https://youtu.be/QtaFW7rCtQ0 (خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍اپریل ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: گذشتہ جمعہ بھی مَیں نے دعا کا مضمون ہی حضرت مسیح موعودؑ کے حوالوں کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ دعائیں کس طرح ہونی چاہئیں، ان کی حکمت، ان کی فلاسفی کیا ہے۔ یہی دعا کامضمون آج بھی جاری ہے… اس وقت مَیں بعض قرآنی اور مسنون دعاؤں اور حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کو بھی دہراؤں گا ان دعاؤں پر صرف یہاں آمین کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ ان پر ہمیں مستقل توجہ دینی چاہیے اور غور کرکے اضطرار کے ساتھ پڑھنا بھی چاہیے۔ اس کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ الفاتحہ کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: سب سے پہلے تو سورۃ فاتحہ ہے۔ صرف نماز میں ہی نہیں ویسے بھی اسےدہراتے رہنا چاہیے۔ جوبلی کی دعاؤں میں ہم نے یہ مقرر کی تھی سورۂ فاتحہ بھی لوگ ساتھ دہراتے تھے۔ دوسرےعادت پڑ جانی چاہیے کہ انسان مستقل دہراتا رہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ سورۂ فاتحہ کی ایک خصوصیت یہ ہے ’’اس کو توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلمانی پردوں کو اٹھاتا ہے۔‘‘ جو اندھیرے دل پہ چھائے ہوئے ہیں ان کو دُور کرتا ہے ’’اور سینے کو منشرح کرتا ہے۔‘‘ انشراح بخشتا ہے۔ تسلی دلاتا ہے ’’اور طالبِ حق کو حضرتِ احدیت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقربان حضرت احدیت میں ہونی چاہئے‘‘ اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کی طرف لے جاتاہے۔ اگر انسان غور سے پڑھے تو جو قرب اللہ تعالیٰ کے مقربین کا ہوتا ہے ویسا قرب مل سکتا ہے، یہ نہیں کہ ہمیں نہیں مل سکتا ’’اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘پس سورۂ فاتحہ کو بڑے غور سے اور سمجھ کر پڑھنے اور ورد کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے بلکہ اگر غور کیا جائےتو اس میں بیان دعائیں ہی انسان میں اضطرار کی حالت پیدا کر دیتی ہیں۔ سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیاوآخرت میں حسنات کےحصول کےلیےدعا کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: قرآن کریم کی ایک دعا ہے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیا حَسَنَةً وَّ فِی الۡاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : 202)اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ اس کے بارے میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے‘‘ مومن کا نصب العین دین ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کی نظر میں دنیا کے تعلقات بھی اس کو مرتبے عطا کرتے ہیں کیونکہ دین مقدم ہوتا ہے ’’اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو۔ اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔‘‘ فرمایا ’’…اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیا حَسَنَةً وَّ فِی الۡاٰخِرَةِ حَسَنَةً (البقرة:202) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے۔‘‘ پہلے دنیا رکھی ہے ’’لیکن کس دنیا کو؟…جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جاوے۔‘‘ وہ دنیا مقدم ہے جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے۔ ’’اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرة کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حسنة الدنیا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئے۔‘‘ دنیا کے لیے حسنات مانگیں گے تو پھر آدمی دنیا کمانے کے لیے غلط کام نہیں کر سکتا۔ دین مقدم ہوگا، اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوگی تو پھر اس کے مطابق انسان کام کرے گا۔ فرمایا ’’دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اورخوبی ہی ہو نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو۔ نہ ہم جنسوں میں کسی عار وشرم کا باعث۔ ایسی دنیا بے شک حسنة الآخرت کا موجب ہوگی۔‘‘پس اس دنیا کو حاصل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ ہوگا تو تب ہی ہم دعا سے حقیقی فیض پانے والے ہوں گے۔ ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہماری جماعت کو یہ دعا آج کل بہت مانگنی چاہئے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیا حَسَنَةً وَّ فِی الۡاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔اس لیے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بنیں۔ اس لیے بھی کہ ہم دشمنوں کی بھڑکائی ہوئی آگ سے محفوظ رہیں اور آج کل تو دنیا کے جو حالات ہیں، جنگوں میں بھی ایسے ہتھیاراستعمال ہوتے ہیں جو آگ پھینکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آگ سے بھی بچائے اور دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حسنات عطا فرمائے۔ پس اپنے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی احمدیوں کو بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبرکےحصول اورمضبوطی ایمان کےلیےکون سی دعائیں بیان فرمائیں؟ جواب: فرمایا: قرآنی دعا ہے۔ رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرة:251) اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔ کسی قسم کا خوف اور حالات ہمارے قدموں کو ڈگمگانہ دیں۔ اس دعا کا بھی بار بار اور اضطرار کے ساتھ ورد کرنا چاہیے کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِہٖ وَ اعۡفُ عَنَّا وَ اغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرة:287)اے ہمارے رب! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے اور اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیساکہ ہم سے پہلے لوگوں پران کے گناہوں کے نتیجے میں تُو نے ڈالا اور اے ہمارے رب! