ادائے قرضہ اور امانت کی واپسی میں بہت کم لوگ صادق نکلتے ہیں اور لوگ اس کی پروا نہیں کرتے حالانکہ یہ نہایت ضروری اَمر ہے۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس پر قرضہ ہوتا تھا۔دیکھا جاتا ہے کہ جس التجا اور خلوص کے ساتھ لوگ قرض لیتے ہیں اسی طرح خندہ پیشانی کے ساتھ واپس نہیں کرتے بلکہ واپسی کے وقت ضرور کچھ نہ کچھ تنگی ترشی واقع ہوجاتی ہے۔ایمان کی سچائی اسی سے پہچانی جاتی ہے۔ ( ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۲۱۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ایک شخص نے اپنے قرض کے متعلق دُعا کے واسطے عرض کی۔ فرمایا: استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سُبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے نیز استغفار کلیدِ ترقیات ہے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۴۲ ایڈیشن ۱۹۸۸ء) ایک طرح کا سُود اسلام میںجائز ہے یہ کہ قرض دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے تو مروّت کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دیوے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے۔اگر دس روپے قرض لیے تو ادائیگی کے وقت ایک سو تک دے دیا کرتے۔سُود حرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اوّل ہی کر لی جاویں۔ ( ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۷۷، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) قرآن شریف میں صرف اِسی قدر نہیں لکھا کہ دُنیا کے تمام بزرگوں کا نام عزت سے لو بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ ہر ایک قوم سے ہمدردی کروجیسا کہ اپنی قوم سے۔ اِسی بنا پر مذہب اسلام میں جیسا کہ اپنی قوم سے سُود لینا حرام ہے ایسا ہی دوسری قوموں سے بھی سُود لینا حرام ہے بلکہ خدا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ نہ صرف سُود حرام ہے بلکہ اگر تمہارا قرض دار مفلس ہو تو اس کو قرض بخش دو یا کم سے کم یہ کہ اس وقت تک انتظار کرو کہ وہ قرض ادا کرنے کے لائق ہو جائے اور جیسا کہ قرآن شریف میں اپنی قوم کے لئے گناہ معاف کرنے کا حکم ہے ایسا ہی دوسری قوموں کے لئے بھی یہی حکم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے: وَلۡیَعۡفُوۡا وَلۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (النور:۲۳)یعنی لوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہیں معاف کرے اور تمہارے گناہ بخشے اوروہ تو غفور و رحیم ہے۔ (چشمۂ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۸۷) مزید پڑھیں: یہ جہان تو تخم ریزی کا جہان ہے