https://youtu.be/3TN5PWV9euo جن کو اللہ تعالیٰ دنیا میں تکالیف دیتا ہے اور جو لوگ خود خدا کے لیے دکھ اٹھاتے ہیں۔ان دونوں کو خدا تعالیٰ آخرت میں بدلہ دے گا۔دنیا تو چلنے کا مقام ہے رہنے کا نہیں۔اگر کوئی شخص سارے سامان خوشی کے رکھتا ہے تو خوشی کا مقام نہیں۔یہ سب آرام اور دکھ تو ختم ہونے والے ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا جہان آنے والا ہے جو دائمی ہے۔جو لوگ اس مختصر جہاں میں انسانی بناوٹ میں فرق اور کمی بیشی دیکھ کر دوسرے جنم کے گناہوں اور عملوں پر محمول کر لیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔وہ یہ معلوم نہیں کرتے کہ آخرت کا ایک بڑا جنم آنے والا ہے اور جن کو خدا تعالیٰ نے پیدائش میں کوئی نقص عطا کیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود بخود خدا کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے دکھوں میں ڈال دیا ہے ان دونوں کو وہاں چل کر اس کا بدلہ ملے گا۔یہ جہان تو تخمریزی کا جہان ہے اور ایسے موقع حاصل کرنے کے واسطے ہے جن سے خدا راضی ہو۔ بعض لوگ اپنے عملوں سے خدا کو راضی کرتے اور بعض اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال کر خدا کو راضی کرتے ہیں۔ایک شخص کے دو خدمتگار ہیں۔ایک کو وہ ایسے کام اور سفر پر روانہ کرتا ہے کہ جہاں اس کو سواری مل سکتی اور راستہ بھی سایہ دار اور ٹھنڈا ہے اور ہر طرح کا آرام ہے۔دوسرے خدمتگار کو ایسی طرف روانہ کرتا ہے جس راستہ میں نہ تو اس کو سواری مل سکتی ہے اور نہ سایہ ہے بلکہ پیدل چلنا اور سخت گرمی اور دھوپ اور لُو کا سامنا ہے۔مگر وہ جانتا ہے کہ جس کو جتنی تکلیف ہوگی اس کو اتنا ہی بدلہ اور عوضِ خدمت دوں گا۔پس پھر ان دونوں خدمتگاروں کو اپنے سفر پر کیا اعتراض ہے۔اسی طرح لنگڑے، اندھے، اپاہج، غریب، فقیر وغیرہ لوگ جو خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان کو جب کہ اس آخری جہان میں چل کر بدلہ ملنا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم گونا گوں جنم مان لیں اور اس بڑے اور حقیقی جنم سے اعراض کریں۔جو دکھ اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں وہ تو ثواب حاصل کرنے کو دیئے ہیں۔ جبکہ وہ رحم کرنے والا ہے تو کسی کو کسی طرح اور کسی کو کسی طرح بدلہ دیتا اور دیتا رہے گا۔پس اپاہج اور اندھے وغیرہ کو اپنی ان نقائص ِخلقت کا بدلہ قیامت میں مل جاوے گا۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص شاہی گھر میں پیدا ہوا ہے اور سارے سامان عیش و نشاط مہیا ہیں پر وہ باریک در باریک دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو گدائی اور فقیری حیثیت میں بھیک مانگتا پھرتا ہے ایسے سکھوں میں ہو کہ جو اس امیر زادے کو کبھی میسر نہیں۔پھر کیا کہیں دولت والے کو یہ حکم دیا ہے کہ اس سے عیاشی کر بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ غریب بھائی کی طرح عبادت کر۔بہرحال یہ دنیا چند روزہ ہے انسان کیا سمجھتا ہے کہ میری عمر کس قدر ہے۔ (ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۵۲ تا ۲۵۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو