https://youtu.be/_onBYtL6QU0 سید میر محمود احمد صاحب جماعت کے ان بزرگوں میں شامل ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے اخلاق، عمل اور تقویٰ سے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت اور حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان میں سے ہونے کا حق ادا کیا۔ آپ کی سیرت پر وہ احباب زیادہ بہتر طور پر لکھ سکتے ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ کام کیا یا آپ کی شاگردی کا شرف پایا اور لمبا عرصہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ راقم کو محض چار پانچ مواقع ہی نصیب ہوئے جن میں آپ کی سیرت کے بعض پہلو دیکھنے کی توفیق ملی۔ خلافت سے قدیمی تعلق: ۲۰۰۳ء میں خلافت خامسہ کے انتخاب کے بعد آپ اسلام آباد میں تشریف رکھتے تھے۔ اس موقع پر آپ نے بتایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ، حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اور اب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ، تینوں خلفاء کی خدمت میں انتخاب خلافت کے بعد دعا کا سب سے پہلا خط میرا پیش ہوا ہے۔ اطاعت خلافت: ۲۰۲۳ء میں جبکہ آپ کی عمر قریباً ۹۴سال تھی، آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ آپ کے کمرہ میں اطالوی زبان کا ایک چارٹ لگا ہوا تھا اور میز پر ڈکشنری بھی دھری تھی۔ آپ نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ زبان سیکھنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ اس وقت اس کا موقع نہیں ملا، اس لیے اب سیکھ رہا ہوں! پھر اٹالین میں ایک دو جملے بھی بولے۔ خلیفہ وقت کا ادب: ایک مرتبہ آپ نے ریسرچ سیل کے متعلق بتایا کہ جب بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کام کا ارشاد موصول ہوتا ہے تو ہم باقی سب کام روک کر پہلے حضور کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہیں پھر کوئی دوسرا کام کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کا یہ واقعہ بھی درج کرنا مناسب ہو گا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت، غالباً حضرت خلیفۃالمسیح الثالث،ؒ نے آپؓ کو کسی تحریر کا ترجمہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ آپؓ کو یہ حکم شام کو موصول ہوا اور اسی وقت ترجمہ شروع کر دیا۔ کسی نے آپؓ کو کہا کہ اب شام ہو گئی ہے اور تحریر لمبی ہے صبح کر لیں۔ ان کا خیال تھا کہ کام اتنا زیادہ ہے کہ آج تو ویسے بھی مکمل نہیں ہو سکتا اس لیے حضرت چودھری صاحبؓ ابھی آرام کر لیں۔ اس پر حضرت چودھری صاحبؓ نے جواب دیا کہ شروع ابھی کر لیتے ہیں مکمل کل کر لیں گے۔ مراد یہ کہ خلیفہ وقت کے حکم کی فوری تعمیل ضروری ہے، اگر زیادہ کام ہو تب بھی کم از کم آغاز فوری طور پر کردینا چاہیے۔ وقف زندگی کا فیصلہ: اپنے والد، حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ، کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ بتایا کہ اس روز حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تقریر فرمائی جس میں والد صاحب کی خوبیوں کا ذکر تھا اور آپ کے جانشینوں کی ضرورت کا بھی۔ میر صاحب فرمانے لگے کہ میں نے اسی وقت زندگی وقف کردی۔ حضرت مصلح موعودؓ اس پر بہت خوش ہوئے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور میر صاحب کا جواب: اسی ضمن میں یہ بھی بیان کیا کہ حضرت میر اسحاق صاحبؓ وفات سے ایک دن قبل تک بھی خدمت دین میں مصروف رہے۔ پھر بتایا کہ ایک مرتبہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ میرے کمرے میں تشریف لائے جبکہ میں اپنے کمرے میں بالکل اکیلا تھا اور وہاں کوئی اور نہیں تھا۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ ‘‘میں آپ کے لیے کیا دعا کروں؟’’اس پر میں نے عرض کیا کہ حضور !آپ دعا کریں کہ مجھے زندگی کے آخری لمحہ تک خدمت کرنے کی توفیق ملے۔ حضور کا خود آپ سے دریافت فرمانا کہ میں آپ کے لیے کیا دعا کروں، اس سے بڑھ کر خوشنودی کا اظہار کیا ہو سکتا ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نظر میں خدمت دین کی کیا اہمیت تھی۔ اس وقت آپ دین و دنیا کی جو نعمت چاہتے مانگتے لیکن آپ نے خواہش کی تو صرف یہ کہ آخری وقت تک خدمت کی توفیق ملے۔ وقت کی تقسیم: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اکثر نصیحت فرماتے ہیں کہ دن کو منظم کیا جائے اور وقت درست طریق پر خرچ ہو۔ میر صاحب اس سلسلے میں بھی ایک نمونہ تھے۔ ایک مرتبہ بتایا، یہ ۲۰۲۳ء کی بات ہے جب آپ ۹۴ سال کے تھے اور ریٹائر ہو چکے تھے، کہ میں نے اپنے دن کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ ہر نماز کے بعد ایک کام مقرر کیا ہوا ہے کہ فجر کے بعد فلاں کام کرنا ہے، ظہر کے بعد فلاں وغیرہ۔ ان کاموں میں ڈاک دیکھنا، مضامین کی تصحیح وغیرہ شامل تھے۔ عشاء کے بعد اطالوی زبان سیکھنے کا وقت مقرر تھا۔ وقت کا استعمال: ۲۰۱۹ء میں ایک جماعتی پروگرام میں شمولیت کے لیے ربوہ جانے کی توفیق ملی۔ آغاز سے میرے پیش نظر یہ بات تھی کہ میر صاحب کی خدمت میں کچھ مضامین پیش کروں گا۔ آپ کو بھی ان میں بہت دلچسپی تھی۔ لیکن سارا دن پروگرام میں مصروف گزرتا۔ ہماری رہائش اور پروگرام دونوں تحریک جدید کے احاطہ میں تھے۔ چنانچہ اس مسئلہ کا یہ حل نکالا گیا کہ میں نمازیں مسجد مبارک میں پڑھتا۔ آپ نماز کے بعد گھر جاتے وقت گاڑی میں مجھے ساتھ بٹھا لیتے اور میں مسجد مبارک سے آپ کے گھر تک گاڑی کے چند منٹ کے سفر کے دوران مضمون پڑھتا جاتا۔ آپ تبصرہ فرماتے جاتے۔ گھر پر آپ گاڑی سے اتر جاتے اور گاڑی مجھے گیسٹ ہاؤس چھوڑ دیتی۔ ‘‘جماعتی کام کو فوقیت حاصل ہے’’: انہی دنوں میں نے عرض کیا کہ کل جمعہ ہے اور شام کو فارغ وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کے بعد مغرب تک وہ گھڑی آتی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے اس دوران ہم بات نہیں کرتے! میں خاموش ہوگیا۔ چند سیکنڈ کے وقفہ کے بعد آپ نے مزید فرمایا ‘‘لیکن جماعتی کام کو فوقیت حاصل ہے۔’’ آپ فارغ ہو کر آ جائیں حضور کا خطبہ اکٹھے دیکھیں گے اور اس کے بعد کام کر لیں گے۔ چنانچہ اس روز حضور کا خطبہ میر صاحب کے ساتھ آپ کے گھر پر ہی سنا۔ اور اس کے بعد مضامین سنائے۔ جماعتی کام کی اہمیت کے علاوہ اس جگہ بھی یہ سبق ملتا ہے کہ اس حدیث کو سن لینا کافی نہیں بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے یہ وقت خاموشی سے دعاؤں میں گزارنا چاہیے۔ آپ اس پر باقاعدگی کے ساتھ عمل کرتے تھے۔ لیکن یہ ایک انفرادی اور نفلی عبادت ہے، اس لیے آپ نے جماعتی کام کو فوقیت دی۔ انکسار: آپ جماعت میں ہر لحاظ سے ایک بلند مقام پر فائز تھے۔ اعلیٰ جماعتی عہدیدار تھے، جماعت میں معروف بزرگ خاندان سے تعلق تھا۔ لیکن نہایت خاکسار طبیعت کے مالک تھے۔ لباس بھی نہایت سادہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ایک ہال نما بڑے سے کمرے میں ایک میز کے سامنے کرسی پر بیٹھے بائبل کی تفسیر میں سے کوئی حوالہ تلاش کررہے تھے۔ آپ کے عقب میں چند کتابیں رکھی تھیں۔ قریب ہی کچھ میز، کرسیاں لگی تھیں جن پر دیگر کارکنان کام کررہے تھے۔ بس۔ یہ آپ کا دفتر تھا۔ نہ قیمتی میز نہ آرام دہ کرسی نہ قالین۔ یہ محض چند سال پرانی بات ہے جب کہ جماعت اللہ کے فضل سے سب کچھ مہیا کر سکتی تھی۔ بعض لوگ جب اپنے ‘‘سٹیٹس’’(جو پتا نہیں کس بلا کا نام ہے) کے مطابق فرنیچر اور دفتر پر اصرار کرتے ہیں تو وہ نظارہ یاد آ جاتا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں انتخاب خلافت کے موقع پر آپ لندن تشریف لائے تو میری بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح آپ کی خدمت کا کوئی موقع مل جائے۔ لیکن آپ کوئی موقع نہ دیتے۔ آخر ایک نماز کے بعد بس اتنا موقع ملا کہ آپ کے جوتے اٹھا کر لا دیے۔ اس پر آپ ناراض ہوئے کہ ایسا کیوں کیا ہے۔ جماعت کی علمی ترقی کی کوشش:جماعت میں علمی اور تحقیقی میدان میں ترقی کی آپ کو بہت خواہش تھی۔ اور یہی بات میرے آپ کے ساتھ پہلے تعارف کا باعث بنی۔ آپ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شریک ہوئے۔ غالباً ۲۰۰۱ء کی بات ہے۔ اس جلسہ پر ہم چند دوستوں نے ایک خصوصی اجلاس تحقیقی مضامین کے لیے رکھا ہوا تھا۔ آپ کو اس کا علم ہوا تو سب دوسری مصروفیات چھوڑ کر تشریف لائے۔ خاکسار نے اس اجلاس میں ایک مضمون پڑھا جو احادیث کے بارے میں جرمن علماء کی تحقیق پر مشتمل تھا۔ آپ کو اس مضمون میں دلچسپی تھی۔ بعض امور بھی دریافت فرمائے۔ اس کے بعد جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ریسرچ سیل کا انچارج مقرر فرمایا تو آپ نے خاکسار کو بھی اس میں شامل فرمایا۔ اس سیل کا ایک رسالہ ‘‘موازنہ مذاہب’’ بھی آپ کی نگرانی میں نکلنا شروع ہوا۔ آپ کے ارشاد پر میں نے اس میں چند مضامین بھی لکھے۔ آپ کئی مرتبہ افسوس کا اظہار فرماتے کہ ہمارے ہاں علمی تحقیق کی طرف وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہیے۔ بلکہ ایک مرتبہ نام لیے بغیر ناراضگی کا اظہار بھی کیا کہ بعض لوگ علماء کہلاتے ہیں لیکن بنیادی باتوں کا علم نہیں۔ بی بی سے تعلق: آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کا داماد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ اور ہمیشہ اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی ہونے کی وجہ سے بھی بہت عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ لمبی رفاقت کے بعد جب ان کی وفات ہوئی تو آپ ان کی کمی محسوس کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے خاکسار کو گھر پر بلایا۔ پھر میرے منع کرنے کے باوجود چائے، کباب، بسکٹ لے آئے اور بار بار ذکر کرتے کہ جب بی بی تھیں تو وہ مہمان نوازی کرتی تھیں،بی بی فلاں چیز بناتی تھیں، وغیرہ۔ بی بی صاحبہ کی خواہش تھی کہ وہ حضرت مصلح موعودؓ کی معیت میں حضورؓ کے آخری دورہ یورپ میں جن جگہوں پر گئی تھیں ان سب جگہوں کو دوبارہ دیکھیں۔ چنانچہ اس خواہش کے احترام میں ہی آپ نے یورپ کا دورہ کیا اور انہیں تمام جگہوں پر لے کر گئے۔ اس دورہ میں میری ہمشیرہ اور بہنوئی کو آپ کی خدمت کی بہت توفیق ملی۔ آپ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کرتے تھے۔ پانچ بیٹیاں: ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ میری پانچ بیٹیاں ہیں۔ ایک اللہ نے دی ہے اور چار میں نے بنائی ہیں۔ مراد یہ تھی کہ ایک بیٹی ہے اور چار بہوئیں ہیں جو شادی ہو کر آئیں اور بیٹیاں بنی ہیں۔ پھر بیٹی کی بہت تعریف فرمائی اور اظہار خوشنودی کیا۔ دعاؤں کے متعلق ایک جواب: ایک مرتبہ ایک دوست نے آپ سے دعا کی درخواست کی۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ آپ احمدی ہیں؟ میں حیران ہوا کہ آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ وہ احمدی ہے۔ بہرحال وہ دوست کہنے لگے کہ جی الحمدللہ! اس پر آپ نے فرمایا کہ میں ہر نماز میں ‘‘اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ’’ کی دعا کرتا ہوں، اس میں سب احمدی شامل ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اگر تو کوئی خاص مقصد پیش نظر ہو اور اس کے لیے دعا کی درخواست کی جائے تو وہ الگ بات ہے۔ ورنہ عمومی طور پر جو لوگ دعا کے لیے کہتے ہیں، ان کے لیے ‘‘اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ’’ سے بہتر اور کوئی دعا نہیں۔ اور یہ دعا ہر نماز میں متعدد بار ہے۔ اس آیت کو پڑھتے وقت ساری جماعت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ آخری ملاقات: ۲۰۲۳ء میں ربوہ میں آپ کے ساتھ آخری ملاقات ہوئی۔ یہ عجیب ملاقات تھی۔ مجھے شدت سے خیال تھا کہ یہ وجود حضرت مسیح موعودؑ اور ہمارے درمیان قریب ترین جسمانی رابطہ ہے۔(حضرت مسیح موعودؑ میر صاحب کے سگے پھوپھا تھے۔)خدا جانے آج کے بعد ملاقات نصیب ہو نہ ہو۔ چنانچہ جذبات پر قابو رکھنا مشکل تھا۔ جب سب لوگ چلے گئے اور آخر پر میں کمرے میں اکیلا رہ گیا۔ تو الوداعی سلام کہنا مشکل ہو گیا۔ کوئی لفظ میرے منہ سے نہ نکل سکا، آنکھوں نے البتہ حکایتِ دل بیان کر دی۔ آپ کافی دیر تک خاموشی سے میری طرف دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ اب پتا نہیں کب ملاقات ہو گی؟ آپ نے اطمینان سے فرمایا : آنحضور ؐ کے قدموں میں ملیں گے۔ میرا دل پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے اس کے بعد تو یقین ہو گیا۔ تب میں نے پہلی اور آخری مرتبہ آپ سے تبرک کی درخواست کی جس پر آپ نے فوراً اپنا رومال عنایت فرمایا۔ اس کے بعد ذاتی یا جماعتی طور پر متعدد بار پاکستان جانے کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن میں ہر دفعہ دعا کرتا کہ کاش !مجھے نہ جانا پڑے کیونکہ مجھے یقین تھا کہ اب آپ سے اس دنیا میں ملاقات نہ ہو گی۔ آخر ایسا ہی ہوا۔ جب آپ کی وفات کی خبر ملی تو وہ نظارہ آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ۔ وَّیَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَالۡاِکۡرَامِ۔ اللہ کرے کہ میر محمود احمد ناصرصاحب کی اولاد کو ان کی جانشینی کا حق ادا کرنے کی توفیق ملے۔ آمین ثم آمین مزید پڑھیں: ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب مربی سلسلہ کا ذکر خیر