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابلے پر نصرت عطا کر۔ایمان کی مضبوطی کے لیے یہ دعا بھی بہت پڑھنی چاہیے رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَةً اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ۔(آل عمران:9)اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تُو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر یقیناً تُو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آنحضرتﷺکی دعاؤں کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی بعض دعاؤں کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے ایسی دعا سکھائیں جس کے ذریعے میں اپنی نماز میں دعا مانگوں۔ آپؐ نے فرمایا تم کہو اَللّٰهُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا كَثِیرًا، وَلَا یغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِیْ مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِیْ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔اے اللہ! مَیں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا اور کوئی گناہ نہیں بخش سکتا سوائے تیرے۔پس تُو اپنی جناب سے میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ یقیناً تُو ہی بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔پھر مصعب بن سعدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی بات سکھائیے جو مَیں کہا کروں آپؐ نے فرمایا یہ کہا کرو کہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیْكَ لَهُ، اَللّٰهُ اَكْبَرُ كَبِیْرًا، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِیْرًا، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے لیے بہت حمد ہے۔ پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا ربّ ہے نہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی قوت ہے مگر اللہ کو جو غالب بزرگی والا اور خوب حکمت والا ہے۔ اس بدوی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ تو میرے ربّ کے لیے ہیں۔ اس کی تعریف مَیں کر رہا ہوں۔ میرے لیے کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ کہا کرو کہ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاهْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ۔کہ اے اللہ! مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔ ایک دوسری روایت میں بیان ہے کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو نبی کریم ﷺ اسے یہ دعا سکھایا کرتے تھے۔ ابو مالک اشجعیؓ اپنے والد سے اس کی روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اسلام لاتا تو نبی ﷺ اسے نماز سکھاتے۔ پھر آپؐ اسے ارشاد فرماتے کہ ان کلمات کے ذریعے دعا کرے۔ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیْ، وَارْحَمْنِیْ، وَاهْدِنِیْ، وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِیْ۔ اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت دے اور مجھے عافیت سے رکھ اور مجھے رزق عطا کر۔اب دو سجدوں کے درمیان جو دعا ہے اس میں بھی ہم یہ دعا پڑھتے ہیں لیکن لوگ تو صرف سجدے سے اٹھتے ہیں اور پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ دعا کرتے ہی نہیں۔ ان کے نزدیک تو اس کی اہمیت ہی کوئی نہیں لگتی حالانکہ اس پر بڑا غور کر کے سمجھ کے پڑھنی چاہیے۔ سوال نمبر۶:حضرت اقدس مسیح موعودؑ نےحصول حضور کےطریق کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: مولوی نذیر حسین صاحب سخاؔ دہلوی نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھا کہ حصولِ حضور کا کیا طریقہ ہے ؟کس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا کریں۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑنے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ طریق یہی ہے کہ نماز میں اپنے لئے دعا کرتے رہیں اور سرسری اور بے خیال نماز پر خوش نہ ہوں بلکہ جہاں تک ممکن ہو توجہ سے نماز ادا کریں اور اگر توجہ پیدا نہ ہو تو پنج وقت ہر یک نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور میں بعد ہر رکعت کے کھڑے ہو کر یہ دعا کریں۔‘‘ یعنی جب قیام کرتے ہیں اس وقت یہ دعا کریں ’’کہ اے خدائے تعالیٰ قادر ذوالجلال! مَیں گنہگار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ و ریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں ہو سکتا تُو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دُور ہو کر حضور نماز میں میسر آوے۔ سوال نمبر۷:حضرت اقدس مسیح موعودؑ نےنمازمیں توجہ پیداکرنے کی بابت کیادعابیان فرمائی؟ جواب: فرمایا: نماز میں توجہ پیدا کرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ ایک جگہ آپؑ نے یہ دعا کی ہے کہ ’’اے میرے محسن اور میرے خدا! مَیں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُرغفلت ہوں تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پرگناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اَور کوئی چارہ گر نہیں۔آمین‘‘یہ ایسی دعا ہے جسے مَیں سمجھتا ہوں روزانہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ دعا آپؑ نے حضرت خلیفة المسیح الاوّل ؓ کے نام ایک خط میں لکھی تھی۔ ان کا مقام دیکھ کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کس توجہ سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو اگر یہ دعا لکھی تھی تو ہمیں اَور بڑھ بڑھ کے یہ دعا توجہ سے کرنی چاہیے۔ دل سے نکلی ہوئی دعا ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کوبھی کھینچنے والی ہوگی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ برطانیہ، کینیڈا اور بیلجیم کی مجالس شوریٰ سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اسلام آباد، ٹلفورڈ سے آن لائن خطاب کا خلاصہ