https://youtu.be/byOChjGrNZs (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۹؍مئی ۲۰۲۰ء) اس وقت مَیں بعض واقعات، جذبات اور احساسات کا ذکر کروں گا جو جماعت کو خلیفۂ وقت سے ہر زمانے میں رہے اور اب تک ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سے شروع ہوئے جو آج 112 سال مکمل ہونے کے بعد بھی اسی طرح قائم ہیں۔ مخالفین تو سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن افرادِ جماعت کا ارادت و مودت اور اخلاص و وفا کا تعلق خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور کیوں نہ ہو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے۔ بہرحال اب مَیں چند واقعات پیش کرتا ہوں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے مَیں شروع کرتا ہوں۔ ایک دو واقعات پہلے بیان کروں گا۔ ایڈیٹر صاحب البدر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علالت کے ایام کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ان ایام میں خدام کے خطوط عیادت کے کثرت سے آ رہے ہیں اور ان خطوں پہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے فرمایا مَیں ان سب کے واسطے دعا کرتا ہوں جو عیادت کا خط لکھتے ہیں۔ ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ عشاق عجیب پیرایوں میں اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند خطوط کا اقتباس بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔ حکیم محمد حسین صاحب قریشی لکھتے ہیں مَیں نے تو ایک روز جناب باری میں عرض کی تھی کہ اے مولا! حضرت نوحؑ کی زندگی کی ضرورتیں تو مختص المقام تھیں اور اب تو ضرورتیں جو پیش ہیں ان کو بس تُو ہی جانتا ہے۔ ہماری عرض قبول کر اور ہمارے امام کو نوح کی سی عمر عطا کر۔ پھر برادر محمد حسن صاحب پنجابی مدراس سے لکھتے ہیں کہ حضرت صاحب کی رو بہ صحت ہونے کی خبر پڑھ کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی جس کا اندازہ میرا مولا کریم اور رحیم خدا ہی جانتا ہے۔ (ماخوذ از البدر، مورخہ 16 فروری 1911ء صفحہ 2جلد 10 شمارہ 16) پھر ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’محبت عجیب چیز ہے۔ ہمارے دوست میاں محمد بخش صاحب جو ملک آسٹریلیا میں تجارت کرتے ہیں اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ آپ قادیان کی اخبار کی ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے متعلق جو سرخی قائم کرتے ہیں اس میں صرف خلیفۃ المسیح کے الفاظ نہ ہوں بلکہ سرخی میں ہی آپ کی صحت و عافیت کے متعلق کوئی لفظ اشارہ کرتا ہو کیونکہ بدر کو کھولنے کے وقت سب سے اول جن الفاظ کو ہماری مشتاق نگاہیں تلاش کرنے کو دوڑتی ہیں وہ اسی سرخی کے الفاظ ہیں اور ہمارا جی چاہتا ہے کہ خود اس سرخی میں ایسے الفاظ ہوں جو اندرونی عبارت پڑھنے سے قبل ہی ہمارے دلوں کو راحت پہنچانے والے ہو جائیں۔ سو ہم اپنے عزیز دوست کے اس اخلاص کو’’ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں ‘‘اپنے عزیز دوست کے اخلاص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے منشاء کے مطابق اس دفعہ سرخی قائم کرتے ہیں۔‘‘(البدر، مورخہ 6 اپریل 1911ء صفحہ 1جلد 10 شمارہ 22، 23) پھر حضرت ابوعبداللہ صاحب جو کھیوہ باجوہ کے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ایک دن عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت ارشاد فرمائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ مَیں نہیں سمجھتا کوئی چیز کرنے کی ہو اور آپ کر نہ چکے ہوں۔ انہوں نے فرمایا مولوی صاحب! مَیں نہیں سمجھتا کوئی چیز کرنے کی ہو اور آپ کر نہ چکے ہوں۔ اب تو حفظ قرآن ہی باقی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بات سن کر تقریباً پینسٹھ سال کی عمر میں انہوں نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور باوجود اتنی عمر ہونے کے حافظ قرآن ہوگئے۔ (ماخوذ از روزنامہ الفضل 8 دسمبر 2010ء صفحہ 4 بحوالہ الفضل قادیان 19 اپریل 1947ء) یہ تھا کہ کسی طرح مَیں خلیفۃ المسیح کا حکم بجا لاؤں۔ اس پہ عمل کروں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانے میں جب شدھی نے زور پکڑا۔ یہ 1923ء میں ملکانے کے علاقے میں شروع ہوا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل بےقرار ہوا۔ اور آپؓ نے اسی سال، 9؍ مارچ کو خطبہ جمعہ میں احمدیوں کو اپنے خرچ پر ان علاقوں میں جانے اور دعوت الی اللہ کے ذریعے ان مرتدین کو واپس لانے کا منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا۔ اس تحریک پہ جماعت نے والہانہ لبیک کہا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری ملازمین، اساتذہ، تُجّار غرضیکہ ہر طبقے سے فدائی ان علاقوں میں دعوت الی اللہ کرتے رہے اور ان کی مساعی کے نتیجہ میں ہزاروں روحیں ایک بار پھر خدائے واحد کا کلمہ پڑھنے لگیں۔ ایک معمر بزرگ قاری نعیم الدین صاحب بنگالی نے ایک روز جب حضور مجلس میں تشریف رکھتے تھے اجازت لے کر عرض کیا کہ گو میرے بیٹے مولوی ظل الرحمٰن اور مطیع الرحمٰن متعلم بی اے کلاس نے مجھ سے کہا نہیں مگر مَیں نے اندازہ کیا ہے کہ حضور نے جو کل راجپوتانہ میں جا کر دعوت الی اللہ کرنے کے لئے وقفِ زندگی کی تحریک کی ہے اور جن حالات میں وہاں رہنے کی شرائط پیش کی ہیں شاید ان کے دل میں ہو کہ اگر وہ حضور کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کریں گے تو مجھے جو اُن کا بوڑھا باپ ہوں کوئی تکلیف ہو گی لیکن میں حضور کے سامنے خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ مجھے ان کے جانے اور تکلیف اٹھانے میں ذرا بھی غم یا رنج نہیں ہے۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر یہ دونوں خدا کی راہ میں کام کرتے ہوئے مارے بھی جائیں تو اس پر میں ایک بھی آنسو نہیں گراؤں گا بلکہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا۔ پھر یہی دونوں نہیں میرا تیسرا بیٹا محبوب الرحمٰن بھی اگر خدمت دین کرتا ہوا مارا جائے اور اگر میرے دس بیٹے اَور ہوں اور وہ بھی مارے جائیں تو بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا۔ اس پر حضور نے بھی اور احبابِ جماعت نے جزاک اللہ کہا۔ (ماخوذ از الفضل 15 مارچ 1923ءصفحہ11) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلافت