حقیقت تو یہ ہے کہ جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کی اللہ تعالیٰ نے اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دے دی تھی کہ تو غم نہ کر ایک دن میں واپس تجھے اس جگہ لے کر آؤں گا محققین کے نزدیک قرآن کریم کی یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبر دی اور ویسا ہی رونما ہوا جیسا کہ آپؐ نے خبر دی تھی اگر تمام اسلامی غزوات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ اپنے اندر ایک حکیمانہ رنگ رکھتی تھیں بالخصوص فتح مکہ سے پہلے جس قدر جنگیں ہوئیں ان سب کا مقصد صرف یہی تھا کہ فتح مکہ کا راستہ صاف کیا جائے غزوۂ فتح مکہ کےتناظر میں سیرتِ نبوی ﷺ کا روح پرور بیان مکرم ڈاکٹر شیخ محمد محمود صاحب شہید کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب اللہ تعالیٰ جلد اب ان دہشتگردوں کی پکڑ کے سامان کرے اور ملک کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان نام نہاد مذہبی لوگوں سے جو حقیقت میں دہشت گرد ہیں اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں اب چھٹکارا حاصل کیا جائےہماری فریادیں تو اللہ تعالیٰ کے آگے ہیں اور اس کا پورا حق ہمیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ23؍ مئی 2025ء بمطابق23؍ ہجرت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ گذشتہ خطبہ میں مَیں نے ایک مسلمان کا ایک شخص کے سلام کہنے کے باوجود اسے قتل کرنے کا ذکر کیا تھا اور اس حوالہ سے سورۂ نساء کی آیت 95بھی پڑھی تھی جس میں یہ ذکر ہے کہ اگر تمہیں کوئی سلام کہے تو یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔ اس کی مزید تفصیل وہاں بیان نہیں ہوئی تھی۔ تفصیل میں یہی ہے جیسا کہ میں نے ضمناً ذکر بھی کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روکا لیکن یہ بھی ذکر ہے کہ آپؐ نے انتہائی غصہ کا اظہار کیا اور اسے اپنے سے دور کر دیا بلکہ بعض روایات میں ہے کہ اس کے خلاف دعا کی۔ بہرحال آپ کو اس کا کافی رنج تھا۔ کیونکہ اس مقتول کے قصاص کا معاملہ لواحقین کی طرف سے غزوۂ حنین کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تھا اس لیے اس کی تفصیل اس موقع پر بیان ہو گی۔ ان شاءاللہ۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بڑا گھناؤنا جرم قرار دیا تھا۔ کاش کہ پاکستان میں آجکل کے جو نام نہاد مُلّاں ہیں، دین کے ٹھیکیدار لوگ انہیں بھی سمجھ آ جائے اور وہ احمدیوں پر جو ظلم کر رہے ہیں اس سے باز آئیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچیں۔ بہرحال اب اسی حوالے سے غزوات کے جو ذکر ہو رہے ہیں تو غزوۂ فتح مکہ کا ذکر کروں گا جو 8 ہجری میں ہوا تھا۔ اس غزوہ کو فتحِ عظیم بھی کہتے ہیں۔ یہ غزوہ رمضان 8 ہجری میں ہوا جیسا کہ میں نے کہا۔ یہ وہ عظیم الشان فتح ہے جس کی بشارت اللہ تعالیٰ نے پہلے سے دے دی تھی اور اس کے نتیجہ میں جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ (ماخوذ از شرح زرقانی جلد 3صفحہ 386 دار الکتب العلمیۃ بیروت) (ماخوذ از سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 200 دار الکتب العلمیۃ بیروت) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح مکہ کی بشارت قرآن کریم کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا (بنی اسرائیل : 81) یعنی تو کہہ دے میرے رب! مجھے اس شہر یعنی مکہ میں نیک طور پر داخل کیجیو یعنی ہجرت کے بعد فتح اور غلبہ دے کر اور اس شہر سے خیریت سے ہی نکالیو یعنی ہجرت کے وقت اور خود اپنے پاس سے مجھے غلبہ اور مدد کے سامان بھجوائیو۔ یہ وہ آیت ہے جو ہجرت سے پہلے سورۂ بنی اسرائیل میں آپؐ پر نازل ہوئی تھی اور جس میں ہجرت اور پھر فتح مکہ کی خبر دی گئی تھی۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 346) سورۂ فتح میں فتح مکہ کی بشارت یوں بیان ہوئی ہے: لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا (الفتح:19) یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے تھے وہ جانتا ہے جو ان کے دلوں میں تھا۔ پس اس نے ان پر سکینت اتاری اور ایک فتح عطا کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کی اللہ تعالیٰ نے اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دے دی تھی کہ تو غم نہ کر ایک دن میں واپس تجھے اس جگہ لے کر آؤں گا۔ چنانچہ ہجرت کے دوران یہ آیت نازل ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ (القصص :86) یقیناً وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہےتجھے ضرور ایک وقت واپس آنے کی جگہ پر واپس لے آئے گا۔ امام فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں مَعَاد واپس آنے کی جگہ سے مراد مکہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مراد فتح کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ کی طرف واپس آنا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ہجرت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے محبت کا اظہار کیا تو حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور کہا کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے وطن اور جائے پیدائش کی رغبت رکھتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ تو جبرائیل نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔ یقیناً وہ ذات جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔یعنی قریش پر غلبہ عطا کر کے مکہ کی طرف لوٹائے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں موجود تھے۔ پھر اسے چھوڑ دیا اور پھر وہاں لوٹ کر آئے اور یہ بات مکہ کے سوا کسی اَور جگہ پر موزوں نہیں ہو سکتی۔ محققین کے نزدیک قرآن کریم کی یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبر دی اور ویسا ہی رونما ہوا جیسا کہ آپؐ نے خبر دی تھی۔ (ماخوذ از التفسیر الکبیر رازی جلد 13 جزء 25 صفحہ 19 دار الکتب العلمیۃ بیروت) قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی مکہ کے فتح ہونے کی پیشگوئی کی گئی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں کو گویا ایک یاددہانی بھی کروائی گئی ہے کہ دیکھو! جہاں کہیں بھی جاؤ یہ نہ بھولنا کہ آخر مکہ فتح ہو گا اور تمہیں اس کے لیے کوشش محنت اور دعائیں بھی کرنی ہوں گی اور اس قرآنی پیشگوئی کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ابھی تک کی گویا تمام جنگوں اور عسکری مہمات کا ایک مقصد و محور مکہ کی فتح بھی تھا۔ چنانچہ اس عظیم قرآنی پیشگوئی وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ (البقرہ : 150) جو سورہ بقرہ کی آیت ہے، کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ ’’وَمِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ کے معنی مفسرین نے یہ کیے ہیں کہ تم جہاں کہیں بھی ہو ہر حالت میں اپنا قبلہ مسجد حرام کو ہی رکھو اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ پہلے حکم سے یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ قبلہ صرف مدینہ والوں کے لیے ہی ہو باقی لوگوں کے لیے نہ ہواس لیے خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ تم جہاں کہیں سے بھی نکلو اپنے منہ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواہ اس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہو خواہ تمام مسلمانوں کو اس کے معنی قبلہ کی طرف منہ کرنے کے ہو ہی نہیں سکتے۔ اول تو اس لیے کہ وہ نمازیں جو کسی شہر یا گاؤں میں رہتے ہوئے اد اکی جاتی ہیں شہر سے نکلتے وقت کی نمازوں سے بالعموم زیادہ ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں حکم وہ دینا چاہیے تھا جس کا زیادہ نمازوں پر اطلاق ہو سکتا نہ کہ ایسا حکم دیا جاتا جس پر عمل کرنے کا امکان سفر کی حالت میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص شہر سے دس بجے صبح نکلے یا عصر اور مغرب کے درمیان نکلے یا آدھی رات کے وقت نکلے اور یہ سارے کے سارے اوقات ایسے ہیں جن میں نماز کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ان حالات میں وَمِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ کا حکم بے معنی بن جاتا ہے کیونکہ کسی شہر سے نکلتے وقت شاذ ہی نماز کا موقعہ ہوتا ہے۔ بالعموم یا تو انسان اس وقت نماز ادا کر چکا ہوتا ہے یا اگر ادا کرنی ہوتی ہے تو کچھ دیر کے بعد بھی وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ بہرحال خروج کے ساتھ نماز کا تعلق نہیں۔ پھر ان معنوں کو اس صورت میں بھی درست تسلیم کیا جا سکتا تھا جب کوئی نماز خروج کے وقت سے بھی خاص طور پر تعلق رکھتی لیکن سب لوگ جانتے ہیں کہ کوئی نماز خروج کے وقت سے تعلق نہیں رکھتی۔ ایسی صورت میں اس آیت کو بارادہ سفر گھر سے نکلنے پر چسپاں کرنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ مزید دلیل اس بات کی کہ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ سے مراد نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا نہیں یہ ہے کہ سفر کی حالت میں تو بعض دفعہ جہت کا سوال بھی اڑ جاتا ہے اور جدھر منہ ہو ادھر ہی نماز ہو جاتی ہے۔ مثلاً جب انسان سواری سے اتر نہ سکے تو قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہی ثابت ہے کہ اس وقت اس کا جدھر منہ ہو جائے ادھر ہی نماز جائز ہے۔‘‘ سفر میں اگر نماز پڑھ رہا ہے تو جدھر منہ ہے ادھر نماز جائز ہے۔ ’’چاہے قبلہ کی طرف منہ ہو یا کسی اَور طرف۔ اس وقت جہت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مشرق مغرب شمال جنوب سب ایک جیسے ہوتے ہیں صرف قلبی توجہ خانہ کعبہ کی طرف ہونی ضروری ہے۔‘‘ نماز پڑھتے ہوئے صرف یہ خیال ہو کہ میری توجہ خانہ کعبہ کی طرف ہے۔ ’’… آجکل جب انسان ریل گاڑی میں بیٹھا ہوتا ہے تو اس وقت بھی جہت کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی کیونکہ گاڑی کبھی شمال کی طرف کبھی جنوب کی طرف کبھی مشرق کی طرف اور کبھی مغرب کی طرف مڑتی اور چکر کھاتی رہتی ہے۔‘‘ اسی طرح جہازوں کے سفر میں جو لمبے سفر ہیں وہ بھی ہم دیکھتے ہیں۔ ’’لیکن اس کے باوجود جو شخص اس میں بیٹھا نماز پڑھ رہا ہوتا ہے اس کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اگر مفسرین کے معنوں کو درست سمجھا جائے تو اس حکم پر نہ سوار عمل کر سکتا ہے اور نہ ریل گاڑی پر بیٹھنے والا عمل کر سکتا ہے۔ پس جب خروج میں جہت کی تخصیص بھی قائم نہیں رہتی تو پھر اس آیت سے یہ مراد لینا کہ جہاں کہیں سے بھی تم نکلو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو کیسے درست ہو سکتا ہے؟ پھر یہ معنی اس لیے بھی درست نہیں کہ اس آیت کے لفظی معنی یہ بنتے ہیں کہ تم جہاں سے بھی نکلواپنے منہ مسجد حرام کی طرف کر لو یا جہاں سے بھی تُو نکلے تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لے۔ اب یہ تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ چلتے وقت نماز نہیں پڑھی جا سکتی بلکہ نماز ٹھہر کر ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ ہاں اگر اس آیت کے یہ الفاظ ہوتے کہ حَیْثُ مَا کُنْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام تُو جہاں کہیں بھی ہو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لے تب تو یہ معنی صحیح ہو سکتے تھے۔‘‘تُو جہاں کہیں بھی ہو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلے تب تو یہ معنی صحیح ہو سکتے تھے ’’لیکن یہاں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ۔ یعنی اے محمد رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) یا اے مسلمانو! جہاں سے بھی تم نکلو تم اپنے منہ مسجد حرام کی طرف کر لو۔ اب یہ صاف بات ہے کہ نماز نکلتے وقت نہیں پڑھی جاتی بلکہ کسی جگہ ہوتے ہوئے نماز پڑھی جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہاں نماز پڑھنے کے معنی کرنا کسی صورت میں بھی درست نہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اگر نماز اور خروج کا کوئی تعلق تسلیم نہ کیا جائے تو پھر تکرار لازم آتا ہے حالانکہ یہ بھی غلط ہے۔ انہیں قرآن مجید میں تکرار صرف اس لیے نظر آتا ہے کہ وہ قرآن کریم کے صحیح مطالب اور مضامین کے باہمی ربط کو نہیں سمجھ سکے۔ انہیں جہاں بھی کوئی اعتراض نظر آتا ہے فوراً ناسخ و منسوخ کی بحث شروع کر دیتے ہیں اور ایک آیت کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دے کر اعتراض سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کے جو حقائق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو بتائے ہیں اگر ان کو مدنظر رکھا جائے تو نہ قرآن کریم میں کوئی تکرار نظر آ سکتا ہے اور نہ کسی آیت کو منسوخ قرار دینا پڑتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ مکرمہ سے نکالا گیا اس وقت دشمنانِ اسلام کو یہ اعتراض کرنے کا موقعہ ملا کہ جب آپؐ دعائے ابراہیمی کے موعودتھے اور خانہ کعبہ کے ساتھ آپؐ کا تعلق تھا تو’’ سوال یہ ہے کہ ‘‘ آپؐ کو مکہ سے کیوں نکال دیا گیا۔ جب آپؐ کو مکہ سے نکال دیا گیا ہے تو آپؐ دعائے ابراہیمی کے کس طرح مصداق ہو سکتے ہیں؟ اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ۔ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تمہارا مکہ سے یہ نکلنا عارضی ہے۔ ہم تم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم دوبارہ تمہیں یہ موقعہ دیں گے اور تم مکہ پر قابض ہو جاؤ گے لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کے مؤمن بندوں سے یہ وعدے ہوتے ہیں وہاں وہ ان سے یہ بھی امید کرتا ہے کہ وہ اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ نہیں کہ خدا ان سے وعدہ کرے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور وہ اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش نہ کریں اور یہ سمجھ لیں کہ جب خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے تو وہ اسے خود پورا کرے۔ ہمیں اس کے پورا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ لوگ یہ سوچنے لگ جائیں۔’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اسے کنعان کا ملک دیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ جب وہ ملک سامنے آ گیا تو آپ نے اپنی قوم سے کہا جاؤ اور لڑائی کر کے اس ملک پر قبضہ کر لو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے غلطی سے یہ خیال کر لیا کہ خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں دینے کا وعدہ کیا ہے اس لیے وہ خود ہی اس وعدے کو پورا کرے گا اور یہ ملک ہمارے قبضہ میں دے دے گا۔ ہم نے اگر اس ملک کو فتح کیا تو پھر وعدے کا کیا فائدہ ہوا۔ وعدہ تو خدا نے کیا ہے اس لیے وہ اسے خود پورا کرے۔ ہمیں اس کے لیے کسی قسم کی کوشش کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا کہ اِذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ … اے موسیٰ! تُو ہم سے کہا کرتا تھا کہ یہ ملک خدا تعالیٰ تمہیں دے دے گا۔ اب تمام ذمہ داری تجھ پر ہے یا تیرے خدا پر۔ ہم نے اگر ملک فتح کیا تو پھر تیرے اور تیرے خدا کے وعدوں کا کیا فائدہ؟ چونکہ تو ہمیں بتایا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ یہ ملک ہمیں ضرور ملے گا اس لیے اب تُو اور تیرا رب دونو جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھیں گے۔’’ہم کچھ نہیں کریں گے۔ ‘‘جب تم ملک فتح کر کے ہمیں دے دو گے تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے۔ اب بظاہر ان کا کہنا درست معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ میں تمہیں فلاں چیز دوں گا اور وہ اس سے آ کر وہ چیز مانگے اور وہ آگے سے کہہ دے کہ جاؤ بازار سے خرید لو تو سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اگر اس نے وہ چیز بازار سے ہی خریدنی تھی تو پھر اس کے ساتھ وعدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پس بظاہر یہ بات معقول نظر آتی ہے لیکن الٰہی سلسلوں میں یہ اول درجے کی غیر معقول بات ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تعریف نہیں کی اس نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں لڑنے کی ضرورت نہیں یہ ہمارے ذمہ ہے کہ ہم یہ ملک لے کر تمہیں دیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تم نے ہماری ہتک کی ہے اس لیے تمہیں اس ملک سے محروم کیا جاتا ہے جاؤ چالیس سال تک جنگلوں میں بھٹکتے پھرو۔ تم اس ملک کے وارث نہیں بن سکتے۔ تمہاری نئی نسل اس ملک کی وارث ہو گی …کیونکہ تم نے ہماری ہتک کی ہے۔ تو دیکھو یہ چیز انسانی لحاظ سے تو درست اور معقول کہلا سکتی ہے لیکن الٰہی سلسلہ کے لحاظ سے نہایت ہی غیر معقول ہے اور انسان کو عذاب کا مستحق بنا دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی انسان وعدہ کرتا ہے تو اسے تغیرات سماوی اور تغیرات ارضی پر اختیار نہیں ہوتا’’یعنی آسمانی اور زمینی تغیرات جو ہیں ان پہ اختیار نہیں ہوتا ‘‘اس لیے جب وہ وعدہ کرتا ہے تو ایسی چیز کا کرتا ہے جو اس کے اختیار میں ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جو وعدہ ہو گا اس کا یہ مطلب ہو گا کہ اگرچہ اس چیز کا حصول تمہارے لیے ناممکن ہے مگر یہ تمہیں ہماری مدد سے حاصل ہو جائے گی۔ وہ قوم جو فرعون کی سینکڑوں سال تک غلام رہی۔ اس کے لیے اینٹیں بناتی رہی۔ لکڑیاں کاٹتی رہی اور ذلیل سے ذلیل کام کرتی رہی وہ اتنے بڑے عظیم الشان ملک پر جس پر عاد قوم حکمران تھی کیسے قبضہ کر سکتی تھی؟ اسے یہ ملک مل جانا آسان نہیں تھا لیکن خدا نے کہا کہ گو یہ ملک حاصل کرنا تمہیں ناممکن نظر آتا ہے لیکن ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم یہ ملک تمہیں دیں گے اور تم یہ ملک ہماری مدد سے حاصل کر لو گے۔ پس خدا تعالیٰ کے وعدے کے یہ معنے نہیں ہوا کرتے کہ چونکہ اس نے وعدہ کر دیا ہے اس لیے بندے کو کوشش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تم اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے تدبیر اختیار کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے وعدے اور رنگ کے ہوتے ہیں اور بندے کے وعدے اَور رنگ کے ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے وہ وعدے جن میں تدبیر شامل ہوتی ہے بندے کو ان میں دخل دینا پڑتا ہے اور ان کو پورا کرنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اگر بندہ ان میں دخل نہیں دے گا اور ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا تو وہ سزا کا مستحق ہو گا لیکن بندے کے وعدہ میں یہ نہیں ہوتا۔ بندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تمہارے لیے خدا کی تقدیر بدل دوں گا کیونکہ وہ اس کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ اگر وہ ایسا کہے گا تو’’ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ‘‘ہم اس سے پوچھیں گے کہ تم تقدیر کو بدلنے والے کون ہو؟ لیکن خدا تعالیٰ یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے ’’اگر میرے حکم کے مطابق تدبیر کرو گے ‘‘تو میں تمہاری مدد کروں گا اور اپنی تقدیر کو بدل دوں گا کیونکہ تقدیر ایسی چیز ہے جو اس کے قبضہ میں ہے اور وہ جب چاہے اسے بدل سکتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کا وعدہ دیا گیا تو ساتھ ہی مسلمانوں کویہ کہا گیا کہ اے مسلمانو! تم موسیٰؑ کی قوم کی طرح یہ نہ سمجھ لینا کہ خدا نے مکہ دے دینے کا وعدہ کیا ہے وہ خود اسے پورا کرے گا۔ ہمیں اس کے لیے تدبیر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ تمہیں بھی اس کے پورا کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔ خدائی وعدے کے یہ معنی ہیں کہ تم کمزور ہو۔ اگر تم کمزور نہ ہوتے تو تم مکہ کو چھوڑ کر کیوں آتے۔ مکہ کو چھوڑنے کے معنی ہی یہ تھے کہ تم کمزور ہو اور تمہارا دشمن مضبوط ہے اور طاقتور ہے لیکن خدا تعالیٰ تمہیں طاقت دے گا اور تم دشمن سے مکہ چھین لو گے۔ پس وَمِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِکےمعنی یہ ہوئے کہ تم جہاں سے بھی نکلو یا جس جگہ سے بھی نکلو تمہارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے مکہ فتح کرنا ہے پھر خروج کے معنی … لشکر کشی کے بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ تم جہاں بھی لشکر کشی کرو، کسی جگہ بھی لڑائی کے لیے جاؤ۔ چاہے تم مشرق کی طرف نکلو یا جنوب کی طرف نکلو۔ مغرب کی طرف نکلو یا شمال کی طرف نکلو۔ تمہارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ تمہارا یہ خروج فتح مکہ کی بنیاد قائم کرنے والا ہو۔ مثلاً تم اگر جنوب کی طرف دشمن پر حملہ کرنا چاہو لیکن تمہیں معلوم ہو جائے کہ اس کے ملک کے مغرب کی طرف اس کے دوست موجود ہیں اور اس کے متعلق یہ شبہ ہے کہ وہ کہیں پیچھے سے حملہ نہ کر دیں اور تم پہلے مغرب کی طرف حملہ کر کے ان کو صاف کر لو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ مغرب کی طرف حملہ اصل میں جنوب کے حملے کا پیش خیمہ ہے۔ اسی طرح اگر اس قوم کے ساتھی شمال میں بستے ہوں اور پہلے تم ان پر حملہ کرو تو تمہارا یہ حملہ اصل میں جنوب پر ہی ہو گا کیونکہ اصل مقصد تمہارا جنوب کے دشمن پر حملہ کرنا ہوگا۔ اسی اصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تم کسی قوم، کسی ملک اور کسی علاقے پر چڑھائی کرو تمہارا رخ مکہ کی طرف ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں پر فتح کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں یہ رنگ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے اور آپ کی سب لڑائیوں کا مقصد اعلیٰ فتح مکہ ہی تھا۔ جس جنگ میں آپ یہ مقصد فوت ہوتا دیکھتے یا جس قوم کے متعلق آپ محسوس فرماتے کہ اس سے جنگ کرنے کے نتیجہ میں فتح مکہ میں تاخیر ہو جائے گی وہاں باوجود اکسائے جانے کے آپ خاموشی اور چشم پوشی اختیار فرماتے۔ چنانچہ کئی قومیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کے لیے اٹھیں اور انہوں نے چھیڑچھاڑ بھی کی مگر آپ ہمیشہ اِغماض سے کام لیتے رہے لیکن جب کوئی ایسی قوم کھڑی ہوئی جس کو شکست دینے سے فتح مکہ قریب ہو سکتی تھی تو اس کے ساتھ آپؐ نے ضرور جنگ کی۔ اگر تمام اسلامی غزوات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ اپنے اندر ایک حکیمانہ رنگ رکھتی تھیں۔ بالخصوص فتح مکہ سے پہلے جس قدر جنگیں ہوئیں ان سب کا مقصد صرف یہی تھا کہ فتح مکہ کا راستہ صاف کیا جائے۔ اگر اس آیت کے یہ معنی ہوتے کہ تم جہاں سے بھی نکلو قبلہ کی طرف اپنا منہ کرو تو جیسا کہ بتایا جا چکا ہے مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ کے الفاظ اس آیت میں نہ ہوتے بلکہ ان الفاظ کے بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ تم جہاں کہیں ہو قبلہ کی طرف اپنا منہ رکھو۔ قبلہ کی طرف منہ کر نے کے لیے جہاں کہیں کے الفاظ ہونے چاہیے تھے نہ یہ کہ تم جہاں سے بھی نکلو قبلہ کی طرف اپنا منہ پھیر دو کیونکہ لوگ کہیں سے نکلتے وقت نمازیں نہیں پڑھا کرتے۔ نکلتے وقت تو لوگ چلا کرتے تھے۔ پس اس آیت کا نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیںبلکہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ تم جہاں سے بھی نکلو چاہے تم اس مقام سے نکلو جس کا منہ مشرق کی طرف ہو۔ چاہے اس مقام سے نکلو جس کا منہ مغرب کی طرف ہو۔ چاہے اس مقام سے نکلو جس کا منہ شمال کی طرف ہو۔ چاہے اس مقام سے نکلو جس کا منہ جنوب کی طرف ہو بہرحال تمہارا منہ مکہ کی طرف ہونا چاہیے یعنی تمہاری توجہ اور تمہارا خیال اور تمہارا ذہن صرف اسی بات کی طرف رہنا چاہیے کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے اور وہاں اسلام کوقائم کر کے سارے عرب کو زیر اثر لانا ہے۔ وُجُوْہ کے معنی توجہات کے بھی ہوتے ہیں … پس اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ تم نے خانہ کعبہ کو فتح کر کے اسے اسلام کا مرکز بنانا ہے کیونکہ جب تک مکہ میں اسلام پھیل نہیں جاتا، جب تک مکہ مسلمانوں کے ماتحت نہیں آ جاتا اس وقت تک باقی تمام عرب مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یہ پروگرام تھا جو مسلمانوں کا مقرر کیا گیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ پروگرام ان کی طاقت سے بہت بالا تھا۔ بیشک عرب کی حکومت کوئی منظم حکومت تو نہ تھی مگر وہ طوائف الملوکی بھی نہیں تھی۔ مختلف بادشاہ اس کے ساتھ تعلق رکھتے اور معاہدات وغیرہ کرتے تھے۔ اسی طرح مکہ گو پوری طرح منظم نہ ہو مگر بہرحال وہ ایک ایسے ملک کا دارالحکومت تھا جس کی آبادی پندرہ بیس لاکھ تھی۔ اردگرد کے تمام قبائل کی نگاہیں اس کی طرف اٹھتی تھیں اور وہ اس کے فیصلوں اور حکموں کو واجب الاطاعت سمجھتے تھے۔ پھر اس زمانے کے لحاظ سے وہ ایک بہت بڑا شہر تھا۔ پندرہ سولہ ہزار اس کی آبادی تھی اور نہ صرف اس کی تمام کی تمام آبادی بلکہ ملک بھر کے پندرہ بیس لاکھ آدمی سب کے سب سپاہی تھے۔ فنونِ جنگ میں بہت بڑی مہارت رکھتے تھے۔ جنگجو بہادر اور لڑاکے تھے اور مسلمانوں کے لیے ان کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جس وقت یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس وقت مسلمانوں میں صرف چار پانچ سو سپاہی تھے زیادہ سے زیادہ ہزار سمجھ لو اور عورتوں اور بچوں وغیرہ کو ملا کر ان کی کل تعداد گیارہ بارہ ہزار ہو گی اس سے زیادہ مسلمانوں کی تعداد نہیں تھی اور ان کی جنگی طاقت تو بہرحال ناقابل ذکر تھی مگر ایسی حالت میں جب کہ مسلمان سخت کمزور تھے، جب ان کی تعداد کفار کے مقابلے میں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی تھی، جب ان کے پاس لڑائی کا کوئی سامان نہ تھا اور جب ان کی جنگی طاقت کفار کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی تھی اللہ تعالیٰ تمام کفار کو چیلنج دیتا ہے کہ یہ مسلمان گو تمہیں تھوڑے دکھائی دیتے ہیں تمہیں کمزور اور ناطاقت نظر آتے ہیں مگر یہی مسلمان ایک دن تمہارے ملک کو فتح کریں گے، تمہارے دارالحکومت پر قابض ہوں گے اور وہاں ان کو اس قدر غلبہ میسر آ جائے گا کہ یہ اسلام کے احکام کو وہاں جاری کریں گے اور کفر کو عرب کی سرزمین سے بالکل مٹا دیں گے۔ یہ دعویٰ مسلمانوں کی حالت کے لحاظ سے ایک مجنونانہ دعویٰ تھا اور پھر یہ دعویٰ ایسا تھا جو کسی خاص علاقہ سے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس دعویٰ کا اثر وسیع سے وسیع تر تھا کیونکہ نہ صرف اس میں مکہ کو فتح کرنے کی پیشگوئی کی گئی تھی، نہ صرف عرب پر غالب آ جانے کا اعلان کیا گیا تھا بلکہ عیسائیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا، یہودیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا، مجوسیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا اور بڑے زور سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان تمام مذاہب کو شکست دے کر اسلام ساری دنیا پر غالب آ جائے گا۔ یہ دعویٰ ایک مجنونانہ دعویٰ تھا۔ اسی وجہ سے کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو’’ نعوذباللہ‘‘پاگل کہا کرتے تھے اور صحابہؓ کو بھی وہ پاگل سمجھتے تھے کیونکہ وہ ایک ایسا دعویٰ کر رہے تھے جس کے پورا ہونے کے اس مادی دنیا میں انہیں کوئی اسباب نظر نہیں آتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک غیر معمولی کاموں کے لیے ہر انسان کے اندر وہ حالت پیدا نہ ہو جائے جسے بعض حالتوں میں طب میں مانومینیا [Monomania]کہا جاتا ہے’’ یعنی صرف اور صرف ایک چیز کی طرف توجہ کرنا ‘‘جب تک وہ اَور تمام مقاصد کو بھول نہ جائے، جب تک اس کے اندر ہر وقت ایک خلش اور بے تابی نہ پائی جائے اور جب تک غیر معمولی کاموں کے لیے اس کے اندر جنون کا سا رنگ پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک ان کاموں میں کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ اسی کی طرف قرآن کریم نے اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ تم باقی تمام مقاصد کو بھول جاؤ اور صرف اس مقصد کو اپنے سامنے رکھو کہ ہم نے مکہ کو اسلام کے لیے فتح کرنا ہے۔ جب تک یہ مرکز اور یہ قلعہ تمہیں حاصل نہیں ہو گا سارے عرب اور پھر ساری دنیا پر تمہیں غلبہ میسر نہیں آ سکے گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں کہا کہ تم جس جگہ سے بھی نکلو اپنی توجہ مسجد حرام کی طرف رکھو۔ یہ کیوں نہیں کہا کہ تم جس طرف بھی حملہ کرو اپنی توجہ مسجد حرام کی طرف رکھو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خروج کے وقت ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ہمارا اس حملہ سے کیا مقصد ہے؟ یہ نہیں ہوتا کہ انسان لڑائی تو پہلے شروع کر دے اور اس کا مقصد بعد میں سوچے۔ پس چونکہ یہاں فتح مکہ کے مقصد کو سامنے رکھنے کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا اس لیے فرمایا کہ تم نکلتے وقت یہ دیکھ لیا کرو کہ ہماری اس جنگ کا اثر فتح مکہ پر کیا پڑے گا؟ اگر وہ جنگ فتح مکہ میں ممد نہ ہو تو اسے چھوڑ دو۔ مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسلام اپنے پیروؤں کو جارحانہ جنگ کی اجازت دیتا ہے کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ان آیات کے نزول سے پہلے ہی کفار سے جنگیں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس رنگ میں فتح مکہ کی ضرورت باقی نہیں رہنی تھی کیونکہ آپؐ کے بعد مکہ پر کوئی حملہ نہیں ہونا تھا بلکہ اس نے کامل طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں ہی رہنا تھا۔ گویا اس میں آئندہ کے لیے یہ پیشگوئی کر دی کہ مکہ مکرمہ کی دوبارہ جسمانی فتح نہیں ہو گی کیونکہ مکہ کی عظمت قائم کرنے والی ایک فعال جماعت پیدا کر دی جائے گی اور وہ ہمیشہ مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہے گا۔‘‘ (تفسیرکبیرجلد3 صفحہ 11 تا 18 ایڈیشن 2022ء) یہ تفسیر اور تمہید اس لیے ضروری تھی کہ آئندہ آگے فتح مکہ کے واقعات کا جو ذکر آنا ہے اس میں بھی اس بیک گراؤنڈ سے اس پس منظر سے سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ اس وقت میں ایک شہید کا ذکر بھی کروں گا اور نماز کے بعد ان کا جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو مکرم ڈاکٹر شیخ محمد محمود صاحب ابن شیخ مبشر احمد صاحب دہلوی ہیں۔ سرگودھا کے تھے۔ ان کو معاند احمدیت نے 16مئی کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ تفصیلات میں لکھا ہے کہ وقوعہ کے روز ڈاکٹر صاحب نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ فاطمہ ہسپتال سرگودھا جہاں وہ پریکٹس کرتے تھے پہنچے۔ ہسپتال میں داخل ہو کر main استقبال کی جگہ سے گزرتے ہوئے ایمرجنسی کے سامنے کوریڈور میں پہنچ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے کہ وہاں پہلے سے موجود ایک نامعلوم شخص جو آپ کے پیچھے پیچھے آیا اس نے شاپنگ بیگ سے پستول نکال کر پشت سے فائرنگ کر دی۔ انہیں دو گولیاں لگیں جو آر پار ہو گئیں۔ فوری طور پر سول (civil) ہسپتال لے جایا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مکرم ڈاکٹر صاحب شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ وقوعہ کے بعد حملہ آور اسلحہ لہراتے ہوئے ہسپتال کے باہر کھڑے اپنے ساتھی کے ہمراہ موٹر سائیکل پر فرار ہو گیا۔ شہادت کے وقت مرحوم کی عمر 59 سال تھی۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم بابو اعجاز حسین صاحب کے بھائی حضرت سرفراز حسین صاحب دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی سعادت پائی تھی۔ بعد میں شہید مرحوم کے پڑدادا مکرم بابو اعجاز حسین صاحب دہلوی نے اپنے بھائی کی وساطت سے بیعت کر لی۔ شہید مرحوم کے پڑدادا بابو اعجاز حسین صاحب اور دادا مکرم بابو نذیر احمدصاحب دونوں کو یکے بعد دیگرے بحیثیت امیر جماعت احمدیہ دہلی خدمت کی توفیق ملی۔ شہید مرحوم نے ایف سی کالج لاہور سے ایف ایس سی کیا۔ پھر راولپنڈی میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1990ءمیں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور ایم بی بی ایس کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا۔ چار سال سروسز ہسپتال اور جناح ہسپتال لاہور میں جاب کیا۔ 1998ء میں ان کو یہاں سے رائل کالج آف فزیشنزیوکے کی ممبر شپ اور 2021ء میں فیلو شپ کا اعزاز ملا۔ شہید مرحوم 2001ء میں سرگودھا شفٹ ہوئے۔ سرگودھا شفٹ ہونے کے پس منظر میں انسانیت کی خدمت کا پہلو نمایاں تھا۔ آپ ضلع سرگودھا کے پہلے ماہر امراض جگر و معدہ تھے۔ سرگودھا میں ایک پرائیویٹ ہسپتال کو جوائن کر لیا جس کے مالک کے ڈاکٹر صاحب سے بڑے اچھے تعلقات تھے لیکن اس کی سیاسی بیک گراؤنڈ تھی۔ 