https://youtu.be/9NRKRjg4cf8 پیدل سے گھوڑے کی پشت پر اور جدید سواریوں کی قرآنی پیشگوئی ’’قرآن شریف کی پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ یعنی وہ آخری زمانہ جب اونٹنیاں بےکار ہو جائیں گی اور بےکار ہونا تبھی ہو تا ہے کہ جب ان پر سوار ہونے کی حاجت نہ ہو اور اس سے صریح طور پر نکلتا ہے کہ اونٹنیوں کی جگہ کوئی اور سواری پیدا ہو جائے گی۔‘‘(حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام) اللہ تعالیٰ سورۃ النحل میں فرماتا ہے: وَالۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَاۚ لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ۔ وَلَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَحِیۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ۔ وَتَحۡمِلُ اَثۡقَالَکُمۡ اِلٰی بَلَدٍ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا بٰلِغِیۡہِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِؕ اِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ۔ وَّالۡخَیۡلَ وَالۡبِغَالَ وَالۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَزِیۡنَۃً ؕ وَیَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔ (النحل: ۶تا ۹)ترجمہ: اور مویشیوں کو بھی اس نے پیدا کیا تمہارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کے سامان ہیں اور بہت سے فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے (بھی) ہو۔ اور تمہارے لیے ان میں خوبصورتی ہے جب تم انہیں شام کو چرا کر لاتے ہو اور جب تم انہیں (صبح ) چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہو۔اور وہ تمہارا بوجھ اٹھائے ہوئے ایسی بستی کی طرف چلتے ہیں جسے تم جانوں کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔یقیناََ تمہارا رب بہت ہی مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔اور گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کیے )تا کہ تم ان پر سواری کرو اور وہ بطور زینت (بھی) ہوں۔ اور نیز وہ (تمہارے لیے ) وہ بھی پیدا کرے گا جسے تم نہیں جانتے۔ اگر کوئی سرسری نظر سے جائزہ لے تو وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان آیات میں سے پہلی آیت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ان جانوروں کی کھالوں کو انسان اپنے لباس کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور سردی سے اپنا بچائو کرتے ہیں۔ اور ان کے گوشت کو کھاتے ہیں۔کوئی جلدی میں سوال کر سکتا ہے کہ اب تو اور طرز کا گرم لباس استعمال ہوتا ہے، جانوروں کی کھالوں کی کیا اہمیت؟ اور دوسری آیت میں مویشیوں کو پالنے اور انہیں چرنے کے لیے کھلا چھوڑنے کا ذکر ہے۔ اور تیسری اور چوتھی آیت میں بھی پرانے زمانے میں سواری اور سامان کی منتقلی کے لیے جانوروں کے استعمال کا ذکر ہے۔ اب تو اس غرض کے لیے جدید بحری اور ہوائی جہاز استعمال ہوتے ہیں۔ ریل گاڑیاں ہیں، ٹرک ہیں اور دوسرے ذرائع ہیں۔ البتہ ان آیات میں سےآخری آیت میں یہ ذکر ہے کہ خدا تمہارے لیے ایسی نئی سواریاں پیدا کرے گا جن کا ابھی تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔ اور ہم سب یہ جانتے ہیں کہ یہ اس دور کی ایجاد ہونے والی انواع و اقسام کی سواریوں کے بارے میں ایک عظیم پیشگوئی ہے جو پورا ہو کر ایک نشان بن چکی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید تحقیق اور علوم کی ترقی نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان آیات میں معجزانہ طور پر ایک خاص زاویہ سے جس کا تعلق انسان اور ان جانوروں اور مویشیوں سے ہے نسل انسانی کی ترقی کے بنیادی مراحل کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انسان ترقی کرتے ہوئے جانوروں کو اپنے استعمال میں لایا اور ان مراحل سے گذر کر انسانی ترقی جدید ایجادوں کے انقلاب تک پہنچی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت نسل انسانی کے لیے یہ سامان پیدا نہ کرتی تو نہ انسان ترقی کر کے موجودہ حالات تک پہنچتا اور نہ ہی ان جدید سواریوں کی ایجاد کی نوبت آتی۔ نسل انسانی کی ابتدا: سب سے پہلے سورہ نحل آیت ۶ میں بیان کردہ مضامین کا جائزہ لیتے ہیں کہ انسان نے ان مویشیوں یا جانوروں کی کھالوں کو سردی سے بچنے کے لیے اور ان کے گوشت کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کیا۔ یہ دور ہماری نسل انسانی جسے سائنسی طور پر Homo Sapiensکہا جاتا ہے کا پہلا دور تھا۔ ابھی وہ مرحلہ شروع نہیں ہوا تھا جس کا آیت نمبر سات میں ذکر ہے کہ انسان ان مویشیوں کو پالنا شروع کرتا تا کہ ان سے اور وسیع پیمانے پر اپنی خوراک حاصل کرے۔ اور ظاہر ہے کہ پھر اس کے بھی بعد کا وہ مرحلہ شروع نہیں ہوا تھا جس کا ذکر آیت نمبر ۸ اور ۹ میں ہے کہ انسان اتنی ترقی کر لے کہ ان جانوروں کو سواری اور باربرداری کے لیے بھی استعمال میں لائے۔اگرنسل انسانی ترقی کے ان مراحل سے نہ گذرتی تو جدید ایجادات کی نوبت ہی نہ آتی۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ نسل انسانی یعنی Homo sapiens کا آغاز آج سے دو سے تین لاکھ سال قبل ہوا۔یہ آغاز مشرقی افریقہ میں ہوا تھا۔اس وقت دنیا کے اکثر حصے میں انسان سے ملتی جلتی لیکن ذہنی طور پر پیچھے ایسی مخلوقات موجود تھیں جو کہ بعد میں نابود ہو گئیں۔ لیکن یہ اتنی ترقی یافتہ ضرور تھیں کہ اپنے بنائے خام نیزوں اور پتھر کے آلات سے اپنے سے بہت زیادہ بڑے جانوروں کا شکار کر سکیں۔ دوسرے الفاظ میں ایک ایسا دور بھی آیا تھا کہ ہماری نسل انسانی اور یہ نسبتی طور پر پسماندہ مخلوقات اکٹھی زمین پر آباد رہیں اور وسائل کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ بھی کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ ان ذہنی طور پر ترقی یافتہ مخلوقات میں صرف نسل انسانی یعنی Homo sapiens ہی بچ گئی اور باقی نسلیں نابود ہو گئیں۔ان میں خاص طور پر نینڈرتھل (Neanderthals) اور ڈینیسوونز (Denisovans) قابل ذکر ہیں۔یہ دونوں انسانوں سے زیادہ مضبوط جسم کے مالک تھے۔اور قدیم زمانوں میں کئی مقامات پر یہ سب نسلیں انسانوں کے ساتھ ایک وقت میں بہت سے علاقوں میں آباد رہیں۔ کھالوں سے گرمی: سورہ نحل آیت ۶ میں ذکر ہے کہ تم جانوروں سے گرمی حاصل کرتے ہو اور ان میں سے کچھ کو تو تم اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہو۔جہاں تک جانوروں کی کھالوں سے گرمی حاصل کرنے کا تعلق ہے تو ابتدائے انسانیت سے یہ دو طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک تو جانوروں کی کھالوں کو لباس کے طور پر استعمال کر کے سردی سے بچا جائے اور دوسرے یہ کہ جانوروں کی کھالوں سے خیمے اور گھروں کی ابتدائی حالت تیار کر کے پورے گھرانے کو سردی کی شدت سے بچایا جائے۔اس ضمن میں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کی کیا خاص اہمیت ہے؟ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ہماری نسل انسانی یعنی Homo sapiensکا زمین پر ظہور دو سے تین لاکھ سال قبل ہوا تھا۔اس دور میں زیادہ تر زمین پر برف کا راج تھا۔ یعنی زمین برف کے دور (Ice Age)سے گذر رہی تھی۔سائنسی طور پر اس دور کو Pleistocene Epochبھی کہا جاتا ہے۔یہ دور آج سے چھبیس لاکھ سال قبل شروع ہو کر گیارہ ہزار سات سو سال تک رہا۔اس دور میں خاص طور پر یورپ، ایشیا اور امریکہ کے اکثر علاقے برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ گو افریقہ میں نسبتی طور پر برف کا راج کم تھا۔سائنسی تحقیقات کے مطابق اسی دور میں نسل انسانی نے مشرقی افریقہ میں جنم لیا اور آج سے کم و بیش ستّر ہزار سال قبل اس خطے سے نکل کر پوری دنیا پر قبضہ کرلیا۔ابھی انسان نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ وہ کپاس یا کوئی اور فصل اگا کر اس سے اپنا لباس تیار کرتا۔ کیونکہ ابھی اس نے فصلیں اگانے یا جانور پالنے کا طریقہ سیکھا ہی نہیں تھا۔انسان ابھی اس دور سے گذر رہا تھا جسے سائنس کی اصطلاح میں Hunter and foragerکہا جاتا تھا۔ یعنی وہ صبح سے شام تک جانوروں کا شکار کرتا اور اس کے گوشت سے اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتا۔ یا پھر گھوم پھر کر قدرتی طور پر اگنے والےپھل جمع کرتا یا سبزیاں اکٹھی کرکے اپنی خوراک کا سامان مہیا کرتا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ہماری نسل انسانی کا آغاز مشرقی افریقہ سے ہوا تھا اورکافی عرصہ زمین پر نئی وارد ہونے والی یہ مخلوق مشرقی افریقہ تک محدود رہی۔جبکہ نینڈرتھل اور ان جیسی دوسری مخلوقات زمین کے باقی حصہ پر پھیل چکی تھیں۔ آج سے کم و بیش ستّر ہزار سال قبل اس نو وارد مخلوق نے مشرقی افریقہ سے نکل کر ایشیا اور یورپ میں آباد ہونا شروع کیا۔اس سے قبل نینڈرتھل (Neanderthals)نامی انسان سے ملتی جلتی مخلوق یورپ اور مغربی اور وسطی ایشیا میں آباد تھی۔ یہ مخلوق پتھر سے ہتھیار بنانا سیکھ چکی تھی اور ان ہتھیاروں کی مدد سے دوسرے جانوروں کا شکار کر کے ان کے گوشت کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتی تھی۔نینڈرتھل جسمانی طور پر انسان سے مضبوط تھے۔ لیکن پھر انسان نے ان کی جگہ اس کامیابی سے کس طرح لے لی کہ یہ مخلوق نابود ہی ہو گئی۔جبکہ نینڈرتھل اتنے ترقی یافتہ تھے کہ جانوروں کی کھالوں کو اوڑھ کر اپنے آپ کو سردی سے بچاتے تھے۔اور جب انسان سفر کرتا ہوا یورپ تک پہنچا تو وہاں پر ایک مخلوق ڈینیسوونز (Denisovans) بھی آباد تھی جو کہ نہ صرف کھالوں کے استعمال سے اپنے آپ کو سردی سے بچاتے تھے بلکہ ایک مقام پر ملنے والے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مخلوق آج سے پچاس ہزار سال قبل ہڈی سے سوئی بنانے کا فن بھی سیکھ چکی تھی۔ اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ اگر نینڈرتھل جسم کے اعتبار سے زیادہ مضبوط تھے اور کھالوں کو اوڑھ کراپنے آپ کو سرد موسم سے بچانے کا فن بھی جانتے تھے تو انسانوں کے مقابلہ پر ختم کس طرح ہو گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک حد تک سردی برداشت کر سکتے تھے۔ اور زیادہ شمال کے علاقوں میں ان کے لیے رہنا مشکل تھا۔ دوسرے ایک دور میں زمین پر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ زمین پر خاص طور پر شمالی نصف کرہ ارض پر درجہ حرارت تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگا اور ہوائیں زیادہ چلنے لگیں۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ان حالات میں اس مخلوق کو کئی شمالی علاقوں کو چھوڑ کر نیچے منتقل ہونا پڑا۔ اور ممکن ہے کہ اس طرح کی سردی اور ہوائوں کی وجہ سے ان میں اور ان کے کم عمر بچوں میں شرح اموات میں اضافہ ہوا ہو۔ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ نسل انسانی کو ان پر کیا برتری حاصل تھی کہ ان کی جگہ اس طرح لی کہ ان کا خاتمہ ہی ہو گیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے انسان ان کی نسبت کھالوں کو کاٹ کر اور انہیں سی کر بہتر طرز کا لباس بنا سکتا تھا۔ انسان نے ایسا لباس بنانا سیکھاجو صرف اوڑھا نہ جائے بلکہ ٹانگوں اور بازوئوں اور جسم پر اچھی طرح لپٹا ہو۔اور انسان کو زیادہ سرد موسم کے لیے ایک سے زیادہ تہوں کا موٹا لباس بھی بنانا آتا تھا۔اس طرح انسان نے ان جگہوں کو آباد کرنا شروع کیا جنہیں نینڈرتھل نے خالی کردیا تھا۔ اور جب درجہ حرارت گر جاتا یا تیز سرد ہوائوں کا مقابلہ کرنا پڑتا تو انسان اپنے آپ کو بچا لیتا اور نینڈرتھل اس موسم کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ (Ian Gilligan. Neanderthal Extinction and Modern Human Behaviour: The Role of Climate Change and Clothing, World Archaeology, Vol. 39, No. 4, Debates in “World Archaeology” (Dec. 2007), p. 499-514) انسانی دماغ اور گوشت کا استعمال: یہ وہ دور تھا جب انسان جانوروں کا شکار کرتا۔ ان کی کھالوں سے اپنے آپ کو برفانی موسم سے بچاتا۔ اور ان جانوروں کے گوشت کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتا۔ اس کے ساتھ خود اگنے والے پھل اور سبزیاں اکٹھی کر کے انہیں بھی اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتا۔ ابھی انسان نے فصلیں اگانے یا مویشیوں کو پال کر اپنی خوراک کا انتظام کرنے کا ہنر نہیں سیکھا تھا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق نینڈرتھل، ڈینیسوونز اور ہماری نسل انسانی (Homo sapiens) کے دماغ باقی جانوروں کی نسبت سائز میں زیادہ بڑے اور زیادہ پیچیدہ تھے۔ اور ان کے دماغوں کو کام کرنے کے لیے روزانہ توانائی کی کافی زیادہ مقدار درکار ہوتی تھی۔ اور یہ ضرورت انسان میں سب سے زیادہ تھی کیونکہ اس کا دماغ سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ اور انسان توانائی کی یہ ضرورت صرف پھلوں اور سبزیوں وغیرہ سے پوری نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے دماغ کو کام کرنے کے لیے گوشت اور شکار کیے جانے والے جانوروں کی چربی سے حاصل ہونی والی توانائی کی بہت ضرورت ہوتی تھی۔نہ صرف انسان بلکہ انسان سے پہلے زمین پر نمودار ہونے والی Genus Homo کی مخلوقات جو کہ بعد میں ختم ہو گئیں، چمپانزی اور گوریلا وغیرہ کی نسبت بہت زیادہ گوشت اور جانوروں کی چربی استعمال کرتی تھیں۔ اس وجہ سے ان کی آنتیں مختصر اور دماغ بڑے ہوتے گئے۔یہاں تک کہ نسل انسانی کا ترقی یافتہ دماغ ظاہر ہوا۔اور اگر انسان کا دماغ اور اس کا ذہن یہ ترقی نہ کرتا تو وہ روحانیت کے ان امور کو بھی نہ سمجھ سکتا جن کو سمجھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے اس کی تخلیق کی تھی۔ (https://doi.org/10.1371/journal.pone.0062174) زرعی انقلاب: انسان آج بھی جانوروں کی کھالوں اور ان کے گوشت سے فائدہ اٹھاتا ہے جیسا کہ سورہ نحل کی آیت نمبر ۶ میں ذکر کیا گیا ہے۔لیکن جیسا کہ ماہرین آثار قدیمہ نے یہ انکشافات کیے ہیں اُس قدیم تر دور میں تو ان کے جانوروں کی کھالوں کے استعمال اور ان کے گوشت کی وجہ سے انسان نے زمین پر غلبہ حاصل کیا اور اس کے دماغ کا سائز اور کارکردگی بڑھتی گئی۔اگر اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں انسان کو حاصل نہ ہوتیں تو ہماری نسل انسانی آغاز میں ہی مغلوب ہو کر ختم ہو جاتی جیسا کہ نینڈرتھل اور ان جیسی دوسری مخلوقات ختم ہو گئیں۔یہ انسان یعنی Homo sapiens اس مرحلہ تک جانوروں کا شکار کرتا اور خود اگنے والے پھلوں اور سبزیوں کو کھاتا۔ ابھی اس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ فصلیں یا باغات اگاتا اور مویشیوں کو خود پال کر ان کے دودھ اور گوشت سے فائدہ اٹھاتا۔یہاں تک پہنچنے کے لیے انسان کو ایک اور انقلاب سے گذرنا تھا جس کے لیے ماہرین زرعی انقلاب (Agricultural Revolution)کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔اس انقلاب کے وقت انسان نے فصلیں اگانی شروع کیں اور جانوروں کو پالنا شروع کیا۔ یہ انقلاب آج سے بارہ ہزار سال قبل شروع ہوا۔ لیکن مختلف بر اعظموں اور علاقوں میں اس کا آغاز مختلف وقتوں میں ہوا۔ کہیں پہلے ہوا اور کہیں پر کئی صدیوں کے بعد۔بعض براعظموں یا علاقوں میں ایک قسم کی فصل اگا کر اس دور کا آغاز کیا گیا اور دوسرے مقامات پر دوسری فصل لگا کر زرعی انقلاب برپا کیا گیا۔ مثال کے طور پر ترکی کے بعض پہاڑی علاقوں میں، مغربی ایران اور شام میں آج سے دس گیارہ ہزار سال قبل انسان نے فصلیں اگانی شروع کیں۔زمانی ترتیب کے لحاظ سےگیارہ ہزار سال قبل انسانوں نے گندم اگانی اور بکریاں پالنی شروع کیں۔دس ہزار سال قبل دالیں اگانے کا فن سیکھا۔سات ہزار سال قبل زیتون اگانے شروع کیے۔چھ ہزار سال قبل گھوڑے پالنے شروع کیے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ شروع میں گھوڑے صرف گوشت کھانے کے لیے پالے جاتے تھے۔اور اونٹ پالنے کا عمل ساڑھے پانچ ہزار سال قبل شروع ہوا۔ (Harari YN. (2014). Sapiens: a brief history of humankind. McClelland & Stewart, p. 12 & 59) پرانے مفسرین اور جماعت احمدیہ کی تفاسیر: جیسا کہ ان آیات کریمہ سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان احسانات کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے انسانوں کے لیے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے ہیں جو انسانوں کا بوجھ اٹھا کر دوسری بستیوں کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کے بغیر انسان غیر معمولی مشقت اٹھائے بغیر ایسے سفر طے نہ کر سکتا۔ اور اس کے بعد یہ عظیم پیشگوئی بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ایسی دوسری سواریاں عطا فرمائے گا جن کے متعلق ابھی نسل انسانی کچھ بھی نہیں جانتی۔ جیسا کہ اس مضمون میں جائزہ لیا جائے گا کہ اس آیت میں مستقبل میں ایجاد ہونے والی سواریوں اور ذرائع نقل و حمل کے بارے میں پیشگوئی کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن اس مرحلہ سے قبل پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ پرانے مفسرین نے وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ کی کیا تفسیر بیان کی ہے۔ مشہور تفسیر ’تفسیر در منثور‘میں لکھا ہے۔’’امام ابن عساکر نے مجاہد سے بیان کیا ہے یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ سے مراد کپڑوں میں گھن ہے۔ابن مردویہ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ایک سفید موتیوں کی زمین ہے جس کی مسافت ہزار سال ہے، اس پر ایک سرخ یاقوت کا پہاڑ ہے جس کے ساتھ وہ زمین گھیری گئی ہے۔اس زمین میں ایک فرشتہ ہے جس نے زمین کے شرق و غرب کو بھر رکھا ہے اس فرشتہ کے چھ سو سر ہیں ہر سو سر میں چھ سو چہرے ہیں ہر چہرے میں ساٹھ ہزار زبانیں ہیں۔ وہ اللہ کی ثنا،تقدیس، تہلیل اور بڑائی ہر زبان کے ساتھ چھ لاکھ ساٹھ ہزار مرتبہ بیان کرتا ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو دیکھے گا اور کہے گا تیری عزت کی قسم میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا۔ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ سے یہی مراد ہے۔ امام ابوالشیخ نے العظمہ میں اور بیہقی نے ’الاسماء والصفات‘میں الشعبی سے روایت کیا ہے اللہ تعالیٰ کے اندلس سے دور کچھ بندے ہیں جیسا کہ ہمارے اور اندلس کے درمیان کچھ فاصلہ ہے۔وہ تصور بھی نہیں کرتے کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کرتی ہے، ان کے پتھر موتی اور یاقوت ہیں۔ ان کے پہاڑ سونا اور چاندی ہیں۔ وہ نہ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور نہ کوئی اور کام کرتے ہیں۔ان کے دروازوں کے اوپر درخت ہیں جن کا پھل ان کا کھانا ہے۔اور ان کے درختوں کے چوڑے پتے ان کا لباس ہیں۔ سورہ نحل میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ یہ چوپائے تمہارے لیے بوجھ اٹھا کر سفر کرتے ہیں اور تمہارے لیے زینت کا سامان ہیں اور پھر اس پیشگوئی کا اعلان کیا گیا تھا کہ خدا تمہارے لیے ایسی سواریاں پیدا کرے گا جن سے تم ابھی واقف بھی نہیں ہو۔ سورہ تکویر میں آخری زمانہ کی دیگر پیشگوئیوں کے ساتھ اس پیشگوئی کا بھی اعلان کیا گیا تھا کہ :وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (سورۃالتکویر:۵) ترجمہ: اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عرب میں اونٹ اور حاملہ اونٹنی کی ایک خاص اہمیت تھی کیونکہ صحرائی علاقہ میں یہ لمبے سفروں کے لیے نہایت کارآمد جانور تھا۔ سورہ تکویر میں یہ پیشگوئی بیان کی گئی ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب اس جانور کی یہ اہمیت ختم ہوجائے گی۔ پرانی تفاسیر میں سورہ تکویر کی اس پیشگوئی کا اطلاق بھی قیامت کبریٰ کے موقع پر رونما ہونے والے واقعات پر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر تفسیر ابن کثیر اور تفسیر در منثور میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کبریٰ کے موقع پر سورج روشنی دینا بند کردے گا، ستارے گر جائیں گے، سمندر اتنے خشک ہو جائیں گے کہ ان میں ایک قطرہ پانی کا باقی نہیں رہے گا اور پہاڑ ہموار ہو جائیں گے۔ان وجوہات کی بنا پر انسانوں پر اتنی پریشانی طاری ہو گی کہ حاملہ اونٹنی کا مالک اس اونٹنی کی طرف کوئی توجہ نہیں کرے گا اور وہ بغیر نگرانی کے چھوڑ دی جائے گی۔ قیامت کبریٰ کے موقع پر کیا ہو گا، یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ امر غور طلب ہے کہ قیامت تو ایک طرف رہی اس دور میں بھی حاملہ اونٹنی ایسی کوئی قیمتی چیز نہیں سمجھی جاتی کہ کسی معمولی عالمی حادثہ کے موقع پر بھی اونٹنی کا مالک سب فکریں ترک کر کے اپنی اونٹنی کو ڈھونڈتا پھرے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’وہ نئی سواریاں جو تمہارے علم میں نہیں پیدا کرے گا۔‘‘(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ ۴۷۳) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تفسیر صغیر میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اس میں صاف طور پر ریل،دخانی جہاز،ہوائی جہاز، موٹر وغیرہ کی پیشگوئی ہے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورہ تکویر آیت ۵ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں : ’’قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بعض جدید حالات کی نسبت ایسی خبریں دی گئی ہیں جو ہمارے اس زمانہ میں بہت صفائی سے پوری ہو گئی ہیںجیساکہ اس میں ایک یہ پیشگوئی ہے کہ آخری زمانہ میں اونٹ بےکار ہوجائیں گے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان دنوں میں ایک نئی سواری پیدا ہوجائے گی۔ چنانچہ قرآن شریف کی پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ یعنی وہ آخری زمانہ جب اونٹنیاں بےکار ہو جائیں گی اور بےکار ہونا تبھی ہوتا ہے جب ان پر سوار ہونے کی حاجت نہ ہو اور اس سے صریح طور پر نکلتا ہے کہ اونٹنیوں کی جگہ کوئی اور سواری پیدا ہو جائے گی۔‘‘(روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۳۲۰۔