https://youtu.be/bI_ddyj6VVo سیدہ امۃ الشافی صاحبہ مرحومہ ولد سید محمد عبداللہ شاہ صاحب گوجرہ شہر ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک معزز سادات خاندان کی چشم و چراغ تھیں۔ آپ کے خاندان میں احمدیت خلافت ثانیہ کے عہد میں ۱۹۲۹ء ؍ ۱۹۳۰ء کے لگ بھگ آئی۔ آپ کی والدہ سیدہ فضل نوربیگم صاحبہ، معروف قادرالکلام ا حمدی شاعر محترم سید احسن اسماعیل صدیقی صاحب کی بھتیجی تھیں۔ آپ کی پیدائش اپریل ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔ جولائی ۱۹۷۸ء میں خاکسار محمد اشرف کاہلوں ابن مکرم فضل دیں صاحب آف چک ۴۳۳؍ج۔ ب دھیروکی گوجرہ کے ساتھ ہالہ زوجیت میں آئیں۔ آپ شعبہ درس و تدریس سے وابستہ تھیں ۔ تینتیس سال سروس کے بعد باعزت ریٹائرہوئیں۔ دوران ملازمت اپنے فرائض منصبی میں کوئی کوتاہی نہ دکھائی۔ دیانتداری سے کام کیا۔ بچیوں کو مادرانہ شفقت سے پڑھایا۔ ہمیشہ نتائج حوصلہ افزا ہوتے۔ ایک مرتبہ کام کے سلسلہ میں تعلیمی تدریسی ادارہ گئیں۔ ایک شاگرد نے پہچان لیا۔ وہ خوش دلی سے ملیں، عزت و تکریم سے بٹھایا اور بتایا کہ میں آپ کی شاگرد ہوںاور آپ کی وجہ سے اس ترقی کے مرتبہ پر ہوں۔ گھر آئیں، شاداں فرحاں تھیںاور الحمد للہ کہا کہ یہ ذات حق کا فضل ہے۔ شادی کے بعد ہمیں کرائے کے مکان کی ضرورت تھی۔ سٹاف میں صاحبِ عزت تھیں۔ آپ دعا کرتیں کہ مناسب، آرام و سکون والا اور سکول کے نزدیک کوئی مکان ملے۔ ایک سٹاف ممبر سے ذکرکیا تو اس نے واجبی کرایہ پر اپنے گھر کے بالائی حصہ میں رہائش دے دی۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ایک مناسب پلاٹ خریدنے کی استطاعت دی۔ اب گھر کی تعمیر کا مرحلہ آیا۔ سوچا کہ وسائل کے مطابق گھر بنایا جائے۔ آپ نے قریبی رفقاء سے ذکر کیا۔ تعاون ہوا۔ تعمیر شروع ہوگئی۔ اخراجات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ فکر لاحق ہوئی۔ اس اثنا میں ہمسایہ خاتون آئیں۔ پلاٹ کا پتا تھا۔ پوچھا کب گھر بنانا ہے۔ بتایا کہ کام شروع ہے۔ کہنے لگی۔ فکر نہ کریں۔ ایک معقول رقم دے گئیں۔ کہا جب فراخی ہو واپس کر دینا۔ لیکن اللہ نے جلد واپس کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ آپ نے تمام رشتوں کو سلیقہ شعاری اور فراست سے نبھایا۔ حتی المقدور کوشش رہی کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ صلح جُو طبیعت تھی۔ عفو و درگزر سے کام لیتیں۔ آپ شادی سے قبل بارہ سال بھائی کے پاس فیصل آباد رہیں۔ آپ بیان کیا کرتیں کہ کبھی بھی آپ اور بھابھی سعیدہ صاحبہ کے مابین حرف شکایت پیدا نہ ہوا۔ ایک خاتون نے اس کی گواہی دی۔ اس نے بتایا کہ ۱۹۷۴ء کے پُرآشوب دور میں ہمارے ایک رشتہ دار کے ہاں یہ لوگ شفٹ ہوگئے۔ حالات نارمل ہوئے تو واپس اپنے گھر لوٹے۔ میں بھی ان دنوں ان کے ہاں مقیم تھی۔ اس عرصہ میں ان میں کوئی ناگوار بات نہیں دیکھی۔ میں نے ان دونوں میں محبت ہی دیکھی ہے ۔ مرحومہ کی طبیعت میں ایثار و قربانی گھٹی میں پڑی تھی۔ ایک دفعہ میری والدہ کو نگہبانی کی ضرورت پڑی اور والدہ نے ذکرکیا۔ میں نے اِن سے کہا کہ روپوں کی انہیں ضرورت ہےاور رقم کا فوری بند و بست کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ آپ نے بشاشت سے اپنا سارا زیور دے دیا۔ پیشانی پہ شکن تک نہ آئی، زندگی بھر زیور کا ذکر نہ کیا۔ دُور افتادہ دیہات میں شادی ہوئی۔ آپ شہری زندگی کی عادی تھیں۔ جب بھی جانا ہوتا خوشی سے جاتیں۔ میری خوشی اور رشتہ داروں کی خاطر سفری مشکلات برداشت کرتیں۔ لبوں پہ نہ شکوہ نہ گلہ۔ وفا کا پیکر تھیں۔ بچوں کی دینی و دنیوی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ عطیۃالعلیم نے ایم ایس سی ریاضی میں کی۔ ہبۃالنور نے بی اے۔ بی ایڈ کیا۔ محمد معظم نے ACCA کیا۔ بچوں کو قرآن کریم پڑھایا، عبادت کی پختہ عادت راسخ کی اور نظام جماعت کی اطاعت کی روح ان میں پھونک دی۔ خود بھی تمام مالی تحریکات میں خوش دلی سے شریک ہوتیں اور بچوں میں بھی مالی تحریکوں میں حصہ لینے کا شوق و ذوق پیدا کیا۔ بروقت چندہ جات ادا کر دیتیں۔ موصیہ بھی تھیں اور خدا تعالیٰ کے فضل و احسان سے تینوں بچے موصی ہیں۔ بچوں کے جذبات کا خیال رکھتیں۔ ان کی ملازمت فیصل آباد شہر میں تھی۔ اتوار تعطیل گوجرہ والدین کے پاس بسر کرتیں۔ جاتے وقت شیرینی ضرور لے جاتیں۔ بچے نہال ہوجاتے۔ بچوں میں سلام کہنے کی عادت رواج دیتیں۔ آپ خود بھی سلام کرنے میں پہل کرتیں۔ گھر کوئی ملنے آتا اسے یاد نہ رہتا تو یاد کروادیتیں۔ آپ دین دارانہ سیرت و کردار کا آئینہ با صفا تھیں۔ پنجگانہ نماز کی پابند تھیںاور گھر میں نماز باجماعت کا اہتمام کرتیں۔ آپ شب بیدار تھیں۔ اذکار ماثورہ کا ورد ان کا معمول کا وظیفہ تھا۔ چلتے پھرتے دعائیں کرتے رہنا اک غذا تھی۔ سوز و گداز تھا۔ جب تک صحت رہی روزے پابندی سے رکھتی رہیں۔ خلافت سے صدق و وفا کا معاملہ تھا۔ ڈش سے حضرت صاحب کے خطبات جمعہ اور دیگر پروگرام سے استفادہ کرتیں۔ آخر عمر میں عدم یادداشت کا عارضہ علاج معالجہ کے باوجود بتدریج بڑھتا رہا لیکن عبادت ترک نہ کی۔ صلہ رحمی کے تقاضوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتی رہیں۔ کسی کے بارے میں کوئی بغض اور کدورت دل میں نہ رکھی۔ سب سے بشاشت سے ملتیں اور پیار و محبت کا سلوک روا رکھا۔ جب بھی کوئی ملتا۔ ہاتھ چوم لیتیں۔ دعائیں دیتیں۔ بیگانہ ہو یا اپنا سب سے مشفقانہ وطیرہ تھا۔ آپ نرم خو، حلیم، بردبار اور مہمان نواز تھیں۔ کوئی بھی قریب یا دور کا ہو، آپ اصرار سے حسب موقع مہمانی کرتیں تھیں۔ کسی قسم کی تکلیف میں کسی کو مبتلا دیکھتیں تو بےقرار ہوجاتیں۔ دعا کرتیں۔ میرے ساتھ ازدواجی زندگی کا عرصہ چھیالیس سال پر محیط ہے۔ ایک ہمدرد، باوفا و با صفا، خدمت گار و سلیقہ شعار، خلیق اورحلیم خاتون تھیں۔ بطور سیکرٹری مال خوش اسلوبی سے اپنا فرض نبھایا۔ میری جماعتی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں میں معاون تھیں۔ ان کی حالت بیماری میں بھی دینی خدمت انجام دینے کے لیے جانا پڑتا تو خندہ پیشانی سے دعا دے کر الوداع کرتیں۔ تاریخ احمدیت ضلع فیصل آباد مرتب کرنے میں انہوں نے بھرپور تعاون کیا۔ بلکہ اس کی کاوش کا سہرا ان کے سر ہے۔ ۳۰؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو آپ اچانک بیمار ہوگئیں۔ ہسپتال میں علاج معالجہ سے بتدریج روبہ صحت ہو گئیں۔ تاہم قریباً ایک ماہ بعد ہی یکم نومبر۲۰۲۴ء کو روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مسجد مبارک میں آپ کی نماز جنازہ ہوئی جبکہ بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ تدفین کے بعد دعا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی کامل مغفرت مرحمت فرمائے اور غریق رحمت کرے۔ خاکسار اور اولاد در اولاد کو جاری نیکیوں پر کاربند رہنے بلکہ قدم بڑھاکر چلنے کی ہمت و توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین (محمد اشرف کاہلوں۔ آسٹریلیا) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: میاں قادر بخش صاحب ملتانی