علم ایک نور ہےجو ناپیدا کنارسمندرکی طرح ہے جس کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ (یوسف:۷۶) اور ہر علم رکھنے والے سے برتر ایک صاحب علم ہے۔اگرچہ علم کی متعدد اقسام ہیں لیکن اس کی دو اقسامعلم الادیان اور علم الابدان زیادہ مشہور ہیں۔ علمُ الادیان دینی باتوں کے علم سے متعلق ہے۔وہ علم جس میں مذاہب عالم کی تدوین، تاریخ اور ارتقا سے بحث کی جائے یعنی علم کلام، عقائد، علم تفسیر، علم حدیث، فقہ، اصول فقہ وغیرہ۔ علمُ الابدان سے مرادعلم طب ہے یعنی وہ علم جس میں بدن کے اندرونی حصوں یا ساخت سے بحث کی جاتی ہے گویا یہ جسم کے اندرونی تجزیے کا علم ہے۔ جسمانی علم کا تعلق اکتساب، حصول اور کوشش سے ہے جبکہ علم ادیان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے۔حقیقت میں یہ دونوں علم اللہ تعالیٰ کے فضل پرہی منحصر ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (بنی اسرائیل:۸۶) اور تمہیں معمولی علم کے سوا کچھ نہیں دیا گیا۔یعنی حقیقی اور کامل علم اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے سوا کسی کے پاس نہیں اوراس کے تمام سرچشمے اُسی علیم وخیبر ہستی سے پھوٹتے ہیں۔ اس لیے جو انسان علمی لحاظ سے بلند مراتب چاہتا ہے اور معرفت الٰہی میں ترقی کا خواہاں ہے اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط کرے اور اسی سے مددواستمداد کا خواہاں ہو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حصول علم کی دعا سکھلاتے ہوئے فرمایا ہے: وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طٰہٰ:۱۱۵) اور یہ کہا کر کہ اے میرے ربّ! مجھے علم میں بڑھادے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:”علم کی یہ تعریف ہے کہ ایک یقینی معرفت عطاکرے۔“ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ۴۳۳) مثال کے طورپر اگر کوئی پڑھا لکھا اور نامور انسان اپنے دنیاوی علم کے ہوتے ہوئے بتوں کے آگے جھکے اور اُن کے سامنے سجدہ ریز ہو یا کسی اور کو خدا کاشریک ٹھہرائے تو وہ حقیقی علم اور معرفت سے بے بہرہ اور جاہل کہلائے گاکیونکہ حقیقی علم سے انسان کوخدا تعالیٰ کی معرفت عطا ہوتی ہے۔اُس کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف جاگزیں ہوتا ہے اور وہ خشیتِ الٰہی میں ترقی کرتاہے۔جوں جوں انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کی معرفت بڑھتی جاتی ہے وہ اُسی قدراُس کا مطیع وفرمانبرداربن جاتاہے۔ تب وہ بدیوں سے کنارہ کش ہوکر نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا(فاطر:۲۹) یقیناً اللہ کے بندوں میں سے اُس سے وہی ڈرتے ہیں جوعلم والے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”علم کی اصل غرض کیا ہے؟ خشیت اللہ اِنَّمَایَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا(فاطر:۲۹) علم پڑھو اس غرض کے لیے کہ لوگوں کو خشیت اللہ سکھاؤ۔ مگر علم کی اصل غرض خشیت، تہذیب النفس تو مفقود ہوگئی۔ ادھر کتابوں کے حواشی پڑھنے میں سارا وقت خرچ کیا جارہا ہے مگر ان کتابوں کے مضمون کا نفس پر اثر ہو، اس کی ضرورت نہیں۔“ (خطبات نور،صفحہ۳۷۷)علم کی مثال اُس خزانے کی سی ہے جو انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہو۔ نہ تو کوئی چوراسے چُراسکتا ہے، نہ کوئی آندھی یا طوفان اسے اُڑا لے جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سیلاب اسے بہاسکتا ہے، نہ آگ اسے جلاسکتی ہے اورنہ ہی اس کے گم ہوجانے یا ضائع ہوجانے کا ڈر ہوتا ہے۔بلکہ علم کو جس قدر خرچ کیا جائے یہ اُسی قدر بڑھتا ہے جبکہ علم پھیلانے والے انسان کے علم میں ذرّہ برابر کمی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے علم رکھنے والوں اور علم سے بے بہرہ لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ وہ ہرگز برابر نہیں ہوسکتے:قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ (الزمر:۱۰) تو پوچھ کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟ یقیناً عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔اس کے بالمقابل ایک عالم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُو االْعِلْمَ دَرَجٰتِ (المجادلہ:۱۲) اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور خصوصاً ان کے جن کو علم عطاکیا گیا ہے۔ حضرت ابوالدرداؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستہ پر گامزن ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پَربچھا دیتے ہیں۔