۳۲۱) انسان جانوروں کی سواری شروع کرتا ہے: انسانی معاشرے کی ترقی بلکہ بقا بڑی حد تک ذرائع نقل و حمل پر منحصر ہے۔آج ہم جدید ایجادات کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک شہر سے دوسرے شہر، یا ایک ملک سے دوسرے ملک یا ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم تک کا سفر کرتے ہیں۔ انہی ایجادات کی مدد سے ایک ملک میں تیار ہونے والی اشیاء خواہ وہ سوئی یا موبائل ہو دیوہیکل مشینیں ہوں ایک ملک سے دوسرے ممالک پہنچائی جاتی ہیں۔ ایک ملک سے نکلنے والا تیل یا قدرتی گیس یا معدنیات ہزاروں میل دور جہاں ان کی ضرورت ہو منتقل کیے جاتے ہیں۔ جدید دور کے آغاز سے قبل اور ان مشینوں کی ایجاد سے پہلے انسان گھوڑوں، اونٹوں، خچروں اور گدھوں کی مدد سے ہزاروں میل کا سفر کرتا تھا۔ جیسا کہ ان آیات کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ کی نعمت کے نتیجہ میں انسان ان جانوروں کو مسخر کر کے اپنے کام میں نہ لاتا اور ان کی مدد سے مختلف انسانی معاشروں میں رابطہ پیدا نہ ہوتا تو ان قدیم زمانوں میں مختلف مقامات پر موجود انسانی آبادی اپنی اپنی جگہ پر گھٹن کا شکار رہتی اور ان ہزاروں سالوں میں جو انسانی ترقی ہوئی وہ ممکن نہ ہوتی۔ ایک ایسا دور بھی تھا جب انسانوں نے ان جانوروں کو سدھا کر ان سے کام لینا شروع نہیں کیا تھا۔ ا س وقت انسانی تہذیب کی ترقی کی رفتار بہت کم تھی۔ سورہ نحل کی آیت نمبر ۹ میں دو انقلابوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ۱۔ ایک انقلاب جو کہ قرآن مجید کے نزول سے قبل برپا ہوا تھا۔ اور یہ انقلاب وہ اہم مرحلہ تھا جب انسانوں نے گھوڑوں اور دوسرے جانوروں کو پال کر اور سدھا کر انہیں اپنے سفر اور خوراک اور دوسرے سامان کی منتقلی کے لیے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اور اس کے بعد انسانی معاشرے نے پہلے سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنی شروع کی۔ ۲۔ اسی آیت میں ایک عظیم پیشگوئی بیان کی گئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مستقبل میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تمہارے لیے دوسرے ذرائع نقل و حمل ظاہر کرے گی۔ اور تم ابھی ان کو جانتے بھی نہیں ہو۔ جب اس پیشگوئی کے مطابق یہ جدید ذرائع ظاہر ہوئے تو ان کی مدد سے انسانی معاشرے کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ سب سے پہلے اس مرحلہ کا جائزہ لیتے ہیں جس پر انسان نے گھوڑوں اور دوسرے جانوروں کو سدھا کر اپنی سواری اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان منتقل کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ انسان کی ترقی میں اس کی کیا اہمیت تھی کہ قرآن مجید نے آئندہ ایجاد ہونے والی سواریوں کے ذکر سے قبل گھوڑوں اور اس جیسے دوسرے جانوروں کا ذکر کیا ہے کہ تم ان کی مدد سے اپنے سفر طے کرتے ہو۔ اس کے بارے میں مشہور سائنسی جریدے سائنٹیفک امریکن کے ایک تحقیقی مضمون کا ابتدائی پیراگراف درج کیا جاتا ہے: THE WORLD WE LIVE IN WAS BUILT ON HORSEBACK. Many people today rarely encounter horses, but this is a recent development. Only a few decades ago domestic horses formed the fabric of societies around the globe. Almost every aspect of daily life was linked to horses in an important way. Mail was delivered by postal riders, people travelled by horse-drawn carriage, merchants used horses to transport goods across continents, farmers cultivated their land with horsepower, and soldiers rode horses into battle.(William T. Taylor. When horses became steed. Scientific American Decembre 2024, p 22-30) ترجمہ: وہ دنیا جس پر ہم جی رہے ہیں اس کی تعمیر گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر کی گئی تھی۔ آج کل بہت سے لوگوں کا گھوڑے سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن یہ پیش رفت چند دہائیاں قبل ہی ہوئی ہے۔صرف چند دہائیاں قبل ہی پالتو گھوڑے پوری دنیا میں معاشرے کا ایک اہم حصہ تھے۔روزمرہ کا تقریباً ہر کام گھوڑے سے اہم تعلق رکھتا تھا۔ڈاک گھڑ سواروں کے ذریعہ پہنچائی جاتی، لوگ ایسی سواریوں پر سفر کرتے جنہیں گھوڑے کھینچ رہے ہوتے۔تاجر براعظموں کے درمیان تجارت کے لیے گھوڑے استعمال کرتے۔ کسان اپنی زمین پر گھوڑوں کی مدد سے فصلیں اگاتے اور سپاہی ان پر بیٹھ کر جنگوں میں جاتے۔ اسی سائنسی جریدے میں ایک اور مقالے کے یہ ابتدائی الفاظ ملاحظہ ہوں: On the day when a human first jumped onto the back of a horse and surveyed the world from that elevated post, the course of the history changed. (David Anthony, Dimitri Y. Telegin and Dorcas Brown. The Origin of Horseback Riding. SCIENTIFIC AMERICAN December 1991, p 94100) ترجمہ: جس روز ایک انسان پہلی مرتبہ چھلانگ لگا کر گھوڑے کی پشت پر سوار ہوا اور اس نے اس بلندی سے دنیا کو دیکھا، اس روز تاریخ کا دھارا تبدیل ہو گیا تھا۔ قدیم زمانہ میں گھوڑوں کی تاریخ کے ماہر آثار قدیمہ ولیم ٹیلر جو کہ یونیورسٹی آف کولوریڈو سے وابستہ تھے کہتے ہیں: Horse domestication was an absolute lightning strike in human history, leading to incredible, widespread, and lasting social transformations all across the ancient world.(Timothy C. Winegard. The Horse: A galloping history of Humanity. Published by Dutton, p 94) ترجمہ تاریخ میں پالتو گھوڑے رکھنے کا آغاز ایسا مرحلہ تھا جو کہ ایک بجلی کی طرح انسان کی تاریخ پر گرا۔