اپنے کاموں میں ہمیشہ عدل وانصاف کو ملحوظ رکھو اور گناہ اور بدی کے امور میں ہرگز تعاون نہ کرو (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۳۰؍جنوری ۱۹۵۹ء بمقام ربوہ) ۱۹۵۹ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے دنیوی اور دینی دونوں معاملات میں انصاف سے کام لینے کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) تم صرف یہ نہ دیکھو کہ تم کوئی نا جائز کام نہیں کر رہے بلکہ یہ بھی دیکھو کہ تمہاری وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگے کیونکہ اگر تمہارے کسی فعل کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر لگتی ہے تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوگے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضورؓ نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اَنۡ تَعۡتَدُوۡا ۘ وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰی ۪ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ ۪ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (المائدہ:۳) اس کے بعد فرمایا: ’’پچھلے جمعہ ایک دوست نے بتایا کہ آپ کی تلاوت بالکل اُسی طرح تھی جس طرح صحت کی حالت میں قادیان میں ہوا کرتی تھی صرف اتنی بات تھی کہ آپ جلدی جلدی تلاوت کرتے تھے۔ اگر اس جلدی تلاوت کرنے کی عادت کو آپ روک لیں تو پھر وہی حالت ہو جائے گی جو قادیان میں تھی۔ لیکن شاید اُس دوست کو پتا نہیں کہ یہی تو مجھے بیماری ہے۔ جس قسم کی بیماری کا حملہ مجھے ہوا تھا اُس کا خاصہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں انسان ہر کام جلدی جلدی کرتا ہے۔ چلتا ہے تو اُس میں بھی جلدی کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجہ میں بعض دفعہ دروازہ سے مڑنے لگتا ہے تو اسے ٹھوکر لگ جاتی ہے۔ بعض ڈاکٹروں نے اس کا علاج یہ بتایا ہے کہ جیپ پر چڑھ کر ایسی سڑکوں پر سفر کیا جائے جو خراب ہوں اور اس سے خوب جھٹکے لگیں۔ اس سے اس مرض کو آرام آجائے گا۔ لیکن تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ علاج غلط ہے اور اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ تو اصل میں اس بیماری کا یہی خاصہ ہے کہ اس میں ہر کام جلدی جلدی کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ دوسرے یہ بات بھی ہے کہ بیماری کی وجہ سے ڈر آتا ہے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں۔ اس وجہ سے بھی جلدی کرنی پڑتی ہے۔ میری بیماری کے متعلق ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ شاید سردی کم ہو تو اس میں افاقہ ہو جائے۔ جب جلسہ سالانہ کے موقع پر میری زبان پر چھالے پڑے تھے تو ڈاکٹروں کی یہ رائے تھی کہ اندرونی حصہ جسم میں کسی جگہ زہر پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے زبان پر چھالے پڑ گئے ہیں۔ اُس وقت تو پتا نہیں لگا لیکن بعد میں میں نے عزیزم ڈاکٹر اعجاز الحق کو اپنا دانت دکھانے کے لیے لاہور سے بلایا تو اُن کے معائنہ سے معلوم ہوا کہ دانت میں ایک پرانی مرض ہوا کرتی تھی کہ بجائے اوپر سوراخ ہونے کے پہلو میں سوراخ ہو کر عصبہ کا سرا باہر نکل آتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس دانت میں عصبہ کا وہی سِرا ننگا ہو گیا ہے مگر کہا کہ اس دانت کو نکالنے کا فیصلہ ہم تبھی کر سکتے ہیں جب آپ لاہور آئیں اور وہاں دانت کا ایکسرے کرائیں۔ انہوں نے کہا میں کچھ علاج تو کر دیتا ہوں مگر پورا علاج ابھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایکسرے میں بھی یہی نکلا کہ دانت کو نکالنا چاہیے تو اسے نکالنا ہی پڑے گا کیونکہ اس کی وجہ سے ہر وقت بےچینی رہتی ہے۔ میں ہونٹوں کو ہلا بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ جس جگہ پر دانت آتا ہے وہاں درد ہوتی ہے۔ دوسرے کھانے کی بھی بڑی دقّت ہے۔ وہ کہتے ہیں دانت بڑی دیر میں بن سکیں گے اور چونکہ یہی دانت ڈنچر (ڈنچر : ( ڈھچر ) ڈھانچا، انجر، پنجر (اردو لغت تاریخی اصول پر۔ جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۵۔ کراچی ))کے لیے سہارے کا کام دیتا ہے اس لیے اگر یہ سہارا نہ رہا تو دانتوں سے چبانا بالکل ناممکن ہو جائے گا۔ میں نے احتیاطاً ابھی سے حریرہ (حریرہ: ایک پتلی غذا جو بالعموم آٹے یا سوجی کو گھی میں بھون کر اور شکر اور پانی ڈال کر بنائی جاتی ہے۔ ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد ۸ صفحہ ۱۳۴کراچی ۱۹۸۷ء)) وغیرہ کھانا شروع کر دیا ہے تا کہ دانتوں سے چبانے کا سوال ہی پیدا نہ ہو اور ارادہ ہے کہ کچھ دنوں تک طبیعت اچھی ہوئی تو ایک دن لاہور جا کر ایکسرے کراؤں گا۔ اور اگر دانت نکلوانے کا فیصلہ ہوا تو اسے نکلوا دوں گا تا کہ روز روز کی تکلیف دُور ہو جائے۔ ٭ میں نے ابھی جو آیات پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بہت بڑا اخلاقی سبق دیتا ہے۔ دنیا میں کئی قسم کی مخالفتیں ہوتی ہیں۔ بعض مخالفتیں دنیاوی ہوتی ہیں اور بعض دینی ہوتی ہیں۔ دنیوی مخالفتوں کو تو انسان معاف بھی کر سکتا ہے لیکن دینی مخالفتوں میں بعض اوقات ضد آ جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم انہیں کیسے معاف کریں۔ مجھے یاد ہے کہ جب حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خلافت کا جھگڑا شروع ہوا اور میں ابھی خلیفہ نہیں ہوا تھا تو خواجہ کمال الدین صاحب نے شیخ یعقوب علی صاحب کو میرے پاس بھیجا کہ آپس میں صلح کر لی جائے۔ شیخ صاحب جذباتی قسم کے آدمی تھے، جلدی متأثر ہو گئے اور آکر کہنے لگے میں بڑی خوشخبری لایا ہوں۔ خواجہ کمال الدین صاحب کہتے ہیں صلح کر لی جائے۔ میں نے کہا شیخ صاحب اُن سے پوچھنا تھا کہ میرا اُن سے جھگڑا کیا ہے؟ میری کوئی جائیداد تو انہوں نے نہیں دبائی ہوئی۔ اگر جائیداد کا سوال ہو تو میں ابھی ساری جائیداد چھوڑتا ہوں لیکن اگر دین کا سوال ہے تو میرا اُسے چھوڑنے کا کیا حق ہے۔ یہ صرف خدا تعالیٰ کا حق ہے اور وہی اسے چھوڑ سکتا ہے میں نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ بات اُن کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے خواجہ صاحب کو بتا دیا۔ تو بعض دفعہ دنیا میں قوموں کے ساتھ دنیوی جھگڑے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ دینی جھگڑے ہوتے ہیں۔ دینی جھگڑوں میں انسان بعض دفعہ ضد کر کے اَڑ جاتا ہے کہ میں صلح نہیں کرتا۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ وہ صلح نہ کرے اور اپنے عقیدہ پر قائم رہے تو یہ بڑی اعلیٰ درجہ کی بات ہے لیکن بعض دفعہ لوگ دینی باتوں کی وجہ سے غصہ میں آکر لڑپڑتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ کسی یہودی سے کوئی معاملہ کر رہے تھے کہ اس نے باتوں باتوں میں کہہ دیا میں موسیٰؑ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جسے خدا تعالیٰ نے سب نبیوں کا سردار بنایا ہے کہ یہ بات اس طرح ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کو غصّہ آ گیا کہ یہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت دیتا ہے اور آپؓ نے اُسے تھپڑ مار دیا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا لگا تو آپﷺ خفا ہوئے اور فرمایا کہ اُس یہودی نے اگر اپنے عقیدہ کی وجہ سے یہ بات کہی تھی تو آپؓ کو اُسے تھپڑ مارنے کا کوئی حق نہیں تھا۔(صحيح البخاری کتاب الانبیاء باب وفاة موسیٰ و ذکرِہ بعدُ (میں حضرت ابوبکرؓ کی بجائے ایک صحابیؓ کا ذکر ہے )) تو دینی معاملات میں بھی اسلام نے زیادتی کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اِسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں توجہ دلائی ہے۔ فرماتا ہےلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ۔کسی قوم کی اِس وجہ سے دشمنی کہ اُس نے تمہیں حج سے روکا ہے تم کو اِس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اُس پر زیادتی کرنے لگ جاؤ۔ چاہے کوئی دینی جھگڑا ہو دوسرے پر زیادتی کرنا بالکل نا جائز ہے۔ تم حق کا قانونی مطالبہ کرولیکن تمہیں یہ اختیار نہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لے لو اور حد سے بڑھ جاؤ۔ پھر باقی مسلمانوں کو کہتا ہے کہ وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰی۔کئی دفعہ دینی معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ ساری قوم اکٹھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بغداد کی تباہی کا موجب بھی یہی ہوا کہ وہاں کا وزیر جس فرقہ کا تھا اُس کی شہ پر اُس فرقہ کے لوگوں نے دوسرے فرقہ کو تنگ کیا۔ اِس پر پہلے فرقہ کے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے اور دوسرے فرقے والے بھی اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ ایک فرقہ کو یہ خیال گزرا کہ دوسرے فرقہ والے ہمارے مذہب کی ہتک کرتے ہیں اور دوسروں کو یہ خیال ہوا کہ پہلے فرقہ والے ہمارے مذہب کی ہتک کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُس وزیر نے ہلاکو خاں سے ساز باز کی اور اُس نے حملہ کر کے بادشاہ اور ولی عہد کو قتل کر دیا اور اٹھارہ لاکھ مسلمان ایک دن میں مار ڈالے۔ اُس وقت لوگ کسی بزرگ کے پاس گئے اور اُن سے عرض کیا کہ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تباہی سے بچائے۔ اُس بزرگ نے جواب دیا میں تو پہلے بھی دُعا کرتا ہوں لیکن ہر دفعہ جب دُعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے فرشتے مجھے آسمان پر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اَیُّھَا الْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَ۔ اے کا فرو! یہ لوگ فاجر ہو گئے ہیں انہیں خوب مارو۔ اور جب خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ فاجر مسلمانوں کو قتل کیا جائے تو میں دُعا کیا کرسکتا ہوں۔ تو اٹھارہ لاکھ مسلمان اس موقع پر قتل کیے گے بلکہ اِس قتلِ عام کی بعض ایسی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں کہ انہیں پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہر حال ہلاکو خان کو بغداد پر فتح ایک وزیر کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ گو بعد میں ہلاکو خان نے اُس وزیر کو بھی قتل کروا دیا اور کہا جب تم نے اپنے بادشاہ سے غدّاری کی ہے تو تم میرے ساتھ کیوں نہیں کرو گے اور اس طرح اُس وزیر کو سزا تو مل گئی لیکن اسلامی سلطنت تباہ ہوگئی اور سات آٹھ سو سال تک اس کا نشان مٹا رہا۔ اب آکر بغداد میں دوبارہ اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی مگر دو تین سال کے اندر اندر جنرل قاسم کے ذریعہ سے تباہ ہو گئی۔ تو دیکھو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مذہبی جوش میں آکر قوم کی قوم کھڑی ہو جاتی ہے اور کہتی ہے ہمارے مذہب کی ہتک ہوگئی۔ قرآن شریف فرماتا ہے کہ اگر وہ جوش نیکی پر ہے تو تعاون کرو۔ اور اگر وہ محض کسی ضد کی وجہ سے پیدا ہوا ہے تو اُس سے عدم تعاون کرو۔ گویا با تقوٰی اور نیکی کی باتوں پر تعاون کیا کرو، گناہ اور بدی کی باتوں پر تعاون نہ کیا کرو۔ اگر دنیا اس پر عمل کرنے لگے تو تم خود ہی اندازہ لگا لو کہ کتنا امن ہو جائے۔ پہلی جنگ عظیم اس بات پر ہوئی تھی کہ آسٹریا کا ولی عہد جا رہا تھا، اُس پر سر بیا (Serbia) کے لوگوں نے بم پھینک دیا اور وہ مر گیا۔ اس پر جنگ شروع ہو گئی جس میں انگریز بھی شامل ہو گئے، جرمن بھی شامل ہو گئے۔ حالانکہ جس علاقہ میں سے وہ گزر رہا تھا اور جن لوگوں نے اُسے مارا تھا حکومت اُن پر بڑا ظلم کر رہی تھی۔ تو یہ تعاون بظاہر تو عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ تھا لیکن بباطن عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ تھا کیونکہ لوگوں نے اُس ولی عہد کو حکومت کے ظلم کی وجہ سے مارا تھا۔ یہی دوسری جنگِ عظیم میں ہوا کہ ساری اتّحادی قومیں ہٹلر پر پل پڑیں۔ بہانہ یہ بنایا کہ ہم پولینڈ کی مدد کرنے لگے ہیں۔ وہ پولینڈ کی کُلّی مدد تو نہ کر سکے لیکن پولینڈ کی مدد کرتے کرتے انہوں نے جرمنی پر حملہ کر دیا اور اب اُس کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ اس کے بعد روس سے ایسا جھگڑا چھڑا ہے کہ وہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا اور روس دنیا کے ہر ملک میں فساد ڈلوا رہا ہے۔ امریکہ کو پہلے طاقت کا بڑا دعویٰ تھا لیکن وہ بھی اب کمزور ہو گیا ہے۔ ظاہر میں تو وہ یہ کہتا ہے کہ میں ہر مخالف کا مقابلہ کروں گا لیکن عملی طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ دراصل روس نے جو راکٹ پھینکے ہیں اُن کا اتنا رعب پڑ گیا ہے کہ امریکہ جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھتا تھا اپنے آپ کو سیکنڈ گریڈ سمجھنے لگ گیا ہے۔ مگر اصل طاقت خدا تعالیٰ ہی کی ہے۔ چاہے روس ہو یا امریکہ۔ اس کے مقابلہ میں جو طاقت بھی آئے گی تباہ ہو جائے گی۔ ہاں ! کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی لاٹھی میں آواز نہیں وہ آہستہ آہستہ کام کرتا ہے۔ دیکھو! بچہ بھی ایک دن میں پیدا نہیں ہوجاتا وہ بھی ۹ ماہ میں پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فیصلے آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں لیکن جب بھی وہ ظاہر ہوں گے حق ہی ظاہر ہوگا۔ اور جب تک وہ ظاہر نہیں ہوتے اُس وقت تک انسان کو انتظار کرنا پڑے گا اور سمجھنا ہوگا کہ اللہ کا جو فیصلہ ہو گا وہی اچھا ہوگا۔ پس ہم کو اپنے کاموں میں ہمیشہ عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے۔ چاہے دینی معاملہ ہی ہو ہمیں اپنے مخالف سے سختی نہیں کرنی چاہیے اور ایسا جوش ظاہر نہیں کرنا چاہیے کہ وہ طیش میں آ کر اور گمراہ ہو جائے۔ اگر کوئی شخص ہماری غلطی کی وجہ سے طیش میں آتا ہے اور گمراہ ہو جاتا ہے تو اُس کا گناہ ہمیں بھی ہوگا۔ حضرت مسیح ناصریؑ نے کہا ہے کہ وہ شخص جس کی وجہ سے کسی انسان کو ٹھو کر لگتی ہے وہ بھی بد قسمت ہے۔(متی باب ۱۸/ آیات ۶،۷) پس تم صرف یہ نہ دیکھو کہ تم کوئی نا جائز کام نہیں کر رہے بلکہ یہ بھی دیکھو کہ تمہاری وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگے کیونکہ اگر تمہارے کسی فعل کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر لگتی ہے تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہو گے۔ ‘‘ ( الفضل۲۱ مارچ ۱۹۵۹ء) ٭… بعد میں ڈاکٹر اعجازالحق صاحب نے ایک اَور احمدی دوست کے ساتھ جو ایکسرے کے ایکسپرٹ ہیں معائنہ کیا اور فیصلہ کیا کہ یہاں مسوڑھے میں ایک دنبل (دُنبل : پھوڑا، دل دار پھوڑا، دُمل ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد ۹صفحہ ۵۳۷کراچی۱۹۸۸ء)) پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ چیرا دے کر اس میں سے پیپ نکال دی گئی۔ اس کے بعد گو زخم مندمل ہو چکا ہے اور دماغ میں جو ہتھوڑے لگتے تھے اس میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے لیکن ابھی ہاتھ لگانے سے درد ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ کچھ دنوں تک آرام آجائے گا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلفاءکی سچّے دل سے اطاعت کرو