https://youtu.be/xglIdX7zJ9U (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍جنوری ۲۰۱۷ء) ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں پر نماز فرض ہے۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ نماز کی اہمیت مختلف حوالوں سے بیان کر کے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ نماز عبادت کا مغز ہے۔ (ماخوذاز سنن الترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی فضل الدعاء حدیث3371)بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے قریب کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفرعلی من ترک الصلوٰۃ حدیث149) پھر آپؐ نے نماز کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیاجائے گا وہ نماز ہے۔ اگر تو یہ حساب ٹھیک رہا تو کامیاب ہو گیا اور نجات پا لی ورنہ گھاٹا پایا، نقصان اٹھایا۔ (سنن الترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء ان اول ما یحاسب… حدیث 413) پھر بچوں کو بھی نماز کا پابند بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ سات سال کی عمر کو پہنچنے پر بچے کو نماز کی تلقین کرو اور دس سال کی عمر میں اس کو نماز کا پابند کرنے کے لئے کوئی سختی بھی کرنی پڑے تو کرو۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب متی یؤمر الغلام بالصلوٰۃ حدیث495) اگر ماں باپ ہی نمازوں کے پابندنہ ہوں گے تو بچوں کو کس طرح کہہ سکتے ہیں یا اگر بچے اپنے اجلاسوں یا مختلف ذریعوں سے یہ حدیث سن لیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن لیں لیکن گھر میں وہ اپنے باپوں کو نمازوں کا پابندنہ دیکھیں تو ان پر کیا اثر ہو گا؟ یقیناً ایسے باپوں کے بچے یہ خیال کریں گے کہ اس حکم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بلکہ ایک حکم کی اہمیت کو نظر انداز کرنے سے بچے کے دل پر ہر اسلامی حکم کی اہمیت کا اثر ختم ہو جائے گا۔ ایسے لوگ نہ صرف پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق خود گھاٹا پانے والوں میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی گھاٹا پانے والوں میں شامل کروا رہے ہوتے ہیں۔ دنیاوی خواہشات کے پورا کرنے کے لئے بچوں کی دنیاوی ترقی کے لئے تو ماں باپ فکر کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں لیکن جو اصل فکر کا مقام ہے اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی۔ پھر ایک حقیقی مومن کے لئے صرف نماز ہی ضروری نہیں ہے جس سے اس کا روحانی میل کچیل دُور ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں پانچ بار روزانہ نہائے تو اس کے جسم پر کوئی میل رہ جائے گی؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یقیناً کوئی میل نہیں رہے گی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہ معاف کرتا اور کمزوریاں دور کرتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلوات الخمس کفارۃحدیث528)۔ پانچ نمازیں پڑھنے والے کی روح پر کوئی میل نہیں رہتی۔ پس یہ ہے نماز کی اہمیت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خوبصورت مثال کے ذریعہ بیان فرمائی ہے۔ لیکن جیساکہ مَیں نے کہا صرف نماز پڑھنے کا ہی حکم نہیں ہے بلکہ حقیقی مومن مردوں کو اس روح کی میل اتارنے کے لئے مزید وضاحت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے گھر سے وضو کیا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے گھر یعنی مسجد کی طرف گیا تا کہ وہاں فرض نماز ادا کرے تو مسجد کی طرف جاتے ہوئے جتنے قدم اس نے اٹھائے ان میں سے اگر ایک قدم سے اس کا ایک گناہ معاف ہو گا تو دوسرے قدم سے اس کا ایک درجہ بلند ہوگا۔ یعنی ہر قدم ہی اسے ثواب دینے والا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ باب المشی الیٰ الصلوٰۃ … حدیث1406) پھر ایک موقع پر باجماعت نماز کی اہمیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا کہ کیا مَیں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جو ہر وقت اس بات کے لئے بے چین تھے کہ ہمیں کب کوئی موقع ملے اور ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں، اس کو راضی کرنے کے طریقے سیکھیں، اس کا قرب حاصل کریں، اپنے گناہوں سے دوریاں پیدا کریں، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا اور مسجد میں دُور سے چل کر آنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہ گناہوں سے دُوریاں پیدا کرتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اتنا ہی نہیں یہ ایک قسم کا رباط ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطھارۃ باب فضل اسباغ الوضوء علی المکارہ حدیث475)۔ یعنی سرحد پر چھاؤنیاں قائم کرنے کے برابر ہے۔ جس طرح ملک اپنی حفاظت کے لئے سرحدوں پر چھاؤنیاں بناتے ہیں، فوجیں رکھتے ہیں یہ اسی طرح ہے۔ سرحدوں پر چھاؤنیاں کیوں قائم کی جاتی ہیں؟ جیساکہ مَیں نے کہا اپنے ملک کی حفاظت کے لئے۔ اس لئے تاکہ دشمن کے حملے سے محفوظ رہا جائے اور حملے کی صورت میں فوراً مقابلے کے لئے تیار ہوا جا سکے۔ پس ایک مومن کو سب سے بڑا خطرہ جس سے بچنے کے لئے اس کو ضرورت ہے، جس کے بچنے کے لئے چھاؤنی قائم کرنے کی ضرورت ہے وہ خطرہ شیطان کا ہے۔ دنیاوی خواہشات کا خطرہ ہے جو شیطان دل میں پیدا کرتا ہے۔ ان کے ذریعہ سے شیطان حملہ کرتا ہے۔ پس ان سے بچنے کے لئے نماز باجماعت کی چھاؤنی ہے۔ یہی محافظوں کا دستہ ہے جو شیطان کے حملوں سے بچائے گا۔ گناہوں سے انسان بچے گا اور نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اسی طرح نماز باجماعت میں اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت 27گنا زیادہ ثواب ہے۔ اس کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ… حدیث645) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باجماعت نماز کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے‘‘(یعنی نماز باجماعت میں جو زیادہ ثواب رکھا ہے) ’’اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں۔‘‘ (یعنی پاؤں بھی جب سیدھے صف میں کھڑے ہوں تو برابر ہوں۔ اس کے لئے ایڑھیاں برابر کی جاتی ہیں۔) ’’اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں‘‘۔ (صف بندی ہو گی تو ایک انسان کی طرح بن جائیں گی۔ یعنی اس میں طاقت پیدا ہو گی۔ ’’اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کرسکیں‘‘۔ فرمایا ’’وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے‘‘۔ (یعنی امیر بھی، غریب بھی سب ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔ بعض لوگوں کے دماغوں میں خودی ہوتی ہے یا خود غرضی ہوتی ہے اس کو باجماعت نماز ختم کرتی ہے۔) فرمایا کہ ’’یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8صفحہ 247-248۔ ایڈیشن 1984ء) (کسی میں نیکی کا زیادہ اثر ہے۔ نیکیوں کے اچھے اونچے مقام پر ہے تو دوسرا بھی اس اثر کو قبول کرے گا) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلفائے احمدیت سے محبت کے چند واقعات