اصل بات یہ ہے کہ دجال ایک شخص کا نام نہیں ہے۔لُغت عرب کے رو سے دجّال اُس گروہ کو کہتے ہیں جو اپنے تئیں امین اور متدیّن ظاہر کرے مگر دراصل نہ امین ہو اور نہ متدیّن ہو بلکہ اس کی ہر ایک بات میں دھوکہ دہی اور فریب دہی ہو۔سو یہ صفت عیسائیوں کے اس گروہ میں ہے جو پادری کہلاتے ہیں۔اور وہ گروہ جو طرح طرح کی کلوں اور صنعتوں اور خدائی کاموں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں جو یورپ کے فلاسفر ہیں وہ اس وجہ سے دجال ہیں کہ خدا کے بندوں کو اپنے کاموں سے اور نیز اپنے بلند دعووں سے اس دھوکہ میں ڈالتے ہیں کہ گویا کارخانہ خدائی میں ان کو دخل ہے۔ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳، صفحہ ۲۴۳، ۲۴۴ حاشیہ) واضح ہو کہ دجّال کے لفظ کی دو تعبیریں کی گئی ہیں۔ایک یہ کہ دجّال اُس گروہ کو کہتے ہیں جو جھوٹ کا حامی ہو اور مکر اور فریب سے کام چلاوے۔دوسری یہ کہ دجّال شیطان کا نام ہے جو ہر ایک جھوٹ اور فساد کا باپ ہے پس قتل کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اُس شیطانی فتنہ کا ایسا استیصال ہوگا کہ پھر قیامت تک کبھی اس کانشوو نما نہیں ہوگا گویا اس آخری لڑائی میں شیطان قتل کیا جائے گا۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲، صفحہ ۳۲۶) حدیثوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل دجّال شیطان کا نام ہے پھر جس گروہ سے شیطان اپنا کام لے گا اُس گروہ کانام بھی استعارہ کے طور پر دجّال رکھا گیا کیونکہ وہ اُس کے اعضاء کی طرح ہے۔قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ(المومن:۵۸) یعنی انسانوں کی صنعتوں سے خدا کی صنعتیں بہت بڑی ہیں یہ اشارہ ان انسانوں کی طرف ہے جن کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ آخری زمانہ میں بڑی بڑی صنعتیں ایجاد کریں گے اور خدائی کاموں میں ہاتھ ڈالیں گے۔اور مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس جگہ انسانوں سے مراد دجّال ہے اور یہ قول دلیل اس بات پر ہے کہ دجّال معہود ایک شخص نہیں ہے ورنہ نَاس کا نام اُس پر اطلاق نہ پاتا۔اور اس میں کیا شک ہے کہ نَاس کا لفظ صرف گروہ پر بولا جاتا ہے سو جو گروہ شیطان کے وساوس کے نیچے چلتا ہے وہ دجّال کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔اِسی کی طرف قرآن شریف کی اس ترتیب کا اشارہ ہے کہ وہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ(الفاتحہ:۲) سے شروع کیا گیا اور اِس آیت پر ختم کیا گیا ہے۔الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ۔ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَالنَّاسِ (الناس:۶، ۷)۔ پس لفظ نَاس سے مراد اس جگہ بھی دجّال ہے۔ماحصل اِس سورۃ کا یہ ہے کہ تم دجّال کے فتنہ سے خدا تعالیٰ کی پناہ پکڑو۔اس سورۃ سے پہلے سورۃ اخلاص ہے جو عیسائیت کے اصول کے ردّ میں ہے۔بعد اس کے سورۃ فلق ہے جو ایک تاریک زمانہ اور عورتوں کی مکّاری کی خبر دے رہی ہے اور پھر آخر ایسے گروہ سے پناہ مانگنے کا حکم ہے جو شیطان کے زیر سایہ چلتا ہے اس ترتیب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی گروہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں شیطان کہا ہے۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۹۶) مزید پڑھیں: اگر تمہارا قرض دار مفلس ہو تو اس کو قرض بخش دو