2018ء میں قومی اسمبلی کے انتخاب میں اس نے حصہ لینا تھا۔ سیاسی آدمی تھا۔ اس کو مولویوں نے دھمکیاں دیں کہ ہم یہ کردیں گے وہ کر دیں گے تو اس نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ آپ ہسپتال چھوڑ دیں یہ میری مجبوری ہے اب آپ میرے ساتھ کام نہیں کر سکتے۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے وہاں سے چھوڑ دیا۔ پھر انہوں نے دوسرا ہسپتال جوائن کر لیا۔ 2001ء میں جب سے یہ سرگودھا شفٹ ہوئے تھے باقاعدگی کے ساتھ فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بھی وزٹنگ ڈاکٹر کے طور پر وقت دے رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔ کثیر تعداد میں مریض ان سے فیضیاب ہو رہے تھے۔ دنیاوی علم کے علاوہ ان کو دینی علم بھی بہت تھا قرآن کریم کی تفسیر، تذکرہ، روحانی خزائن سمیت دیگر جماعتی کتب اور اختلافی امور پر مشتمل کتب کا وسیع مطالعہ تھا۔ شہید مرحوم کو بحیثیت نائب امیر ضلع سرگودھا بھی خدمت کی توفیق ملی۔ میڈیکل ایسوسی ایشن کے قیام کے بعد سےاس کے ممبر تھے اور 2024ء میں یہ نائب صدر ایسوسی ایشن مقرر ہوئے اور سرگودھا چیپٹر کے یہ صدر بھی تھے۔ گذشتہ تین سال سے ان کو کینسر کی تکلیف بھی تھی۔ اس کے باوجود ہمیشہ اپنی بیماری پر دوسروں کی بیماری کو ترجیح دی اور ہر وقت خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ مریضوں سے ہمدردی، محبت اور ضرورتمندوں کا فری علاج نمایاں وصف تھا۔ ضرورتمند مریضوں کو فری علاج کے علاوہ واپسی کے لیے کرایہ بھی دے دیتے تھے بلکہ بعض ٹیسٹ مفت کراتے تھے اور اس کے پیسے دیتے تھے۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے ضلع سرگودھا کے پہلے ماہر امراض جگر و معدہ تھے۔ مالی لحاظ سے کمزور بچیوں کی شادیوں پر پردہ پوشی کرتے ہوئے ان کی بڑی نمایاں مدد کیا کرتے تھے۔ لکھا ہے کہ ایک ضرورتمند کی عرصہ دراز سے باقاعدگی سے مالی معاونت کر رہے تھے۔ پہلے تو وہ شخص مہینے میں ایک دو بار آتا تھا۔ پھر اس نے ہر دوسرے دن یا تیسرے دن آنا شروع کر دیا لیکن پھر بھی آپ اس کی معاونت کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب عام طور پہ ناراض نہیں ہوتے تھے۔ بڑے نرم دل تھے ۔ ایک دن اس نے کسی بات پر کوئی زیادہ ضد کی ہو گی تو کوئی سخت بات ان کے منہ سے نکل گئی لیکن طبیعت کی نرمی اور نیکی تھی کہ ساری رات بے چین رہے اور پریشان رہے کہ میں نے اس کو سخت بات کیوں کہہ دی۔ اگلے روز اسے بلایا اور اس سے معذرت کی اور پھر اسے مالی معاونت کی کافی رقم دے دی۔ بزرگانِ سلسلہ سے عقیدت کا تعلق تھا۔ ضرورت پڑنے پر ربوہ جا کر خصوصی طور پر مریضوں کا معائنہ کرتے اور علاج تجویز کرتے تھے۔ شہید مرحوم کی والدہ محترمہ امۃ الحئی صاحبہ کہتی ہیں کہ مرحوم والدین کا بے حد احترام کرنے والے تھے۔ کوئی ایسی ضرورت نہ تھی کہ جو بغیر مطالبے کے پوری نہ کی ہو۔ کبھی ہم نے مطالبہ نہیں کیا لیکن وہ پوری کرتے تھے۔ بچپن سے ہی بےشمار خصوصیات کے حامل تھے۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے، خلافت سے بے حد عشق تھا۔ غریبوں اور مریضوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ مالی معاملات لین دین کا مکمل حساب رکھتے تھے۔ خاندان کے سب افراد کو باہمی جوڑ کر رکھا ہوا تھا۔ ان کی اہلیہ امۃالنور صاحبہ کہتی ہیں۔ نظام جماعت سے جوڑنے کی ہمیشہ بچوں کو تلقین کرتے۔ خلافت سے والہانہ عقیدت تھی اور خطبات باقاعدہ سنتے تھے اور پوائنٹس اپنی ڈائری میں نوٹ کیا کرتے تھے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس طرح کرتے ہیں بلکہ واقفین زندگی بھی ایسے نہیں کرتے۔ خطبات کے پوائنٹس نوٹ کرتے تھے تا کہ کام آئیں۔ چندہ جات کی ادائیگی بھی مثالی تھی۔ بوقتِ شہادت ان کے چندہ وصیت 2025ء کا تمام حساب صاف تھا۔ ان کے چار بچے ہیں، دو بیٹے دو بیٹیاں۔ ان کے ایک بیٹے ڈاکٹر بصیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیشہ ہمیں خلافت سے تعلق رکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ان کی بیٹی صائمہ ہیں وہ کہتی ہیں بے حد شفیق باپ۔ میری شادی کے موقع پر مجھے ایک نصیحت یہ کی تھی کہ بیٹا! اپنے سسرال جا کر ہمیشہ نظام جماعت سے منسلک رہنا۔ اگر کبھی کسی حوالے سے جماعتی خدمت کا اعزاز ملے تو کبھی انکار نہ کرنا۔ عمومی طور پر کہتی ہیں کہ والد صاحب عمومی سرگرمیوں میں بھی جماعتی خدمت کا پہلو نکال لیا کرتے تھے۔ ان کی ایک بہو ہیں ،کہتی ہیں کہ توکل علی اللہ پر بہت زور دیتے تھے۔ جب بھی کسی معاملے میں راہنمائی کی درخواست کی تو انہوں نے اپنی بات دعا سے شروع کر کے دعا پر ہی ختم کی۔ ان کی ہمشیرہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ جماعت کی مخالفانہ سرگرمیوں کے حوالے سے بہت پریشان تھے۔ راتوں کو اٹھ کر نفل پڑھنا اور تہجد روز کا معمول تھا۔ امیر ضلع سرگودھا خالد محمود صاحب کہتے ہیں کہ غریبوں کے مسیحا اور عظیم انسان تھے۔ نافع الناس ہونے کے علاوہ عاجزی اور انکساری کا وصف نمایاں تھا۔ اکثر غریب مریضوں کو فیس واپس کر دیا کرتے تھے۔ جماعتی قربانی کا وصف بھی نمایاں تھا۔ چندہ جات کی وعدہ جات کے مطابق ادائیگی کے علاوہ اضافی چندے کے حوالے سے بھی خصوصی معاونت کیا کرتے تھے۔ عہدیداران جماعت کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔ زبیر صاحب وہاں سرگودھا کے مربی سلسلہ ہیں، کہتے ہیں کہ ہمارا انتہائی محبوب، انسانیت کا خادم، رحم و شفقت کا پیکر، لاکھوں افراد کا مسیحا، خلافت کا شیدائی، مجسم فرشتہ انسان ہم سے جدا ہو گیا۔ شہید مرحوم درویش انسان تھے۔ زندگی کا ہر پہلو مثالی تھا۔ جب بھی کوئی عہدیدار یا وقف زندگی ان کے پاس جاتا تو کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور رخصت کے وقت بھی دروازے پر چھوڑ کر آتے۔ کہتے ہیں جب ان کی توجہ اس طرف کرائی کہ حالات خراب ہیں اپنے ساتھ کوئی سیکیورٹی گارڈ رکھیں یا خادم رکھا کریں تا کہ احتیاط کے تقاضے پورے ہوں تو اس پر ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ میں کوئی گارڈ یا خادم اپنے ساتھ سیکیورٹی کے لیے رکھ تو لوں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ خدانخواستہ کوئی مجھے مارنے آئے تو میری وجہ سے کسی دوسرے کی جان چلی جائے۔ حالانکہ مخالفین نے ان کے خلاف ضلع بھر میں اشتہار بھی تقسیم کیے تھے کہ قتل کیا جائے اور سزا یہ ہے اور وہ ہے لیکن اس کے باوجود کبھی انہوں نے پروا نہیں کی اور مخالفین نے احمدیوں کی، احمدی ڈاکٹروں کی جو لسٹ بنائی تھی اس میں ڈاکٹر صاحب کا نام سرفہرست تھا جن کو مولویوں نے ٹارگٹ کرنا تھا بلکہ وہاں ایک مولوی اکرم طوفانی ہے اس نے تو ان کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا ہوا تھا اور پھر اس فتوے کو تقسیم بھی کیا تھا لیکن حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ فاطمہ ہسپتال جو کرسچن ہسپتال ہےاس کے ایڈمنسٹریٹر ہیں جو پادری بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسانیت کا خادم ایک انسان ہم سے جدا ہو گیا۔ ہمارے دل شدت غم سے نڈھال ہیں بلکہ یہ موصوف جو عیسائی ہیں اور جو ہسپتال کےایڈمنسٹریٹر ہیں، یہ اپنے دیگر ساتھیوں اور انتظامی عملہ کے ہمراہ مرحوم کے جنازہ پہ ربوہ بھی آئے تھے۔ سوشل اور پرنٹ میڈیا نے بھی ڈاکٹر صاحب کی شہادت کو کور (cover) کیا۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر ہیں انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا لیکن یہ لوگ لکھ ہی سکتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے کیونکہ مولوی کے سامنے کھڑے ہونے کی یا اس کے خلاف فیصلہ لینے کی جرأت نہیں ہے لیکن بہرحال یہ بھی ان کی جرأت ہے کہ عورت ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ شیخ محمود غریبوں کے مسیحا سے کم نہ تھے۔ بہترین میڈیکل سپیشلسٹ تھے۔ بعض دفعہ تو مہنگے ٹیسٹ بھی غریبوں کو فری کر دیا کرتے تھے۔ ضلع بھر میں شاید ہی کوئی گھرانہ ہو جنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے علاج نہ کروایا ہو۔ یہ غیر از جماعت ہیں لیکن تعریف کر رہی ہیں۔ کہتی ہیں کہ اکثر فری علاج کرتے تھے اور یہ بہت بڑا کام ہے۔ مجھے اس کا اس لیے بھی ادراک ہے کیونکہ میں خود بھی ڈاکٹر ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کہیں اَور بھی ،کسی ملک میں بھی جاتے تو بہت پیسے کما سکتے تھے اور آسائش کی زندگی گزار سکتے تھے مگر انہوں نے یہاں سرگودھا میں انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی۔کہتی ہیں کہ آج پہلی دفعہ کسی انسان کے جانے پر آنسوؤں سے روئی ہوں جس سے میرا کوئی ذاتی رشتہ نہ تھا صرف انسانیت کا رشتہ تھا۔ اس شخص کے اللہ کے بندوں پر بہت احسان تھے۔ آپ پوچھیں گے کہ ان کا جرم کیا تھا تو عرض ہے کہ ان کا جرم احمدی ہونا تھا۔ ایک اَور ڈاکٹر ہیں انہوں نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحب سرگودھا کے پہلے ای آر سی پی (ERCP)کرنے والے میڈیکل سپیشلسٹ تھے۔ اتنے قابل اور سینئر ہونے کے باوجود آج بھی سرگودھا میں سب سے کم ریٹ پر پروسیجر کرتے تھے۔ عقیدہ مختلف ہونے کی بنا پر قتل کر دیا گیا۔ کیا اس ملک میں کوئی قانون ہے؟ ایک نجی چینل کے اینکر صحافی نے لکھا کہ انتہائی دکھ اور قابل مذمت درندگی کے اس فعل پر میرے پاس مذمت کے الفاظ نہیں ہیں۔ ایک صحافی نے لکھا کہ اب بہت ہو چکا۔ پاکستان کو بچانے کے لیے انتہاپسندوں کے گروپس اور تنظیموں کو روکنا ہو گا۔ بنیادی انسانی حقوق اور احمدیوں کے خلاف اس نوعیت کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے انتہا پسند تنظیموں کو ban کرنا ضروری ہے لیکن نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کا خوف اس قدر ہے کہ حکومت بھی بےبس ہے۔ حتٰی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بےبس ہیں اور عدالتیں بھی بےبس ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جلد اب ان کی پکڑ کے سامان کرے اور ملک کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان نام نہاد مذہبی لوگوں سے جو حقیقت میں دہشت گرد ہیں اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں اب چھٹکارا حاصل کیا جائے کیونکہ یہ لوگ تو ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہر جگہ ہر ایک جو اِن کے خلاف ہے اس پر حملہ کرتے ہیں۔ بہرحال ہماری فریادیں تو اللہ تعالیٰ کے آگے ہیں اور اس کا پورا حق ہمیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے لواحقین کو صبر اورحوصلہ عطا فرمائے۔ ان کی والدہ بڑی عمر کی ہیں۔ ان کے غم کو بھی ہلکا کرے۔ ان کی بیوی اور ان کے بچے اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: نظامِ خلافت کی اہمیت و برکات نیز اس سے وابستہ تائیداتِ الٰہیہ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۳۰؍مئی ۲۰۲۵ء