https://youtu.be/yqRzyq9ZVzk از طرف ممبران وکارکنان ریسرچ سیل ربوہ پاکستان بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تُو جاں فدا کر ہم جملہ ممبران وکارکنان ریسرچ سیل ربوہ پاکستان مکرم و محترم سیدمیرمحموداحمد صاحب ناصر کی وفات پر گہرے دکھ اور دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ’’جیدعالم،خلافت کے فدائی ،بے مثل خادم دین ‘‘ تھے۔آپ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک خدمت دین میں مصروف کار، اپنی تمام تر صلاحیتوں سے خدمت کا حق ادا کرتے ہوئے مورخہ ۱۱ مئی ۲۰۲۵ء کو صبح قریباً ۶بجے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں۹۶ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ آپ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے بیٹےتھے۔ آپ کی والدہ کا نام صالحہ بیگم تھا جو حضرت پیر منظور محمد صاحب کی بیٹی تھیں جو حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کے صاحبزادے تھے۔ آپ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے پوتے ، حضرت اماں جان حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے بھتیجے اور حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مریم صدیقہ صاحبہ کے داماد تھے۔ ۲۶دسمبر۱۹۵۵ء کو آپ کا نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی صاحبزادی محترمہ امۃ المتین صاحبہ کے ساتھ پڑھایا اور اس موقع پر آپ نے فرمایا: ’’ محمود احمد اس وقت لندن میں بی اےمیں پڑھ رہے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے خیریت رکھی تو ارادہ ہے کہ اگلے سال مئی میں وہ واپس آجائیں۔ میں اپنے تینوں بچوں کو محمود احمد کو جو داماد ہے اور داؤد احمد کو جو داماد ہے اور طاہراحمد کو جوام طاہر مرحومہ کا لڑکا ہے وہاں چھوڑ آیا ہوں تاکہ وہ تعلیم پائیں اور آئندہ سلسلہ کی خدمت کریں۔ ان کو تاکید ہے کہ انگریزی میں لیاقت حاصل کریں ممکن ہے ان میں سے کوئی ایم اے کر سکے تو پھر وہ یہاں کالج میں پروفیسر ہو سکتا ہے نہیں تو اگر انگریزی تعلیم اچھی طرح حاصل ہو جائے تو چونکہ یہ تینوں مولوی فاضل ہیں اور عربی تعلیم بھی ان کی نہایت اعلیٰ ہے اگرانگریزی تعلیم بھی اعلیٰ ہو گئی تو قرآن شریف کا ترجمہ اور حضرت صاحب کی کتابوں کا ترجمہ انگریزی میں کر کے وہ سلسلہ کی اشاعت میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ ریویو آف ریلیجنز بھی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کا کوئی اچھا اور لائق ایڈیٹر ہو۔ اس غرض کے لئے میں اپنے بچوں کو وہاں چھوڑ آیا ہوں گو اس بیماری اور کمزوری میں اتنے اخراجات برداشت کرنا کہ تین بیٹے وہاں پڑھیں (دو داماد اور ایک بیٹا) مشکل ہے مگر میں نے سمجھا کہ جماعت کی مشکل میری مشکل سےبڑی ہے۔ بہر حال ہمیں آئندہ کے لئے کام کرنے والے تیار کرنے چاہئیں۔‘‘ آپ کی شادی ۲۱نومبر۱۹۵۷ء کوہوئی ، آپ کے چاربیٹے :مکرم سیدشعیب احمدصاحب، مکرم ڈاکٹرسیدابراہیم منیب صاحب، مکرم سیدمحمداحمدصاحب [واقف زندگی] ، مکرم ڈاکٹر سیدغلام احمدفرخ صاحب[واقف زندگی ] اور ایک بیٹی محترمہ عائشہ نصرت جہاں صاحبہ اہلیہ مکرم مرزافخراحمدصاحب ،ہالینڈ ، ہیں۔ مکرم سید میرمحمود احمد ناصر صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی پھر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا اورمولوی فاضل کاامتحان بھی پاس کیا۔۱۷ مارچ ۱۹۴۴ءکو اپنے والد صاحب کی وفات والے دن ۱۴/۱۵سال کی عمر میں حضرت مصلح موعودؓ کی موجودگی میں زندگی وقف کی جس کوحضورنے بہت سراہا۔ اورپھرتادمِ آخر قریباً ۸۰ سال تک اس وعدے کو ایسا نبھایا کہ اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ آپ نے ۱۵مئی ۱۹۴۵ء کو جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ کا پہلا تقرر یکم اپریل ۱۹۵۲ء کو ہوا۔ ۱۹۵۴ء تا ۱۹۵۷ء انگلستان میں مقیم رہے۔ جہاں آپ نے بطور مبلغ کام کیا اور اسی دوران University of London SOAS (The School of Oriental and African Studies)میں حضرت مصلح موعودکے ارشاد پر تعلیم بھی حاصل کی۔ اور کچھ عرصہ لندن مشن کے سیکرٹری کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ آپ کی خدمات دینیہ کا عرصہ کم وبیش ۸۰برس بنتا ہے۔ اس دوران آپ مبلغ سلسلہ امریکہ ، سپین،۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۸ء تک استاذجامعہ احمدیہ ربوہ رہے، اور۱۹۸۶ء سے ۲۰۱۰ء تک پرنسپل جامعہ ربوہ کے طورپر خدمات سرانجام دیں،اس کے علاوہ وکیل التصنیف ، وکیل التعلیم، ممبریتامیٰ کمیٹی، قاضی سلسلہ ، نائب صدرخدام الاحمدیہ ،مہتمم خدمت خلق، مہتمم تربیت، مہتمم عمومی اور ربوہ کے پہلے قائد مجلس بھی منتخب ہوئے، جلسہ سالانہ کی مختلف نظامتوں کے تحت ڈیوٹی دی اور نائب افسرجلسہ سالانہ بھی رہے آپ بہترین مقررتھے، جلسہ سالانہ کے موقع پرمتعدد مرتبہ تقاریرکرنے کی سعادت پائی۲۰۱۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی منظوری سے ایک رسالہ’’ موازنہ مذاہب‘‘ کا لندن سے اجرا ہوا تو محترم میرصاحب ہی اس کے پہلے ایڈیٹر مقررہوئے اور اپنی وفات سے چندماہ پہلے تک بہترین اندازمیں اس رسالے کی ادارت کے فرائض اداکرتے رہے اور لندن کے مرکزی جلسہ سالانہ کے موقع پرایک سے زائد مرتبہ حضورانورسے خراج تحسین حاصل کیا۔ایک مرتبہ حضورانورایدہ اللہ نے فرمایا:’’ایک رسالہ جاری کیاگیا تھا، ذمہ لگایا گیا تھا ، میر محموداحمد صاحب کے۔ ماہانہ رسالہ ہے ’’موازنۂ مذاہب‘‘ جو یہاں سے چھپتا ہے یو کے سے اور اس میں بڑے اچھے علمی اور تحقیقی مضامین ہوتے ہیں۔ لوگوں کو بڑے پسند آ رہے ہیں۔ اس کی ضرورت تھی اور گو اس وقت اس کی تعداد کم ہے لیکن اس کے بارہ میں مَیں کہنا چاہتا ہوں جو لوگ اردو پڑھنا جانتے ہیں ان کو اس رسالہ کا خریدار بننا چاہیے کا فی اچھے مضامین ہیں بلکہ بعض مضامین کےترجمے کرکے ریویو آف ریلیجنز میں بھی شائع ہورہے ہیں۔‘‘(خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبر موقع چھیالیسواں جلسہ سالانہ برطانیہ مؤرخہ ۸ستمبر ۲۰۱۲ء) حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے دورصدارت میں مکرم میرصاحب کوجماعت کی مجلس مشاورت میں لجنہ اماء اللہ کی طرف سے نمائندگی کرنے کاموقع ملتارہا۔