برّ اعظم شمالی امریکہ کےچند اہم واقعات و تازہ حالات کا خلاصہ مارک کارنی کوکینیڈا کا وزیر اعظم منتخب کرلیا گیا قارئین کرام کی خدمت میں گذشتہ مکتوب میں اطلاع دی گئی تھی کہ کینیڈا کے سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ان کی جگہ پر بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرِ اقتصادیات اور سابق گورنر بینک آف کینیڈا و بینک آف انگلینڈ، مارک کارنی کو لِبرل پارٹی کا نیا راہنما منتخب کیا گیا تھا۔ لِبرل پارٹی کے قائد ہونے کی حیثیت سے انہوں نے بطور وزیرِ اعظم چارج سنبھال لیا تھا۔ مگر چونکہ ۲۰۲۵ء کا سال کینیڈا میں انتخابات کا سال تھا، جو بہر حال ہونے ہی تھے اور وزیرِ اعظم مارک کارنی کی پارلیمنٹ میں سیٹ بھی نہ تھی اور نہ ہی انہیں کینیڈا کے شہریوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا بلکہ وہ پارٹی کے اندرونی الیکشن کے باعث عہدے پر فائز ہوئے لہٰذا ملکی انتخابات کروانا از حد ضروری تھا۔ چنانچہ اخیر مارچ میں وزیر اعظم کارنی نے اعلان کیا تھا کہ ۲۸؍اپریل ۲۰۲۵ء کو ملکی انتخابات عمل میں آئیں گے۔ مارک کارنی کے مدِمقابل پیئر پولیئور (Pierre Poilievre) کھڑے تھے جو کنزرویٹو پارٹی کے راہنما ہیں۔ دونوں پارٹیوں کا سخت مقابلہ ہوا اور بالآخر ۲۸؍ اپریل کو لِبرل پارٹی نے کینیڈین پارلیمنٹ کی کُل ۳۴۳ سیٹوں میں سے ۱۶۸ کو جیت کر کنزرویٹو پارٹی کو ہرا دیا اور اقتدار حاصل کر لیا۔ مارک کارنی کو اقتصادیات کے ماہر ہونے کی بنا پر خاص تقویت حاصل ہوئی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کینیڈا کو دھمکیوں پر کارنی صاحب نے مضبوطی سے کینیڈا کا دفاع کیا جسے عام طور پر کینیڈین شہریوں نے خوب سراہا۔ انتخابات میں کامیاب ہونے پر وزیر اعظم کارنی نے کہا کہ امریکہ ہماری زمین، ہمارے وسائل، ہمارا پانی، ہمارا ملک چاہتا ہے،یہ محض خالی دھمکیاں نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ ہمیں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ امریکہ ہمیں اپنا بنا سکے۔ ایسا کبھی نہیں، کبھی بھی نہیں ہو گا۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ ہماری دنیا بنیادی طور پر بدل چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر مستقبل کے اقتصادی اور سلامتی معاہدے پر بطور دو خودمختار ممالک بات چیت کریں گے اور اس بحران کا مقابلہ زبردست اور مثبت طاقت کے ساتھ کریں گے۔ کینیڈین امیگریشن کا ’’رِی سیٹ‘‘ منصوبہ مارک کارنی کی قیادت میں اپریل کے آخر میں کینیڈین حکومت نے امیگریشن پالیسی میں جامع تبدیلیوں کا اعلان کیا۔ ’’امیگریشن سسٹم ری سیٹ‘‘ کے نام سے پیش کیے جانے والے منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں مستقل رہائش پذیر ہونے والوں کی تعداد کو معقول سطح پر لایا جائے تاکہ مکانات، تعلیم، صحت اور بنیادی خدمات پر ضرورت سے زائد بوجھ نہ پڑے۔ اس منصوبے کے تحت ۲۰۲۵ء کے لیے مستقل رہائش کے نئے درخواست دہندگان کی حد ۴۸۵ ہزار سے کم کر کے ۳۹۵ ہزار کر دی گئی۔ حکومت کا موقف تھا کہ پچھلے برسوں میں امیگریشن کی کثرت نے مکانات کی قلت، کرایوں میں اضافہ، اور شہری انفراسٹرکچر پر شدید دباؤ پیدا کیا ہے۔یہ پالیسی عمومی طور پر اعتدال پسند حلقوں میں مقبول رہی، تاہم بعض ماہرین نے خبردار کیا کہ محض تعداد گھٹانے سے نظام میں اصلاحات مکمل نہیں ہوں گی۔ کینیڈا میں جنگلاتی آگ اور ماحولیاتی ایمرجنسی مئی ۲۰۲۵ء میں کینیڈا کے تین بڑے صوبے یعنی مینیٹوبا ، اونٹاریو اور سسکاچیوان شدید جنگلاتی آگ کی لپیٹ میں آ گئے۔ یہ آگیں گرمی کی شدت، خشکی اور تیز ہواؤں کی وجہ سے تیزی سے پھیلیں۔ وفاقی ادارے کے مطابق اب تک خاص طور پر مینیٹوبا میں ۲۱ ہزار سے زائد افراد کو محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔فضائی آلودگی کی سنگین صورتحال کے باعث کئی شہروں میں تعلیمی ادارے بند اور آؤٹ ڈور سرگرمیاں معطل کر دی گئیں۔ وزیر اعظم کارنی نے اس صورتِ حال کو ماحولیاتی ہنگامی حالت قرار دیتے ہوئے وفاقی امداد کا اعلان کیا۔ بادشاہ چارلس سوم کا دورۂ کینیڈا مئی کے آخری ہفتے میں برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم نے کینیڈا کا سرکاری دورہ کیا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کینیڈا کی جمہوریت، خودمختاری اور آئینی اداروں کو بنیادی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈا ایک آزاد، متحد اور باوقار ملک ہے، جو ہر دور کے چیلنج کا سامنا خوداعتمادی سے کرتا آیا ہے۔ یہ بیان صدر ٹرمپ کی طرف سے کینیڈا کو امریکہ کی ۵۱ویں ریاست بنانے کی پیشکش کے تناظر میں نہایت اہم سمجھا گیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بادشاہ کا یہ دورہ اور خطاب کینیڈین عوام کے لیے اپنی خودمختاری اور قومی وقار کے اعادے کا ایک موقع تھا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کینیڈا ایک آئینی بادشاہت (constitutional monarchy) ہے، جس میں برطانیہ کے بادشاہ یا ملکہ رسمی طور پر ریاست کے سربراہ (Head of State) ہوتے ہیں۔ تاہم، حکومتی اختیارات منتخب پارلیمان، وزیر اعظم اور گورنر جنرل (جوملک میں بادشاہ کے نمائندہ ہوتے ہیں ) کے ذریعے استعمال کیے جاتے ہیں، جو ملک کے اندرونی خودمختار نظام کی علامت ہیں۔ بادشاہ کے فرائض عموماً رسمی اور غیر سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں، جیسے پارلیمنٹ کا افتتاح یا اہم قومی مواقع پر خطاب۔کینیڈین ریاست میں بادشاہت کا کردار رسمی مگر تاریخی حیثیت رکھتا ہےاور یہ کینیڈا کی خودمختاری اور جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ یہی توازن کینیڈا کو دنیا کی ایک مستحکم آئینی جمہوریت بناتا ہے۔ امریکی محصولات کے اثرات سے کینیڈین معیشت پر دباؤ صدر ٹرمپ کی طرف سے بارہا دی جانے والی ۲۵؍فیصد محصولات کی دھمکیوں نے کینیڈین معیشت میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ مئی میں شائع ہونے والی Statistics Canada کی رپورٹ کے مطابق بہت سے کینیڈین کاروبار امریکی مارکیٹ میں اپنی پوزیشن کے بارے میں غیر واضح صورتحال کا شکار ہیں اور سرمایہ کاری میں احتیاط برت رہے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق اگرصدر ٹرمپ اپنی تجارتی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہیں، تو یہ نہ صرف کینیڈا بلکہ پورے شمالی امریکہ کی سپلائی چین کو متاثر کر سکتا ہے۔کینیڈین حکومت اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ملک کے اندر خرید و فروخت کو وسعت دینے، ایشیائی منڈیوں سے رابطے بڑھانے، اور برآمدی اشیاء کو وسیع اور متنوع کرنے پر غور کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کا وسیع پیمانے پر ٹیرف(محصولات) عائد کرنے کا اعلان ۲؍اپریل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےایک وسیع اور متنازع تجارتی پالیسی کا اعلان کیا جسے انہوں نے امریکی معیشت کو ’’غلامی سے نجات دلانے‘‘ کی علامت قرار دیا۔ لہٰذا اس دن کو انہوں نے یومِ آزادی قرار دیا ۔ اس پالیسی کا مقصد امریکہ کو عالمی تجارتی نظام کے اُن غیر منصفانہ معاہدوں اور درآمدی انحصار سے آزاد کرنا تھا جو ملکی صنعت اور مزدور طبقے کو نقصان پہنچا رہے تھے۔اس پالیسی کے تحت صدر ٹرمپ نے درآمدی اشیا پر ۱۰ سے ۶۰؍فیصد تک کے محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا۔یہ محصولات چین، جرمنی اور جنوبی کوریا جیسے بڑے تجارتی شراکت داروں کی مصنوعات پر لاگو ہوئے، جن میں ٹیکنالوجی، اسٹیل، گاڑیاں اور کی الیکٹرانکس شامل تھیں۔ اس اقدام پر امریکہ کے اندر شدید تنقید دیکھنے میں آئی اور کاروبار کرنے والوں نے بالخصوص زرعی اور آٹو انڈسٹری نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان محصولات سے قیمتیں بڑھیں گی اور کاروبار کی ترقی میں رکاوٹ آئے گی۔ عالمی طور پر کینیڈا، یورپی یونین اور جاپان نے World Trade Organization میں اپنا احتجاج درج کروایا ہے اور جوابی اقدامات پر بھی غور شروع کردیا ہے۔ چین نے بھی سنگین نتائج کی وارننگ دی اور امریکہ میں جاری سرمایہ کاری منصوبے منجمد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ امریکی عدالت کی جانب سے محصولات کو غیرآئینی قرار دے دیا گیا مئی ۲۰۲۵ء کے آخر میں امریکی تجارتی عدالت نے صدر ٹرمپ کی طرف سے عائد کیے گئے درجنوں محصولات کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ نئے تجارتی محصولات صرف کانگریس کی منظوری سے ہی نافذ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کے معاشی نظریات اور ’’امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی کے لیے ایک روک ثابت ہو سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی حکومت نے اس فیصلے کو عدالتی تجاوز قرار دیتے ہوئے فوری اپیل دائر کرنے اور ہنگامی قانون سازی لانے کا عندیہ دے دیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا ٹرمپ کے مطالبات کو ردّ کرنا اپریل ۲۰۲۵ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے امریکہ کے اعلیٰ ترین جامعہ، ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر کو ایک خط ارسال کیا جس میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی ’’ان علمی اور شہری حقوق کے تقاضوں پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے جو وفاقی سرمایہ کاری کو جائز بناتے ہیں۔‘‘چنانچہ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی اپنی حکمرانی (governance) کے نظام کو تبدیل کرے، قابلیت پر مبنی تقرریوں کو اپنائے، تمام قسم کے تنوع، مساوات، اور رواداری (DEI) کے پروگرامز کو بند کرےاور اس بات کو یقینی بنائے کہ یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے نظریات میں تنوّع ہے نیز حکومت کو آڈٹ کی اجازت دے۔ حکومت نےیونیورسٹی کو خبردار کیا کہ اگر ان مطالبات پر عمل نہ کیا گیا تو ہارورڈ کو سرکاری تحقیقاتی گرانٹس اور وفاقی فنڈنگ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے اس دباؤ کو دوٹوک انداز میں ردّ کرتے ہوئے ایک باقاعدہ بیان جاری کیا۔ جس میں کہا کہ ادارے کے اندرونی فیصلے صرف علمی و قانونی اصولوں کی بنیاد پر ہوں گے، نہ کہ سیاسی مداخلت کی بنیاد پر۔ ہم آزادئ اظہار، علمی خودمختاری اور جمہوری اقدار کے حامی ہیں چاہے وہ اظہار غیر مقبول یا اختلافی کیوں نہ ہو۔ حکومت نے فوری ردعمل میں یونیورسٹی کے خلاف متعدد اقدامات اٹھائے۔ سب سے پہلے، انتظامیہ نے ہارورڈ کو دی جانے والی ۲.۲ ارب ڈالر سے زائد کی گرانٹس اور ۶۰ ملین ڈالر مالیت کے معاہدے منجمد کر دیے۔پھر صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں لکھا کہ’’ہارورڈ کو اپنی ٹیکس سے استثنائی حیثیت کھو دینی چاہیے۔‘‘ اسی دوران، محکمہ داخلہ (ہوم لینڈ سیکیورٹی ) نے ہارورڈ کے دو منصوبوں کی ۲ اعشاریہ ۷ ملین ڈالر کی گرانٹس بھی منسوخ کر دیں۔ ان اقدامات کے جواب میں ہارورڈ یونیورسٹی نے صدر ٹرمپ کی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی فنڈنگ کی بندش علمی خودمختاری اور آئینی آزادئ اظہار کے خلاف ہے۔ چینی طلبہ پر ویزہ بندش مئی کے آخر میں امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیرِخارجہ) مارکو روبیو نے اعلان کیا کہ امریکی حکومت بعض چینی طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے کا عمل شروع کرے گی۔ بین الاقوامی طلبہ کے لحاظ سے امریکہ میں چینی طلبہ کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے صرف بھارتی طلبہ کی تعداد ان سے زیادہ ہے۔صرف تعلیمی سال ۲۰۲۳-۲۰۲۴ء میں چین سے تعلق رکھنے والے ۲۷۰ ہزار سے زائد بین الاقوامی طلبہ نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی، جو ملک میں تمام غیر ملکی طلبہ کا قریباً ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں۔ سیکرٹری روبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکی محکمہ خارجہ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ساتھ مل کر ایسے چینی طلبہ کے ویزے تیزی سے منسوخ کرے گا جن کے چینی کمیونسٹ پارٹی سے تعلقات ہیں یا جو حساس شعبہ جات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حساس شعبہ جات میں سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ شامل ہیں۔ امریکی حکومت کا موقف تھا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی ان طلبہ کے ذریعے امریکی تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں ’’دانشورانہ جاسوسی‘‘میں ملوث ہے۔ تعلیمی حلقوں نے اس اقدام کو علم و تحقیق کی آزادی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے امریکہ کے اس فیصلے کو غیر معقول قرار دیا اور کہا کہ اس قسم کے اقدامات جن میں سیاسی اور امتیازی رنگ ہے امریکہ کے اُس جھوٹ کو بےنقاب کرتے ہیں کہ وہ آزادی اور وسعتِ خیال کا علم بردار ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چین نے اس معاملے میں امریکہ سے باقاعدہ احتجاج درج کروا دیا ہے۔ مزید پڑھیں: انسان کا سفر