(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۸؍نومبر ۲۰۲۴ء) بعض لوگ ایسے ہیں جب کوئی بھی تحریک کی جائے یا جب تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کا اعلان ہوتا ہے تو قرض لے کر بھی رقم ادا کر دیتے ہیں حالانکہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قرض لے کر ادا کریں۔ اور کوئی خوف نہیں ان کو ہوتا۔ ان کو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ہی پورا بھی کر دے گا۔ پس جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے بڑے قربانی کرنے والے عطا فرمائے ہوئے ہیں۔غیروں کی طرح یہ نہیں ہے کہ پانچ دس روپے دے کر پھر سو دفعہ مسجد میں اعلان کروائیں۔ ایسے بہت سے واقعات میرے سامنے آتے ہیں جہاں لوگ بڑھ چڑھ کر قربانیاں دینے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ اس میں افریقہ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں۔غریب لوگ تو بہت بڑی قربانی کر کے چندے دیتے ہیں۔ گو ان کی قربانیاں بظاہر مالی لحاظ سے، رقم کے لحاظ سے بہت چھوٹی ہوتی ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت بڑی قربانیاں ہیں۔ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ ایک درہم ہزار درہم سے سبقت لے گیا یا ایک لاکھ درہم سے سبقت لے گیا۔(سنن النسائی،کتاب الزکاۃ باب جھد المقل حدیث 2528) اور یہ روح دور دراز رہنے والے غریب ملکوں کے لوگوں میں بھی ہے کہ مالی قربانیاں دینے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ انہیں ہر قسم کے خوف سے بھی دور کرتا ہے اور ان کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ مثلاً …جرمنی کی جماعت روڈگاؤ (Rodgau) کے صدر کہتے ہیں ہماری جماعت کا ٹارگٹ جو تھا وہ ہم نے پورا کر لیا۔ وہاں آجکل مسجد بنا رہے ہیں۔ وہاں خدام الاحمدیہ کے قائد نے اس کا بھی ہمیں کہا کہ ہمیں اس کے لیے مزید رقم اکٹھی کرنی چاہیے اور ہمارے ہاں پوٹینشل (potential) ہے، لوگوں میں چندہ دینے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح ہمیں تحریکِ جدید کی قربانی میں بھی بڑھنا چاہیے۔ اس میں بھی ہمارا معیار بہتر ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں 2019ء سے ہم نے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینی شروع کی تھی۔ اس وقت ہمارا جو چندہ چند ہزار یورو تھا اب اتنا بڑھا کہ وہ لاکھوں میں چلا گیا اور لوگوں نے خوشی سے قربانی دی۔ بعض لوگوں کو اس طرح تحریک پیدا ہوئی کہ بعض واقفینِ زندگی نے یہ اعلان کیا کہ ہم اپنا ایک ماہ کا الاؤنس جماعت میں چندہ دے دیں گے۔ ایک صاحب کہتے ہیں مجھے یہ سوچ کر بڑی شرم آئی کہ ایک واقفِ زندگی اپنا الاؤنس دے رہا ہے اور میں بیشمار رقم کماتا ہوں میں کیوں نہیں ایسی بڑی قربانی کر سکتا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ جو رقم ملی بہت بڑی تھی وہ میں نے جماعت کو چندے میں دے دی۔ اگلے سال اپنے وعدے کو اَور بڑھا کر پیش کیا بلکہ دوگنا کر دیا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا دیا۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ مجھے بڑے اچھے کانٹریکٹ ملنے لگ گئے اور ہزاروں یورو جو تھا چالیس پچاس ہزار یورو تک مجھے چندہ ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اس کا یہ اثر بھی ساتھ ہوا کہ کیونکہ نیکی کی جاگ لگ گئی تھی، اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا تو انہوں نے اپنے ذاتی اخراجات بہت کم کر دیے اور خود سادہ کپڑوں میں گزارا کرنے لگے اور بالکل سادہ زندگی گزارنے لگے اور مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ سیکرٹری مال کہتے ہیں کہ ہم حیران ہوتے تھے کہ ان کی ظاہری حالت ایسی نہیں لیکن قربانیاں بیشمار کر رہے ہیں۔ اس پر مجھے ایک پرانا واقعہ بھی یاد آ گیا۔ کراچی میں ہمارے ایک بزرگ دوست شیخ مجید صاحب تھے۔ وہ بہت بڑی مالی قربانیاں کیا کرتے تھے اور اپنے گھر کے اخراجات کے لیے رقم رکھ کر باقی تمام تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے زمانے میں انہوں نے قرآن کریم کی اشاعت کے لیے اور باقی تحریکات کے لیے بہت بڑھ چڑھ کر قربانی کی تھی اور وہ یہی کہا کرتے تھے کہ میں تو جو کاروبار کرتا ہوں وہ تو کرتا ہی جماعت کے لیے ہوں۔ پس ایسے لوگ بھی جماعت میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہوئے ہیں اور پیدا کرتا چلا جا رہا ہے جو کماتے بھی اس لیے ہیں کہ جماعتی ضروریات کو پورا کیا جائے نہ یہ کہ پیسے اکٹھے کیے جائیں۔ قادیان کے وکیل المال لکھتے ہیں کہ کیرالہ کے ایک صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میرے بڑے بُرے حالات تھے۔ کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ آخر میں نے سوچا کہ اَور تو کچھ نہیں، کپڑے کا کام شروع کرتا ہوں اور فٹ پاتھ پر ہی ایک میز لگا کر کام شروع کر دیا اور چندے کی ادائیگی باقاعدہ شروع کر دی۔ باقاعدہ حساب کر کے چندہ دیتے تھے۔ جو بھی آمد ہوتی تھی اس میں اللہ کے فضل سے بڑی برکت پڑی اور کہتے ہیں اب میں بڑی بڑی رقمیں چندے میں دیتا ہوں۔ کاروبار بھی دو تین سال میں وسیع ہو گیا۔ جہاں دوسرے لوگوں کے کاروبار متاثر ہو جاتے ہیں حالات کی وجہ سے لیکن ان کے کام میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا رہا اور متاثر نہیں ہوئے۔ یہ ہیں چندہ دینے کی برکات۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی بھی کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کام میں برکت ڈال دیتا ہے اور ہم کام کرتے ہیں ہماری برکت اتنی نہیں پڑتی۔ اگر نیک نیت ہو تو اللہ تعالیٰ فائدہ پہنچاتا چلا جاتا ہے۔ پس احمدی کو یہی فائدہ ہے کہ قربانی اللہ تعالیٰ قبول کرتاہے اور ساتھ پھر جو دعائیں ہیں وہ قبول کرتا ہے اور اس کی برکات پھر ظاہر ہوتی ہیں۔ مزید پڑھیں: نماز کی اہمیت