ہر کام کا اپنے اوپر کریڈٹ نہیں لینا۔ بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور روزانہ ہر عہدیدار رات کو سوتے ہوئے جائزہ لے کہ واقعی مَیں نے جو کام کیے ہیں اور جو مَیں کام کرنا چاہتا ہوں اور جو میری سوچ تھی وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تھی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تھی یا صرف دکھاوے کے لیے تھی؟ مورخہ۳۱؍مئی ۲۰۲۵ء بروزہفتہ، امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلسِ عاملہ جماعت احمدیہ جرمنی کےایک پینتیس(۳۵) رکنی وفدکو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد(ٹِلفورڈ) یو کے میں واقع ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں منعقد ہوئی۔مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے جرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا۔دورانِ ملاقات ممبران مجلس عاملہ کو حضور انور کی خدمت میں اپنا اور اپنے متعلقہ شعبہ جات کا تعارف پیش کرنے اور اس سلسلے میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ سب سے پہلے حضور انور نے ممبرانِ عاملہ پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا اور روزانہ کی بنیاد پر ذاتی محاسبہ کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اصل چیز وہ ہے جو مَیں نے شوریٰ میں نمائندگان اور عہدیداران کو کہی تھی، کام تو کر لیتے ہیں، لیکن ہر کام کا اپنے اوپر کریڈٹ نہیں لینا۔ بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور روزانہ ہر عہدیدار رات کو سوتے ہوئے جائزہ لے کہ واقعی مَیں نے جو کام کیے ہیں اور جو مَیں کام کرنا چاہتا ہوں اور جو میری سوچ تھی وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تھی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تھی یا صرف دکھاوے کے لیے تھی؟ اس کا ذکر مَیں نے اس خطاب میں بھی کیا تھا۔ یہ روزانہ کا جائزہ لیں گے تو تب پتا لگے گا کہ ہم کتنا کام اپنی performance ظاہر کرنے کے لیے کر رہے ہیں اور کتنے کام اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ جو performance ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہونی چاہیے، یہ بہت ضروری چیز ہے۔ حضور انور نے اس امر کی نشاندہی فرمائی کہ بہت سارے عہدیداران بھی ہیں، مجھے پتا ہے کہ مثلاً مَیں نے دعاؤں کی تحریک کی تھی ، وہ اس پر مکمل طور پر عمل نہیں کرتے۔پھر حضور انور تمام شاملینِ مجلس سے مخاطب ہوئے اور دریافت فرمایا کہ مجھے بتائیں کتنے ہیں کہ جو باقاعدہ روزانہ جتنا مَیں نے کہا تھا درود شریف بھی پڑھ رہے ہیں ،اور اِستغفار بھی کررہے ہیں، رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ بھی پڑھ رہے ہیں؟ ذرا ہاتھ کھڑا کریں۔ حضور انور کے اس ارشاد کی تعمیل میں جب تمام شاملینِ مجلس نے ہاتھ کھڑے کیے تو حضور انور نے فرمایا کہ سارے باقاعدہ کر رہے ہیں ، بڑی اچھی بات ہے۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ اگست ۲۰۲۴ء میں مذکورہ دعاؤں کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے تلقین فرمائی تھی کہ اگر یہ کرو گے تو تم ایک محفوظ قلعہ میں محفوظ ہو جاؤ گے، جہاں شیطان کبھی داخل نہیں ہو سکتا اور لوہے کی دیواریں ہیں اس قلعہ کی، جس کی دیواریں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ پس کوئی سوراخ ایسا نہیں رہے گا جہاں سے شیطان حملہ کر سکے۔ نیز خطبہ کے آخر میں مذکورہ دعاؤں کی بابت دوبارہ یاددہانی کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ مستقل تحریک ہے۔ ہر احمدی کو مستقل پڑھتے رہنا چاہیے۔ مائیں اپنے بچوں کو بھی یہ دُہرواتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ یاد رہے کہ ان دعاؤں کی بابت یاد دہانی وقتاً فوقتاً روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کے صفحات کی زینت بھی بنتی رہتی ہے۔ اس خطبہ کا مکمل متن روزنامہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۱۳؍ستمبر۲۰۲۴ءکی اشاعت کا حصّہ بن چکا ہے۔مزید تفصیلات کے لیے اس شمارے کا مطالعہ مفید رہے گا۔] آخر میں حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ یہی چیز آپ نے اپنے اپنے شعبے کے لحاظ سے جو آپ کے ساتھ کام کرنے والے ہیں، ماتحت ہیں یا کارکنان ہیں یا مختلف جماعتوں میں متعلقہ سیکرٹریان ہیں، ان کو بھی کہنا ہے کہ وہ بھی اسی سوچ کے ساتھ کام کریں۔ یہ بنیادی چیز ہے جو ہونی چاہیے۔ باقی تحریکِ جدید کے پیسے بھی آ جائیں گے، چندہ عام کے پیسے بھی آ جائیں گے، سیکرٹری مال کے خرچے بھی پورے ہوتے رہیں گے۔ امیر صاحب کی پریشانیاں بھی دُور ہوتی رہیں گی، وہ تو کوئی مسئلہ نہیں، اوپر نیچے اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے ، لیکن اصل چیز یہی ہے کہ وفا ہو اور عاجزی ہو۔ یہ بنیادی چیزیں ہیں جو ہر ایک کو یاد رکھنی چاہئیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری تربیت نَو مبائعین سے گفتگو کے دوران حضور انور نے اس شعبہ کی غیر معمولی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے نومبائعین کی تربیت میں درپیش چیلنجز اور اس کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ نومبائعین کی تربیت آسان کام نہیں ہے۔ نئے آنے والے ہیں، خود بھی بیعت کر کے آئے ہوں گے، ان کو پتا ہے کہ ان کو بہت سارے مسائل اور بہت ساری باتوں کو سیکھنا پڑا۔ نومبائعین ایسے ہیں، جو مختلف طبقوں کے ہیں، کچھ جرمن ہیں ، کوئی عرب ہیں، کوئی بوسنین ہیں، کچھ پاکستانی ہوں گے، بعض افغانی بھی ہیں، ترک ہیں، جرمنی کی مختلف قوموں کے لحاظ سے ان کے لیے پلان ایسا بنائیں کہ ان کے مزاج کے مطابق ان کی تربیت بھی ہو سکے ، لیکن جو جماعتی روایات ہیں، اسلامی تعلیم ہے، اس کو بہرحال سامنے رکھنا ہے۔ ایک comprehensive(جامع) پروگرام بنائیں اور اس کے مطابق کام کریں۔ حضور انور نے موصوف کو نومبائعین کی ایک جامع فہرست مرتّب کرنے اور ان کے پسِ منظر کو مدّنظر رکھتے ہوئے تربیتی حکمتِ عملی تیار کرنے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے خاص طور پر اس امر پر زور دیا کہ پہلے ایک پوری لسٹ بنائیں۔ پچھلے تین سال میں کون کون سے نومبائعین ہیں اور ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو واقعی جماعت کی خاطر بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے، کتنے ایسے ہیں جو صرف رشتوں کی وجہ سے جماعت میں شامل ہوئے، کتنے ایسے ہیں جو مذہب کی کچھ سُدھ بُدھ رکھتے ہیں، پہلے علم تھا، کتنے ایسے ہیں جن کو نئے سرے سے تمام مذہبی باتیں بتانی ہوں گی ، سمجھانا ہوگا اور سکھانا ہوگا۔ تو یہ چیزیں ایک بڑا مشکل کام ہے ، لیکن اس کو آپ نے کرنا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ پلاننگ کرنی ہوگی، امیر صاحب سے بھی مشورہ کر لیں ، سیکرٹری تربیت سے بھی مشورہ کر لیں ، مشنری انچارج سے بھی مشورہ کر لیں اور پھر ایک پروگرام بنائیں۔ سیکرٹری سمعی بصری سے گفتگو کے دوران حضور انور نےموصوف کواپنے کردار میں اعلیٰ نمونہ قائم کرنے اور اپنی مفوّضہ ذمہ داریوں کی اہمیت اور گہرائی کو سمجھنے کی نصیحت فرمائی کہ سیکرٹری سمعی بصری اور مشنری بھی ہو۔ اور مشنری صاحب کا بھی کام یہ ہے کہ علاوہ اپنے شعبے کے کام کے اپنا نمونہ ویسے بھی دکھائیں۔ سیکرٹری بےشک بن جاؤ ، لیکن آپ مربی بھی ہیں اور مربی کی طرف لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔ صرف آپ سیکرٹری نہیں ہیں، اس لیے اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور لوگوں کے لیے نمونہ قائم کریں۔ آپ کی نمازیں، آپ کے نوافل ،آپ کی دعائیں، آپ کا رہن سہن، آپ کا اخلاق، آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، آپ کی بول چال وہ لوگوں کے لیے ایک نمونہ ہونا چاہیے۔ اور سمعی بصری والوں کو تو ویسے بھی بعض دفعہ کیمرے کے سامنے آنا پڑتا ہے ، اس میں توبہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری مال برائے آمد سے گفتگو کے دوران حضور انور نے درست آمد کے مطابق چندے کی ادائیگی کے حوالے سے متعلقہ جماعتوں کے سیکرٹریانِ مال سے مؤثر رابطہ قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ اس کے لیے جو متعلقہ جماعتوں کے سیکرٹریانِ مال ہیں، ان سے رابطہ کریں۔ لوگوں سے رابطہ کریں ۔جو اچھے کھاتے پیتے مخیّر لوگ ہیں، چندہ شرح سے نہیں دیتے، ان کواس طرف مائل اور قائل کریں کہ چندہ صحیح طرح Income کے حساب سے دیا کریں۔غریب آدمی تو عموماً دے ہی دیتا ہے۔ ان کے لیےبھی یہ کوشش کریں کہ وہ لوگ غلط بیانی نہ کریں۔ اگر ان کے حالات ایسے نہیں ہیں اور چندے سے چھوٹ لینی ہے یا کم شرح سے دینا ہے تو لکھ کے باقاعدہ دیا کریں۔ حضور انور نے مزید توجہ دلائی کہ لیکن Income میں ایک تربیت کا کام بھی ساتھ ساتھ کرنے والا ہے اور اس کے بارے میں مربیان، سیکرٹریانِ تربیت اور متعلقہ جماعتوں سے بھی مدد لیں۔اور پھر بجٹ بنائیں۔ اگر تربیت صحیح ہو جائے تو آپ کے کام میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔اس لیےآپ کو علاوہ انسپکٹران کے اپنی ایک ٹیم بنانی پڑے گی جو توجہ دلائیں۔ مربیان سے بھی مدد لیں، وہ بھی توجہ دلائیں۔بعض دفعہ بعض لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ مربیان اس لیے توجہ دلا رہے ہیں کہ وہ جماعت کے paid ملازم ہیں۔ یہ جو concept ہے اس کو لوگوں کے ذہنوں سے ختم کریں۔ اس میں مشنری انچارج اور سیکرٹری تربیت کا بھی کام ہے کہ اس طرف بھی توجہ دیں۔ مالی قربانی کی روح کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور نے تلقین فرمائی کہ جو دینا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر دینا ہے ، تزکیۂ اموال کے لیے دینا ہے۔ کل بھی مَیں نے ذکر کیا تھا۔ تو یہ چیزیں لوگوں میں پیدا کریں، مالی قربانی کی ایک صحیح روح پیدا کر دیں، تو پھر وہ مہنگائی کے باوجود بھی مالی قربانی کرتے رہیں گے۔ یہاں مہنگائی ہے، حالات خراب ہیں، لیکن پاکستان، ہندوستان یا افریقہ جیسے تو حالات نہیں ہیں، لیکن وہاں لوگ چندہ دیتے ہیں اور قربانیاں کرتے ہیں۔ تو یہاں تو اس کے مقابلے میں بہت اچھے حالات میں ہیں۔ نئے مقرر کردہ مشنری انچارج صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئےحضور انور نے موصوف کوان کی مفوّضہ ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی دورانِ ملاقات قیمتی اور جامع راہنمائی عطا فرمائی کہ نیا کام ہے ،اس کو نئے سرے سے پلان کریں کہ مربیان کے سپرد کیا کیا کام کرنے ہیں ۔ ان سے آپ نے تبلیغ کا کام لینا ہے ، کس طرح ان سے تربیت کا کام لینا ہے، کس طرح ان سے باقی شعبوں میں مدد کرنے کے لیے کام لینا ہے اور میٹنگز میں ان کو کیا سپرد کرنا ہے، کیا ان کو ٹارگٹ دینے ہیں اور ٹارگٹ جو دیے ہوئے ہیں ان کاباقاعدہ ہر مہینے جائزہ لینا ہے کہ کیا کیا انہوں نے کام کیے، کنہوں نے اپنے ٹارگٹ کے مطابق کام کیا، کنہوں نے نہیں کیا اور جہاں کمیاں ہیں تووہ کیوں ہیں؟ اسی طرح ہدایت فرمائی کہ دوسرےefficient (مستعد) مربیان جو کام کر رہے ہیں، ان کا جائزہ آپس میں شیئر کریں، ایک دوسرے سے ہر مہینے کی میٹنگ میں شیئر کریں کہ کیا کیا کام انہوں نے کیے، ایسے کام جو دوسروں نے نہیں کیے، تو اس سے وہ فائدہ اُٹھا سکیں، اور مربیان میں اعتماد پیدا کریں اور ان کو ذمہ داری کا احساس بھی دلوائیں۔ سیکرٹری امورِ عامہ سے گفتگو کے دوران حضور انور نے احبابِ جماعت کے درمیان باہمی صلح صفائی کے لیے ایک مخصوص شعبہ قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ اپنے اندر ایک ایسا شعبہ قائم کریں، جو صلح صفائی کرانے والا بھی ہو۔ نیز توجہ دلائی کہ جب معاملہ قضا میں چلا جاتا ہے، وہاں تو آپ دخل نہیں دے سکتے، لیکن قضا سے پہلے پہلے صلح صفائی کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اصلاح و ارشاد جس طرح کر سکتا ہے ، مشنری انچارج جس طرح کر سکتے ہیں، مربیان کر سکتے ہیں، تربیت کا شعبہ جس طرح کرتا ہے ، اس طرح امورِ عامہ کا شعبہ بھی جو معاملات آتے ہیں، کوشش کرسکتا ہے کہ کسی طرح آپس میں صلح صفائی ہو جائے۔ سیکرٹری تربیت سے گفتگو کے دوران حضورِانور نے تربیت کے شعبے کو دیگر شعبوں کی معاونت کے لیے فعال بنانے اور ذاتی رابطوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ تربیت کے شعبہ کو اتنا فعال کر دیں کہ امورِ عامہ ، مال اور دوسرے شعبے اس میں آپ کے مددگار بن جائیں۔ متعلقہ جماعتوں کے سیکرٹریانِ تربیت کے ساتھ بھی میٹنگ کیا کریں۔ ان کو بتائیں کہ سیکرٹری تربیت کا یہ بھی کام ہے اور امور ِعامہ کا بھی اور مشنری انچارج کا بھی اور اس طرح سے سیکرٹری مال کا بھی کہ جو لوگ جماعت کے افراد مختلف جماعتوں میں ہیں، ان سے بھی ذاتی رابطہ ہونا چاہیے، اگر آپ پچاس فیصد ذاتی رابطہ کر لیں تو بہت سارے مسائل آپ کے حل ہو جائیں۔ذاتی رابطے ہونے چاہئیں صرف دفتریت میں نہ رہیں۔ حضور انور کی خدمتِ اقدس میں سیکرٹری تربیت نے عرض کیا کہ سیّدی! سائقین کا نظام بنایا ہے، اس سال شوریٰ کا بھی فیصلہ تھا ، ستّر فیصد جماعتوں میں سائقین بن گئے ہیں۔ بعض جماعتوں سے بہت اچھی رپورٹس آئی ہیں کہ انہوں نے اچھا کام کیا ہے اور نمازوں کی حاضری بھی بڑھی ہے۔ یہ سماعت فرما کر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جہاں رپورٹس اچھی آئی ہیں وہاں سیکرٹری تربیت کا کام ہے کہ خود جائے اور وہاں جا کے اس جماعت میں جائزہ لےکہ واقعی ایسا ہے بھی کہ نہیں، تو اس کا آپ کو جائزہ لینا چاہیے، جا کے دیکھیں۔بایں ہمہ حضور انور نےمشنری انچارج صاحب کو بھی ہدایت فرمائی کہ اسی طرح مشنری انچارج کا بھی کام ہے کہ مربیان کی جو رپورٹیں آتی ہیں ، جو دیکھتے ہیں، ان کا خود جا کے ایک دفعہ جائزہ لیں، ہر جماعت میں جائیں۔ سیکرٹری تعلیم القرآن و وَقفِ عارضی سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے کتنے وقفِ عارضی کروائے ہیں؟جس پر موصوف نے عرض کیا کہ اِمسال سات سو کے قریب ہوئے ہیں جبکہ ۳۰؍ جون تک ایک ہزار کا ٹارگٹ ہے۔ یہ سماعت فرمانے کے بعد حضور انور نے ذاتی روابط کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ذیلی تنظیموں کو اس عمل میں شامل کرنے کی ہدایت فرمائی کہ لوگوں میں جائیں ، تربیت کریں ، جو متعلقہ سیکرٹریانِ تعلیم القرآن ہیں ان کو توجہ دلائیں۔لوگوں سے ذاتی رابطے بھی کریں، مرکز کی طرف سے بھی توجہ دلائی جائے تو اس کا ایک اثر ہوتا ہے۔ آپ جو توجہ دلائیں گے تو اس کا یہ اثر ہوگا کہ personally(ذاتی طورپر) مرکز کے سیکرٹری تعلیم القرآن نے ہمیں لکھا ہے۔ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ ، انصار اللہ ، لجنہ کوinvolveکریں کہ وہ لوگ وقفِ عارضی کریں۔ اور یہ نہیں ہے کہ ایک دن یا دو دن وقف کیا، وقفِ عارضی کے لیے کم از کم جو دو ہفتے کی پہلے شرط تھی ، چلیں! آپ دس دن ہی کر لیا کریں، دس دن سے دو ہفتے تک تو یہ بھی بڑی کامیابی ہے۔ سیکرٹری امورِ خارجہ سے گفتگو کے دوران حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ نےکتنے لوگوں سے تعلقات بنائے ہیں؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ اِمسال ۱۲۴؍ ممبران پارلیمنٹ سے نیشنل سطح پر میٹنگزکی گئی ہیں۔ مزید عرض کیا کہ حالیہ دنوں میں جرمنی کے سیاستدانوں اور میڈیا نے غزہ میں جاری جنگ کے حوالے سے اسرائیلی حکومت پر تنقید کرنے میں زیادہ آواز بلند کی ہے۔ موصوف نے اس تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ عجیب بات ہے کہ چند دنوں، جب سے یوکے، فرانس اور کینیڈا نے مل کے statementجاری کی ہے تواس کے بعد سے اچانک سب نے بولنا شروع کر دیا ہے۔ اس پرحضور انور نےفرمایاکہ دو دن پہلے تو آپ کے چانسلر نے بھی کہہ دیا کہ ہماری ہسٹری ایسی ہے کہ ہم اس کے خلاف بول نہیں سکتے ، لیکن اب ظلم اس حدتک بڑھ گیا کہ ہم اسرائیل کو کہتے ہیں کہ اب کنٹرول کرو اَور یہ بند کرو، اب اتنی جرأت اس چانسلر نے دکھائی ہے کہ یہ بول دیا۔ سیکرٹری صاحب نے یہ بھی ذکر کیا کہ اب انہوں نے war crimes (جنگی جرائم) کا لفظ بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ پچھلے چند دنوں میں اچانک ہو گیا ہے، جرنلسٹس نے بھی بولنا شروع کر دیاہے۔ حضور انور نے اس تبدیلی کی وجہ کینیڈا، فرانس اور یوکے کے مشترکہ بیان کو قرار دیا۔ اس کے بعد سیکرٹری صاحب نے اسلحہ کی برآمد نہ روکنے پر تشویش ظاہر کی اور بتایا کہ ہم ہر میٹنگ، سوشل میڈیا اور مضامین کے ذریعے اس مسئلہ کو اُجاگر کر رہے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سپین نے کیا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ ہم نہیں کر رہے، آخر اس نے جرأت دکھائی ہے تو پھر آپ لوگ، اتنا بڑا ملک ہے، جرأت کیوں نہیں دکھاتے؟جو ڈرے ہوئے ہیں۔آپ لوگوں نے تو نہیں مارا تھا ۔ہٹلر نے مارا تھا تو وہ تو مر گیا۔ اب یہ ضروری تو نہیں ہے کہ کیونکہ اُس نے چھ ملین یہودی مارا تھا اِس لیے آپ نے چھ ملین مسلمان مارنا ہے ، تو یہ کچھ لوگوں کو سمجھائیں۔ اسی طرح سیکرٹری صاحب نے بیان کیا کہ تمام مسلمان تنظیموں میں صرف جماعت ہے جو کہ اس بارے میں سب سے پہلے، سب سے زیادہ واضح اور کلیئر بولی ہے اور ابھی بھی چند دن پہلے بھی ایک ممبر پارلیمنٹ نے اس بات کو مانا اور تسلیم کیا ہے کہ سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے اس معاملے کے اوپر ہماری توجہ مبذول کروائی ہے۔ اس پر حضور انور نے تاکید فرمائی کہ بولتے رہنا چاہیے، اپنا سٹینڈ تو رکھیں۔ نیشنل امیر صاحب جماعت احمدیہ جرمنی نے دورانِ ملاقات حضورانورسے ایسے نوجوان احمدیوں کے بارے میں راہنمائی کی درخواست کی جن کی جماعت سے وابستگی مغربی اثرات کی وجہ سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایسے چیلنجنگ مسائل ہیں کہ جن کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ آپ کو چاہیے کہ تمام ذیلی تنظیموں کو شامل کریں۔ لجنہ، انصار، خدام اور اپنے تربیت کے شعبہ نیز مبلغین اور مربیان کو بھی شامل کریں تاکہ سب مل کر ایک مربوط اور منظم کوشش کریں۔ اسی طریق پر آپ ان نوجوانوں کو جماعت کے قریب لا سکتے ہیں۔ حضور انورنےنوجوانوں کے مسائل کی عمومی نوعیت بیان کرتے ہوئے نشاندہی فرمائی کہ ان میں سے بعض کو اپنے مقامی عہدیداران سے کچھ شکوے ہیں، بعض صرف دنیاوی خواہشات میں مگن ہیں، کچھ کو خاندانی مسائل یا دیگر ذاتی مشکلات کی وجہ سے جماعت سے دُوری محسوس ہوتی ہے۔چنانچہ آپ کو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ اصل وجہ کیا ہے اور پھر اسی کے مطابق حکمت ِعملی اختیار کرنی ہوگی۔ ملاقات کے اختتام پر ایک شریکِ مجلس نے سوال پوچھا کہ اگر غیر احمدی کسی مسجد کے لیے چندہ مانگیں تو کیا احمدی مسلمان انہیں چندہ دے سکتے ہیں؟ اس پر حضور انور نے استفہامیہ انداز میں توجہ دلائی کہ اگر آپ ان کے پیچھے نماز نہیں ادا کرتے اور وہ آپ کے خلاف بول رہے ہیں تو آپ کو چندہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے حضور انور نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا کہ کچھ غیر احمدی مسجد کے فنڈ کے لیے مدد مانگ رہے ہیں، کیا ہم انہیں کچھ دیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم اپنا پیسہ ان لوگوں کو کیوں دیں جو ہمارے خلاف منصوبے بنا رہے ہیں؟حضور انورنے مزید توجہ دلائی کہ اگر وہ زمانے کے امام پر ایمان نہیں رکھتے تو ہم انہیں اپنا مال کیوں دیں؟ نیز ہدایت فرمائی کہ اس کی بجائے ہمیں اپنا چندہ اپنی ہی مسجد کے لیے دینا چاہیے۔بہرحال یہ کوئی گناہ تو نہیں ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو حضور انور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے کا شرف بھی حاصل ہوا اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے Great Lakesریجن کے ایک وفدکی ملاقات