https://youtu.be/8jnKFhkubmI کوئی نبی نہیں جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ آپؐ کے صحابہؓ نے عرض کیا: (یا رسول اللہؐ! ) کیا آپؐ نے بھی (چرائی ہیں؟) آپؐ نے فرمایا: ہاں، میں بھی چند قیراطوں کے بدلے مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (بخاری، كتاب الاجارة) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بکریاں چرانے کا ذکر سورۂ طٰہٰ میں وارد ہوا ہے۔ فرماتے ہیں: اَھُشُّ بِھَا عَلَی غَنَمِی (طٰہٰ: ۱۹) یعنی میں اپنے سونٹے سے اپنی بکریوں کے لئےپتے جھاڑتا ہوں اور تورات کی کتاب خروج باب ۳ میں لکھا ہے : ’’ اور موسیٰ اپنے خسر یترو کی جو مدیان کا کاہن تھا، بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔‘‘ (خروج باب۳ آیت۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں ان لوگوں کے لئےسبق ہے جو مزدوری پر کام کرنا حقیر سمجھ کر اس سے گریز کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ گدا گری جو ایک ذلیل ترین پیشہ ہے، اسے اختیار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی تباہی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ وہ محنت مزدوری سے جی چراتے ہیں۔ (شرح بخاری، جلد ۴، مطبوعہ ۲۰۰۸ء قادیان) حضرت مسیح موعودؑ کا بکریاں چرانے کا واقعہ حضرت اقدس علیہ السلام اپنے عہدِ طفولیت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپؑ بچپن میں گاؤں سے باہر ایک کنویں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؑ کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جو گھر سے لانی تھی۔اس وقت آپؑ کے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا۔ آپؑ نے اس شخص سے کہا مجھے یہ چیز لادو۔ اس نے کہا میاں!میری بکریاں کون دیکھے گا؟آپؑ نے کہا تم جاؤ مَیں ان کی حفاظت کروں گا اور چراؤں گا۔چنانچہ آپؑ نے اس کی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا نے نبیوں کی سنت آپؐ سے پوری کرادی۔(ماخوذ از سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۲۳۱) ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام تدبیر اور دعاکا باہمی تعلق ’’تدبیر اور دعا دونوں باہم ملا دینا اسلام ہے۔ اسی واسطے میں نے کہا ہے کہ گناہ اور غفلت سے بچنے کے لئے اس قدر تدبیر کرے جو تدبیر کا حق ہے اور اس قدر دعا کرے جو دعا کا حق ہے۔اسی واسطے قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ فاتحہ میں ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھ کر فرمایا ہے: اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ (الفاتحہ:۵)۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ اسی اصل تدبیر کو بتایا ہے اور مقدم اس کو کیا ہے کہ پہلے انسان رعایت اسباب اور تدبیر کا حق ادا کرے مگر اس کے ساتھ ہی دعا کے پہلو کو چھوڑ نہ دے بلکہ تدبیر کے ساتھ ہی اس کو مدنظر رکھے۔ مومن جب اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاً اس کے دل میں گزرتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اُس کا فضل اور کرم نہ ہو۔ اس لئے وہ معاً کہتا ہے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔ یہ ایک نازک مسئلہ ہے جس کو بجز اسلام کے اور کسی مذہب نے نہیں سمجھا۔‘‘ (ملفوظات جلد۶صفحہ ۲،ایڈیشن۲۰۲۲ء) قرآن :حصولِ محبتِ خدا خدا اس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳، صفحہ ۳۴۰) ’’آپ نہیں مجھے جانتے لیکن میں آپ کو جان گیا ہوں‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا:’’ایک دفعہ انگلستان میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہوا۔ وہاں ہر سال یکم جنوری کو لوگوں کی جو حالت ہوتی ہے وہ آپ نے سنی ہو گی۔ رات بارہ بجتے ہیں اور بے حیائی کا ایک طوفان سڑکوں پر امڈ آتا ہے۔ اس وقت ہر شخص کو آزادی ہوتی ہے جس کو چاہے گلے لگائے اور پیار کرے خواہ وہ کتنا ہی گندا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے منہ سے شراب کی بدبو آتی ہو یا اور کئی قسم کی غلاظتیں لگی ہوں۔ خیر رات کے بارہ بج رہے تھے۔ میں یوسٹن کے ریلوے سٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں وہاں کسی کام کے لیے گیا ہوا تھا اس وقت فارغ ہوکر واپس گھر جا رہا تھاتو جس طرح دوسرے احمدیوں کو یہ خیال آتا ہے کہ ہم سال کا نیا دن نفل سے شروع کریں اسی طرح مجھے بھی یہ خیال آیا چنانچہ میں نے وہاں نفل پڑھنے شروع کر دیے۔ کچھ دیر کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے پاس ایک آدمی کھڑا رو رہا ہے۔ اور رو بھی اس طرح رہا ہے جس طرح بچے ہچکیاں لے لے کر روتے ہیں۔ میں اگرچہ اس حالت میں نماز پڑھتا رہا لیکن تھوڑی سی Disturbance ہوئی کہ یہ کیا کر رہا ہے۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو جب میں اٹھ کر کھڑا ہی ہوا تھا تو وہ دوڑ کر میرے ساتھ لپٹ گیا اور میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ میں نے کہا کیا بات ہے، میں تو آپ کو جانتا نہیں۔ اس نے کہا آپ نہیں مجھے جانتے لیکن میں آپ کو جان گیا ہوں۔ میں نے کہا آپ کا کیا مطلب ہے ؟ اس نے کہا کہ سارا لندن آج نئے سال کے آغاز پر خدا کو بھلانے پر تلا ہوا ہے اور ایک آدمی مجھے ایسا نظر آ رہا ہے جو خدا کو یاد رکھنے پر تلا ہوا ہے۔ میں کیسے آپ کو نہ پہچانوں۔ غرض اس چیز نے اس پر اتنا گہرا اثر کیا کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رونے لگ گیا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ستمبر۱۹۸۳ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد دوم صفحہ۵۰۹۔۵۱۰) ارشاداتِ امام بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کے لیے دعائیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’بچوں کی پیدائش کے وقت بھی اور پیدائش کے بعد بھی ہمیشہ بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہئے کیونکہ والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں پوری ہوتی ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍جولائی ۲۰۰۳ء) آدابِ مسجد ’’مسجد میں (نماز کے ) انتظار میں بیٹھے رہنے کا بھی ایک ثواب ہے۔ پس اس ثواب کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے…نمازوں کے اوقات میں… اپنے فون بند کر لیا کریں۔ یا کم از کم گھنٹی کی آواز بند کر لیا کریں… خاص طور پر ان [جلسہ سالانہ کے]دنوں میں دعاؤں کی طرف توجہ رکھیں۔ اور نمازوں اور نوافل کے علاوہ ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھنے اور دوسری دعائیں کرنے میں وقت گزاریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍اگست ۲۰۱۶ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلافت علیٰ منہاج النبوۃکی پیشگوئی جو دو دفعہ پوری ہوئی