https://youtu.be/wfu1B4KRduM ’’ بہت ہی اچھا تھا جانے والا‘‘ وہ میرا بھائی تھا دوست تھا،دکھ سکھ کا ساتھی تھا۔ عزیزداری کی وجہ سے ڈاکٹر شیخ محمد محمود کو ابتدا سے ہی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اسے گھر میں پیار سے ’’مُنوں‘‘کہتے تھے۔ جب میں لاہور میں ہاؤس جاب کر رہا تھا اور وہ ایف ایس سی کا طالب علم تھا،اس کے ساتھ،اس کے ماڈل ٹاؤن والے گھر کے پورچ میں کرکٹ بھی کھیلی۔ مئی ۱۹۸۹ء میں جب میں فیملی کے ویزے لگوانے کے لیے گیا تو وہ راولپنڈی میڈیکل کالج کا طالب علم تھا۔ اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے کا موقع ملا۔ اس کے تایا شیخ مختاراحمد اور میری پھوپھی کی وفات کے بعد یہ ایک چھڑا ڈیرہ تھا جس میں ان کے بیٹے منور اور مظفر احمد رہتے تھے۔ اپنی پرانی Yamaha موٹر سائیکل اس نے میرے حوالے کردی۔ جس کی واحد خوبی یہ تھی کہ وہ چلتی تھی۔اس پر میں دن بھر ایمبیسیوں کی خاک چھان کربعد از دوپہر واپس آتا۔ اس دوران اس کی سادگی،یکسوئی اور محنت کی عادت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ صاحب حیثیت گھرانوں کے نوجوان کالج لائف کے دوران پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے شوق بھی پورے کرتے ہیں،لیکن اٹھان بتا رہی تھی کہ اس کا مطمح نظر اور مقصد کچھ اَور ہے۔ دوستوں کے ساتھ اکٹھے پڑھنے کا عادی تھا جس کے لیےہوسٹل چلا جاتا تھا۔ وقت ملا تو گھر کے سامنے خالی پلاٹ میں شام کو کرکٹ کھیل لی۔ دسمبر۱۹۹۲ء میں اس کی شادی اپنی پھوپھی زاد سے ہوئی۔ وہ میرا ہم زُلف بن گیا تو تعلق اَور قریبی ہوگیا۔ قارئین کو شاید عجیب لگے،میں اس کے لیےمفرد غائب کا صیغہ استعمال کررہا ہوں کہ مجھے اس میں اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ ۱۹۹۹ء کے لگ بھگ وہ لندن سے MRCP کی ڈگری لے کر آیا تو بطور ماہر امراض معدہ و جگر establish ہونے کا سوچ رہا تھا۔ اپنے والدین کی خدمت کے جذبے کے پیش نظر اس نے ملک میں رہنے کا فیصلہ تو کرہی لیا تھا۔ اس دوران سرگودھا کے ایک پرائیویٹ ہسپتال کا مالک ڈاکٹر اپنے ہسپتال کے لیےمعدہ و جگر کے سپیشلسٹ کی تلاش میں ڈاکٹر محمود تک پہنچا اور اپنے علاقہ میں مریضوں کی کثرت اور ضرورت کا بتایا۔ ڈاکٹر محمود نے مجھ سے ذکر کیا۔ ڈاکٹر لیاقت ملتان میں مجھ سے جونیئر کلاس میں تھا اور میں اسے جانتا تھا۔ میں نے کہا جہاں تک کام کی زیادتی اور تجربہ کے حصول کا تعلق ہے،وہ بالکل صحیح کہہ رہا ہے لیکن ایسی نسبتاً چھوٹی جگہوں پر جلد ہی مذہبی بنیادوں پر مخالفت شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر صلاح الدین کی ریڈیالوجی میں سپیشلائز کر کے بطور کنسلٹنٹ سول ہسپتال سرگودھا میں تعیناتی ہوئی تھی،جنہیں مذہبی ایشو کھڑا ہونے پرجلد جاب چھوڑنی پڑی تھی اور وہ امریکہ چلے گئے تھے۔ لیکن ڈاکٹر محمود خدمت خلق کے جذبہ سے بھرپور تھا سو نہ صرف وہ خود جمال کی علامت بن گیا بلکہ اسے نظروں میں سما جانے والی ہر شے بھلی نظر آنے لگی، حتیٰ کہ اس کے خلاف چلنے والی مخالفت کی تیز و تند آندھیاں بھی۔ اسی حسنِ اخلاق اور حسنِ ظن کے زور پر وہ اس شہر میں ۲۳؍۲۴ سال گزار گیا۔ اس دوران ۲۰۱۸ء میں جب ہسپتال کے مالک نے ملکی الیکشن میں حصہ لیا تو مذہبی مخالفین نے اپنی سیاسی حمایت اس مطالبہ سے مشروط کردی کہ اسے اپنے ہسپتال سے فارغ کرو۔ دباؤ اتنا بڑھا کہ ہسپتال کے مالک نے ڈاکٹر محمود سے معذرت کرلی اور انہیں اپنا کلینک (مشنری) فاطمہ ہسپتال منتقل کر نا پڑا۔ سرگودھا میں پہلی بار ERCP کا پروسیجر شروع کیا اور اپنے پیشے میں نام کمایا۔ میں ربوہ میں سیٹل تھا۔ گرمیوں میں ہم پہاڑوں کی سیر کا اکٹھے پروگرام بناتے۔ بچوں کی بھی آپس میں اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ ہم علی الصبح نکلتے اور بھلوال سے پہلے کنوؤں کے کسی باغ کے کنارے سایہ دیکھ کر چادریں بچھاتے۔چائے،شامی کباب اور پراٹھوں کا ناشتہ اکٹھے گذرے وقت کی خوشگوار یادوں میں سے ہے۔ اس کی طبیعت کے ٹھہراؤ اور میری برعکس طبیعت کی وجہ سے میری گاڑی بچوں سے بھری ہوتی ’’کہ جیتنا تو ہم نے ہی ہے‘‘ میں رفتار بڑھا کر آگے نکل جاتا تو بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی۔ میڈیکل کیمپ کرنے ڈاکٹر جب ربوہ آتا تو کیمپ کے دوران دودھ کا پیکٹ اور بسکٹ ساتھ رکھتا۔ کھانے کا ٹائم نہ ملتا تو اسی سے گزارا کرلیتا۔ سرگودھا واپسی سے پہلے مغرب اور عشاء کے درمیان میرے یہاں سے ہو کر جاتا۔ اگر کوئی مریض میرے ڈرائنگ روم میں موجود ہوتا تو تھکاوٹ سے چور ہونے کے باوجود اسے بھی اسی توجہ اور خندہ پیشانی سے دیکھتا۔ یہ میرے لیے قابل رشک ہوتا۔ میرے والد مسعود احمد دہلوی کے کمرے میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کرتا اور ان سے بزرگوں کے ایمان افروز واقعات سنتا۔ رات گئے سرگودھا واپس جاکر بھی کوئی وزٹ یا پروسیجر کرنا ہوتا۔ اس کے باوجود اسے کبھی جلدی میں نہیں دیکھا۔ خدا نے اس کے وقت میں برکت رکھی تھی۔ اسی لیے اپنی ۵۸؍ ۵۹ سالہ زندگی میں ایک نارمل اور فعال طبعی زندگی سے زیاہ کام کرگیا۔اس کی والدہ کی دعائیں اور اہلیہ کا تعاون شامل حال نہ ہوتا تو یہ سب ممکن نہیں تھا۔ ربوہ کی گرمی میں بجلی کا بکثرت جانا ایک معمول کی بات ہے اور باقی معمولات پھر گرمی خود طے کرتی ہے۔ جب گھر کے باہر اس کی گاڑی رکنے کی آواز آتی تو میں بھاگ کر قمیص پہن لیتا۔ اس کی طبیعت اور شخصیت کا احترام واجب تھا۔ حصہ بقدر جُثہ وہ بھی مجھ سے متاثر تو تھا لیکن میری ان باتوں سے ہر گز نہیں۔ امن و آشتی کے پر امن پانیوں کا یہ سفر جاری تھا کہ اس دوران محمود کی بڑی بیٹی صائمہ میرے منجھلے بیٹے محمود الحسن سے بیاہی گئی۔ قربتیں اَور بڑھ گئیں اور حسن معاشرت کے باہمی اسباق سیکھنے کے مواقع بھی۔ ایسے ہی ایک دلفریب لمحے کی جھلک دیکھیے۔ شہادت سے چند روز قبل کینیڈا میرے فون کی گھنٹی بجی۔دوسری طرف محمود تھا۔ بیٹی کے فارمیسی کا ابتدائی امتحان پاس کرنے پر بہت خوش تھا۔ کہنے لگا کہ سوچا آپ کو بھی مبارکباد دے دوں،آپ کی بھی تو بیٹی ہے۔ آپ کا تعاون اسے حاصل رہا۔ دو سو ڈالر اسے انعام بھجوایا،اور یوں پدرانہ شفقت کے لطیف اظہار کا یہ آخری مکالمہ بھی گداز یادوں کی لڑی میں پرویا گیا۔ اپنوں اور غیروں کے حقوق ادا کرنے کی ممکنہ انسانی حد تک کوشش کی۔ سرگودھا منتقل ہونے پراپنی ایک پھوپھی جوذہنی طور پر slowتھیں اور عمر کی مناسبت سے دواؤں کا بھی خیال کرنا ہوتا تھا انہیں اپنے ساتھ لے آیا اور چند سال قبل ان کی وفات تک تمام اہل خانہ کو ان کی خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے سب بچے ان سے بہت مانوس تھے۔ ایسی با مقصد عملی زندگی پائی جس کا ہر لمحہ خدا کی رضا اور خدمت خلق کے لیے وقف تھا۔ شہر کے سب سے نامور اور غریب پرور ڈاکٹرہونے کی شہرت پائی۔ERCP یا دوسرے پروسیجر کرتا تو فیس میں سےاپنے عملہ حتیٰ کے ڈرائیورکو بھی حصہ دیتا۔ مالی حیثیت کے مطابق بعض مریضوں کو اپنی فیس معاف کردیتا لیکن عملے کو اپنا حصہ مل جاتا۔ تاہم اگر کسی بہت نادار مریض کی پوری فیس معاف کرنی ہوتی تو عملے کو اپنی جیب سے ان کا حصہ دے دیتا۔ایسے لوگ دنیا میں کم کم آتے ہیں۔؎ ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم والد کے ہر مشورے کوحکم کا درجہ دیا۔ ان کی وفات کے بعد خاندانی معاملات کی بھی نگرانی کرتا۔ اپنی ذات کو بھلا کرجنون کی حد تک خلقِ خدا کے کام آنے کا رویہ اپنایا۔ کبھی کسی رشتہ دار،غیر یا پروفیشنل کولیگ کے بارے میں منفی تبصرہ نہیں کیا۔ ایسی کسی مجلس میں ناگواری اور مثبت گفتگو میں اطمینان کی کیفیت اس کے چہرے پر محسوس کی جاسکتی تھی۔ ایک بار میری والدہ بیمار ہوئیں۔اس وقت ربوہ ہسپتال میں یہ سہولت مہیا نہ تھی، اپنی گاڑی میں سرگودھا سے آکسیجن سلنڈر لے کر آیا۔ اپنی ضعیف والدہ کو پھولوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ گھر پر نرسز ان کی دیکھ بھال کے لیےآتیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ضعیف العمر والدہ،اہلیہ، بچوں اور بہن بھائیوں کا حامی و ناصر ہو۔ گذشتہ برس lymphoma کی بیماری تشخیص ہوئی، جس سے صحت یاب ہوا۔ مجھے بتایا الحمد للہ اب بھی سولہ گھنٹے کام کرتا ہوں۔جو ایک دفعہ مل لیتا،اس کا گرویدہ ہوجاتا۔ خط بنانے اور لباس سے حد درجہ لاپروا حتی کہ کبھی دو مختلف جرابوں کی نشاندہی کی تومسکرا کے کہہ دیا کہ ’’فکر نہ کریں کوئی میری جرابیں نہیں دیکھ رہا۔‘‘ طبیعت کی یہ خاکساری اس سے ہم آہنگی کی ایک بڑی وجہ تھی۔ عمراوررشتے میں بڑا ہونے کی وجہ سے میری عزت کرتا،اس سے زیادہ اس کی نیک فطرت کی وجہ سے میں اس کو عزت دیتا۔ بچوں کے اصرار پر چار سال قبل میں کینیڈا آگیا تو بالمشافہ ملاقاتوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ مخالفانہ دباؤ اور قتل کی دھمکیوں میں انسانیت کے لیے کام جاری رکھنا بھی دل گردے کا کام ہے،بالآخرقرآنی تعلیم سے نا بلد مذہبی متشدد گروہ کے ایما پر ایک سفاک نے ۱۶؍مئی ۲۰۲۵ء کو گولیوں سے چھلنی کرکے اسے اپنی دانست میں موت سے ہم کنار کیا اور وہ کراچی کےستر سالہ ڈاکٹر طاہر محمود، لئیق چیمہ اور قصور کے انیس سالہ محمد آصف سمیت قافلہ احمدیت کے ان شہداء میں شامل ہوگیا جنہوں نے حقیقی اسلام کے پودے کی اپنے خون سے آبیاری کی اور فنا، لقا اوربقا کی منزلیں ایک ہی جست میں طے کرکے حیات جاوداں پا گئے۔ فَمِنۡهُم مَّن قَضَىٰ نَحۡبَهُ۔ان سب شہداء کی جدائی کے غم کی شدت تو یکساں ہے لیکن اپنے اپنے تعلق کی یادوں کی پوٹلی الگ الگ۔ سو آج کی تحریر شہداء کے ان لواحقین کے نام جو میری طرح اپنے جذبات کو قرطاس پر منتقل نہیں کر سکتے۔ نہتے اور پر امن شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے ان ظالموں اور اس پر دیکھنےسننے اور بولنے سے عاری رویہ اپنانے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے طرز عمل سے رجوع کی توفیق دے، ورنہ ہم نے تو صبر و توکل سے گذاری باری ہاں مگر تم پہ بہت ہوگی یہ بھاری باری (ڈاکٹر عمران احمد خان۔ کینیڈا) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: میاں قادر بخش صاحب ملتانی