ہمارا ایک نظام ہے، جس کا آخری مقصد یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا مورخہ یکم جون ۲۰۲۵ءبروز اتوار، امامِ جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ فرانس کی جماعت سیکٹر ۷۸؍کی مجلس عاملہ کے ممبران پر مشتمل ایک بارہ (۱۲) رکنی وفد کو جن کی اکثریت عربیُّ النسل احباب پر مشتمل تھی اسلام آباد (ٹِلفورڈ) یوکےمیں بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےفرانس سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہINSEEکوڈ، فرانس کے قومی ادارہ برائے شماریات و معاشی مطالعات(Institut National de la Statistique et des Études Économiques)کی جانب سے جاری کردہ ایک عددی شناختی نظام ہے، جو ملک کی مختلف انتظامی اکائیوں جیسا کہ بلدیات اور départements (محکمے یا اضلاع) کی شناخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہی کوڈ فرانس کے شہریوں کو دیے جانے والے قومی شناختی نمبروں میں بھی شامل ہوتا ہے۔سیکٹر ۷۸؍ کا INSEE کوڈ فرانس کے département Yvelines کے لیے مخصوص ہے، جو پیرس کے مغربی مضافات میں واقع اور علاقے Île-de-France کا ایک اہم حصّہ ہے۔ اس département میں تاریخی شہر Versailles بھی شامل ہے، جو اپنے عظیم الشان محل اور دلکش باغات کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضور انورکی خدمت میں اپنا تعارف کروانے، مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جوابات کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضور انور نے صدر صاحب سے مقامی جماعت کی سرگرمیوں کے حوالے سے استفسار فرمایا اور بیعتوں کے سالانہ ہدف کے بارے میں دریافت فرمایا۔ اس پرانہوں نے عرض کیا کہ پانچ کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا تھا۔اس پر حضور انور نے توجہ دلائی کہ بس! اتنے لوگ تو یہاں آ گئے ہیں۔ہر ایک کو ایک ٹارگٹ بھی دیں تو پندرہ سولہ بندے بن جاتے ہیں۔ بہت تھوڑا ٹارگٹ ہے۔ذرا بڑے ٹارگٹ رکھا کریں۔ پانچ کےٹارگٹ سے دنیا فتح نہیں ہوگی۔اس طرح احمدی بناتے ہوئے تو کئی صدیاں گزر جائیں گی، ambitious پروگرام بنائیں۔ ایک شریکِ مجلس نے حضور انور سے راہنمائی کی درخواست کی کہ بجٹ بنانے کے لیے احبابِ جماعت سے ان کے مالی وسائل، Income وغیرہ پوچھنے پڑتے ہیں، کیا بہتر نہ ہو کہ انہیں کہا جائے کہ وہ خود ہی اپنا چندہ calculate(حساب) کر کے بتا دیا کریں، کیونکہ چندہ وغیرہ بتانے میں بعض کو تردّد ہوتا ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا بات یہ ہے کہ چندہ بتانے میں لوگhesitate(جھجک محسوس) کرتے ہیں، خاص طور پر جو موصی ہیں، اس لیے اس کیstatement بدل دی ہے۔پہلے یہ ہوتا تھا کہ Income بتاؤ، اب statement میں یہ آتا ہے کہ جو مَیں نے چندہ ادا کیا ہے، وہ مَیں نے اپنی Income کے مطابق تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے۔ حضور انور نے نہایت بصیرت افروز ہدایت فرمائی کہ اسی طرح ان سے کہیں کہ تم لوگ یہ نہ لکھو کہ میری Income اتنی ہے، بلکہ لکھو کہ جو مَیں نے چندہ دیا ہے، وہ اپنی Income کے مطابق دیا ہے اور مَیں اتنا ہی دے سکتا ہوں یا مَیں اتنا چندہ دے سکتا ہوں جو مَیں ادا کر رہا ہوں۔ بعض لوگوں کے حالات ایسے ہیں، مہنگائی بھی اب زیادہ ہو گئی ہے، کچھ اخراجات بڑھ گئے ہیں، تو اس لیے وہ لوگ پوری طرحpayنہیں کر سکتے۔ جب آپ Income پوچھ کے کہتے ہیں کہ اتنے دو تو پھر لوگ پریشان ہوتے ہیں ، اور کچھ بتاتے بھی نہیں، پھر جھوٹ بولتے ہیں۔ تو جھوٹ بولنے سے بہتر ہے کہ سچائی پر قائم رہیں اور تھوڑے پر چندہ دیں، جتنا بھی چندہ دینا ہے، وہ صحیح طرح دیں۔ ایک سوال حضور انور کی خدمتِ اقدس میں یہ پیش کیا گیا کہ کچھ لوگ جماعت کے نظام کو ایک کمپنی کے طریقے کی طرح چلانا پسند کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، ان لوگوں اور ہمارے لیے اس میں آپ کی کیا راہنمائی ہے؟ اس پر حضور انور نے جماعتی نظام کی بابت جامع اور روحانیت سے بھرپور راہنمائی عطا فرمائی کہ جماعت کے قواعد بنے ہوئے ہیں، کمپنی کی طرح چلانا چاہتے ہیں تو آپ تب کہیں کہ جب ہمارے پاس قواعد نہ ہوں۔ہماری ذیلی تنظیمیں ہیں، ان کے قواعد ہیں، دستورِ اساسی ہے۔ ہمارا مرکزی نظام ہے، اس کے قواعد ہیں، دستورِ اساسی ہے۔ اس میں مرکز کے کیا کام ہیں، وہ بھی rules and regulations(قواعد و ضوابط) میں لکھا ہوا ہے۔مقامی جماعتوں کے کیا قاعدے ہیں، وہ بھی rules and regulationsمیں لکھا ہوا ہے۔ سیکرٹری خارجہ کا کیا کام ہے، صدر کا کیا کام ہے، جنرل سیکرٹری کا کیا کام ہے، تربیت کا کیا کام ہے، مال کا کیا کام ہے ،اس میں ہر ایک کا کام لکھا ہوا ہے۔ اس کے مطابق چلائیں گے۔ حضور انور نےکمپنی ماڈل پر انحصار کرنے کی بجائے اصولی وضاحت فرمائی کہ ہم نے اپنے rules and regulations فالو(follow)کرنے ہیں۔ کمپنی کیا چلاتی ہے؟ ہم نے جو اچھی چیزیں ہیں، بعض باہر کی چیزیں ہیں، وہ بھی اس میں لے لی ہیں۔جو روحانیت کو بہتر کرنے کے لیے چیزیں ہیں، وہ بھی اس میں شامل کر لی ہیں۔ تو ہم نے تو اس طرح چلانا ہے۔ جو بھی کہتے ہیں کہ کمپنی کی طرح چلاؤ، تو ان سے کہو کہ ہمارے پاس تو یہ کتاب ہے، یہ rules and regulations ہیں، ہم نے تو اس کے مطابق جماعت کو چلانا ہے۔ جماعتی نظام کے بنیادی محرّک کی وضاحت کرتے ہوئے حضور انور نے روشنی ڈالی کہ یہ ایک روحانی نظام ہے۔ یہ صرف دنیاوی نظام نہیں ہے، بلکہ ایک روحانی نظام بھی ہے، اور اس میں ہم نے جو کام کرنا ہے، وہ صرف کسی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں کرنا بلکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کرنا ہے۔اور جماعت کے ہم جو کام کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں، کسی بندے کو خوش کرنے کے لیے یا مرکز کو خوش کرنے کے لیے یا وکیل المال کو خوش کرنے کے لیے یا امیر جماعت کو خوش کرنے کے لیے یا تبشیر میں تبلیغ کی اچھی رپورٹیں بھیج کے ان کو خوش کرنے کے لیے یا خلیفۂ وقت کو بھیجنے کے لیے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اس لیے ہمارا ایک نظام ہے، جس کا آخری مقصد یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا۔ اس لیےابھی یوکے کی شوریٰ میں مَیں نے خطاب کیا تھا۔ بس وہ ساری گائیڈ لائن سامنے ہے۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ حضور انور کے نمائندگانِ مجلس شوریٰ یوکے سے مذکورہ خطاب کا مفصّل خلاصہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ مورخہ ۲۴؍ مئی ۲۰۲۵ء میں شائع ہو چکا ہے، جس سے احبابِ جماعت استفادہ کر سکتے ہیں۔] ملاقات کے آخر میں حضور انور نے نہایت ایمان افروز اور بلیغ انداز میں بڑی بشاشت ِقلبی سے ارشاد فرمایا کہ ہم نے توالله تعالیٰ کی کمپنی کو چلانا ہے۔ اللہ کی رضا سامنے ہوگی، جو ہر چیز دیکھ رہا ہے، توسب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےنارتھ ایسٹ ریجن کے ایک وفدکی ملاقات