۱۳جون ۱۹۹۰ء کوتوہین رسالت کے ایک جھوٹے مقدمہ میں گرفتاربھی ہوئے اور ایک دن کے لیے اسیرراہِ مولیٰ رہنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ آپ درج ذیل شعبہ جات میں تادم آخر خدمات بجالاتے رہے: ممبرمجلس تحریک جدید، ممبرمجلس افتاء، ممبرتدوین فقہ کمیٹی، ممبرخلافت لائبریری کمیٹی، خصوصی رکن مجلس عاملہ انصاراللہ پاکستان، صدرنورفاؤنڈیشن، انچارج ریسرچ سیل، انچارج واقعہ صلیب سیل۔ آپ قرآن کریم کے مترجم اور مفسربھی تھے اوربلندپایہ محدث اور صاحب اسلوب مصنف ومضمون نگارتھے۔ سینکڑوں تحقیقی وتربیتی مضامین لکھے۔ جودنیابھرکے مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے۔سیرت النبی ﷺ اور دیگرعلمی وتربیتی موضوعات پر متعدد کتب تصنیف کیں۔ جس میں سب سے نمایاں کام بچوں کے لئے نہایت آسان اندازمیں قرآن کریم کااردوترجمہ تھا، اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ترجمہ قرآن میں معاونت کرنے والی ٹیم کے ایک فعال ممبر تھے۔ آپ جماعت کی تاریخ میں وہ پہلے خوش نصیب عالم ہیں جسے پوری صحا ح ستہ کاترجمہ کرنے کی توفیق ملی نیز شمائل النبی ﷺ ازامام ترمذی کا بھی ترجمہ کیا،صحیح مسلم کی شرح بھی شروع کی اور مسنداحمدبن حنبل کے ترجمہ کاکام جاری تھا۔ درس حدیث میں آپ کاایک خاص اندازتھا۔اوران میں سے سینکڑوں دروس ایم ٹی اے پر بھی نشرہوچکے ہیں۔محترم میرصاحب کو نبی اکرمﷺ کی چہل احادیث کی سند لینے کی بھی سعادت حاصل تھی۔ موازنہ مذاہب آپ کاایک خاص مضمون تھا اور اس میں خوب دسترس تھی ، بائبل کی مختلف کتب کی تفسیر بھی کی۔ زبانیں سیکھنے کاملکہ اورشوق بھی تھا اور انگریزی، عربی ، عبرانی، زبانوں کے علاوہ حضرت مصلح موعودؓ کے ایک ارشاد کی تعمیل میں خاص طورپر اٹالین زبان بھی سیکھی اوراس میں خوب مہارت حاصل کی ، حضورانورایدہ اللہ کی طرف سے تفویض کردہ عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کے ایک پراجیکٹ پربھی کام کررہے تھے۔ محترم میر صاحب نے ریسرچ سیل کے کارکنان وممبران کواپنے عمل سے نمونہ دیا کہ کام ،کام اور بس کام اور خاص طورپریہ نمونہ بھی دیا کہ جب خلیفۃ المسیح کی طرف سے کوئی ارشاد یاکام آئے تو باقی سب کام چھوڑکر اس کوشروع کیاجائے اور جب تک مکمل نہ ہوجائے تب تک دوسراکام شروع نہ کیاجائے۔ خودبھی جب دفترتشریف لاتے تو کام کے لیے اپناقلم جوکھولتے تو چھٹی تک وہ قلم نہ بندہوتانہ کام رکتا۔اوراس کے ساتھ ساتھ بشاشت اور مسکراہٹ میرصاحب کاایک منفرد امتیازتھا۔ اپنے سارے کام خوداپنے ہاتھ سے کرتے اور عجزوانکسارایساکہ افسروماتحت کاامتیاز کالعدم تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۱۶مئی ۲۰۲۵ء کے خطبہ جمعہ میں محترم میرصاحب کی خدمات دینیہ اور اوصاف ِ حسنہ کاذکرخیرکرتے ہوئے بیان فرمایا:’’اللہ تعالیٰ سے جو محبت تھی اس کا اظہار نمازوں اور ذکر الٰہی سے ہوتا تھا۔ ان کی نمازوں کو تو میں نے بھی دیکھا ہے۔ ا یک طرف کونے میں لگے جس خشوع و خضوع سے پڑھا کرتے تھے جو گھر میں نمازیں ہیں وہ تو ہوتی ہوں گی ان کو ہم نہیں جانتے لیکن باہر بھی ان کی ایک عجیب کیفیت ہوتی تھی نماز کے وقت۔ ایک ایسا فطری اور بے تکلف تعلق تھا جس کا لوگوں کے سامنے اظہار نہیں سمجھتے تھے لیکن پھر بھی بعض دفعہ اظہار ہو جاتا ہے لوگ خود ہی نوٹ کر لیتے ہیں۔ ‘‘ خلافت سے محبت چھلکتی تھی ہی ،لیکن سب سے بڑھ کر محبت ان کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی عشق تھا ایک۔ اتباع سنت رسول کی کوشش کرتے تھے چھوٹی چھوٹی باتوں سے اس کا اظہار ہوتا تھا۔ محترم میر صاحب نے ایک نہایت معصومانہ اور پاکباز زندگی بسر کی۔ انتہائی نفیس لیکن عاجز اور منکسر المزاج قناعت اور توکل کی ایک اعلیٰ مثال بن کر رہے۔ علم و عرفان کا ایک سمندر تھے ،بہت بڑے عالم تھے۔مفسر بھی تھے۔ محدث بھی تھے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کے یہ پہلے خوش نصیب عالم ہیں جنہیں قرآن کریم کااردو ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ پوری صحاح ستہ کا اردو ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ میر صاحب کی زندگی عبارت تھی اس بات سے کہ کام کام اور بس کام۔ چھٹی کا لفظ میر صاحب کی زندگی کی لغت میں نہ تھا۔ میر صاحب بلا شبہ خلافت نما وجود تھے جنہوں نے خلافت کی اطاعت اور خلافت سے محبت کر کے دکھائی اور سمجھایا۔ اپنے عمل سے دکھایا کہ خلافت کا احترام اس کو کہتے ہیں۔ لوگوں کے لیے ایک ماڈل تھے۔ قرآن کریم سے محبت ایسی تھی کہ ایسا عشق کبھی نہیں دیکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں ان کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:’’خلافت کے ایک عظیم معاون اور مددگار تھے جاںنثار تھے حرف حرف پر عمل کرنے والے تھے۔ باوفا تھے۔ ایسے سلطان نصیر تھے جو کم کم ہی ملتے ہیں۔ عالم باعمل تھے۔ مجھے تو کم از کم ان جیسی کوئی مثال ابھی نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اللہ کے خزانے میں تو کوئی کمی نہیں ہے اللہ کرے کہ ایسی مثالیں اور بھی پیدا ہو جائیں اور ایسے باوفا اور مخلص اور تقویٰ پر چلنے والے مددگار اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو عطا فرماتا رہے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے باپ کی دعاؤں کا حصہ دار بنائے اور ان کے عمل پر ان کی نصیحتوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ ہم جملہ ممبران ریسرچ سیل حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اورافرادخاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے پسماندگان سے دلی رنج و غم اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ محترم میر صاحب کو اپنی رضاکی جنتوں میں اعلیٰ علیین کے مقام پر فائز کرے ،آپ کے درجات بلند فرماتاچلاجائے اور آپ کے بیٹوں اوربیٹی اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین اورپیارے حضورکی خدمت میں عاجزانہ درخواست دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خلافت کو ایسے سینکڑوں ہزاروں سلطان نصیر عطافرماتارہے۔ آمین مزید پڑھیں: قرارداد تعزیت بروفات مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب