https://youtu.be/xwuBTT2jD18 دنیا کا کوئی ملک ہو یا خطہ ہو کھانا انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ہمارے دیسی گھرانوں میں عموماً تین وقت کا کھانا یا اگر یورپ کے حساب سے بات کریں جہاں پر میاں بیوی دونوں اپنےدفتری اوقات کار جبکہ بچے سکول و کالج کی مصروفیت کے باعث عموماً دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ پھر بعض گھروں میں خصوصاً جہاں بزرگ اور چھوٹے بچے ہوں وہاں درمیان میں بھی کچھ نہ کچھ بنانے کا رواج عام ہے۔ لیکن اس کام کو تسلسل سے کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ یہ سوچنا کہ ایسا کیا بنایا جائے جو تمام افراد خانہ کے من کو بھی بھائے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ اکثر گھرانوں میں بچوں اور بڑوں کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ آج کیا بنایا ہے؟ یا پھر یوں کہ کھانے میں کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہاں ہر قسم کی نعمتیں ہمیں میسر ہیں مگر بہت سے لوگ دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے ایسے بھی ہیں جنہیں ایک وقت کی معیاری خوراک بھی میسر نہیں جبکہ کچھ بچے اپنا من پسند کھانا نہ ملنے پر یا تو ’بھوک نہیں ہے ‘کہہ کر کھانے کی میز سے اٹھ جاتے ہیں یا پھر ’یہ کیوں بنا لیا؟‘کہہ کر خاتون خانہ کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ اکثر گھروں میں یہ بھی لازمی ہوتا ہے کہ تین چار ڈشیں تو ضرور ہی ہونی چاہئیں۔ گویاان کی زندگی صرف کھانے کے گرد ہی گھومتی ہے۔ باالفاظ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندہ رہنے کے لیے نہیں کھاتے بلکہ کھانے کے لیے زندہ ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ شکر کے اظہار کا مجھے ایک بہت خوبصورت واقعہ یاد آگیا۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کو دلی کے بالائی والے لڈو بہت پسند تھے۔ کوئی مرید دو لڈو تحفۃً دے گیا۔ آپؒ نے وہ دونوں لڈو سامنے بیٹھے ایک شاگرد غلام علی شاہ کو دے دیے جنہوں نے وہ دونوں لڈو ایک ہی دفعہ کھالیے جسے حضرت مرزا مظہرؒ نے ناپسند فرمایا اور شاگرد سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ لڈو ایسے نہیں کھاتے۔ چند دنوں کے بعد جب لڈو دوبارہ آئے تو آپؒ نے ان میں ایک لڈو کا چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر منہ میں ڈالا اور ساتھ بآواز بلند سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ کہنا شروع کردیا اور اپنے آپ کو مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ واہ مظہر جان جاناں! تجھ پر تیرے رب کا کتنا بڑا فضل ہے۔ یہ کہہ کر پھر سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ کا ورد شروع کردیا اور شاگرد سے پوچھنے لگے کہ یہ لڈو کن کن چیزوں سے بنے ہوں گے؟ جب جواب میں بالائی، میدہ اور کچھ میٹھا سنا تو شاگرد سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ یہ میٹھا کن چیزوں سے بنا ہے؟ کہنے لگے دیکھو! میاں غلام علی! زمیندار راتوں کو اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر کھیتوں میں گیا، اس نے ہل چلایا، پانی دیا، ایک لمبے عرصے تک محنت و مشقت برداشت کی صرف اس لیے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھالے۔ پھر تسبیح و تحمید کرنے کے بعد کہنے لگے کہ یہ زمیندار مسلسل چھ ماہ کھیت کو پانی دیتا رہا۔ پھر گنے کو بیلا، بھٹی جلا کر کتنی دفعہ اس نے اپنے آپ کو دوزخ میں جھونکا۔ محض اس لیے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھالے۔ پھر میدہ اور بالائی کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالنی شروع کردی اور کہنے لگے یہ سارے کام اللہ تعالیٰ نے مختلف لوگوں سے اس لیے کروائے کہ مظہر جانا جاناں ایک لڈو کھالے اور پھر سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ کا ورد شروع کردیا۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے گھروں میں شکرگزاری کو بڑھائیں۔ جب آپ ہر چھوٹی بڑی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کریں گے تو پھر بچوں میں بھی ان نعمتوں کی قدر بڑھے گی اور سب سے بڑھ کر سادگی کو اپنائیں۔ ہم میں سے ہر ایک نے مہمان نوازی کے حوالہ سے بہت سے واقعات سن اور پڑھ رکھے ہیں مگر صرف وقتی خوشی اور دکھاوے کی خاطر میز پر چار پانچ ڈشیں سجانا اور بدلے میں تعریف و توصیف سمیٹنا ہمارا مطمح نظر نہیں ہونا چاہیے۔ اس اسراف اور نمودو نمائش سے بچیں۔ اسی راشن یا رقم سے آپ بہت سے ایسے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ مجھے یاد آگیا حال ہی میں ایک احمدی نوجوان عزیزم مُھَنَّدْ مُؤَیَّدْ اَبُو عَوَاد غزہ، فلسطین میں شہید ہوگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی نماز جنازہ غائب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ادا فرمائی اور ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا ’’مُھَنَّد مرحوم کو جیسا کہ پہلے میں نے بتایا ہے ہیومینٹی فرسٹ کی ٹیم میں بطور رضا کار خدمت کی توفیق ملی۔ بہت سرگرم رکن تھے۔ مُھَنَّد اپنے خاندان میں تکالیف اور ضروریات کو محسوس کرتا اور ان کے ازالے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ کھانے کے لیے اس علاقے میں کچھ نہیں تھا۔ اس لیے وہاں کہیں سے غذا کا کوئی لقمہ مل جانا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا تھا۔ آجکل وہاں بہت برا حال ہے۔ اسرائیل کی حکومت نے غذا جانے کی پابندی لگائی ہوئی ہے۔ مدد کے ٹرک جو جاتے ہیں ان کو روکا جاتا ہے۔ شہادت کے وقت سے کچھ دن پہلے مھند غزہ کے جنوب میں رفح کے علاقے میں کھانے کی تلاش میں گیا۔ اس علاقے سے کھانے کی امدادی سامان سےبھری گاڑیاں گزرتی ہیں لیکن اکثر ان پر حملہ کر کے سب کو تباہ کر دیا جاتا ہے یا لوٹ لیا جاتا ہے۔ اس لیے بعض نوجوان اس علاقے میں جاتے ہیں کہ شاید انہیں تباہ حال ملبہ میں کہیں کچھ کھانے کا سامان مل جائے۔ بعض اوقات یہاں مٹی کے ساتھ ملا ہوا آٹا مل جاتا ہے۔ ملتا بھی ہے تو مٹی میں ملا ہوا لیکن یہ بھی ان کے لیے ایک غیر معمولی نعمت بن جاتا ہے۔ مھند ایک دفعہ جب وہاں گیا تو خوش قسمتی سے اُسے وہاں اپنے خاندان اور پڑوسیوں کے لیے کچھ آٹا مل گیا، وہ گھر لے آیا۔ والدہ بھی خوش تھیں کہ کئی لوگوں کو اس سے زندہ رہنے میں مدد ملے گی لیکن اس کے والد نے ڈانٹا کہ دوبارہ نہیں جانا کیونکہ وہاں سے واپس لوٹنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی میں آگے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ اس لیے کوئی معقول فیصلہ نہیں ہے کہ تم وہاں چند کلوگرام آٹے کے لیے چلے جایا کرو اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالو۔ بہرحال وہ تین دسمبر کو پھر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ غذا کی تلاش میں وہاں چلا گیا۔ جب اس علاقے میں گیا تو وہاں ایک فلسطینی بھائی کی لاش دیکھی۔ آس پاس کچھ آوارہ کتے تھے جو لاش کو نوچ رہے تھے توان لوگوں کو بڑا دکھ ہوا۔ اصل مقصد بھول گئے اور انہوں نے لاش اٹھائی اور اسے ایک ایمبولینس تک پہنچایا تا کہ یہاں سے محفوظ جگہ پہنچ جائے، دفنائی جائے۔ اس دوران انہیں ایک زخمی عورت اور اس کی بیٹی کی چیخیں سنائی دیں جو مدد کے لیے پکار رہی تھیں، وہ بھی زخمی تھیں۔ یہ تینوں لاش کو ایمبولینس تک پہنچا کر سٹریچر لے کر زخمی ماں بیٹی کو لینے واپس گئے۔ ابھی ایک زخمی کو اٹھا کر لے جا رہے تھے کہ اسرائیلی طیارے نے اچانک ان پر میزائل چلا دیا۔ مھند اور اس کا ایک ساتھی اور دونوں زخمی عورتیں موقع پر شہید ہو گئے جبکہ تیسرا ساتھی بچ گیا۔ اس نے یہ ساری دردناک کہانی بیان کی۔‘‘ (خطبہ جمعہ۱۳؍دسمبر۲۰۲۴ء) تو دیکھیں ہمارے کچھ مظلوم بہن بھائی کیسے مشکل حالات میں رہ رہے ہیں ان سے ہمدردی کے اظہار کے طور پر اور کچھ نہیں تو دعا کے ساتھ یہ تو کرسکتے ہیں کہ اپنے اخراجات کو کچھ کم کرکے ان کی امداد کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر شامل ہوں۔ کیا پتا ہمارا کونسا عمل خدا کی راہ میں مقبول ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی عطا کی ہوئی تمام نعمتوں کا شکر گزار بننے کی توفیق دے۔ آمین