خدام کو وقفِ عارضی کرنی چاہیےتاکہ آپ کچھ وقت خالصۃً جماعت کی خاطر وقف کر سکیں۔یہ وقفِ عارضی ہے، اور یہ اس کی اہمیت ہے۔اسی طرح آپ کو آئندہ جماعت کی خدمت کرنے کا سلیقہ آئے گا مورخہ۲۵؍مئی ۲۰۲۵ء بروزاتوار، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے گریٹ لیکس ریجن کے ایک اُنیس (۱۹) رکنی وفدکو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر حضور انور کی اقتدا میں نماز ادا کرنے اور آپ کی بابرکت صحبت سے روحانی فیض حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ گریٹ لیکس شمالی امریکہ میں واقع پانچ بڑی میٹھے پانی کی جھیلوں(Ontario, Erie, Huron, Michigan, Superior) کا مجموعہ ہے، جو دنیا کا سطح زمین پر سب سے بڑا تازہ پانی کا نظام ہے۔ یہ جھیلیں امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر واقع ہیں اور معاشی، ماحولیاتی اور جغرافیائی لحاظ سے بے حد اہم ہیں۔ان جھیلوں کے کناروںپر کئی بڑے شہر آباد ہیں جیسے شکاگو، ٹورانٹو، کلیولینڈ، ڈیٹرائٹ وغیرہ۔یہ جھیلیں شمالی امریکہ کے اندرونی علاقوں کو سمندر سے جوڑتی ہیں، جس سے آبی تجارتی راستے بنتے ہیں۔یہ نظام لاکھوں لوگوں کے لیے پینے کا پانی فراہم کرتا ہےاور جیہ نگلی حیات کا مسکن بھی ہے۔قدرتی خوبصورتی، جھیلوں کے ساحل، کشتیاں، فشنگ، اور قدرتی پارک سیاحوں کو بہت متوجہ کرتے ہیں۔اگر گریٹ لیکس کو محض پانی کی مقدار کے اعتبار سےایک ملک سمجھا جائے تو بلاشبہ یہ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السّلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو دربار خلافت میں اپنا تعارف کرانے، مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جوابات کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے حضور انور سے دریافت کیا کہ خدام کے لیے وقفِ عارضی کی کیا اہمیت ہے اور ان کو کس طرح کا وقف عارضی کرنی چاہیے؟ حضور انور نے اس کے جواب میں نہایت بصیرت افروز انداز میں خدام الاحمدیہ کو وقفِ عارضی کی اہمیت اور اس کی حقیقی روح سے روشناس کرواتے ہوئے فرمایا کہ خدام کے لیے وقف عارضی کی وہی اہمیت ہے جو دوسروں کے لیے ہے۔ چاہے وہ خادم ہوں یا انصار ہوں۔ وقفِ عارضی کا مطلب ہے کہ تم کچھ دن اپنے جماعت کے کام کے لیے وقف کرتے ہو،dedicateکرتے ہو اور اس کے لیے تم اپلائی کرو کہ مَیں جماعت کی خدمت کرنے کی خاطر دو تین ہفتے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، اور اس کو وقفِ عارضی کہتے ہیں۔ مزید برآں حضورانور نے تلقین فرمائی کہ وقفِ عارضی کے لیے جو بھی ذمہ داری آپ کو سونپی جائے یا جو بھی کام آپ کے سپرد کیا جائے، آپ اسے ضرور سرانجام دیں۔ چاہے وہ تبلیغی، تربیتی، تعلیمی یا ترجمہ سے متعلق کام ہو یا جو بھی کام ہو۔تو وقفِ عارضی یہی ہے کہ خدام کو وقفِ عارضی کرنی چاہیےتاکہ آپ کچھ وقت خالصۃً جماعت کی خاطر وقف کر سکیں۔یہ وقفِ عارضی ہے، اور یہ اس کی اہمیت ہے۔اسی طرح آپ کو آئندہ جماعت کی خدمت کرنے کا سلیقہ آئے گا۔ ایک خادم نے حضور انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ پچھلے سال میرے چار سالہ بھانجے کی وفات ہو گئی تھی، اس کا ایک جڑواں بھائی بھی ہے ، جو اس وقت پانچ سال کا ہے۔ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ صبر کرو۔ اس تناظر میں انہوں نے راہنمائی طلب کی کہ اصل اسلامی صبر کیا ہوتا ہے نیز کیا صرف چپ رہنا ہی صبر ہے ؟ حضور انور نے اس کے جواب میں قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں اسلامی صبر کی بنیاد واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ صبر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ شریف میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے اس طرح فرمایا کہ صبر کریں اور یہ کہو کہ انا للہ و انا الیہ راجعون۔یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہیں اور اسی کی طرف ہم نے واپس جانا ہے۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں کسی کو پہلے لے جاتا ہوں، کسی کو لمبی زندگی دیتا ہوں، کسی کو جوانی میں اُٹھا لیتا ہوں اورکسی کو بچپن میں۔ تو ultimate جو ہماری destination ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے آگے ہے۔ تو یہی ہے کہ اللہ کو یاد رکھو۔ آپ کا تو رشتہ دار ہے، لیکن ماں باپ کے لیے بہت بڑا اِمتحان ہوتا ہے، یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔لیکن ان کو بھی یہی ہے کہ صبر کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں بدلہ دے گا۔ حضور انور نے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ twin بھائی تھے۔ ایک اللہ تعالیٰ نے دیا ہوا ہے، اس کی تربیت کریں اور اللہ تعالیٰ اور بھی بچوں سے نوازے اگر ان کی ایسی عمر ہے۔ اللہ تعالیٰ بدلے میں اور بچے بھی دے دیتا ہے۔ اور شکر کرنے والوں کو، صبر کرنے والوں کو، اس طرح اللہ تعالیٰ پھر نوازتا ہے۔ حضور انور نے ایک حالیہ شہادت کی روشنی میں صبر کی اعلیٰ مثال سامنے رکھی کہ اور بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جن کا بعض دفعہ ایک بچہ ہی ہوتا ہے، اب ایک لڑکا پچھلے دنوں میں شہید ہوا ، اُنیس(۱۹) سال کا تھا۔ وہ ماں باپ کا ایک ہی بیٹا تھا۔ ماں باپ بڑے ہیں، اَور بچے بھی نہیں ہو سکتے، تو مَیں نے فون کیا، ان سے افسوس کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم صبر کر رہے ہیں، ہمارے لیے کوئی ایسی بات نہیں۔ تو چاہے وہ کسی طرح ہو، آخر میںultimatelyہم نے جانا ہے۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ حضور انور نے جس اُنیس سالہ نوجوان شہید کا ذکر آیا ہے، وہ مکرم محمد آصف صاحب ابن رفیق احمد صاحب ہیں، جن کا تعلق بھلیرضلع قصور، پاکستان سے تھا۔ شہید اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔انہیں معاندینِ احمدیت نے مورخہ ۲۴؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا تھا۔شہید کا تفصیلی ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب کا اعلان حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍مئی ۲۰۲۵ء میں فرمایا تھا، جس کا مکمل متن روزنامہ الفضل انٹرنیشنل، مطبوعہ مورخہ ۲۲؍ مئی ۲۰۲۵ء میں شاملِ اشاعت ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے اس شمارے کا مطالعہ مفید رہے گا۔] حضورانور نے اس امر کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ یہ سوچ لیں کہ مَیں صبر کروں گاتواللہ میاں مجھے اور reward دے گا۔ چاہے وہ بچوں کی صورت میں دے، یا ان بچوں کو زیادہ بہتر potential دے کے دے، یا آئندہ اور بچے ہوں، وہ ایسے زیادہ لائق ہوں، یا صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کسی اَور رنگ میں نواز دے، یا اگلے جہان میں جا کے نوازے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اس کو وہ ہی بہتر جانتا ہے۔لیکن یہ کہنا کہ رونا نہیں آتا، صدمہ نہیں ہوتا، یہ غلط ہے۔ صدمہ بھی ہوگا، رونا بھی آتا ہے، لیکن اگر انسان اللہ کی خاطر اس کو برداشت کر لے اور واویلا نہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ reward دیتا ہے۔ حضور انور نے حقیقی صبر کی اہمیت کو مزید اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں اسی طرح ایک شخص نے، کوئی بچہ اس کا فوت ہو گیا، تو اس نے شور مچایا کہ اللہ میاںنے میرے پر ظلم کر دیا، یہ کر دیا یا وہ کر دیا۔ حضورؑبڑے ناراض ہوئے۔ فرمایا کہ تم اس کے بدلے میں کیا کر سکتے ہو؟ اگر تم صبر کرتے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اَور اولاد بھی دیتا اوربہتر اولاد دیتا۔ حضور انور نے جواب کے آخر میں یاد دلایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے دو بچوں میں سے ایک بچہ لیا، ایک بچہ چھوڑ دیا ہے۔اسی پر خوش ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ پھر اَور بھی دے گا۔ باقی صدمہ ضرور ہوتا ہے، چاہے کسی عمر میں بھی کوئی قریبی عزیز یا پیارا فوت ہو رہا ہو ، تو آدمی کو صدمہ تو ہوتا ہے۔ ایک شریکِ مجلس نے دریافت کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا پیغام دنیا میں بھیجا تھا تو کیا سلطنتِ عثمانیہ کو بھی بھیجا تھا؟ اگر بھیجا تھا تو عثمانی خلیفہ کا کیا جواب تھا؟ حضور انور نے اس کے جواب میں تاریخ کے ایک اہم باب پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعثت کا پیغام توہر جگہ بھیجا تھا۔ اُس زمانے میں ان کا ایک ambassador(سفیر) آپؑ سے ملنے قادیان بھی آیا تھا۔ اس کوآپؑ نے تبلیغ بھی کی تھی اور پیغام بھی پہنچایا تھا۔ اس وقت ترکی میں خلافت کا نظام قائم تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ تم لوگ جو کر رہے ہو ، وہ صحیح نہیں کر رہے، اپنی اصلاح کرو اور اِس کو مانو کہ یہ میرا دعویٰ ہے۔ حضور انور نے ترک سفیر کی ہندوستان آمد کا پسِ منظر واضح کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ وہ ہندوستان،جو اُس وقت انڈیا کہلاتا تھا، آیا تو اس لیے تھا کہ دَورہ کر کے مسلمانوں کو اپنیfavourمیں کرے گا اور انگریزوں کے خلاف اکٹھا کرے گا اور اسی لیے مسلمان لیڈروں کو مل رہا تھا اور اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ملنے آیا تھا۔ لیکن حضرت صاحبؑ نے جب اس کو تبلیغ کی تو ناراض ہو کے چلا گیا اور اس نے آپؑ کے خلاف بہت باتیں کیں اور بڑا سخت ناراض ہو گیا کہ آپؑ یہ ہیں، وہ ہیں، غلط زبان استعمال کی اورabuseکیا۔ اُس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ کردی تھی اور آپؑ نے فرمایا تھا کہ اب خلافت کا یہ نظام تو نہیں چلے گا۔ خلافت کا نظام تو وہی چلے گا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مسیح موعود کے ذریعے سے چلانا ہے۔ [قارئین کی دلچسپی کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ یہاں حضور انور نے جس ترک سفارتکار کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متعلق ذکر فرمایا ہے، اُس کا نام حسین کامی تھا، جو سلطانِ ترکی عبدالحمید ثانی کا نائب سفیر تھا۔ اس ملاقات کی تفصیل اور اس سے متعلق دیگر مفصّل معلومات تاریخِ احمدیت جلد اوّل میں، زیرِ عنوان نائب سفیر سلطانِ ترکی حسین کامی کی قادیان آمد اور سلطنتِ ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی، صفحات ٦٠٤ تا ٦١٠ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔] ایک خادم نے حضور انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ گذشتہ سال مجھے عمرہ کرنے کا موقع ملا اور مَیں آپ کو اپنے ایک تجربہ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ نماز کے دوران چونکہ ہجوم بہت زیادہ ہوتا ہے، تو اس صورتحال میں ایک احمدی کو علیحدہ نماز ادا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے، یعنی اس ہجوم کی وجہ سے اور ہماری حفاظت کے پیش ِنظر ایسا کرنا آسان نہیں اور اس خوف سے کہ لوگوں کی توجہ ہماری طرف نہ پڑے۔ حضور! اس سلسلے میں آپ ہمیں کیا نصیحت فرمائیں گے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں! اگر تو آپ ایک ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے نکلنا ناممکن ہو، پھر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مجبوراً آپ کو امام کے پیچھے نماز ادا کرنی پڑتی ہے، جو وہاں امامت کروا رہا ہوتا ہے۔ پھرحضور انور نے ایک نہایت بصیرت افروز تاریخی واقعہ بیان فرمایا کہ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حج ادا کرنے گئے، توانہوں نے بھی اسی طرح کی صورتحال کا تجربہ کیا اور وہ اس جگہ سے نکلنا چاہتے تھے مگر ایسا نہ کر پائے۔ تو ان کے ایک احمدی دوست، جو ان کے ہمراہ تھے، نے بتایاکہ حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی الله عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ایسی صورتحال میں اُن کے امام کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگرچہ مَیں مطمئن نہ تھا، مگر چونکہ انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی الله عنہ کا حوالہ دیا اور اُس وقت حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی الله عنہ خلیفہ وقت تھے، لہٰذا مَیں نے ان کی اطاعت کی اور نماز ادا کرلی۔مگر تب بھی میرا دل مطمئن نہیں تھا۔ تو پھر جب مَیں اپنے گھر یا جہاں بھی میری رہائش تھی، اس کمرے میں واپس آیا، تومَیں نے وہاں دوبارہ نماز ادا کی۔ جب ہم واپس قادیان لَوٹے اور مَیں نے حضرت خلیفةالمسیح الاوّل رضی الله عنہ سے یہ سوال کیا، تو حضرت خلیفةالمسیح الاوّل رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہو اور آپ سمجھیں کہ اُدھر سے نکلنے کے کوئی امکانات نہیں اور لوگ آپ کی طرف متوجہ ہیں اور اگر آپ ان لوگوں سے خوفزدہ ہیں، تو بے شک ان کے پیچھے نماز ادا کر لیں۔ اور آپ نے یہ نیکی کا کام کیا ہے کہ بعد میں آپ نے اکیلے نماز دوبارہ ادا کر لی۔ اس واقعہ کی روشنی میں حضور انور نے توجہ دلائی کہ لہٰذا ہمارا ردّ عمل ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن کئی ایسے احمدی ہیں جو وفود کی صورت میں وہاں جاتے ہیں اور اُدھر کئی وفود ہوتے ہیں، مَیں خود تو کبھی نہیں گیا، لیکن لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہاں کئی گروپس ہوتے ہیں جو علیحدہ ہو کر نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں، یعنی جو مختلف فرقوں اورمکاتبِ فکر کے لوگ ہیں۔ لہٰذا احمدی بھی یوں بسا اوقات علیحدہ ہو کر نماز ادا کر لیتے ہیں اور وہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ایک علیحدہ وقت پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر وہ وہاں اپنی نماز ادا کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اکیلے ہوں، تو ایسی صورتحال کا تجربہ حضرت خلیفةالمسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا، جس کے بارے میں مَیں آپ کو بتا چکا ہوں۔ ایک سائل نے دریافت کیا کہ بطور ایک نوجوان آرکیٹیکٹ (architect) مَیں دنیا کی تعمیرِ نَو کی تیاری میں بامعنی انداز میں کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتا ہوں؟ اس پر حضور انور نے کم لاگت میں اعلیٰ معیار کے منصوبہ جات تیار کر کے جماعت، غریب ممالک اور عامۃ النّاس کی حقیقی خدمت بجا لانے کے ضمن میں بصیرت افروز اور عملی راہنمائی عطا فرمائی کہ بطور آرکیٹیکٹ اگر آپ دنیا یا جماعت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کم لاگت والے مکانات یا ہسپتالوں کی عمارات کے ایسے نقشے تیار کر سکتے ہیں جن میں تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ آپ کے پاس ایک زرخیز ذہن ہے، لہٰذا آپ خود اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ کس طرح ایسے مقامات کا ڈھانچہ تیار کیا جائے، جہاں کم خرچ میں ہسپتال تعمیر کیے جا سکیں، مگر ان میں تمام بنیادی ضروری سہولیات میسر ہوں۔ اسی طرح حضور انور نے توجہ دلائی کہ آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ ایسے منصوبے کیسے تیار کر سکتے ہیں؟ ہم افریقہ میں کئی ہسپتال اور کلینک تعمیر کر رہے ہیں اور وہاں ہم یہاں سے آرکیٹیکٹ اور انجینئرز بھیج رہے ہیں، انہوں نے وہاں بہت اعلیٰ معیار کے ہسپتال اور کلینک نہایت کم خرچ پر تعمیر کیے ہیں، اگر یہی کام کسی عام آرکیٹیکٹ یا تعمیراتی کمپنی کے سپرد کیا جاتا تو یہ کام ہمیں لاکھوں پاؤنڈز یا ڈالرز میں پڑتا۔ مگر ہم نے وہ عمارات صرف پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ ڈالر یا چند لاکھ ڈالرز میں تعمیر کی ہیں۔پس آپ کو اسی طرز پر کام کرنا چاہیے کہ آپ جماعت کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں، غریب ممالک کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں اور غریب عوام کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں۔ ایک شریکِ مجلس نے نوجوانوں پر مغربی معاشرت کےمرتّب ہونے والے منفی اثرات کے حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ ہمارے کچھ لڑکوں ، خاص طور پر اطفال اور خدام میں بھی نظر آتا ہے کہ وہ مغربی معاشرے سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ان کی بات چیت، چال چلن، اِدھر کے لڑکوں جیسی ہو جاتی ہے اور کبھی کبھار ان کی زبان میں ناپسندیدہ کلمات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس پر حضور انور نےتوجہ دلائی کہ یہ تو خدام الاحمدیہ کا قصور ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھرصحیح تربیت کریں، ان کو بچپن سے اطفال کی عمر سے ہی اپنےساتھ attachکریں۔ پہلے تو والدین اورپھر جماعت کا قصور ہے۔ جماعت اور والدین کو چاہیےکہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ بے شمار دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ ماں باپ بچوں کو اپنے ساتھ attach رکھیں گے تو بچے صحیح ہوں گے۔ چودہ پندرہ سال کی عمر تک تو بچے صحیح رہتے ہیں، جوانی میں جب جاتے ہیں اور داڑھی نکل آتی ہے توپھر کہتے ہیں کہ ہمindependentہو گئے، اب ہم اٹھارہ سال کے ہو گئے ہیں، لہٰذا کسی اَور کو ہمارے عمل پر دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ چیزیں تو تربیت کی ہیں۔ پندرہ سال تک تربیت ہوتی ہے۔ اطفال الاحمدیہ کو بڑے ہو کے بھیattachرکھیں اور پھر ماں با پ بھی رکھیں۔ حضور انور نے بچوں کی تربیت اور جماعت سے منسلک رکھنے کے سلسلے میں مجلس خدام الاحمدیہ کی ویب سائٹ سے مؤثر انداز میں فائدہ اُٹھانے کی جانب توجہ دلائی کہ یہ تو بچپن کی تربیت ہے، اس بارے میں بے شمار دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں، وہ چھوٹے چھوٹے حوالےنکال کے، حدیث کے حوالے، قرآن کے حوالے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے ، خلفاء کے حوالے خدام الاحمدیہ میں بچوں کی تربیت کرنے کے لیے دیا کرو۔ چھوٹے چھوٹے clipsنکال کے خدام الاحمدیہ سوشل میڈیا پر اپنی جو ویب سائٹ بنائی ہے، اس میں دیا کرو تاکہ وہ جماعت کے ساتھattach رہیں۔ حضور انور نے تمام شرکائے مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ معاشرے کا تھوڑا بہت influence تو ہوتا ہی ہے، اسی سے تم لوگوں نے بچانا ہے، یہی ہمارے لیے بہت بڑاچیلنج ہے، اتنے سارے بیٹھے ہو ماشاء اللہ تو اس چیلنج کو قبول کرو! ملاقات کے اختتام پر خدام کو حضور انور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےنارتھ ایسٹ ریجن کے ایک وفدکی ملاقات