https://youtu.be/gGckxpPl8eA (خطبہ عید الاضحی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء بمقام لندن) ۱۹۵۵ءمیں حضورؓ نے یہ خطبہ عید ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے قرآن کریم کی رُو سے حضرت اسمٰعیلؑ کو قربان کرنے اور اس کے اخلاقی پہلو کو بیان فرمایا ہے۔ عید الاضحی کی مناسبت سے قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آئے اور اس عید کا سبق ساری دنیا یاد کرلے۔ اور ساری دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھک جائے۔ اور فساد اور لڑائی جھگڑا دنیا سے مٹ جائے۔ ہر دل کعبہ بن جائے یعنی خدا کا گھر اور جس طرح خدا عرش پر ہے۔ اسی طرح خدا انسان کے دل میں بھی ہو یہ عید جس کو مسلمان عید الاضحیہ کہتے ہیں یعنی قربانیوں کی عید۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کی یاد میں منائی جاتی ہے جس کے قربان کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑکو حکم دیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو پورا کرنے کے لئے ابراہیمؑ تیار ہو گیا تھا۔ وہ کونسا بیٹا تھا اس معاملہ میں اسلام اور عیسائیت میں اختلاف ہے۔ بائیبل کہتی ہے کہ وہ اسحٰقؑ تھا۔ (پیدائش باب ۲۲ آیت ۲)قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ اسمٰعیلؑ تھا (الصّٰٓفّٰتِ:۱۰۳، تفسیر درمنثور جلد ۵ صفحہ ۲۸۰)جہانتک اس واقعہ سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس کا تعلق ہے مذ بوح اسحٰقؑ ہو یا اسمٰعیلؑ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات ایک ہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا نے اپنے ایک بیٹے کی قربانی کا حکم دیا اور اس نے قبول کرلیا۔ لیکن جہاں تک اس واقعہ کے اخلاقی پہلو کا تعلق ہے قرآن کا بتایا ہوا واقعہ بہت زیادہ معقول معلوم ہوتا ہے۔ بائیبل کہتی ہے کہ خدا نے ابراہیم ؑکو اسحٰقؑ کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ اور اس نے اسے قبول کر لیا۔ لیکن پھر وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب وہ اسے ذبح کرنے لگا تو فرشتہ نے اسے منع کر دیا کہ اس کو مت ذبح کر بلکہ ایک بکر اجو جھاڑیوں میں پھنسا ہوا کھڑا تھا اسے ذبح کر(پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۳)۔ گویا اسحٰقؑ کو کسی شکل میں بھی، نہ ظاہری الفاظ میں نہ تشبیہی الفاظ میں ذبح کیا گیا۔ گویا یہ سارا واقعہ ایک مضحکہ تھا۔ ایک کھیل تھا۔ جو خدا نے ابراہیمؑ سے کھیلا آخر اس میں کیا لطف تھا کہ پہلے تو خدا نے ابراہیمؑ سے کہا کہ تو اسحٰقؑ کو ذبح کر اور پھرا سے منع کر دیا۔ بعض عیسائی پادری کہتے ہیں کہ خدا تعالےٰ نے اس ذریعہ سے ابراہیم ؑکو بتایا کہ انسانی قربانی آئندہ نہیں ہوگی۔ (پیدائش کی کتاب کی تفسیر صفحہ ۱۱۳ مصنفہ پادری کینن سیل ڈی ڈی مترجمه ای۔ جوزف۔ ناشر کرسچین نالج سوسائٹی پنجاب طبع اول مطبوعہ وکٹوریہ پریس بٹاله) لیکن یہی بات خدا تعالیٰ اس سے زیادہ عمدہ اور صاف الفاظ میں بھی کر سکتا تھا۔ قرآن کریم نے جو اسمٰعیلؑ کا واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ نہایت معقول ہے اور ہر آدمی سمجھ سکتا ہے۔ کہ اس واقعہ میں بہت سی حکمتیں تھیں اس میں کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم ؑکو دو حکم دیے ایک یہ کہ تو اسمٰعیلؑ کو ذبح کر اور دوسرے یہ کہ تو اسمٰعیلؑ کو بغیر پانی اور بغیر کھیتی باڑی والی جگہ میں چھوڑآ یعنی مکہ میں جہاں وہ اس لئے دنیا سے دور رہ کر اور بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کر کے زندگی گزارے کہ لوگوں کو دین کی تعلیم دے اور خدائے واحد کی عبادت میں لگائے۔گویااسمٰعیلؑ کی قربانی کا جو ابراہیم ؑکو حکم دیا گیا تھا وہ تشبیہی زبان میں تھا۔ مراد یہ نہ تھی کہ واقعہ میں چھری سے اپنے بیٹے کو ذبح کرے جو بے کار اور بیہودہ فعل ہے بلکہ ذبح سے مراد اس کو دین کی خاطر ایسی جگہ پر رکھنا مراد تھا جہاں کھانے پینے کے سامان مہیا نہیں تھے چنانچه گو قرآن کریم کے مطابق بھی اسمٰعیلؑ کو ذبح کرنے سے منع کر دیا اور اس کی جگہ ایک دنبہ ذبح کرنے کی تلقین کی (الصّٰٓفّٰتِ: ۱۰۸) لیکن خواب کا جو اصل مفہوم تھا یعنی اسمٰعیلؑ کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ آنا اس سے ابراہیم ؑکو منع نہیں کیا بلکہ اسی حکم پر ابراہیمؑ سے عمل کروایا۔