https://youtu.be/dUl43dPoCxY یاد رکھیں کہ اگر آپ انٹرنیٹ پر کوئی پروڈکٹ مفت استعمال کررہے ہیں،تو اس کا مطلب ہے کہ آپ خود پروڈکٹ ہیں انسانی ارتقا و بقا کے لاکھوں سال پر محیط ادوار میں توجہ و ارتکاز کی صلاحیت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ صلاحیت عہدِآفرینش سے ماحولیاتی، سماجی اور جسمانی ضروریات و تقاضوں کے مطابق ڈھلتی رہی۔ ابتدا میں انسان کا توجہ کا دورانیہ مختصر تھا، کیونکہ گھنے جنگلات میں اَن گنت خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے توجہ کا ایک شے سے دوسری شے پر تیزی سے منتقل ہونا ماحولیاتی تقاضا تھا۔ پھر جب انسان کو زیادہ پیچیدہ اور مشکل چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، یعنی ایسے کام جن میں منصوبہ بندی، سوچ و فکر اور گہری توجہ درکار ہوتی ہے، تو توجہ کا دورانیہ بڑھتا گیا۔ آج مہذب انسان کے لیے توجہ و ارتکاز کا دورانیہ بیس سے چالیس منٹ تک بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دنیائے حیوانیات میں توجہ کا دورانیہ جبلتی و ماحولیاتی تقاضوں کے مطابق ہے، جیسے کہ fruit fly (مکھی) کا دورانیہ سب سے کم، یعنی پانچ سے دس سیکنڈ، جبکہ ڈولفن کا بیس سے تیس منٹ تک ہوتا ہے، جو حیوانات میں سب سے طویل ہے۔توجہ و ارتکاز کی صلاحیت ایک کلیدی اور بنیادی آلہ ہےجس کے ذریعے کوئی بھی آسان یا مشکل کام بہترین انداز میں سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے سماجی تعلقات کو گہرائی سے سمجھا اور مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ (اکثر اوقات نزاع، جھگڑوں، ناراضگی اور تلخیوں کی وجہ ایک دوسرے کی بات، نظریات اور تقاضوں کو توجہ سے نہ سننا ہوتا ہے۔) دورِ جدید میں توجہ و ارتکاز کا نظام ہائی جیک ہو چکا ہے۔ اس کے ہائی جیکرز سوشل میڈیا کمپنیاں ہیں۔ یہ انسان سے اس کی قیمتی ترین شے، یعنی توجہ، لے کر اسے سرمائے میں تبدیل کردیتی ہیں۔ اس سرمائے کو attention capitalکہا جاتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ توجہ جیسی انمول شے دے کر انسان کیا حاصل کر رہا ہے؟ چند سیکنڈز کی ٹک ٹاک ویڈیوز، فیس بک ریلز، یوٹیوب پر بے مقصد وقت گزارنا وغیرہ۔ ہم توجہ و ارتکاز دے کر یہ سب خرافات وصول کرتے ہیں، جیسے کوئی احمق شخص ہیرے جواہرات دے کر بدلے میں کچرا اٹھا لے۔آج ہماری توجہ سرمایہ داروں کے لیے کرنسی بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا ایپس، جنہیں ہم مفت سمجھتے ہیں، دراصل مفت نہیں ہیں۔ ہم اپنی توجہ دے کر انہیں استعمال کرتے ہیں۔ صارف کی توجہ کھینچنے کے لیے algorithms کو ڈیزائن کیا جاتا ہے۔آج سے پچاس سال پہلے ٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں کمپنیاں ہارڈویئر اور سافٹ ویئر بناتی تھیں، اور صارف انہیں خرید لیتے تھے۔ دورِ حاضر میں بزنس اور مارکیٹ کا ماڈل سادہ نہیں رہا؛ اب صارف خود ایک پروڈکٹ بن گیا ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر آپ کوئی پروڈکٹ مفت استعمال کررہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ خود پروڈکٹ ہیں۔ مفت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو تشہیری کمپنیاں پیسے دیتی ہیں، اور اس کے عوض صارف کو بیچ دیا جاتا ہے۔ صارف کو بیچنے سے پہلے اس کی مکمل online surveillance کی جاتی ہے۔ اس کے ہر آن لائن معاملے کو ٹریک کیا جاتا ہے: آپ کس تصویر کو کتنی دیر دیکھتے ہیں، کون سی ویڈیو کس وقت اور کتنی دیر تک دیکھتے ہیں، کیا سرچ کرتے ہیں وغیرہ۔ اس طرح تشہیری کمپنیاں مختلف مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی پروڈکٹس صارف کے سامنے لاتی رہتی ہیں۔ایک مثال سے اس نظام کو سمجھا جا سکتا ہے۔ چالیس، پچاس سال قبل ایک جوتا ساز کمپنی تشہیری مہمات کے لیے ٹی وی، اخبارات، رسائل، پوسٹرز اور بل بورڈز استعمال کرتی تھی۔ لیکن دورِ حاضر میں کمپنی سوشل میڈیا سے رابطہ کرتی ہے، جو اس کے اشتہارات potential customers (ممکنہ صارف) تک پہنچاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص یہ جوتا خرید سکتا ہے اور فلاں نہیں؟ جواب یہ ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں آن لائن surveillance سے ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں۔ ہم جو کچھ بھی انٹرنیٹ پر کرتے ہیں، اس کے ڈیجیٹل footprints موجود رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کے آپ برون گرا (extrovert) ہیں یا درون گرا (introvert)، آپ کب اداس ہوتے ہیں، کب خوش ہوتے ہیں، کب سوتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، آپ کے قریبی دوست کون ہیں، آپ کس فیشن کو پسند کرتے ہیں، آپ کا موڈ کیسے خوشگوار یا خراب ہوتا ہے، پچھلے ہفتے آپ نے کن سرگرمیوں میں وقت گزارا۔ غرض کہ آن لائن surveillance کے ذریعے یہ کمپنیاں آپ کا سارا کچھ جانتی ہیں۔ اس طرح انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس فرد کو کس تشہیری کمپنی کے سپرد کرنا ہے۔اس بزنس ماڈل کی رگوں میں توجہ کا خون دوڑتا ہے۔ فرض کریں کہ لوگ دس دنوں کے لیے فیس بک استعمال کرنا چھوڑ دیں، تو کیا ہوگا؟ فیس بک کو دس دنوں میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہوگا۔ فیس بک اشتہارات سے آمدنی کماتا ہے، اور جب لوگوں کی توجہ فیس بک کی طرف نہ ہوگی تو اشتہارات بھی غائب ہو جائیں گے۔ دراصل، بڑی بڑی کھربوں ڈالرز کی مالیت والی سوشل میڈیا کمپنیاں اور دیگر مشہور ویب سائٹس توجہ پر ٹکی ہیں۔ اگر آج لوگ ان سے منہ پھیر لیں، تو یہ کھربوں ڈالرز کے ایمپائر زمین بوس ہوجائیں گے۔ اس نظام کا ایندھن توجہ ہے، اور ایندھن کی سپلائی برقرار رکھنے کے لیے سائبر ایمپائرز کے سپر کمپیوٹرز، جنہیں algorithms سے طاقت حاصل ہوتی ہے، ہر صارف کا ایک شخصی خاکہ تیار کر لیتے ہیں۔ اس خاکے کو مدنظر رکھتے ہوئے صارف کو ترغیب دی جاتی ہے اور اسے manipulate کیا جاتا ہے۔ مقصد صارف کو engaged رکھنا ہوتا ہے۔ شخصی خاکے کے مطابق دلفریب نوٹیفکیشنز اور friend suggestions بھیجے جاتے ہیں۔ ہر بار scroll کرنے سے نئی ویڈیو یا پوسٹ سامنے آتی ہے، جسے سامنے لانے کا فیصلہ وہ سپر کمپیوٹر کرتا ہے جس نے صارف کا شخصی خاکہ تیار کیا ہوتا ہے۔ آپ کی engagement کھربوں ڈالرز کے سرمائے میں اضافہ کرتی جاتی ہے۔ آپ کی توجہ ان کمپنیوں کے لیے آکسیجن ہے۔ اس آکسیجن کی فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ کمپنیاں ایک باریک واردات کرتی ہیں۔ یہ آپ کے لاشعور میں اس بات کا بیج بو دیتی ہیں کہ آپ کے موبائل میں ہر وقت کچھ نیا آپ کا منتظر ہے: کوئی نیا comment، نئی پوسٹ، نئی ویڈیو، یا تازہ معلومات۔ تصور کریں کہ ایک شخص نے اپنا موبائل کوٹ یا پتلون کی جیب میں رکھا ہوا ہے اور وہ دوسرے شخص سے گفتگو میں مصروف ہے۔ دورانِ گفتگو، حالانکہ اس کے موبائل پر کوئی ringtone، message tone، یا notification tone نہیں بجتی، پھر بھی اس کا ہاتھ بار بار جیب کی طرف جاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس کے لاشعور میں یہ بات جاگزیں ہو چکی ہے کہ موبائل میں کچھ نیا اس کا منتظر ہے۔ موبائل فون کو بار بار چیک کرنے کی عادت لاشعوری عادت بن چکی ہے۔ کمپنیوں نے صارف کو اس کے لیے لاشعوری سطح پر programmed کر دیا ہے۔ یہ سب توجہ کھینچنے کا گورکھ دھندہ ہے۔شاید کچھ قارئین یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ سب conspiracy theories ہیں یا لکھاری خیالی پلاؤ پکا رہا ہے بھلا اتنی عظیم کمپنیوں کو ہماری توجہ کی کیا ضرورت؟ عرض ہے کہ یہ کوئی تھیوری یا خیالی قلابازیاں نہیں، بلکہ حقیقت ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں The Social Dilemma نامی ایک دستاویزی فلم سامنے آئی۔ اس میں گوگل، فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹوئٹر جیسی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے سابق ملازمین نے کیمرے کے سامنے آ کر ان سوشل میڈیا کمپنیوں کے مکروہ چہرے کو بےنقاب کیا اور ان کے پوشیدہ ایجنڈوں کو دنیا کے سامنے لائے۔ تو یہ سب حقیقتیں ہیں، کسی دیوانے کا خواب نہیں۔ اب ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سائبر بزنس ماڈل ہماری توجہ کا کس طرح حشر نشر کرتا ہے۔ جب ہم موبائل، لیپ ٹاپ، یا ٹیبلٹ کی سکرین پر scrollingکرتے ہیں، یعنی تیزی سے ایک ویڈیو سے دوسری ویڈیو یا ایک پوسٹ سے دوسری پوسٹ پر چھلانگیں مارتے ہیں، تو بہت کم وقت میں ہمارا دماغ مختلف تصاویر، پوسٹس، ویڈیوز، تبصروں، اور معلومات سے گزرتا ہے۔ جب ہم بار بار دماغ کو اس تجربے سے گزارتے ہیں، تو وہ ہر وقت یہ توقع رکھنے لگتا ہے کہ انتہائی کم وقت میں تیزی کے ساتھ متفرق تصاویر، ویڈیوز، اور معلومات اسے ملتی رہیں گی۔ سکرین ٹائم دماغ کو ڈوپامائن hitsبھی فراہم کرتا ہے۔ اس طرح دماغ تربیت یافتہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہر دم رنگین اور متنوع مواد کی توقع رکھے۔اب جب ہمیں کوئی slow task، جیسے کتاب پڑھنا، درپیش ہوتا ہے، تو ہمارا فوکس قائم نہیں رہتا۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نے دماغ کو بلٹ ٹرین بنا دیا ہے۔ اب اگر ہم اسے سائیکل کی رفتار پر لائیں، تو وہ مزاحمت کرے گا، چیخے گا کہ ’’اے ظالمو! پہلے تم نے میری بریکیں نکال کر مجھے بلٹ ٹرین بنایا، اور اب سائیکل بننے کو کہتے ہو؟‘‘ (معاف کیجیے، لگتا ہے یہ مضمون لکھتے ہوئے میری توجہ بھی بھٹکنے لگی۔ موضوع کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔)کتاب پڑھتے، لیکچر سنتے، یا ہوم ورک کرتے ہوئے توجہ قائم رکھنا دشوار ہو جاتا ہے، کیونکہ slow tasks سے دماغ کو وہ ڈوپامائن hits نہیں ملتے جن کا وہ سوشل میڈیا پر scrolling سے عادی ہو چکا ہے۔ ایسی سرگرمیوں میں چند سیکنڈ بعد کوئی نئی تصویر یا ویڈیو نہیں ملتی، جس کی توقع میں دماغ تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ نتیجۃً، دماغ آہستہ کاموں میں بوریت کا شکار ہو جاتا ہے۔ جن کاموں کے لیے زیادہ وقت تک توجہ درکار ہوتی ہے، آج کا انسان انہیں کرتے ہوئے frustrated ہو جاتا ہے۔ بعض پیشوں، جیسے وکیل، سرجن، ڈاکٹر، یا اکاؤنٹنٹ، میں توجہ کی بہت اہمیت ہے۔ جب ان پیشہ ور افراد کا attention span سکڑ کر چند سیکنڈ تک رہ جاتا ہے، تو انہیں طویل فوکس کے لیے cognitive enhancers کی ضرورت پڑتی ہے۔ توجہ کا کم ہوتا دورانیہ نہ صرف ایک فرد بلکہ پوری انسانیت کے لیے خطرناک ہے۔ سکرین ٹائم کے مضر اثرات بہت وسیع ہیں۔ اس سے ADHD (Attention Deficit Hyperactivity Disorder)، یعنی توجہ کے دورانیے کا عارضہ اور ضرورت سے زیادہ سرگرمی کا مرض، جنم لے رہا ہے، اور اس کے آسان شکار بچے ہیں۔ اس عارضے میں انسان ایک کام پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتا، باتیں بھول جاتا ہے، چیزیں رکھ کر بھول جاتا ہے، کام ادھورے چھوڑ دیتا ہے، نظم و ضبط اور منصوبہ بندی میں دشواری ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ hyperactivity کی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں، جیسے ایک جگہ ٹک کر نہ بیٹھنا، دوسروں کی بات کاٹنا، بے مقصد دوڑنا بھاگنا، بغیر سوچے فیصلے کرنا، اور بے صبری۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اگر کسی میں یہ علامات ہوں، تو ضروری نہیں کہ وہ ADHD کا مریض ہو۔ مرض کی تشخیص ڈاکٹر کا کام ہے۔توجہ کے کم ہونے اور hyperactivity کے دیگر عوامل بھی ہیں، جیسے جینیاتی، صنعتی خوراک، اور ماحولیاتی عوامل، لیکن یہاں ہم سکرین ٹائم کے تعلق پر بات کر رہے ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں PubMed پر شائع ایک meta-analysis سٹڈی، جس کا عنوان تھا Childhood Attention Deficit Hyperactivity Disorder: A Meta-Analysis، میں تقریباً ایک لاکھ بچوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو بچے دن میں دو گھنٹے یا اس سے زیادہ سکرین ٹائم گزارتے ہیں، ان میں ADHD کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔بات سخت ہے، لیکن سچ ہے۔ ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل نہیں دیتے، بلکہ انہیں سوشل میڈیا کمپنیوں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ ’’لو، ہمارے بچوں سے توجہ و ارتکاز کا ہر قطرہ نچوڑ ڈالو۔ تمہاری تجوریاں بھرنے کے لیے ہمارے جگر گوشے حاضر ہیں۔‘‘ وہ ڈالرز کماتے ہیں، اور ہم ADHDکی صورت میں بیماریاں سمیٹتے ہیں۔آج کی سائیکالوجی اور پیرا سائیکالوجی جوں جوں توجہ و ارتکاز پر تحقیق کر رہی ہے، وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہے۔ توجہ سے بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے، جیسا کہ قدیم زمانوں میں ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے۔ ہندوکش کے پہاڑوں میں بسنے والے بدھ بھکشو توجہ کی قوت سے کرشمے دکھاتے ہیں، جو انسان کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں—پڑھائی، پیشہ، گھریلو معاملات، دوستی، منصوبے—توجہ و ارتکاز کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مشہور امریکی ماہرِ نفسیات ڈینیئل گولمین کی کتاب Focus: The Hidden Driver of Excellence اس کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔ جب انسان کسی شے یا صورتِ حال پر مکمل توجہ مرکوز کرتا ہے، تو وہ self-control سیکھتا ہے۔ توجہ کی ذہنی ورزشیں self-control پیدا کرتی ہیں، اور تعلیمی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ وہ بچے زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں جو فوری انعام کو نظر انداز کر کے بڑے مقصد کے لیے خود کو قابو میں رکھتے ہیں۔ خود ضابطگی (Self-control) کی جڑ توجہ میں پیوست ہے۔ توجہ روح کی قوت ہے، اور روح کی قوتیں عظیم اثرات رکھتی ہیں لیکن افسوس کہ آج ہم اس کوہ نور کو ٹکے ٹوکری کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ انٹرنیٹ کے manipulating culture میں ایسی نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں جو سطحی سوچ رکھتی ہیں۔ اگر ان کے سامنے گہرا عارفانہ نکتہ پیش کیا جائے، تو وہ خالی نظروں سے دیکھتی ہیں، جیسے مخاطب خبطی ہو۔ یہ خالی نظریں deep thinking کے خاتمے کی عکاسی کرتی ہیں۔ سکڑا ہوا attention span سطحی اور ناقص سوچ پیدا کرتا ہے، جبکہ گہری سوچ کے لیے زیادہ وقت اور فوکس درکار ہوتا ہے۔ موبائل سکرین پر تیزی سے scrolling کرتی انگلی گہری سوچ کی قاتل ہے۔ باریک امور ایسی zombie نما نسلوں میں بسیرا نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کی عقلیں موٹی ہو جاتی ہیں۔Deep thinking کے لیے attention span بڑھانا ضروری ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے سکرین ٹائم کو کم کرنا ہوگا۔ پھر سب سے موثر ذہنی ورزش یہ ہے کہ روزمرہ کام mindfully کیے جائیں۔ اگر آپ کھانا کھا رہے ہیں، تو چبانے کی ہر حرکت کو دماغ میں register کریں۔ اگر کھانا پکا رہے ہیں، تو مکمل توجہ اس عمل پر مرکوز کریں۔ روزمرہ کے کاموں کو دماغ کے ساتھ sync کریں۔ اگر کوئی بات بتا رہا ہے، تو تمام خیالات نکال کر صرف اس کی بات پر توجہ دیں۔ آج کل گفتگو کے دوران لوگ away ہو جاتے ہیں، یعنی ذہنی طور پر غیر حاضر ہوتے ہیں۔ میاں بیوی، دوست، اور عزیزوں کے درمیان غلط فہمیاں اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کی بات توجہ سے نہیں سنتے۔ گفتگو کے دوران mindful ہونا بات سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ایک اور طریقہ یہ ہے کہ گھروں میں slow tasks کو فروغ دیا جائے، جیسے کتاب بینی۔ گھر میں کتابیں پڑھنے کی تحریک چلائیں، مقابلے کروائیں، انعامات دیں۔ بچوں کو Kindle خریدنے کے لیے pocket money جمع کرنے کی ترغیب دیں۔ بچوں کے ساتھ کتابوں پرگفتگو کریں۔ گھر میں دھیان طلب کھیل، جیسے کسوٹی، کھیلیں۔ روزانہ پارک میں چہل قدمی اور جسمانی ورزشیں کریں۔ بچوں کو outdoor کھیلوں میں شامل کریں۔ اگر attention span کا عارضہ لاحق ہو تو علاج اور خوراک کے ذریعے اس پر قابو پائیں۔توجہ و ارتکاز کی صلاحیت انسانی بقا کے لیے آج بھی کلیدی ہے۔ اسے ہائی جیک کرنے کے لیے دلفریب جال بچھائے گئے ہیں۔ ہمیں اس صلاحیت کو بچانا اور مضبوط رکھنا ہے۔ یہ نعمت ہے، اور اسے بےمقصد موبائل سکرین میں پھونک کر ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ (’اے۔راضی‘) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: نعمتوں کی قدر کرنا سیکھیں