اس کے نتیجہ میں نا قابل یقین، وسیع پیمانے پر پائیدار معاشرتی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ اسی لیے قرآن مجید میں مستقبل میں ظاہر ہونے والی سواریوں کے ذریعہ برپا ہونے والے انقلاب کی پیشگوئی سے بالکل پہلے ماضی قدیم میں ذرائع نقل و حمل کے برپا ہونے والے انقلاب کا ذکر کیا ہے۔ وہ انقلاب جب انسان نے گھوڑوں، گدھوں اور خچروں کو مسخر کیا اور اس کے بعد دنیا کا منظر بالکل تبدیل ہو گیا۔ نزول قرآن کے وقت تو یہ حقائق لوگوں کے علم میں نہیں تھے لیکن اب ماہرین آثار قدیمہ نے ماضی قدیم کی یہ تفصیلات دنیا کے سامنے رکھ دی ہیں، جن کی مدد سے ہم اس ذکر کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں۔ گھوڑوں پر سواری کب شروع ہوئی؟: گھوڑوں کو پال کر ان کو سدھا کر سواری اور سامان کی منتقلی کا کام تو بہت بعد میں شروع ہوا۔ اس سے قبل قدیم ترین زمانے میں انسان دوسرے جانوروں کی طرح شکار کر کے ان کا گوشت کھاتا تھا۔یہ مرحلہ کب شروع ہوا کہ انسان نے گھوڑوں کو پالنا شروع کیا؟ پہلے محققین کا خیال تھا کہ آج سے چھ ہزار سال قبل گھوڑے نے انسان کے پالتو جانور کا روپ دھارا اور یہ انقلاب یوکرائن کے علاقہ سے شروع ہوا تھا۔لیکن اب جدید تحقیق کی رُو سے بعض محققین کا خیال ہے کہ آج سے کم و بیش چار ہزار دوسو سال قبل انسانی تاریخ میں یہ اہم موڑ آیا کہ انسان نے گھوڑوں کو پالنا اور ان پر سواری شروع کی۔اس سے قبل انسان صرف گھوڑوں کا شکار ہی کر رہا تھا۔یہ کام روس کی Sintashta تہذیب میں شروع ہوا اور چند سو سال میں گھوڑوں کو پالنے اور ان کو سواری کے کام میں لانے کا ہنر مصر، مشرقی ایشیا اور سکینڈے نیویا کے علاقوں تک پھیل چکا تھا۔ویسے تو چونکہ انسان گھوڑے کو شکار کر رہا تھا۔ اس لیے قدیم ترین آثار قدیمہ میں بھی گھوڑوں کی ہڈیاں ملی ہیں لیکن جن گھوڑوں کو سواری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو، ان کے دانتوں میں لگام ڈالنے کی وجہ سے جو تبدیلیاں آتی ہیں، ان کے مطالعہ سے یہ علم ہوتا ہے کہ ان گھوڑوں کو سواری اور باربرداری کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔آثار قدیمہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس سے قبل کے انسان گھوڑوں سے سواری کا کام لیتا، انسان نے اس جانور کو پال کر اس کے گوشت اور دودھ سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ بہر حال جب انسان کو سواری کے لیے گھوڑے میسر آ گئے تو عالمی سطح پر انسان کی ترقی کا منظر بالکل بدل گیا۔اب انسان زیادہ آسانی سےایک براعظم سے دوسرے براعظم کا سفر کر رہا تھا، اور اپنے ساتھ سامان تجارت بھی لے کر جا رہا تھا۔ دور افتادہ مقامات پر بسنے والوں کے حالات اور خیالات سے واقف ہو رہا تھا۔ پہلی مرتبہ یورپ کے لوگوں کو علم ہو رہا تھا کہ چین میں بھی کوئی تہذیب آباد ہے اور چین کے لوگ پہلی مرتبہ واقف ہو رہے تھے کہ دور مغرب میں کچھ یوروپی اقوام بس رہی ہیں۔ اسی طرح جنگوں کا نقشہ بھی بالکل بدل گیا۔جو جنگیں پہلے بغیر کسی سواری کے آہستہ روی سے لڑی جاتی تھیں، وہ اب گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے اور دور افتادہ مقامات پر جا کر لڑی جا رہی تھیں۔ (William T. Taylor. When horses became steed. Scientific American December 2024, p 2230) (David Anthony, Dimitri Y. Telegin and Dorcas Brown. The Origin of Horseback Riding. SCIENTIFIC AMERICAN December 1991, p 94) خاص طور پر جو ماہرین اس بات کے قائل ہیں کہ گھوڑوں پر سواری کا فن آج سے پانچ چھ ہزار سال قبل شروع ہوا ان کا یہ نظریہ ہوا کہ جب اس علاقہ میں موجود اقوام نے یہ فن سیکھ لیا اور اس وقت انسان پہیے سے کام لینے کا کام بھی شروع کر چکا تھا۔ اس لیے اس نے رتھوں اور دوسری پہیوں پر چلنے والی سواریوں سے کام لینا شروع کیا۔ جب ان فنون کو انہوں نے اپنی جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا تو ان کو دوسری اقوام پر اتنی برتری حاصل ہوئی کہ وہ مغرب کی طرف فتح کرتے ہوئے چین میں جنوب اور جنوب مغرب کی طرف حملے کرتے ہوئے ہندوستان اور ایران میں اور مغرب کی طرف یلغار کرتے ہوئے یورپ میں داخل ہو گئے اور ان حملہ آور اقوام نے جنہیں Indo-Europeanکہا جاتا ہے اتنا غلبہ حاصل کیا کہ انہوں نے ایران، ہندوستان اور یورپ میں بسنے والی اقوام کو یا حقیر بنا کر ایک طرف دھکیل دیا،جس طرح ہندوستان میں شودر قوم کے ساتھ کیا گیا یا پھر یہ اقوام مغلوب ہو کر ان فاتح اقوام میں مدغم ہو گئیں جس طرح یورپ اور ایران میں ہوا۔ ان وسیع علاقوں میں بولی جانے والی زبان بھی تبدیل ہو گئی۔ان اقوام کے ڈی این اے کا تجزیہ اس بات کی تصدیق کر تا ہے۔اس فن کے ساتھ دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔صرف چین کے لوگ اس لیے بچ گئے کیونکہ انہوں نے جغرافیائی رکاوٹوں کو استعمال کر کے حملہ آوروں کو روک لیا تھا۔ (Timothy C. Winegard. The Horse: A galloping history of Humanity. Published by Dutton 2024, p 107) خچروں اور گدھوں کا استعمال: اس کےبعد بہت سے علاقوں میں بیلوں کی جگہ گھوڑوں سے ہل چلانے کا کام بھی لیا جانے لگا۔سورہ نحل آیت ۹ میں گھوڑوں کے بعد خچروں کاذکر کیا گیاہے۔ یہ جانور گدھے اور گھوڑی کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان ان کو سواری اور بوجھ اٹھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔تاریخی طور پر ایک تحقیق کے مطابق خچروں کا استعمال کم از کم آج سے تین ہزار سال قبل تو شروع ہو چکا تھا۔ چنانچہ ۲سیموئیل باب ۱۳ میں خچروں کو فرار ہونے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کے عہد میں خچروں کا استعمال شروع ہو چکا تھا۔برطانوی حکام نے ہندوستان میں اپنی فوج میں خچر کا کثرت سے استعمال شروع کیا۔ اور انیسویں صدی کے وسط میں امریکہ میں بھی اس کا بکثرت استعمال ہو رہا تھا۔ اور اس کو زرعی زمین پر ہل چلانے کے لیے گھوڑوں کی جگہ استعمال کیا جانا شروع کیا۔ (Theodore H. Savory. The Mule. Scientific American. December 1970, p 102) گدھا ہزاروں سال تک انسان کے لیے سامان کی منتقلی کا کام کرتا رہا ہے۔ حالیہ سالوں میں ہونے والی جینیٹک تحقیق کے مطابق انسان نے آج سے سات ہزار سال قبل گدھے کو پال کر اس پر سامان کے ساتھ سفر کرنے کا کام شروع کیا۔ انسان نے یہ مہارت مشرقی افریقہ میں کینیا اور صومالیہ کے علاقوں میں حاصل کی۔اور وہاں ہی سے یہ پالتو گدھے دنیا میں پھیلنا شروع ہوئے۔پہلے مصر اور سوڈان میں گدھوں کو پالنا شروع ہوا اور پھر یہی پالتو نسل ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ (Pennisi E. From a single domestication, donkeys helped build empires around the world. Science 8 September 2022) مشینی سواریوں کی ایجادات شروع ہوتی ہیں: ہزاروں سال تک انسان گھوڑوں، خچروں، گدھوں، اونٹوں اور بعض دوسرے جانوروں کو سواری، سفر اور سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے استعمال کرتا اور اس ہنر کو سیکھنے کے بعد نسل انسانی نے پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی کی اورانسان جیسی حقیر نظر آنے والی مخلوق نے زمین پر قبضہ کرلیا۔ مختلف رتھوں اور سواری کے دیگر ذریعوں میں تھوڑی بہت تبدیلی تو آتی رہی لیکن ان ہزاروں سالوں میں مزید کوئی انقلابی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔سفر کا مطلب یہی تھا کہ انسان پیدل چلے، یا پھر گھوڑے یا اس جیسے کسی اور جانور کی پشت پر سوار ہو، یا ایسی رتھوں وغیرہ پر بیٹھ جائے جس کو یہ جانور کھینچ رہے ہوں۔لیکن انیسویں صدی میں وہ وقت آیا جب قرآن مجید کی اس پیشگوئی کے مطابق سواری کے ایسے نئے ذرائع پیدا ہونے تھے جن کے متعلق پہلے انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اب انسان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو رہا تھا کہ کس طرح ایسی مشینیں بنائے جن کی مدد سے وہ پہلے سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے سفر کر سکے۔ ویسے تو ۱۷۶۹ء میں فرانس کی فوج کے ایک انجینئر Nicolas-Joseph Cugnotنے ایک ایسی گاڑی بنائی تھی جو کہ بھاپ کے انجن سے چلتی تھی۔ اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جائے تو اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ توپوں کی منتقلی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ گاڑی بن گئی اور اس کو چلانے کے تجربات بھی ہوئے لیکن اس کی ساخت ایسی متاثر کن نہیں تھی کہ اونچی نیچی جگہوں پر توپوں کو لے جا سکے۔ اس لیے اس پر تجربات ترک کر دیے گئے۔لیکن انیسویں صدی کے آغاز پر بھاپ سے چلنے والے انجنوں میں دلچسپی بڑھنے لگی۔یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ اس کو استعمال کرکے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے اور پھر اس سے بڑھ کر ایسی سواری بنائی جائے جس کو بھاپ سے چلنےو الا انجن چلا ئے اور اس پر انسان سفر کریں۔کسی بھی گھوڑے سے زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرنے کے ذرائع دریافت کیے جائیں۔ بھاپ سے چلنے والا انجن: اس سلسلہ میں سب سے اہم پیش رفت برطانیہ کے ایک غریب شخص جارج سٹیفن سن کا کارنامہ ہے۔اس کا باپ انگلستان کے گائوں وائلم میں غریب مزدور تھا۔اس گائوں میں کوئلہ نکالا جاتا تھا اور سٹیفن سن روزانہ گھوڑا گاڑیوں کو کوئلہ لے جاتے ہوئے دیکھتا تھا۔یہ نوجوان معاوضہ کے عوض لوگوں کے جانوروں کی دیکھ بھال کرتا۔پھر اس نے کوئلے کی کانوں میں کام شروع کیا اور خود کما کر رات کو سکول میں تعلیم حاصل کی۔اور پھر اپنے شوق سے کچھ مشینوں پر تجربات شروع کیے۔انہی تجربات کے نتیجہ میں ۱۸۱۴ء میں اس نے بھاپ کے انجن سے چلنے والی ایسی گاڑی بنائی جو کہ کوئلہ کی آٹھ ایسی گاڑیوں کو جن کا وزن تیس ٹن تھا چار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لے کر جاتی تھی۔ یہ پہلی ایسی سواری تھی جو مکمل طور پر مشینوں سے چلتی تھی اور اس کو چلانے میں کسی جانور کا استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ ریل کا آغاز: یہ تو مشینوں سے سامان لے جانے کا آغاز تھا۔ اب یہ مرحلہ طے کرنا تھا کہ لوگوں کے سفر کے لیے یہ مشینی ذرائع استعمال کیے جائیں۔اس کے لیے مختلف ممالک میں منصوبے بننے لگے۔ امریکہ میں بھی یہ منصوبے بنائے گئے کہ Massachusettsمیں ریل شروع کی جائے اور جنوری ۱۸۳۰ء میں اس بارے میں ایوان نمائندگان میں یہ بحث ہوئی کہ نہروں کے ذریعہ سامان کی منتقلی زیادہ مناسب ہو گی یا ریل کے نئے متعارف ہونے والے ذریعہ سے۔ (LANCASTER GAZZETTE February 2, 1830) لیکن مسافروں کے لیے ریل کا نظام شروع کرنے کا کارنامہ انگلستان کے حصہ میں آنا تھا۔ ستمبر ۱۸۳۰ء میں انگلستان میں لیورپول اور مانچسٹر کے درمیان چلنے والی مسافر ریل کا افتتاح ہوا۔ اس کے لیے بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیااور وزیر اعظم بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ لیکن پہلے ہی روز اس افتتاح کے دوران مقامی ممبر پارلیمنٹ ہسکسن اس کے نیچے آکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ راستہ میں جب ریل ایندھن کے لیے رکی تو یہ صاحب دوسرے لوگوں کے ساتھ اترے۔ پٹڑی پر کھڑے ہو کر وہ ڈیوک آف ولنگڈن سے مصافحہ کرنے لگے۔ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کا انجن کس تیز رفتاری سے سفر کر سکتا ہے دوسری طرف سے انجن آ رہا تھا۔ ہسکسن نے دوبارہ ریل پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن ان کا پائوں پھسلا اور وہ اس انجن کے نیچے آکر زخمی ہوئے اور پھر ان زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ (Northern Star 6 Nov. 1830 p 1) ریلوے کے پہلے تجربہ کو فوری طور پر امید سے بہت زیادہ کامیابی ملی۔ اندازہ لگایا گیا تھا کہ روزانہ ڈھائی سو مسافر اس ریل پر سفر کریں گے لیکن ایک ماہ کے اندر اندر روزانہ بارہ سو مسافر اس سواری پر سفر کر رہے تھے۔دنیا کے مختلف ملکوں سے لائی گئی سینکڑوں ٹن کپاس آسانی سے لیورپول سے مانچسٹر کی ملوں تک پہنچا دی جاتی۔اب ریل کی نئی پٹڑیاں بچھائی جا رہی تھیں۔۱۸۴۴ء میں ایک ممبر پارلیمنٹ ولیم گلیڈسٹون نے پارلیمنٹ میں ریلوے ریگولیشن ایکٹ پیش کر کے منظور کروایا۔ مختلف کمپنیوں کی طرف سے سینکڑوں نئی درخواستیں موصول ہوئیں۔ ریلوے ترقی کرتی گئی اور بعد میں ولیم گلیڈسٹون برطانیہ کے وزیر اعظم بن گئے۔ یہ تو آغاز تھا جلد ہی پوری دنیا میں ریلوے لائنوں کا جال بچھنا شروع ہو گیا۔اور دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ نئے انجن اور موٹر کاروں کی ایجاد: یہ تو سٹیم انجن اور ریلوے کے آغاز کی کہانی تھی۔اب یہ دیکھتے ہیں کہ Internal combustion engineکس طرح ایجاد ہوا۔یعنی پٹرول اور ڈیزل سے چلے والے وہ انجن جو کہ دنیا کی اکثر کاروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس قسم کے انجن کی ایجاد کے ساتھ یہ ممکن ہوا کہ دنیا کی سڑکوں پر موٹر کاریں، ٹرک اور بسیں چلتی نظر آئیں۔ پہلے ایک جرمن انجینئر Nicolaus August Ottoنے کئی سال محنت کر کے ایک ایسا انجن تیار کیا۔ جرمنی کے ہی ایک اور انجینئر کارل بنز (Carl Benz) نے ایک ایسا انجن استعمال کر کے اس انجن سے چلنے والی ایک موٹر ۱۸۸۶ء میں اپنے نام پر پیٹنٹ کروائی۔یہ دنیا کی پہلی موٹر کار سمجھی جاتی ہے۔اس کے تین پہیے تھے۔سب سے پہلے ان صاحب کی اہلیہ اس کار پر ۶۵؍ میل کا سفر کر کے اپنی والدہ کے گھر گئیں۔ یہ موٹر کار کا پہلا سفر تھا۔ اس کے بعد لوگوں کی توجہ اس عجیب قسم کی سواری کی طرف ہوئی۔لیکن ابھی پٹرول پمپ موجود نہیں تھے۔ ایسی سڑکیں موجود نہیں تھیں جن پر یہ نئی سواری سفر کر سکے۔ اس لیے ان کو بنانے والی کمپنی کی ابتدائی ترقی آہستہ تھی۔بنز کمپنی نے ۱۸۸۹ء تک صرف ۶۹ کاریں فروخت کی تھیں۔اور ۱۹۰۰ء تک ۱۷۰۰ تک گاڑیاں فروخت ہوئیں۔اس نئی سواری کے پیٹنٹ کے بعد بیس سال تک جرمنی کی سڑکوں پر ۳۵۰۰۰ کاریں سفر کر رہی تھیں۔ موٹر کاروں کو عام بنانے کا کارنامہ امریکی کمپنی فورڈ نے سرانجام دیا۔ اس کمپنی نے ۱۹۰۸ء میں نئے ڈیزائن کی سستی گاڑی تیار کی۔انہوں نے اس وقت دو ہزار ڈالر کی قیمت پر ملنے والی گاڑی کو صرف ۸۵۰ ڈالر میں فروخت کرنا شروع کیا۔ جوں جوں سستی گاڑی مارکیٹ میں نمودار ہوئی یہ نئی سواری لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہونے لگی۔۱۹۱۵ء تک ۱۰ فیصد امریکی اپنی کار کے مالک تھے۔ ۱۹۳۰ء تک ایسا انقلاب نمودار ہوا کہ ۵۹ فیصد امریکی اپنی کار کو سواری کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ (Mustafa Suleyman& Michael Bhaskar. The Coming Wave. Penguin Publishing House 2023, p23-25, 131) اس طرح قرآن مجید کی پیشگوئی کے مطابق ایک انقلاب برپا ہوا۔ پھر یہ سواریاں ترقی کرتی گئیں۔اس نے آپس میں روابط اور سفروں میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا۔ان سواریوں کی وجہ سے مختلف ممالک کے درمیان تجارت تیز ہوئی اور دنیا کی اقتصادیات کا نقشہ بدل گیا۔قومیں ایک دوسرے سے متعارف ہونے لگیں۔ الغرض انسانی زندگی کے ہر پہلو میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ گویا بالکل نئی دنیا ظہور میں آگئی۔اس طرح سورہ نحل میں بیان فرمودہ اس عظیم پیشگوئی کی صداقت کا ظہور شروع ہوا کہ خدا تمہارے لیے ایسی نئی سواریوں کو پیدا کرے گا جن سے تم ابھی واقف بھی نہیں ہو۔چودہ سو سال قبل تو انسانی ذہن یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ انقلاب رونما ہوگا۔ لیکن اس آغاز کے بعد ہر نئی دہائی نئی ترقیوں کی خبریں لاتی رہی۔ صرف یہی نہیں ہوا کہ بھاپ کے انجن سے چلنے والی ریل کی جگہ بلٹ ٹرین نے لے لی یا پہلے ریل زمین کے اوپر چلتی تھی پھر زیر زمین اور اب سطح سمندر کے نیچے بھی ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ صرف زمین پر تیزی سے سفر کافی نہیں تھا جلد ہی ان مشینی سواریوں کی بد ولت ہوا ئی جہازوں کی مدد سے ہوائی سفر کا آغاز ہو ا اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا۔ اس کے بعد انسان نے خلا کا رخ کیا۔ہزاروں سال سے انسان تیز سفر کرنے کے لیے جانوروں کا مرہون منت تھا لیکن سو سال میں ایسا نقشہ بدلا کہ اس مقصد کے لیے جانوروں کا استعمال ایک عجوبہ اور کھیل بن کر رہ گیا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: توجہ اور ارتکاز کے ہائی جیکرز