زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا خود حکم دیا ہے۔ چنانچہ بخاری میں بصفحہ ۱۰۶۸ منقول ہے اور اِس روایت کی تخریج اشاعۃ السنۃ نمبر ۶ جلد ۵ میں ہوچکی ہے۔ آنحضرتؐ کے زمانے میں ایسے متعصب (جو ہمارے زمانے میں موجود ہیں) ہوتے تو ضرور آنحضرتؐ بھی اقوام غیر کی زبانوں میں ملہم و مخاطب ہوتے اور ابطال خیال متعصبین زمانہ حال کے لئے وہی حکم جو زید بن ثابت کو ارشاد ہو چکا ہے کافی ہے اور آیات قرآن وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ اور وَ مِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وغیرہ میں بھی اِس خیال کا ابطال پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اشاعۃ السنۃ نمبر ۶ جلد ۵ میں اس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ بعض انگریزی خوان ان الہامات انگریزی پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی انگریزی اعلیٰ درجہ کی فصیح نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اعلیٰ درجے کی فصاحت تو قرآن ہی کا معجزہ ہے جو بجز قرآن کسی معلم الثبوت کتاب آسمانی میں بھی نہیں پایا جاتا پھر ان الہامات میں اعلیٰ درجے کی فصاحت نہ پائی گئی تو کون سا محل اعتراض ہے۔ یہاں صرف غیر زبان میں الہام ہونا ہی (معمولی طور پر کیوں نہ ہو) خرق عادت اور کرامت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا (جن کی امت میں یہ الہام ہوا) معجزہ۔ بعض یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ان الہامات کی انگریزی میں غلطیاں بھی ہیں جیسے اِس فقرہ ملہمہ میں (جو بصفحہ ۴۸۰ کتاب موجود ہے۔) ’’آئی کین ویٹ آئی ول ڈو‘‘ لفظ ویٹ غلط ہے صحیح اِس مقام میں لفظ وَہٹ چاہیئے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس غلطی کا الہام سے ہونا متعین و متیقن نہیں جائز و ممکن ہے کہ الہام میں لفظ وہٹ ہو۔ مؤلف نے اس وجہ سے کہ وہ اس زبان اور حروف سے محض اجنبی و اُمی ہے ویٹ پڑھ لیا ہو جو لفظ وہٹ کا ہم شکل و مشابہہ ہے۔ جیسے لفظ ویٹ جو کتاب میں مکتوب ہے اسی تشابہ کے سبب وہٹ پڑھا جاسکتا ہے۔چنانچہ ایک لائق انگریزی خوان (سٹیشن ماسٹر بٹالہ) سے اِس غلطی کا ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو اس لفظ کو وہٹ ہی پڑھا تھا۔ بعد تحریر اِس جواب کے اسی دن (جس دن یہ جواب لکھا جاچکا تھا) جناب مؤلف اِس شہر بٹالہ میں جہاں میں اب ہوں تشریف لائے اور آپ کی ملاقات کا اتفاق ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ انگریزی الہامات آپ کو کس طور پر ہوتے ہیں انگریزی حروف دکھائے جاتے ہیں یا فارسی حروف میں انگریزی فقرات لکھے ہوئے دکھائے جاتے ہیں انہوں نے جواب میں فرمایا کہ فارسی حروف میں انگریزی فقرات مکتوب دکھائے جاتے ہیں جس سے مجھے اپنی تجویز کا یقین ہوا اور معلوم ہوا کہ یہ غلطی ہے تو مؤلف کے فہم کی غلطی ہے جنہوں نے وہٹ کو ویٹ پڑھا اصل الہام کی غلطی نہیں اور ایسی غلطی فہم یا تعبیر (جس سے کوئی گمراہی پیدا نہ ہو اور نہ اس سے صدق ملہم یا الہام میں فرق آوے) ایسے الہام مشتبہ یا مبہم میں کوئی نئی بات نہیں اور نہ محل تعجب و انکار ہے۔ اِس قسم کی غلطیاں پہلے ملہمین مسلّم الالہام سے بھی ہو چکی ہیں اور یہ ان کے الہام میں خلل انداز نہیں سمجھی گئیں۔ (جاری ہے) مزید پڑھیں: حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