(ابراھیم:۳۸) چنانچہ آج تک مکہ اسمٰعیلؑ کی نسل سے آباد ہے اور خدائے واحد کی وہاں پرستش کی جاتی ہے اور خداتعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے۔ اس تشریح کے مطابق ابراہیمؑ نے واقعہ میں اسمٰعیلؑ کو قربان کر دیا۔ اور یہ قربانی ظالمانہ اور وحشیانہ قربانی نہیں تھی۔ بلکہ پر مغز اور با معنی قربانی تھی جس سے آج تک دنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ اور اب بھی اسمٰعیلؑ کے ذریعہ سے اس بے آب و گیاہ جنگل میں خدائے واحد کا نام بلند کیا جاتا ہے۔ آج ہم اس واقعہ کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے اس جگہ پر جمع ہوئے ہیں۔ لاکھوں آدمی اس وادیٔ غیر ذی زرع میں جمع ہیں اور بلند آواز سے کہہ رہے ہیں لَبَّیْکَ اللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ اے میرے خدا میں حاضر ہوں جس طرح کہ ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تیری توحید کو پھیلانے کے لئے حاضر ہؤا ہوں۔ ذرا اس بات پر غور کرو اور سوچو کہ بائیبل میں بیان کیا ہوا واقعہ قرآن کے بیان کردہ واقعہ سے کیا کوئی بھی مناسبت رکھتا ہے۔ بائیبل کا حکم تو ایک وحشیانہ اور ظالمانہ حکم معلوم ہوتا ہے جس میں کوئی حکمت نہیں تھی۔ اسحٰقؑ کے گلے پر چھری پھیرنے سے دنیا کو کیا فائدہ ہو سکتا تھا یا خود اسحٰقؑ کو کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔ مگر اسمٰعیلؑ کو مکہ میں چھوڑنے سے اسمٰعیلؑ کو بھی فائدہ ہوا اور دنیا کو بھی فائدہ ہوا۔ اسمٰعیلؑ توحید سکھانے کا ایک بہت بڑا استاد بن گیا اور دنیا اس کے ذریعہ سے خدائے واحد کی عبادت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ مکہ کو دنیا کے نقشہ سے الگ کر دو تو ساری دنیا میں توحید کا کوئی مرکز باقی نہیں رہتا۔ اور اسمٰعیلؑ کی قربانی کو حذف کردو۔ تو خدا کے لئے زندگیاں وقف کرنے والا ولولہ پیدا کرنے کی کوئی صورت دنیا میں باقی نہیں رہتی۔ اسحٰقؑ اپنی قربانی دینے کے لئے تیار ہو گیا۔ بڑی اچھی بات ہے۔ مگر ہم تو اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اسحٰقؑ ایک خدا پرست انسان تھا۔ اسمٰعیلؑ بھی اپنی قربانی دینے کے لئے تیار ہو گیا اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسمٰعیلؑ توحید کے لئے زندگی وقف کرکے دنیا کا محسن بن گیا اور جس جس جگہ پر اس نے یہ قربانی پیش کی تھی وہ ہمیشہ کے لئے توحید کا مرکز بن گئی۔ پس خدا تعالیٰ کی برکتوں کا مستحق ہے اسمٰعیلؑ اور خدا تعالیٰ کی برکتوں کا مستحق ہے مکہ جہاں اس نے قربانی پیش کی قیامت تک خدا کی توحید کا جھنڈا وہاں کھڑا رہے گا۔ قومیں قوموں پر چڑھائی کریں گی۔ ایک قوم کے بعد دوسری قوم کا جھنڈا زمین پر گرے گا مگر مکہ میں اسمٰعیلؑ کے ہاتھ سے گاڑا ہوا توحید کا جھنڈا قیامت تک کھڑا رہیگا۔ کوئی نہیں جو اس کو توڑ سکے۔ کوئی نہیں جو اس کو گرا سکے۔ وہ کونے کا پتھر ہے جو اس پر گرے گا۔ وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا اور جس پر وہ گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا۔ (یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۳ تا ۱۷) یہ خدائی فیصلہ ہے جس کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ ایک ایک کر کے دنیا اس توحید کے جھنڈے کے نیچے آئے گی۔ یہاں تک کہ ساری دنیا وہاں جمع ہو جائیگی۔ اور آخر ایک دن آئے گا کہ جس طرح آج کی عید کے دن مکہ میں خدا کی توحید کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں دنیا کے کونہ کونہ سے توحید کے نعرے بلند کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی تکبیر کہی جائے گی اور جس طرح دنیا سے تمام جھوٹے معبود مٹا کر ایک خدا کی حکومت قائم کی گئی ہے اسی طرح دنیا سے مختلف قومیتیں مٹا کر انسانیت کی حکومت قائم کی جائے گی۔ اور آسمان پر بھی ایک خدا ہو گا اور زمین پر بھی ایک ہی نسل ہو گی۔ سب جھوٹی قومیتیں مٹادی جائیں گی جس طرح سب جھوٹے خدا مٹائے جاچکے ہیں۔ آخر میں مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آئے اور اس عید کا سبق ساری دنیا یاد کرلے۔ اور ساری دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھک جائے۔ اور فساد اور لڑائی جھگڑا دنیا سے مٹ جائے۔ ہر دل کعبہ بن جائے یعنی خدا کا گھر اور جس طرح خدا عرش پر ہے۔ اسی طرح خدا انسان کے دل میں بھی ہو۔ (الفضل ۳۱؍اگست ۱۹۵۵ء، خطبات محمود جلد ۲، صفحہ ۳۸۵ تا ۳۸۷) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلفاءکی سچّے دل سے اطاعت کرو