(جامع ترمذی کتاب العلم باب فی فضل الفقہ حدیث نمبر۳۶۰۶) نبی کریم ﷺ کاایک اور ارشاد مبارک ہے: جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے عمل اس سے منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے۔ صدقہ جاریہ کے یا ایسے علم کے جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک اولاد کے جو اس کے لیے دعا کرے۔ (صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ بَاب مَا یَلْحَقُ الْاِنْسَانَ مِنَ الثَّوابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ حدیث:۳۰۷۰)پس حقیقی بھلائی اور نیکی کا وہی وارث ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ دین کی سمجھ عطافرمادیتا ہے اور اُسے علم اور نور فراست عطاکر دیتاہے۔اصل علم وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوکیونکہ وہی حقیقی علم کا منبع ہے جس کی کنہ کو ایک حقیر انسان ہرگز نہیں پاسکتا۔قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا (الکھف:۱۱۰) کہہ دے کہ اگر سمندر میرے ربّ کے کلمات کے لیے روشنائی بن جائیں تو سمندر ضرور ختم ہوجائیں گے پیشتر اس کے کہ میرے ربّ کے کلمات ختم ہوں خواہ ہم بطور مدد اس جیسے اور (سمندر) لے آئیں۔قرون اولیٰ کے حالات وواقعات کی ورق گردانی کرنے والے جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی تعلیم اپنے صحابہ تک پہنچانے کے لیے کس قدر اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ہم اُن عظیم المرتبت صحابہ رضی اللہ عنہم کے حصول علم کے تذکرے کو بھی کسی طرح فراموش نہیں کرسکتے ہیں جو اصحاب صفہ کے نام سے معروف ومشہور ہیں۔ ان ستر کے قریب جاں نثاروں میں سے زیادہ تر غریب الدیار اور اتنے مفلس تھے کہ اکثرو بیشتر فقروفاقہ تک نوبت جاپہنچتی،غربت اتنی تھی کہ پورا جسم ڈھانپنے کو کپڑے نہ ملتے تھے۔جب کسی مجلس میں بیٹھتے تو اپناکپڑا سمیٹ کر بیٹھتے کہ کہیں بے پردگی نہ ہوجائے لیکن حصول علم کا شوق اُنہیں اس جگہ سے الگ ہونے نہ دیتا کہ مبادا،رسول کریم ﷺ کچھ ارشاد فرمائیں اور ہم سن نہ سکیں۔ ایک مرتبہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک پوچھنے والے کو بتایا:وَاَیُّنَا لَہُ ثَوْبَانِ عَلَی عَھْدِ النَّبِیِّ ﷺ (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ بَاب عَقْدُالْاِزارِ عَلَی الْقَفَا فِی الصَّلاۃِ حدیث:۳۵۲) نبیﷺ کے زمانہ میں ہم میں سے کس کے پاس دو کپڑے ہوتے!حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ رَجُلٍ یَسْلُکُ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْمًا اِلَّا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ بِہِ طَرِیْقَ اِلَی الْجَنَّۃِ وَمَنْ اَبْطَاَبِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ (ابوداؤدکتاب العلم بَابٌ فِی فَضْلِ الْعِلْمِ حدیث:۳۶۴۳) جوشخص حصول علم کے لیے کسی راہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اُس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ اور جسے اُس کے عمل نے پیچھے رکھا اُس کا نسب اُسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔ پس نافع علم کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے اندر شوق وحرص اور حضورِ قلب جیسا وصف پایا جائے۔ وہ فارغ البال ہوکر توجہ و اطمینان سے علمی باتیں سنے اور اپنے اندر ایک سوالی کی سی کیفیت پیدا کرے تاکہ جو بات وہ سنے وہ اُس کے ذہن نشین ہوجائے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو فائدہ اٹھائے گا ورنہ سننے والے بہت کچھ سنتے ہیں لیکن محروم رہ جاتے ہیں۔انسان ایک حقیر اورلا شے محض ہے جو اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل ا ور اُسی کے احسان سے اس قابل ہوتا ہے کہ علم وحکمت اور معرفت میں ترقی کرے۔ اگر خدا تعالیٰ کا فضل درمیان سے اُٹھ جائے تو اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔اس لیے کبھی اور کسی وقت اپنے علم پر گھمنڈ اور ناز نہیں کرنا چاہیے بلکہ عاجزی اورانکساری دکھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطاہونے والے علم کو مثبت رنگ میں استعمال کرتے ہوئے ایک نفع رساں وجود بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حق بات یہ ہے کہ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ (یوسف:۷۷) اور ہر علم رکھنے والے سے برتر ایک صاحبِ علم ہے۔اللہ کرے کہ ہمارے علم کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول، خدمت ِدین، خدمت ِ انسانیت اور اُس کی رضامندی کی غرض سے ہو۔آمین مزید پڑھیں:عہدیداران اور واقفین اپنے اور دوسروں کے علمی معیار بلند کرنے کی کوشش کریں