اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ محترم شیخ منیر احمد صاحب شہید روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۹؍فروری۲۰۱۴ء میں محترم شیخ منیر احمد صاحب (شہید لاہور) کی سوانح اور سیرت پر شائع ہونے والی ایک کتاب سے چند واقعات پیش کیے گئے ہیں جن سے شہید مرحوم کی خدمت خلق کے پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ کتاب اُن کی ہمشیرہ محترمہ کفیلہ خانم صاحبہ نے تحریر کی ہے۔ کئی یتامیٰ اور بیوگان کے ہاں باقاعدہ راشن بھجواتے۔ بعض ضرورت مند خاندانوں کی کفالت دوسروں کے ذریعے سالہاسال تک کرتے رہے مگر اُن کو بھی خبر نہ ہوتی کہ کون اُن کی ضروریات پوری کررہا ہے۔ ڈاکٹر اسحاق بقاپوری صاحب کے ہاتھ بھی ایک ایسے ہی خاندان کو ماہوار خرچ بھجوایا جاتا تھا۔ انہوں نے کئی بار اپنے محسن کا نام پوچھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہی جواب دیا کہ مجھے منع کیا ہوا ہے۔ آپ کے ملازم غلام رسول نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل ایک بےحد غریب شخص اچانک آپ کی گاڑی کے آگے آگیا اور بڑی مشکل سے بچا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ اس شخص کا معمول ہے، کسی دن مرے گا۔ آپ نے غلام رسول کے ذریعے گھر سے دس ہزار روپے منگواکر اُس شخص کو دیے اور کہا کہ جو اپنی جان داؤ پر لگاتا ہے، وہ نہ جانے کتنا ضرورت مند ہوگا۔ آپ کے ملازم غلام رسول نے آپ کے اخلاق سے ہی متأثر ہوکر بیعت کی تھی جس کے بعد اُس کے والدین اور بیوی بچوں کا گاؤں میں رہنا مشکل کردیا گیا تھا۔ اُس زمانے میں اُس کو آپ تین ہزار روپے ماہوار دیتے تھے لیکن اس رقم میں اُس کے لیے لاہور میں کرائے کا مکان لینا ممکن نہیں تھا۔ اُس نے آپ سے ذکر کیا تو آپ نے اپنی جان پہچان والے ایک ایسے نمبردار سے رابطہ کیا جس کی زرعی زمین لاہور کے مضافات میں تھی جس کے وہ پلاٹ بناکر بیچ رہا تھا اور کافی رقم کماچکا تھا۔ آپ نے اُس سے کہا کہ اُس پر اللہ نے بےحد فضل کیا ہے اب ایک غریب کو دس مرلے زمین صدقے کے طور پر دے دیں یا پھر بہت کم قیمت لگائیں جو وہ اقساط میں ادا کردے۔ اُس نے بہت کم قیمت میں پلاٹ غلام رسول کو دے دیا۔ شہید مرحوم نے اپنے بہن بھائیوں کے ذریعے غلام رسول کی مدد کی۔ اسی اثنا میں ایک کوٹھی جو گراکر دوبارہ تعمیر کی جانی تھی اُس کے مالکان کے کہنے پر کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو لے جاسکتے ہیں، آپ نے اینٹیں اور دیگر عمارتی سامان غلام رسول کی زمین پر منتقل کروایا اور کچھ عرصے میں ہی اُس کا گھر تیار ہوگیا جس کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ محترم شیخ صاحب کے برادرنسبتی مکرم راجہ غالب صاحب کی ایک ملازمہ کے تین سالہ بیٹے کا ہونٹ پیدائشی طور پر کٹا ہوا تھا جس سے اُسے کھانے پینے میں خاصی دقّت ہوتی تھی۔ کسی اَور کو اس طرف خیال نہیں آیا لیکن شہید مرحوم نے ایک سرجن سے اس کا کامیاب آپریشن کروادیا۔ اسی طرح آپ کی ایک ہمشیرہ کا سسرالی رشتہ دار بوجہ فالج بیمار ہوگیا۔ وہ گوجرانوالہ میں ڈاکخانہ میں ملازم تھا۔ محکمہ نے بتایا کہ اُس کے کاغذات نہیں ملتے اس لیے پنشن نہیں دی گئی۔ وہ بےچارہ مفلوک الحالی میں بیوی بچوں کے ساتھ اپنی بیوہ ماں کے ہاں آگیا۔ آپ کے علم میں یہ بات آئی تو خود گوجرانوالہ جاکر کاغذات تلاش کروائے، پھر اس کا کیس کیا اور محکمانہ بورڈ کے ذریعے تفتیش کرکے پنشن جاری کروائی۔ شہید مرحوم اپنے ملازمین کی خوشی غمی میں شریک ہوتے۔ کسی کی شادی ہوتی تو اپنے بیٹے کو اپنی گاڑی دے کر بھیج دیتے۔ آپ کے باورچی ولایت کی بیوی کی وفات ہوئی تو خود اپنی اہلیہ کے ہمراہ اُس کے گاؤں گئے جہاں تک پہنچنے کے لیے کئی میل کچی سڑک تھی۔ ولایت آپ کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسی طرح ایک ملازم یاسین کے ہاں بچے کی ولادت متوقع تھی۔ آپ کی اہلیہ اُس کی بیوی کو لے کر ہسپتال گئیں اور تب تک وہاں رہیں جب تک یاسین کے عزیز گاؤں سے نہیں پہنچ گئے۔ ایک عزیز کا جواں سال بھانجا نہر میں ڈوب گیا تو نعش نہیں مل رہی تھی۔ شہید مرحوم نے متعلقہ افسروں کو کہہ کر نہر پر جال لگوایا۔ دو تین دن بعد نعش اُس جال میں پھنس گئی لیکن بہت ہی بُری حالت میں تھی۔ شہید مرحوم خود وہاں پہنچے، تمام لواحقین کو ہٹاکر رضاکارانہ طور پر خود اپنے ہاتھوں سے میت کو صاف کرکے کفن پہنایا اور تابوت میں منتقل کیا۔ ایک بار آپ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں لوگوں کا جمگھٹا دیکھا۔ وہاں حادثے کا شکار ایک زخمی نوجوان بےہوش پڑا تھا۔ آپ نے اُسے اپنی گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال بھاگے۔ ایسے کام آپ کے معمول میں شامل تھے۔ پھر جب تک مریض کو ہوش نہ آجاتی یا اُس کے لواحقین نہ پہنچ جاتے، آپ وہیں رہتے اور اُن کاموں کو بھول جاتے جن کو کرنے کےلیے گھر سے نکلے ہوتے۔ خدمت کا ایسا جذبہ تھا کہ کبھی کسی کو انکار نہ کرتے۔ بظاہر ایسے کاموں سے بھی انکار نہ کرتے جہاں صاف پتا چلتا کہ آپ کو ناجائز طور پر تکلیف دی جارہی ہے۔ ………٭………٭………٭……… محترم مولوی بشیر احمد قمر صاحب روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۲؍مارچ۲۰۱۴ء میں مکرم عبدالباری قیوم شاہد صاحب کے قلم سے محترم مولوی بشیر احمد قمر صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مَیں ۱گست ۱۹۸۴ء میں اکرا (غانا) پہنچا۔ چند روز بعد محترم مولوی بشیر احمد قمر صاحب بھی وہاں پہنچے۔ آپ تیسری مرتبہ غانا میں تشریف لائے تھے اور آپ کا تقرراپرویسٹ ریجن کے انچارج مربی کی حیثیت سے ریجن کے صدرمقام واؔ کے مشن ہاؤس میں ہوا تھا۔ آپ قادیان میں میرے بڑے بھائی حمیدالدین احمد صاحب کے کلاس فیلو رہے تھے۔ دعا کے حوالے سے آپ کی مرتبہ کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں آپ کی خواہش پر مَیں نے معاونت کی تھی اس لیے آپ سے مل کر پرانی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔ احمدیہ مشن کے واؔ میں قائم ایک ہائی سکول کو ترقی دے کر حکومت نے ٹیچرٹریننگ کالج کا درجہ دے دیا تھا۔اس میں اسلامیات، عربی اور بائبل پڑھانے نیز کالج کی نوتعمیر شدہ مسجد میں امامت و خطیب کے فرائض سرانجام دینے کے لیے خاکسار کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے تین سال کے لیے وہاں بھجوایا تھا۔ چنانچہ مجھے خوشی ہوئی کہ اس عرصے میں مجھے محترم قمر صاحب کی رفاقت میں رہ کر کام کرنے کا موقع ملے گا۔ اکرا میں قریباً دو ہفتے گزارنے کے بعد ایک دوپہر گیارہ بجے بس کے ذریعے مَیں اور مولوی صاحب روانہ ہوئے۔ دو سیٹیں ملیں جن میں سے ایک درمیان میں تھی جو زیادہ آرام دہ تھی۔ دوسری سیٹ آخری رَو میں تھی جو بےآرام کرنے والی تھی۔ مولوی صاحب نے مجھے درمیان والی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا اور خود میرے باربار اصرار کے باوجود آخری رَو والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ رش اس قدر تھا کہ ہلنا جلنا بھی ممکن نہ تھا۔ دورانِ سفر کئی بار موسلادھار بارش بھی ہوتی رہی۔ بس اگلی صبح آٹھ بجے واؔ پہنچی۔ مشن ہاؤس کا بس سٹاپ سے فاصلہ چند منٹ کا تھا۔ کالج میں رہائش ملنے تک مجھے مشن ہاؤس میں ہی رہنا تھا۔ ہم اکٹھے کھاتے پیتے، نمازیں ادا کرتے اور تربیتی کاموں میں آپ کی معاونت کا مجھے موقع ملتا رہتا۔ آپ میرے کھانے کا خرچ بھی برداشت کرتے رہے۔ جب میرا الاؤنس محترم امیر صاحب بھجواتے تو مَیں مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کردیتا۔ آپ اس میں سے برائے نام رقم کھانے کے خرچ کے طور پر قبول فرماتے اور باقی رقم مجھے واپس کردیتے۔ یہ سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہا اس کے بعد مجھے کالج میں رہائشگاہ مل گئی۔ آپ کی نوازشات بعد میں بھی جاری رہیں۔ کوئی اچھی چیز پکاتے تو مجھے بھی بھجواتے۔ ہر ماہ تین چار دن مجھے ملیریا ہوجاتا، آپ کو علم ہوتا تو دوڑے چلے آتے اور ہر ممکن تیمارداری کرتے، بارہا پرہیزی کھانا پکواکر بھجواتے۔ عید کے موقع پر شیرخورما تیار کرتے تو کالج کے پرنسپل مسعود شمس صاحب اور مجھے بھی مدعو کرتے اور ہم اپنے وطن اور فیملی سے دُور اس طرح عید کا لطف حاصل کرتے۔ کالج میں طلبہ کے لیے ہفتے میں دو دن لیکچرز ہوتے اور سوالات کے جواب بھی دیے جاتے۔ اس مقصد کے لیے ہر مہینے دو بار آپ کو بھی مدعو کیا جاتا۔ آپ ضرور تشریف لاتے اور طلبہ کو مطمئن کرتے۔ موقع کی مناسبت سے لطائف بھی سناتے۔ آپ کے ساتھ کئی اسفار کا موقع بھی ملا۔ غانین احباب آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ آپ ایک شریف النفس، دعاگو، مستجاب الدعوات، بلند کردار، خلافت احمدیہ کے فدائی اور عالم باعمل تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی نظم ؎ دیار مغرب سے جانے والو، دیار مشرق کے باسیوں کو جب اخبار میں شائع ہوئی تو ایک روز اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے مجھ سے یہ نظم سنانے کی فرمائش کی۔ مَیں نے ترنم سے پڑھ کر سنائی تو دل بھر آیا۔ آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہ رہے تھے۔ ۱۹۸۷ء میں میری واپسی ہوئی تو آپ سے الوداعی ملاقات نہ ہوسکی جس کا افسوس تھا۔ کچھ عرصے بعد آپ کا خط ملا جس میں ملاقات نہ ہونے پر افسوس کا اظہار بھی تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ ’’انسان بشری کمزوریوں کا مجموعہ ہے، ہم کچھ عرصہ اکٹھے رہے ہیں، مجھ سے کئی کوتاہیاں ہوئی ہوں گی اور آپ کو تکلیف ہوئی ہوگی، درخواست ہے کہ ان کو معاف کردیں اور پردہ پوشی کی دعا کریں۔‘‘ ………٭………٭………٭……… دنیا کی چند مشہور آبشاریں روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۴؍جون۲۰۱۴ء میں دنیا کی مشہور آبشاروں سے متعلق مختصر معلومات روزنامہ ایکسپریس سے منقول ہیں۔ ٭…اینجل (Angel) آبشار دنیا کی سب سے بلند آبشار ہے۔ اسے امریکی ہواباز James Crawford Angel نے ۱۹۳۶ء میں دریافت کیا تھا۔ دریائے چورون وینزویلا پر واقع اس آبشار کی بلندی ۹۷۹؍میٹر ہے۔چنانچہ اس کا بہت سا پانی گرنے کے بعد زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی بخارات بن کر اُڑ جاتا ہے۔ (نوٹ: ۲۰۱۸ء میں اس آبشار کا نام بدل کر Kerepakupai-Meru کردیا گیا ہے۔) ٭…برازیل اور ارجنٹائن کی سرحد کے قریب دریائے اگوازو پر واقع Iguazu آبشار کی بلندی ۲۶۲؍میٹر ہے۔ یہ دراصل ۲۷۰؍آبشاروں کا ایک عظیم نظام ہے جو ۲۷۰۰؍میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ ٭…کینیڈا اور امریکہ کی سرحد پر واقع نیاگرا (Niagara) آبشار قدرتی عجائبات میں شامل ہے۔ اسے ۱۶۷۸ء میں لوئس ہیپی پن نے دریافت کیا تھا۔ آبشار کی لمبائی ۱۷۳؍فٹ اور چوڑائی اڑہائی ہزار فٹ ہے۔ اس آبشار کا نظارہ کرنے کے لیے ہر سال چالیس لاکھ سیاح آتے ہیں۔ ٭…زمبابوے میں واقع وکٹوریہ (Victoria)آبشار بھی دنیا کی بڑی آبشاروں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ دریائے زمبیزی پر واقع ہے۔ یہاں پانی ۴۲۰؍فٹ بلندی سے گرتا ہے اور اس کا شور پچیس میل دُور سے سنا جاسکتا ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۱؍اگست ۲۰۱۴ء میں مکرم ابن کریم صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: آپ آئیں اندھیرے بڑے چھا گئے ہیںکہ ہر سُو خسارے جگہ پا گئے ہیںیہاں پھول معصوم روندے گئے ہیںدرندہ صفت بھیڑیے آگئے ہیںیہاں موت کا رقص جاری و ساریکہ پردے دماغوں پہ وہ چھا گئے ہیںاے مالک! مصیبت کو اب ٹال دے تُویہ غم جاں گسل ہیں کہ جاں کھا گئے ہیںمنادی صدا پر صدا دے رہا ہےجنہوں نے ہے مانا سکوں پا گئے ہیں مزید پڑھیں: رتی کے بیج (گھونگچی) — Rosary peaتعارف، فوائد اور احتیاطیں