https://youtu.be/Ls_GjNmodXs میرے دادا میاں قادر بخش صاحب ولد میاں مراد بخش صاحب ۱۸۹۹ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا جو کہ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے ہندوستان سے آ کر ملتان میں آباد ہوا۔ میاں قادر بخش صاحب کی دو بہنیں تھیں جن کا خاندان اندرون پاک گیٹ رہائش پذیر تھا۔آپ کی ایک بہن اہلحدیث اور دوسری بہن اہلسنت عقیدہ رکھنے والے خاندان میں بیاہی گئیں۔ میاں قادر بخش صاحب کی شادی بہاولپور کے عباسی خاندان میں ہوئی جو کہ اندرون فریدگیٹ بہاولپور میں آباد تھا۔ میاں قادر بخش صاحب عقیدے کے اعتبار سے اہلسنت تھے مگر آپ کے اندر تمام فرقوں کو پرکھنے کی ایک جستجو موجود تھی اس لیے آپ بعد میں اہلحدیث فرقہ کی طرف چلے گئے۔اس فرقہ میںتسلی نہ ہونے پر آپ اہل تشیع میں شامل ہو گئے اور محرم الحرام میں گھوڑے کی لگام تھام کر مرثیہ خوانی بھی کرتے رہے۔ان تینوں فرقوں میں رہ کر بھی جب آپ کا دل مطمئن نہ ہوا توآپ تلاش حق میں لگے رہے۔ اسی دوران آپ کی ملاقات ایک احمدی دوست سے ہوئی جنہوں نے آپ کو احمدیت کی تعلیم سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ الفضل اخبار اور جماعتی لٹریچر دینا شروع کیا جس کے مطالعہ سے آپ کے دل کو اطمینان حاصل ہونا شروع ہو گیا اور تلاش حق کی جستجو اور بھی بڑھ گئی۔ آخر کار ۱۹۱۹ءمیں آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور مضبوطی سے احمدیت پر قائم ہو گئے۔ اہلحدیث عقیدہ رکھنے والے خاندان کے لوگ آپ کے مخالف ہو گئے اور آپ کو احمدیت چھوڑنے پرمجبور کرنے لگے اور آپ کی اہلیہ کو یہ باور کرانے لگے کہ تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ سخت مخالفت کے باوجود ہماری دادی جان نے آپ کا ساتھ نہ چھوڑا مگر ہر وقت جماعت اور حضرت مسیح موعودؑ کو بُرا کہنے لگ گئیں۔ میاں قادر بخش صاحب ہمیشہ مسکرا دیتے اور دادی جان کو جماعت کی سچائی کے متعلق بتاتے رہتے لیکن انہوں نے آخر وقت تک احمدیت قبول نہ کی۔احمدیت کو نہ چھوڑنے پر اہلحدیث رشتہ داروں نے مل کر آپ کو مارا اور ایک رشتہ دار نے آپ کو دھکا دے کر گرا دیاجس سے آپ کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وفات تک معذور ہاتھ سے زندگی گزارتے رہے جو کہ احمدیت کی سچائی کی گواہی دیتا رہا۔ دادا جان کوخلافت احمدیہ سے عشق تھا اور خط و کتابت کے ذریعے آپ کا خلیفہ وقت سے ایک پختہ تعلق قائم تھا۔حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ جب بذریعہ ریل سندھ تشریف لے جاتے تو دادا جان بھی حضور کی زیارت اور ملاقات کے لیے ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتے۔ آپ کو ایک طویل عرصہ تک احمدیہ مسجد ملتان چھائونی واقع رہائش گاہ ملک عمر علی کھوکھر صاحب میں اذان دینے کا شرف بھی حاصل رہا۔ میاں قادر بخش صاحب کی رہائش اندرون پاک گیٹ محلہ بھیتی سراں(بھیدی سرائے) میں تھی اور اس محلہ میں بھی آپ کی بہت مخالفت ہوئی۔ آپ کا روزانہ کا یہ معمول تھا کہ صبح اپنے گھر سے تیار ہو کر النگ پاک گیٹ حکیم محمد فیروز الدین کی ملاقا ت کو چلے جاتے، سامنے گھر میں رہنے والا شخص احمدیت کا سخت مخالف تھا اور وہ روزانہ مطب حکیم محمد فیروز الدین تک آپ کا پیچھا کرتا،سارے راستہ احمدیت کو بُرابھلا کہتا جاتا جس کے جواب میں دادا جان مسکراتے چلے جاتے۔ حکیم محمد فیروزالدین صاحب حکیم محمد اسماعیل صاحب کے فرزند تھے جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے قریبی دوست تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ ۲۶؍جولائی ۱۹۱۰ءکوجب رائے کِشو داس کی عدالت میں گواہی کے لیے ملتان تشریف لائے تو حکیم محمد اسماعیل خان صاحب کی ملاقات کے لیے ان کے مطب واقع النگ پاک گیٹ تشریف لے گئے۔ حکیم محمد فیروزالدین صاحب کو احمدیت سے بہت لگائوتھا اور آپ کو درثمین کا بہت سا حصہ زبانی یاد تھا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشعار خوش الحانی اور دلی محبت سے پڑھا کرتے تھے۔آپ لوگو ں اور جان و مال کے نقصان کے خوف سے احمدیت سے محبت کا اظہارسرعام نہ کر پائے۔ میاں قادر بخش صاحب کی تین بیٹیاں اور چار بیٹے، میاں عبدالرئووف صاحب، میاں شمس السلام صاحب، میاںرفیق احمد صاحب اور میاں محمود احمد صاحب تھے۔ ایک بیٹی اور میاں محموداحمد بوجہ بیماری جوانی میں فوت ہوگئے۔ اپنی اہلیہ اور رشتہ داروں کی مخالفت کے باوجود میاں قادر بخش صاحب نے اپنے پانچوں بچوں کی شادی مخلص احمدی گھرانوں میں کی اور ان کی اولادیں آج تک احمدیت پر قائم ہیں۔ دادا جان میاں قادر بخش صاحب نے ۲۳؍مئی ۱۹۶۸ء کو ۶۹؍سال کی عمر میں وفات پائی اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دادا جان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے جنہوں نے احمدیت کو قبول کر کے ہماری نسلوں پر احسان کیا۔ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوںکو احمدیت پرمضبوطی سے قائم رکھے۔ آمین (ا۔اسلام) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب مربی سلسلہ کا ذکر خیر