https://youtu.be/ssHa4qoIkPs (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍مارچ ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: ہر مسلمان اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ رمضان اور دعاؤں کا ایک خاص تعلق ہے۔ تبھی تو رمضان میں خاص طور پر نمازوں، نوافل، تہجد، تراویح وغیرہ کی طرف خاص توجہ پیدا ہوتی ہے… ہماری دعائیں صرف اپنی ذاتی اغراض کے لیے نہیں ہونی چاہئیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لیے ہم اس کی طرف ایک بالشت، ایک ہاتھ اور تیز چل کر جانے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ہماری طرف اس سے بڑھ کر توجہ فرمائے گا اور دَوڑ کر ہماری مدد کو آئے گا، دعاؤں کو سنے گا …پھر خدا تعالیٰ کے وجود پر، دعاؤں کی حکمت پر، دعاؤں کی قبولیت پر سوال کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے بندوں کی نشانی نہیں ہوتی۔ یہ تو اُن لوگوں کی نشانی نہیں ہے جن کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ خالی واپس لوٹانے سے شرماتا ہے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے اپنی حالت کا جائزہ لینا چاہیے کہ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کی باتوں کو مان کر اس پر عمل کررہے ہیں۔ کس حد تک ہم اپنے ایمان میں مضبوط ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ نےاس بارے میں اپنے لٹریچر میں مختلف کتابوں میں ارشادات فرمائے ہیں۔ دعا کی حکمت، اس کی قبولیت کی حکمت اور فلاسفی بڑی تفصیل سے بیان کی ہے اور وہ معیار بتائے ہیں جب دعا کوحقیقی دعا کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے میں آپؑ کے کچھ حوالے بھی پیش کروں گا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رمضان اوردعاکےتعلق کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: جب رمضان کا مہینہ ہو جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کا مہینہ ہے، پورا ماحول ہی انسان کو اس حالت میں کرنے والا ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے تو پھر اللہ تعالیٰ کس قدر مہربان ہوگا! اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ سب باتیں دل کی گہرائی سے ہوں۔ ایمان پر مضبوط ہوتے ہوئے ہوں نہ کہ سطحی طور پر۔پھر اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہربانی کی مثال دیتے ہوئے ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے۔ بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔ صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کو ردّ نہیں کرتا۔ قبول کرلیتا ہے۔پس یہ حالت اس وقت میسّر ہوتی ہے جب ہاتھ بلند ہوں۔ جب صدق دل سے انسان مانگے اور صدق دل سے مانگنے کے لیے ضروری ہے کہ گذشتہ گناہوں سے مکمل بچنے اور حقیقی توبہ کا عہد کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف آئے۔ پس ہم بعض دفعہ جلد بازی میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے دعا کی اور قبول نہیں ہوئی لیکن اپنی حالت کو نہیں دیکھتے کہ کتنا صدقِ دل ہے، کتنی سچائی سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہم بڑھ رہے ہیں ۔ کتنی سچائی سے ہم پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے آئندہ گناہوں سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنے کا عہد کررہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کو دھوکانہیں دیا جا سکتا۔ وہ تو ہمارے دل کا حال جانتا ہے۔ ہماری پاتال تک سے واقف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے اس کے کھلے دَر میں داخل ہونے کے لیے اس کے لوازمات بھی پورے کرنے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور شفقت بندوں پر اس قدر ہے کہ ہر سال خاص طور پر رمضان میں ہمیں لا کر یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ اگر عام دنوں میں بھول چُوک ہو گئی ہے تو اب اس مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھا کر میری طرف آؤ اور میرے بندوں میں شامل ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ خاص طور پر ان دنوں میں اپنے بندوں پر پیار کی نظر ڈالنا چاہتا ہے۔ بھولے بھٹکوں کو راہِ راست پر لانا چاہتا ہے۔ خاص ماحول کی وجہ سے بندوں کے عبادت کے معیار بلند کرنا چاہتا ہے۔ اس آیت میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ ’’میرے بندے‘‘ تو ان بندوں سے مراد ہے جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا عبد بننا چاہتے ہیں۔ حقیقی توبہ کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں۔پس یہ حقیقی بندے بننے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے اور رمضان میں اس کا قرب پانے اور حقیقی بندے بننے کا خاص ماحول میسر ہے۔اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہم بڑھنے کی کوشش کریں گے تبھی ہم اس کے حقیقی بندے بن سکتے ہیں اور جب یہ حالت ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے ایسے بندوں اور میرے سے عشق کرنے والوں کو کہہ دو کہ میں ان کی دعاؤں کو سنتا بھی ہوں اور جواب بھی دیتا ہوں۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خداتعالیٰ کی حقیقی معرفت اورقبولیت دعاکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ مَیں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں۔ میرا وجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آ سکتا ہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو مَیں اس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرا قادر ہونا بھی بپایہ یقین پہنچتا ہے لیکن چاہئے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ میں ان کی آواز سنوں۔‘‘یہ بڑی اہم شرط ہے۔ سنتا ہوں لیکن پہلے تقویٰ کی حالت پیدا کرو، خدا ترسی کی پیدا کرو پھر مَیں آواز سنوں گا اور فرمایا کہ ’’ نیز چاہئے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے جو ان کو معرفتِ تامہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اورقدرتیں رکھتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ مکمل معرفت مل جائے۔ دعاؤں کی قبولیت سے اس کے نشانات بھی مل جائیں لیکن اس سے پہلے اس بات پہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ خدا موجود ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط کرو۔ ایمان بالغیب ہو اور پھر یہ ہے کہ ’’وہ تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اسی کو عرفان دیا جاتا ہے۔‘‘ایمان پہلے ہوگا تو پھر عرفان بھی ملے گا۔ پس ایمان کا اعلیٰ معیار ہوگا تو پھر ہی قبولیت دعا کے نظارے بھی ہوں گے۔ یہ نہیں کہ کسی ابتلا سے انسان ڈانواں ڈول ہو جائے۔ یہ دلیل اللہ تعالیٰ نے اپنے ہونے کی بتائی ہے کہ دعا سنتا ہوں ۔ پس اگر دعا سنی نہیں گئی تو اس تعلق میں کمی ہے جو دو دوستوں میں ہوتا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کا طریق بھی بتا دیا کہ تقویٰ کی حالت پیدا کرو۔ اس بات پر کامل یقین ہو اور اس کا اقرار کرو کہ خدا موجود ہے۔ اس کے وجود پر ایمان بالغیب ہو اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہو کہ وہ تمام طاقتیں اور قوتیں رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اَور کوئی نہیں جو تمام طاقتیں رکھتا ہو۔پس یہ معیار دعا کی قبولیت کےکم از کم معیار ہیں…پس یہ یقینِ کامل پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طریق پر عمل کرنے اور ان شرائط پہ چلنے کی ضرورت ہے جو پہلے بیان ہوئی ہیں۔ مَیں نےابھی بیان کی ہیں یعنی نمبر ایک: حالتِ تقویٰ ہو اور خداترسی پیدا ہو۔ نمبر دو: اس بات پر کامل ایمان ہو کہ خدا ہے۔ تجربہ ہے یا نہیں ایمان بالغیب ہے۔کامل ایمان ہے کہ خدا ہے اور نمبر تین: اس بات پر کامل یقین کہ وہ کامل طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی کام نہیں ہوا تو کہہ دیا اس کی طاقت نہیں ہے اور شکوہ شروع ہو گیا۔ اس بات پریقین ہو کہ وہ کامل طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے۔ پس دعاؤں کے قبول نہ ہونے سے مایوسی کی باتیں کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی ذات پر شک کرنے والے پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا یہ تین حالتیں ان میں ہیں اور جو بھی حالات ہوں وہ اس پر قائم رہیں گے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایمان کی یہ حالت ہو اور پھر اللہ تعالیٰ کی ذات پر شک بھی ہو۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خداتعالیٰ کی ہستی کےثبوت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہےچنانچہ خداتعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ۔ اُجِیۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرة:187) یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو مَیں اسے جواب دیتا ہوں یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے۔‘‘ سچی خوابیں آجاتی ہیں۔ ان کے ذریعے جواب مل جاتا ہے ’’اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ بھی خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کااظہار دعاؤں کے ذریعہ سے ہو جاتا ہے۔ خود بخود پتہ لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری آواز سن لی، ہماری دعا سن لی اور اس کے نتیجے میں یہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں ۔ فرمایا ’’اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔ غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاءؑ کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہو گی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔‘‘ سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے قبولیت دعاکی حالت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔ جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں ۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں‘‘ اللہ تعالیٰ دعا کو قبول کرتا ہے تو وہاں سے اس کا حکم جاری ہو جاتا ہے اور پھر اس کے اثرات زمین پہ آنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے ’’بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہئے کہ دعا کرے۔‘‘ سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعامیں مستقل مزاجی کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہئے جب تک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔ جو لوگ تھک جاتے اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے۔ میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں، خیالی بات نہیں جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو اللہ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اسے آسان کر دیتا ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے۔ بیماری سے شفااس کے ذریعہ ملتی ہے۔ ‘‘ دنیا کی تنگیاں اور مشکلات بھی اس سے دُور ہوتی ہیں ’’دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے۔‘‘ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان کو پاک کرتی ہے اور یہی انسان کا، ایک مومن کا، ایک عابد کا اصل مقصود ہونا چاہیے ’’اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے ۔گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے۔ بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پر ایمان ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خدا ہے۔‘‘ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جو بِیت گیا ہے وہ