ایک بات یاد رکھیں کہ حکمت اور بزدلی میں فرق ہے۔ حکمت دکھانی ہے اپنے دین کی غیرت رکھتے ہوئے۔ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’آیت جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مدا ہنہ کرکے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کرلیں‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305 حاشیہ) یعنی حکمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بزدلی دکھائی جائے، یہ نہیں ہے کہ اپنے قریب لانے کے لئے جو ہماری تعلیم نہیں ہے اس میں بھی ہاں میں ہاں ملائی جائے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں تو اس وقت چپ ہو جائیں کہ اس کو حکمت سے قریب لانا ہے۔ یہ تو پھرشرک کے مدد گار بننے والی بات ہو جائے گی۔ اور بہت سار ے طریقے اور جو اب ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سا منے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں ‘‘۔ جو اس طرح سخت کلامی کرتا ہے اس کے منہ سے پھر اچھی باتیں نہیں نکلتیں۔ ’’غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بڑھتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ104۔ الحکم 10مارچ1903ء) اب ہمارے خلاف یہی غصہ اسی لئے جنون کی حداختیار کر گیاہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ دلوں کی کچھ خواہشیں اور میلان ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی وقت بات سننے کے لئے تیار رہتے ہیں اور کسی وقت اس کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے تحت داخل ہوا کرو اور اسی وقت اپنی بات کہا کرو جبکہ وہ سننے کے لئے تیار ہوں۔ اس لئے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیاجائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے، (یعنی بات قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے)۔ (کتاب الخراج۔ ابویوسف) (خطبہ جمعہ ۸؍ اکتوبر۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۲۲؍اکتوبر۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: تقویٰ سے خالی قربانی صرف ایک جانور کاذبح کرنا ہی ہے