٭…آج کل پاکستان میں جماعت احمدیہ کو قربانی سے روکا جاتا ہے اور گذشتہ کئی سالوں سے یہ ہورہا ہےکہ ہمیں قربانی سے روکا جاتا ہے؛ تو اصل چیز تو تقویٰ ہے یعنی اگر قربانی نہیں بھی کرنے دی جاتی تو اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو جانتا ہے کہ ہم کس نیت سے قربانی کرناچاہتے ہیں۔ اگر ہماری نیت تقویٰ پر چلتے ہوئے قربانی کرنے کی تھی تو قربانی نہ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ ہماری قربانیاں قبول کرنے والا ہے ٭…آج کل جب ہر طرف سے سختیاں کی جارہی ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم پہلے سے بڑھ کر اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں مانگیں جیسے ایک ذبح کیاجانے والا جانور تڑپتا ہے اسی طرح ہمیں بھی اپنے عمل ظاہر کرنے چاہئیں ٭…دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں پابندیاں بھی دُور کرے اور ہمیں حقیقت میں کھلے طور پر عبادت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سب روکیں دُور ہوں ، آزادی سے جانوروں کی قربانیاں بھی کرسکیں (اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے، ۶؍جون۲۰۲۵ء،نمائندگان الفضل انٹرنیشنل)آج ۱۰؍ ذو الحجہ ۱۴۴۶ھ بروز جمعۃ المبارک عید الاضحیٰ کا مبارک دن ہے۔ اس موقع پر ہزاروں کی تعداد میں عشاق احمدیت نے اسلام آباد ٹلفورڈ کا رخ کیا جہاں امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک میں نمازِعید پڑھائی اور پُرمعارف خطبہ عید الاضحیٰ ارشاد فرمایا۔ ٹھیک ساڑھے دس بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نماز عید کی امامت فرمائی۔ سنت نبویﷺ کی پیروی میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ جبکہ دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرمائی۔ اسی طرح نماز عید کے اختتام پر تین مرتبہ بلند آواز میں تکبیرات کا ورد کیا۔ دس بج کر ۴۴ منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ منبر پر رونق افروز ہوئے اور ایم ٹی اے کے توسط سے دنیا بھر کے تمام احمدیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور خطبہ عید ارشاد فرمایا۔ خلاصہ خطبہ عید الاضحیٰ تشہد،تعوذ، سورة الفاتحہ اور سورة الحج کی آیات ۳۵تا۳۹ کی تلاوت اور ترجمہ پیش کرنے کے بعدحضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: اس مضمون میں ہمیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ قربانی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ تم دوسروں کی قربانی لو جیسے عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی لی جاتی ہے، بلکہ تمہیں یہ بتانے کے لیے کہ اعلیٰ چیز کے لیے ادنیٰ چیز قربان کی جاتی ہے، پس تمہیں بھی اپنے پیدا کرنے والے خدا کے لیے قربانی دینے کےلیے تیار رہنا چاہیے۔ اللہ تم سے صرف تقویٰ پر چلنے کی امید رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ تم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ اُس کی خشیت اور خوف تمہارے دل میں رہے اور تم ہر وقت اس بات کے لیے کوشاں رہو کہ مَیں کس طرح اس کے احکامات پر عمل کرکے اس کی رضا حاصل کروں۔ آج کل پاکستان میں جماعت احمدیہ کو قربانی سے روکا جاتا ہے اور گذشتہ کئی سالوں سے یہ ہورہا ہےکہ ہمیں قربانی سے روکا جاتا ہے؛ تو اصل چیز تو تقویٰ ہے یعنی اگر قربانی نہیں بھی کرنے دی جاتی تو اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو جانتا ہے کہ ہم کس نیت سے قربانی کرناچاہتے ہیں۔ اگر ہماری نیت تقویٰ پر چلتے ہوئے قربانی کرنے کی تھی تو قربانی نہ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ ہماری قربانیاں قبول کرنے والا ہے۔ جو لوگ دکھاوے کی قربانیان کرتے ہیں یہ تو تقویٰ سے عاری قربانی ہے، کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کرو؟ کیا اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ لوگوں پر ظلم کرو یا انہیں اللہ کی عبادت کرنےسے روکو؟ اللہ تعالیٰ نے تو یہ حکم نہیں دیے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہر اُس شخص کو جس نے لاالہ الا اللہ پڑھا یہ کہہ دیا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ لیکن یہ لوگ جو کچھ آج کل احمدیوں کے ساتھ پاکستان میں کر رہے ہیں یہ خدا تعالیٰ سے دُور لے جانے والی باتیں ہیں۔ یہ ظلم ہے۔ لیکن بہرحال ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم یہ بات سمجھیں کہ یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کےلیے ہیں، اس لیے اگر ہم قربانی نہیں بھی کر سکیں گے تو اللہ تعالیٰ پھر بھی اسے قبول فرمائے گا کیونکہ اس نے یہی فرمایا ہے کہ مجھ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ مجھ تک پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ تمہاری پیدائش کا مقصد حقوق اللہ کی ادائیگی اور اُس کی بندگی ہے۔ اس میں سب سے پہلی چیز نماز باجماعت کا قیام ہے۔ آج کل جب ہر طرف سے سختیاں کی جارہی ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم پہلے سے بڑھ کر اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں مانگیں جیسے ایک ذبح کیاجانے والا جانور تڑپتا ہے اسی طرح ہمیں بھی اپنے عمل ظاہر کرنے چاہئیں۔ پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ نمازیں ہم نے اپنے گلے سے اتارنے کے لیے نہیں پڑھنیں بلکہ ان کا حق ادا کرنے کے لیے پڑھنی ہیں۔ باجماعت اور سنوار سنوار کر نماز اداکرنی چاہیے۔ آج یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنی عبادات کے معیار بلند کرنے ہیں۔ پاکستان میں شاید ہمیں عید کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ملے گی، انتظامیہ کی طرف سے پابندیاں لگادی جائیں گی یا لگادی گئی ہیں، مگر ہم نے اس کی پروا نہیں کرنی اور اپنے دلوں میں مایوسی کو جگہ نہیں دینی، بے شک اپنے گھروں میں عید کی نماز پڑھ لیں۔ مگر یہ عہد کریں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرنی ہے۔ نماز کا حق ادا کرنے کے لیے ہمیں پوری طرح کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں عبادت کے دو حصے ہیں ایک وہ کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جواس سے ڈرنے کا حق ہے۔ دوسرا حصہ یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ سے محبت کرے جو ا س سے محبت کا حق ہے۔ فرمایا: اسلام نے ان دونوں حکموں کو پورا کرنے کے لیے ایک صورت نماز کی رکھی ہے، جس میں خدا کےخوف کا پہلورکھا ہے،دوسرا محبت کے پہلو کے اظہار کے لیے حج رکھا ہے۔ دشمن کی کوشش یہی ہے کہ احمدی اپنے ایمان سے دُور ہوجائیں مگر اس میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ جو مضبوط احمدی ہے، جس کے دل میں ایمان ہے وہ کبھی ان کے ظلموں سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ ہمیں کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ہم ان دنوں میں اپنی عبادات کے معیاروں کو آگے بڑھائیں۔ بہت سے پاکستانی احمدی ایسے ہیں جن کے رشتے دار باہر ملکوں میں ہیں اگر وہ پاکستان میں قربانی نہیں کرسکتے تو باہر اپنے رشتےداروں کے ذریعے سے قربانیاں کروا سکتے ہیں۔ افریقہ کے غریب ملکوں میں قربانی کروا سکتے ہیں۔ اگر قربانیوں سے روکا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کے دوسرے ذرائع بھی دیے ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو۔ کھانا کھلانا ہے، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حج کے ساتھ قربانی رکھی ہے مگر قربانی کے اور بھی مواقع ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پھر وقت کی اور مال کی بھی قربانی ہے، اس کے لیے بھی بھرپور کوشش کریں۔ پھر جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے رکنا بھی ایک قربانی ہے۔ پھر حقوق العباد بھی نہایت اہم ہیں، ان میں میاں بیوی، بہن بھائی، عزیز رشتے دار سب کے حقوق آجاتے ہیں، ہمسایوں اور محلے داروں کے بھی حقوق ہیں، ان سب کا خیال رکھنا چاہیے۔ اسلام نے تو دشمن کے بھی حقوق رکھے ہوئے ہیں۔ غیرمسلموں کے بھی حقوق رکھے گئے ہیں۔ اگر ہم حقوق العباد کی ادائیگی مکمل طور پر کریں تو حقوق العباد تو کبھی کبھی عبادات کا رنگ بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ اس لیے پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمیں عبادات سے روکا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف اس بات سے راضی نہیں ہوتا کہ تم نے بکرے کی قربانی کردی بلکہ اللہ تعالیٰ حقوق العباد کی ادائیگی سے راضی ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک ایمان نہیں لاسکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ پس احمدیوں کو آپس میں تمام رنجشیں ختم کرنی چاہیئں تاکہ نہ صرف اخروی جنتوں کے ہم وارث بن سکیں بلکہ اس دنیا میں بھی جنت نظیر معاشرہ بنا سکیں۔ آج کل کے حالات میں تو احمدیوں کو بالخصوص تمام رنجشیں دور کرکے ایک حسین معاشرے کی بنیاد رکھنی چاہیے تاکہ مخالف کسی طور بھی ہماری صفوں کو توڑ نہ سکیں۔ اگر ہم میں تقویٰ پیدا ہوگا تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے قربانی نہ کرکے بھی ہم قربانی کرنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ہمارےنبی کریمﷺ نے جو جماعت بنائی تھی ان میں سے ہر ایک زکی نفس تھا اور ہر ایک نے اپنی جان کو دین پر قربان کردیا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو منافقانہ زندگی رکھتا ہو۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ کرے کہ ہماری عید محض دکھاوے کی عید نہ ہو بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی عید ہو۔ ہم اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں۔ دعائیں بھی کریں اور دعاؤں میں شہداء کے بچوں کو بھی یاد رکھیں جنہوں نے قربانیاں کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی نسلوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ اسیران کے لیے بھی دعا کریں۔ پاکستان میں جہاں خاص طور پر قانون میں بہت ساری پابندیاں لگائی گئی ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ پابندیاں بھی دُور کرے اور ہمیں حقیقت میں کھلے طور پر عبادت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سب روکیں دُور ہوں، آزادی سے جانوروں کی قربانیاں بھی کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ سوجھ بوجھ عطا فرمائے کہ ہم ان قربانیوں کی روح کو سمجھنے والے ہوں۔ خطبے کے آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ہی مَیں سب خطبہ سننے والوں کو، یہاں بیٹھے ہوئے سب کو عید مبارک بھی کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس عید کو بابرکت فرمائے۔ خطبہ ثانیہ کے بعد گیارہ بج کر ۳۶؍منٹ پر حضور انور نے دعا کروائی۔ اسلام آباد میں حاضری تین ہزار سے کچھ زائد تھی، جبکہ ۲۰۰ سے زائد خدام ڈیوٹی پر موجود تھے۔ ادارہ الفضل انٹرنیشنل کی جانب سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاور تمام احبابِ جماعت احمدیہ عالمگیر کوعید کی مبارکباد پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنے پیارے امام کے ارشادات کی روشنی میں حقیقی عید کرنے کی توفیق پائیں۔ آمین ٭…٭…٭