https://youtu.be/H2tZcJuZEas ٭… ہمارا کام یہ نہیں کہ غلط زبان استعمال کریں یا اُسے اِس رنگ میں جواب دیں، جس سے نادانستگی میں ہمارے منہ سے ایسے الفاظ نکل جائیں جو کسی بھی رنگ میں کسی کی بھی ہتک کا موجب بنیں ٭…مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُن کو مناسب ہے کہ اِن کی گالیاں سُن کر برداشت کریں اور ہرگز ہرگز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اِس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے۔ وہ صبر اور برداشت کا نمونہ ظاہر کریں اور اپنے اخلاق دکھائیں(حضرت مسیح موعودؑ) ٭… اگر ہم سوشل میڈیا پر اِن جوابوں کی بجائے الله تعالیٰ کے حضور جھکیں، اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں، اپنے سجدوں میں وہ درد پیدا کریں کہ جس سے الله تعالیٰ کی غیرت جلد جوش میں آئے تو ہم بہت جلد اِس سے بہت بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں، جو نتائج یہ لوگ اپنے جواب دینے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍جون ۲۰۲۵ء بمطابق ۶؍احسان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۶؍جون ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: آج کل جہاں سوشل میڈیا کا فائدہ ہے اور اِس سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، وہاں بعض ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو تکلیف دہ ہوتی ہیں اور اِسی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آج کل مخالفین جماعت احمدیہ کے خلاف اِنتہائی بیہودہ گوئی بھی کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف وہ جھوٹ اور غلاظت بکتے ہیں کہ اِنہیں سن کے احمدی کا دل چھلنی ہوتا ہے۔ اور پھر ردّ عمل میں بعض احمدی بھی اِن کے جواب غلط رنگ میں دے دیتے ہیں، نیّت چاہے اُن کی صاف بھی ہو، تب بھی بعض دفعہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جن کو غلط معنی پہنائے جا سکتے ہیں۔ یہ ہمارا طریق نہیں ہے، اِس سے ایک احمدی کو بچنا چاہیے، ہمارا کام یہ نہیں کہ غلط زبان استعمال کریں یا اُسے اِس رنگ میں جواب دیں، جس سے نادانستگی میں ہمارے منہ سے ایسے الفاظ نکل جائیں جو کسی بھی رنگ میں کسی کی بھی ہتک کا موجب بنیں اور اِس سے فائدہ اُٹھا کر مخالفین یہ کہتے رہیں کہ ہم ،نعوذ بالله، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی توہین یا صحابہ رضوان الله علیہم کی توہین کرنے والے ہیں۔ جبکہ ہمارے دلوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور صحابہؓ کا جو مقام ہے، اِس کا تو کروڑواں حصّہ بھی اِن لوگوں کو فہم و ادراک نہیں ہے۔ ہمارا تو سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے۔ آپؐ ہی وہ خاتم الانبیاء ہیں جو الله تعالیٰ کے پیارے اور آخری نبی ہیں۔ اور آپؐ کے ساتھی، صحابہؓ جو ہیں، اِن کے بارے میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بے شمار جگہ وہ کلمات فرمائے ہیں، وہ باتیں کی ہیں کہ جو اِن کی سوچ سے بھی بالا ہیں، جو ہمارے مخالفین بات کرتے ہیں۔ پس ہمارے دلوں میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہی نہیں، یہ تو ہے ہی ہے، اِس تک تو کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا، ہمارے دل میں آپؐ کے صحابہؓ کا بھی بڑا مقام ہے۔ پس اِس بات کو ہر احمدی کو سامنے رکھنا چاہیے اور ایسی باتیں کرنے سے ہر احمدی کو بچنا چاہیے، جس سے غلط تاثر پیدا ہو یا غلط تاثر پیدا ہونے کا کسی بھی رنگ میں اندیشہ ہو۔ حضور انور نے فرمایا کہ بعض احمدی سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ جو اب دے کہ بڑی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے،، جب اُن سے پوچھو تو یہی اُن کا جواب ہوتا ہے، جبکہ یہ نام نہاد غیرت جہالت ہے۔ اور اگر کوئی احمدی ہو کر ایسی باتیں کرتا ہے، جس سے کسی بھی طرح غلط مطلب نکلتا ہو، تو وہ حضرت مسیح ِموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کو بد نام کرنے والا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تم نے صبر کرنا ہے اور ہمیشہ صبر دکھانا ہے۔ ایک جگہ آپؑ نے فرمایا: یہ لوگ مجھے گالیاں دیتے ہیں لیکن مَیں اُن کی گالیوں کی پروا نہیں کرتا اور نہ اِن پر افسوس کرتا ہوں کیونکہ وہ اِس مقابلہ سے عاجز آ گئے ہیں اور اپنی عاجزی اور فرومائیگی کو بجز اِس کے نہیں چھپا سکتے کہ گالیاں دیں۔ حضور انور نے وضاحت فرمائی کہ یہ کمینہ پن اور اوچھے ہتھیاراستعمال کر رہے ہیں، کس لیے کہ اِن کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، کوئی جواب نہیں ہے، تو یہ ایسے لوگ صرف گالیاں دینا چاہتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ کفر کے فتوے لگائیں، جھوٹے مقدمات بنائیں اور قسم قسم کے اِفترا اَور بُہتان لگائیں۔ وہ اپنی ساری طاقتوں کو کام میں لا کر میرا مقابلہ کر لیں اور دیکھ لیں کہ آخری فیصلہ کس کے حق میں ہوتا ہے۔ حضور انور نے تصریح فرمائی کہ جو کوشش کرنی ہے تم نے کر لو، لیکن الله تعالیٰ میرے ساتھ ہے، آخری فیصلہ تو نظر آ جائے گا کہ کس کے ساتھ ہے۔ فرمایا کہ مَیں اِن کی گالیوں کی اگر پرواکروں تو وہ اصل کام جو خدا تعالیٰ نے مجھے سپرد کیا ہے رہ جاتا ہے۔ اِس لیےجہاں مَیں اُن کی گالیوں کی پروا نہیں کرتا، مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُن کو مناسب ہے کہ اِن کی گالیاں سُن کر برداشت کریں اور ہرگز ہرگز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اِس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے۔ وہ صبر اور برداشت کا نمونہ ظاہر کریں اور اپنے اخلاق دکھائیں۔ یقیناً یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصّہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بُردباری کا نمونہ دکھاتا ہے، اُس کو ایک نُور دیا جاتا ہے جس سے اُس کی عقل و فکر کی قوّتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نُور سے نُور پیدا ہوتا ہے۔ غصّہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں، اِس لیے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔ مؤخّر الذکر اقتباس کی روشنی میں حضور انور نے تلقین فرمائی کہ پس یہ وہ سبق ہے جسے ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے اور یہ جو خود ساختہ بعض لوگ عالم بن جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر جواب دینےشروع کر دیتے ہیں، غیر احمدیوں کے، جو نام نہاد مُلّاں ہیں، جو لوگ اعتراض کرتے ہیں، اِن کے اعتراضوں کے جواب دینے لگتے ہیں۔ اِن کو اِس چیز سے بچنا چاہیے۔اور اگر جواب تلاش کرنے ہیں تو جماعت کے علماء سے، جماعتی لٹریچر سےگہرا علم رکھنے والے، اُن سے پوچھا جائے اور اُس کے جواب ایسے دیے جائیں جو واقعی ٹھوس ہوں اور اُن کے دلائل اور الزاموں کو ردّ کرنے والے ہوں۔ آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو تعلیم ہے، جو حقیقت میں صحیح اسلامی تعلیم ہے، اِس پر عمل کریں۔ ورنہ آپ لوگ جماعت میں رہ کر پھر جماعت کو بد نام کرنے والے ہیں۔ الله تعالیٰ ہمیں شریروں کے شرسے بھی بچائے اور اُن لوگوں کو بھی عقل دےجو جھوٹی غیرت دکھانے والے ہیں اور بعض دفعہ بلاوجہ بعض الفاظ استعمال کر کےفتنہ و فساد کو پھیلانے کا موجب بن جاتے ہیں۔ اگر ہم سوشل میڈیا پر اِن جوابوں کی بجائے الله تعالیٰ کے حضور جھکیں، اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں، اپنے سجدوں میں وہ درد پیدا کریں کہ جس سے الله تعالیٰ کی غیرت جلد جوش میں آئے تو ہم بہت جلد اِس سے بہت بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں، جو نتائج یہ لوگ اپنے جواب دینے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے اِس نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ اِس لیے ہر احمدی کو اِس چیز سے بچنا چاہیے کہ کبھی ایسی باتیں نہ کریں جو دشمن کو بلا وجہ یہ موقع دے کہ احمدی نے یہ کہہ دیا اور وہ کہہ دیا۔ ہمارے اخلاق بہت بلند اور بہت بالا ہونے چاہئیں۔ اور جس کے اخلاق بلند نہیں، اِس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا نہیں کیا۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ہر ایک خود اپنا جائزہ لے، سوچیں اور بجائے غلط قسم کے جوابوں کے دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق عطا فرمائے اور مخالفین کے شراُن پر اُلٹائے اور اِس سے بچائے۔ ٭…٭…٭