اسلام نے قرض دینے والوں کوبھی بتا دیا کہ کس طرح قرض دینے کے بعد واپس لینے کا تقاضا کرنا ہے اور لینے والوں کو بھی بتا دیا کہ تم نے کس طرح حسنِ ادائیگی کی طرف توجہ دیتے ہوئے معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنا ہے یا اپنا مقام بلند کرنا ہے۔ قرآن کریم نے اتنی گہرائی میں جا کر انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے لین دین جو قرض کی صورت میں ہو اس کا حساب رکھنے کا طریق سکھایا ہے کہ اگر نیت نیک ہو تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ فریقین کو کسی بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معین مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اب یہ دیکھیں کتنا خوبصورت حکم ہے، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں بڑا اعتبار ہے، کیا ضرورت ہے لکھنے کی، ہم تو بھائی بھائی کی طرح ہیں۔ لکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ بے اعتباری ہے اس طرح سے تو ہمارے اندر دُوری پیدا ہو گی اور ہمارے اندر رنجشیں بڑھیں گی۔ اور ہمار ے آپس کے تعلقات خراب ہوں گے۔ تو یاد رکھیں کہ اگر تعلقات خراب ہوتے ہیں اور اگر تعلقات خراب ہوں گے تو تب ہوں گے جب قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے نہ کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے۔ بعض دفعہ یہ لکھتے ہیں یا کہتے ہیں کہ چھوٹی رقم کا لین دین ہے اس کو کیا لکھنا ہمیں تو شرم آتی ہے کہ اتنی چھوٹی سی رقم کے بارے میں لکھیں کہ اتنا قریبی تعلق ہے اور اتنی چھوٹی سی رقم کے لئے تحریر لی جائے۔ یا پھر کوئی چیز استعمال کے لئے لی ہے اس کے بارے میں تحریر لی جائے مثلاً بعض دفعہ بیاہ شادیوں وغیرہ پر بھی ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کے لئے لی جاتی ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ وہ بھی لکھ لینی چاہئیں کیونکہ ان میں بھی بعض دفعہ بدظنیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعد کی بدظنیوں سے بچنے کے لئے بہترین طریق ہے کہ چھوٹی سی تحریر بنا لی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم تو ہے کہ لین دین چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ان جھگڑوں سے بچنا ہے تو لکھا کرو۔ جیسا کہ فرمایا کہ وَ لَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖکہ لین دین خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد پر یعنی جب تک کا معاہدہ ہے وہ بھی لکھو اور معاہدے کی تفصیل بھی لکھو، اور اس سے اکتانا نہیں چاہئے۔ یا اس کو معمولی چیز نہیں سمجھنی چاہئے۔ کیونکہ اکتانے کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کسی وقت بھی تمہارے اندر بدظنیاں پیدا کر دے گا اور بظاہر جو تم بلند حوصلگی کا مظاہرہ کر رہے ہو یا جو تم نے کیا ہے یہ تمہیں ایک وقت میں ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دے گا کہ بلند حوصلگی تو ایک طرف رہی تم ادنیٰ اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کر رہے ہو گے۔ اور اس طرح عموماً ہوتا ہے، عموماً یہ باتیں ہوتی ہیں… یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ہے۔(خطبہ جمعہ ۱۳؍اگست ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍ستمبر۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: کیا دنیاوی تکالیف و مصائب صرف مومن کے لیے ہیں؟