(بر اعظم جنوبی امریکہ کےتازہ حالات و واقعات کا خلاصہ) ایکواڈور میں مرغوں کی لڑائی کے دوران حملہ، ۱۲؍افراد ہلاک لاطینی امریکی ملک ایکواڈور میں مرغوں کی لڑائی کے دوران ہونے والے ایک حملے کے نتیجے میں ۱۲؍افراد ہلاک ہو گئے۔مقامی میڈیا کے مطابق حملہ کرنے والوں کا تعلق ایک جرائم پیشہ گروہ سے تھا جن کے مخالفین مرغوں کی لڑائی دیکھنے آئے ہوئے تھے۔سوشل میڈیا پر موجود حملے کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جعلی فوجی وردیوں میں ملبوس حملہ آوروں نے مرغوں کی لڑائی کے لیے بنائے گئے رنگ میں داخل ہو کر فائرنگ شروع کر دی جس کے بعد لوگ بچنے کے لیے پناہ لیتے نظر آئے۔ایکواڈور کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اس حملے میں ملوث چار افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق چھاپے کے دوران ملزمان کے قبضے سے ہتھیار اور جعلی فوجی اور پولیس کی وردیاں برآمد ہوئی ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ ایکواڈور میں ۲۰؍سے زیادہ جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان منشیات سمگلنگ کے بڑے راستوں پر کنٹرول کے لیے لڑائی جاری ہے۔ رواں برس جنوری میں ایکواڈور میں ۷۸۱؍افراد قتل ہوئے جن میں سے کئی کا تعلق منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے تھا۔ آنجہانی پوپ فرانسس کی زندگی کے پانچ حقائق رومن کیتھولک چرچ کے پہلے لاطینی امریکی پیشوا پوپ فرانسس ۲۱؍اپریل۲۰۲۵ء کو ۸۸؍سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔پوپ فرانسس جن کا مکمل نام Jorge Mario Bergoglio تھا ارجنٹائن میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کے پانچ ایسے حقائق ہیں جو شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں۔ وہ کبھی باؤنسر بھی تھے: ہورہے ماریو برگوگلیو ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں پلے بڑھے۔ انہوں نے اپلائیڈ کیمسٹری میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد سیکنڈری سکول چھوڑ دیا اور دینیات میں ڈگری حاصل کی اور پھر ادب اور نفسیات پڑھانے لگے۔سال ۲۰۱۰ء میں دیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق جب وہ ۱۳؍برس کے تھے تو ان کے والد نے انہیں نوکری کرنے کو کہا اور ان کے لیے ایک ہوزری فیکٹری میں خاکروب کی ملازمت کا انتظام کیا۔کچھ سال بعد روم کے ایک چرچ میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے بتایا کہ فرش صاف کرنے کے ساتھ ساتھ وہ نائٹ کلب میں بطور باؤنسر بھی کام کرتے رہے تھے۔اس کے علاوہ انہوں نے فوڈ پروسیسنگ کے ایک کارخانے میں بھی کام کیا تھا۔ وہ فٹبال کے پُرجوش مداح تھے: پوپ فرانسس مرتے دم تک بیونس آئرس کی مقامی فٹبال ٹیم San Lorenzo de Almagro کے مداح رہے۔وہ بچپن سے ہی اس ٹیم کے حامی تھے۔ ۲۰۱۴ء میں جب سان لورینزو نے اپنی ۱۰۶؍سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا اور اہم فٹبال مقابلے کوپا لیبرٹادورس جیتا تو اس فتح کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی حمایت نے فٹبال ٹیم کی کامیابی میں کوئی کردار ادا کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس پر بہت خوش ہوں، لیکن یہ کوئی معجزہ نہیں ہے۔‘ اس ٹیم نے ۲۰۱۴ء میں ہی ارجنٹائن کا ٹاپ ڈویژن بھی جیتا جس کے بعد ٹیم کے ارکان نے پوپ کو ٹیم کی جرسی پیش کی جس کی پشت پر ’فرانسسکو چیمپیون‘ یعنی فرانسس چیمپئن لکھا ہوا تھا۔پوپ فرانسس سے ان کے دورِ پاپائیت میں فٹبال کے بہت سے بڑے کھلاڑیوں نے ملاقاتیں بھی کیں جن میں لیونل میسی اور ڈیاگو میراڈونا کے علاوہ سویڈش سٹار زلاتان ابراہیمووچ اور اطالوی گول کیپر جین لوئیجی بفون بھی شامل ہیں۔ وہ بس سے سفر کرنا پسند کرتے تھے: پوپ فرانسس کو ہمیشہ سے ان کی سادگی اور خدمات کے جذبے کے لیے جانا گیا ہے۔ وہ اپنے سفر کے لیے بھی انتہائی سادہ سواری کا استعمال کرتے تھے۔پوپ منتخب ہونے کے فوراً بعد بھی وہ اپنے لیے مختص لیموزین کو استعمال کرنے کی بجائے کارڈینلز کے ایک گروپ کے ساتھ بس پر سوار ہو کر اپنے گھر گئے تھے۔پوپ بننے سے پہلے وہ بیونس آئرس میں سادگی پسند طرز زندگی کے لیے معروف تھے۔ وہاں وہ ایک کارڈینل اور آرچ بشپ بنے تھے۔ وہ اکثر بسوں اور شہر کی سب وے ٹرین میں سفر کرتے تھے اور جب وہاں سے ویٹیکن جاتے تھے تو اکثر اکانومی کلاس میں پرواز کرتے تھے۔پوپ کے طور پر وہ لگژری کاروں کو مسترد کرنے اور اٹلی میں فورڈ فوکس، یا فیاٹ ۵۰۰ ایل جیسی زیادہ معمولی ماڈلز کا انتخاب کرنے کے لیے جانے گئے۔ اسے انہوں نے اپنے سنہ ۲۰۱۵ء کے امریکی دورے پر استعمال کیا تھا۔ وہ روزانہ بہتر حسِ مزاح ملنے کے لیے دعا کرتے تھے: پوپ فرانسس اپنی گفتگو میں مذاق کرنے اور ہنسانے کے لیے مشہور تھے۔ ۲۰۲۴ء میں انہوں نے ویٹیکن میں ۱۵؍ممالک کے ۱۰۰؍سے زیادہ مزاحیہ فنکاروں کی میزبانی کی جن میں جمی فیلن، کرس راک اور وہوپی گولڈ برگ وغیرہ شامل تھے۔ پوپ فرانسس نے ان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ۴۰؍سال سے زیادہ عرصے سے روزانہ یہ دعا کرتے رہے ہیں: ’’اے میرے ربّ !مجھے اچھی حسِ مزاح عطا فرما۔‘‘ لاکھوں سوشل میڈیا فالوورز: ۲۰۱۸ء میں پوپ فرانسس نے انٹرنیٹ کو ’’خدا کا تحفہ‘‘ قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا یہ عظیم ذمہ داری کا مطالبہ کرتا ہے۔ان کے پیشرو پوپ بینیڈکٹ XVI نے ۲۰۱۲ء میں پوپ ٹوئٹر (اب ایکس) اکاؤنٹ بنایا تھا۔ لیکن پوپ فرانسس کے دور میں اس کے فالوورز میں بڑا اضافہ ہوا اور اب اس اکاؤنٹ کے قریباً پانچ کروڑ فالوورز ہیں۔پوپ کے اکاؤنٹ سے نو زبانوں میں پوسٹ کیا جاتا ہے جن میں انگریزی، ہسپانوی، اطالوی، پرتگالی، پولش، فرانسیسی، جرمن، عربی اور لاطینی شامل ہیں۔ ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کے ۹۹؍لاکھ فالوورز ہیں۔ اس پر انہوں نے حال ہی میں ایک دعا کی تھی کہ ’’نئی ٹیکنالوجیزکا استعمال انسانی رشتوں کی جگہ نہیں لے گا، انسان کے وقار کا احترام کرے گا، اور ہمارے دور کے بحرانوں کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔‘‘ ڈومینیکن ریپبلک میں نائٹ کلب کی چھت گرنے سے سینکڑوں افراد ہلاک ڈومینیکن ریپبلک کے دارالحکومت Santo Domingo میں ایک نائٹ کلب کی چھت گرنے سے ۲۳۳؍افراد ہلاک اور ۲۲۵؍سے زائد زخمی ہو گئے۔ حادثے کے وقت چھ سوسے زائد لوگ نائٹ کلب میں موجود تھے۔مرنے والوں میں ایک صوبائی گورنر اور سابق میجر لیگ بیس بال کے کھلاڑی Octavio Dotelبھی شامل ہیں۔ ۵۱ سالہ ڈوٹیل ملبے سے نکالے جانے کے بعد ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئے۔یہ واقعہ Jet Set nightclub میں مقبول گلوکار Rubby Pérez کے کنسرٹ کے دوران پیش آیا۔ تقریباً ۴۰۰؍امدادی کارکن ملبہ ہٹانے اور زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں مصروف رہے ۔ اس حادثے میں ۱۸۹؍افراد کو بچا لیا گیا ۔ ٹرینیڈاڈو ٹوباگو میں عام انتخابات اپریل کے آخر میں کیربین ملک ٹرینیڈاڈوٹوباگو Trinidad and Tobago میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اس انتخاب میں حزب اختلاف کی جماعت United National Congress -UNC نے کامیابی حاصل کی ہے اور پارٹی کی رہنما Kamla Susheila Persad-Bissessar نے وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا ہے۔ ماہر تعلیم اور قانون دان کی حیثیت سےشہرت حاصل کرنے کے بعد کملا پرشاد نے ملکی سیاست میں قدم رکھا اور ۲۰۱۰ء کے عام انتخاب میں کامیابی حاصل کرکےملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا اور ۲۰۱۵ء تک اس منصب پر فائز رہیں۔ کملا پرشاد کے آباءو اجداد کا تعلق بھارتی ریاست بہار کے ضلع بکسل کے گاؤں بھیلوپور سے ہے۔ پہلی باروزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کملا پرشاد خصوصی طور پر اپنےرشتے داروں سے ملنے اس گاؤ ں میں گئی تھیں۔ صدر میلی کی کفایت شعاری مہم کے خلاف عام ہڑتال سے نظام زندگی متاثر ارجنٹائن میں مختلف تنظیموں نے صدر Javier Milei کی آزادی پسند حکومت کے خلاف عام ہڑتال کی۔ میلی کو اقتدار سنبھالے ۱۶؍ماہ گزر چکے ہیں اور انہوں نے سخت کفایت شعاری کے اقدامات کے ذریعے ارجنٹائن کے مالیاتی خسارے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دن بھر کی ہڑتال کے نتیجے میں ٹرینیں اور سب ویز میں خلل پڑا، پروازیں معطل ہوئیں، اشیائے خورونوش کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور بینک بھی بند ہو گئے ۔ ملک کی مرکزی یونین کنفیڈریشن (CGT) کی قیادت میں ہونے والی۲۴؍گھنٹے کی اس ہڑتال نے نظام زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ لیبر یونین میں شامل ٹرین کنڈکٹرز، اساتذہ، کسٹم حکام، خاک روب اور دیگر اداروں کے ملازمین نے اپنا کام چھوڑ دیا۔ اہم ایئرلائنز کے آپریشن بند ہونے سے ہوائی اڈے خالی ہو گئے۔ بہت سے سرکاری ہسپتال صرف ہنگامی حالات سے نمٹ رہے تھے۔ حکومت کاکہنا ہے اس ہڑتال سے ملکی معیشت کو تقریباً ۸۸۰؍ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہجرت کی شاہراہ کہلانے والی ڈیرین گیپ ٹرمپ کے دور اقتدار میں ویران ہو گئی صرف ایک سال قبل پاناما کی Lajas Blancas نامی ندی کے آس پاس کا علاقہ اور قریبی بندرگاہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ جانے کی کوشش کرنے والے لوگوں سے اٹاپڑا تھا۔ مگر اب یہ عارضی مہاجر کیمپ کی صورت میں تارکین وطن کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ کولمبیا اور پاناما کے درمیان جنگل کا یہ ناہموار راستہ بہتر زندگی کی تلاش میں سرگرداں لاکھوں افراد کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے تھا۔ مختلف رنگ ، نسل اور عمر کے لوگ کئی دن تک بر ساتی جنگل کےپر خطر راستوں سے گزرتے ہوئے لکڑی کی تنگ کشتیوں پر سوار ہوتے اور دریا کے پار اترکر میکسیکو میں داخل ہوتے۔ پاناماکی حکومت کے مطابق بہتر مستقبل کی امید میں ۲۰۲۳ء میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اس گزرگاہ کے ذریعے نقل مکانی کرکے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔ مگر اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےدوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد مہاجرین کے حوالے سے ان کے سخت موقف کی وجہ سے امریکی انتظامیہ نے امریکہ میکسیکو سرحد پرسیاسی پناہ کے خواہش مند افراد کا راستہ مسدور کر دیا ہے۔ اور ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزینوں کو واپس بھجوایا جارہا ہے۔ اس تلخ حقیقت کی وجہ سےہجرت میں تیزی سے کمی آئی ہے اور گذشتہ ہفتے لاجاس بلانکاس میں بمشکل ۱۰ افراد تھے۔ پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو کا کہنا ہے کہ اس گزر گاہ اور پاناما کی سرحد کو مؤثر طریقے سے بند کر دیا گیا ہے۔ لاجاس بلانکاس میں ہمیں جو مسئلہ درپیش تھا اسے مستقل بنیادوں پر ختم کر دیا گیا ہے۔ وہ ملک جہاں سے کیلوں کی برآمد کی آڑ میں دنیا کی ۷۰؍فیصد کوکین سمگل کی جاتی ہے البانوی مافیا کوکین کی یورپ سمگلنگ کرنے والے سب سے بڑے نیٹ ورکس میں سے ایک ہے۔البانوی مافیا نے حالیہ برسوں میں ایکواڈور میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا ہے کیونکہ اس ملک سے سمگلنگ کے اہم راستے گزرتے ہیں اور اب یہ جنوبی امریکہ سے یورپ تک کوکین کی زیادہ تر فراہمی کو کنٹرول کرتا ہے۔ایکواڈور میں منشیات کے کاروبار میں ملوث سب سے بڑا گروہ Latin Kingsکے نام سے معروف ہے جو البانوی مافیا کے لیے کارکن بھرتی کرتا ہے۔ جس میں عام لوگوں کے علاوہ ماہر ڈرائیور، پولیس افسران، امیگریشن حکام وغیرہ شامل ہیں ۔ ایکواڈور کے صدر ڈینیل نوبوا کا کہنا ہے کہ ایکواڈور کی بندرگاہوں سے دنیا کی ۷۰؍فیصد کوکین گزرتی ہے۔زیادہ تر منشیات پڑوسی ممالک کولمبیا اور پیرو سے سمگل کی جاتی ہیں اور یہ دنیا میں کوکین پیدا کرنے والے دو بڑے ممالک ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ منشیات کے غیر قانونی کاروبار کی وجہ سے جرائم کی شرح میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور امسال صرف جنوری ۲۰۲۵ء میں ہی ۷۸۱؍قتل ہوئے۔ کولمبیا یا پیرو سے ایکواڈور کی بندرگاہوں تک منشیات پہنچنے کے بعد اسے اس وقت تک گوداموں میں چھپا دیا جاتا ہے جب تک البانوی مافیا کو کسی ایسے شپنگ کنٹینر کا علم نہیں ہوجاتا جو یورپ کے لیے دستیاب ہو جائے۔کوکین کو شپمنٹ میں سمگل کرنے کے لیے گینگز تین اہم طریقے استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کو بندرگاہ تک پہنچانے سے پہلے کارگو میں چھپانا، دوسرے یہ کہ بندرگاہ پر کنٹینرز کو کھول کر ان میں منشیات ڈالنا، یا سمندر کے اندر بحری جہازوں سے منشیات کے پیکٹوں کو منسلک یا چسپاں کرنا۔ یورپی گروپس ایکواڈور کی طرف نہ صرف اس کے محل وقوع بلکہ برآمدات کے متعلق اس کے قانون کے لیے بھی متوجہ ہوتے ہیں جہاں غیر قانونی کارگو کو چھپانے کا ایک آسان طریقہ فراہم کیا جاتا ہے۔ کیلے کی صنعت کے نمائندے José Antonio Hidalgo وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایکواڈور کے بندرگاہوں سے کیلے کی برآمدات میں ۶۶؍ فیصد کنٹینرز ہوتے ہیں۔ ان میں سے ۲۹.۸۱؍فیصد یورپی یونین کو جاتے ہیں جہاں منشیات کی کھپت بڑھ رہی ہے۔کچھ گروہوں نے غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے یورپ اور ایکواڈور میں جعلی پھلوں کی امپورٹ ایکسپورٹ کمپنیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔ ایکواڈور کی بندرگاہوں پر بھاری ہتھیاروں سے لیس پولیس اور مسلح افواج صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کشتیاں پانی میں گشت کرتی ہیں، پولیس کوکین کو پکڑنے کے لیے کیلے کے ڈبوں کو سکین کرتی ہے، یہاں تک کہ پولیس کے سکوبا غوطہ خور جہازوں کے نیچے چھپے ہوئے منشیات کی تلاش کرتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کوششوں کے باوجود ایکواڈور سے کامیابی سے سمگل کی جانے والی کوکین کی مقدار ریکارڈ حد تک پہنچ گئی ہے۔ اور اس کے لیے بڑھتی ہوئی طلب اور معاشی عوامل کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایکواڈور کی وزارت داخلہ کے مطابق گذشتہ سال تقریباً ۳۰۰؍ٹن منشیات ضبط کی گئی تھیں جو کہ ایک نیا سالانہ ریکارڈ ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مکتوب افریقہ (اپریل ۲۰۲۵ء)