https://youtu.be/6tUuMPhdGns محمد دائود طاہر کی ساری زندگی مسلسل محنت و ریاضت اور جہدوعمل کی داستان ہے۔ اس داستان میں کئی موڑ آتے ہیں۔ انہیں کسی بھی زاویے سے دیکھ لیں ایک ذہین و فطین اور باہمّت شخص کا چہرہ نگاہوں میں اُبھرتا ہے جو اُمیدافزا تَیقُّن کے ساتھ باوقار انداز میں اپنے مستقبل پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اُن کی کامیابیوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ یہ وہ کامیابیاں ہیں جو کسی سفارش یا دیگر ذرائع سے حاصل نہیں ہوئیں بلکہ اللہ کے فضل و احسان اور اس کی عطا کردہ اُن صلاحیتوں اور توانائیوں کا ثمر ہیں جنہیں کام میں لاکر وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتے رہے اور راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پھلانگتے رہے۔ اُن کے اس سارے جہدآزماسفر کا احوال اُن کی حال ہی میں منظرِعام پر آنے والی آپ بیتی یا خودنوشت ’’جو بیت گیا ہے وہ‘‘ میں قلم بند ہوا ہے۔ یہ آپ بیتی ایک شُستہ اور شائستہ اسلوب میں اِس طور سے تحریر ہوئی ہے کہ پڑھنے والا اِس میں گُم ہوکر رہ جاتا ہے اور پھر اُسے اپنے گردوپیش کا ہوش نہیں رہتا یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوجاتا ہے۔ آپ بیتی کے بارے میں عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ اِسے سچائی کا بیانیہ ہونا چاہیےاور اس میں کسی نوع کے مبالغے کو دخل نہیں ہونا چاہیےلیکن یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ جہاں تک زندگی کے متعلّقات میں دوسروں کا سوال ہے تو ان کی کمزوریاں اور خامیاں درج کرکے انہیں نگوں سار کرنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن جہاں تک اپنی ذات کا معاملہ ہے تو پاکی ٔ داماں کی حکایت بیان کرتے ہوئے محیرالعقول اور خارق عادت واقعات کو اپنے نام کرنے کی کاریگری ضروری خیال کی جاتی ہے۔ محمد دائود طاہر کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی تماشاگری نہیں کی بلکہ سیدھے سبھائو واقعات اور حالات کو اُن کے اصل تناظر میں پورے سیاق و سباق کے ساتھ بِلاکم وکاست کے پیش کردیا ہے۔ اسلوب کا بے ساختہ پن خود اپنی صداقت کی گواہی دیتا ہے اور پڑھنے والا کسی تردّد میں پڑے بغیر مطمئن رہتا ہے کہ اس تک درست اور سچی معلومات پہنچائی جارہی ہیں۔ دیگر آپ بیتیوں میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اُن کے ابتدائیوں میں مصنّفین کی طرف سے بڑے بڑے دعوے ملتے ہیں کہ انہوں نے جو لکھا ہے وہ سچ لکھا ہے اور اس میں کہیں جھوٹ کی آمیزش نہیں ہے۔ یہ بات آپ بیتی پڑھ کر صاف معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ دعاوی کس حد تک راستی کا پیرایہ رکھتے ہیں۔ محمد دائود طاہر کی کتاب میں اس طرح کا کوئی ادّعا نہیں ہے۔ انہوں نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ انہوں نے سچ کا دامن تھامے رکھا ہے اور سچ کے عَلم کو سربلند رکھا ہے۔ ایک سچّے اور راست باز شخص کو اپنے حق میں سچائی کی دلیل پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کتاب کے صدر دروازے پر ایک جملہ درج کیا ہے: ’’ایک ریٹائرڈ سِول سرونٹ کی دلچسپ خودنوشت‘‘ یہ ایک ذہین، راست گو اور صاحبِ بصیرت مصنف کا تراشا ہوا جملہ ہے جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود اپنی افسری کے خبط میں مبتلا نہیں ہوا بلکہ خود کو ’’سِول سرونٹ‘‘ یعنی عوام کا نوکر کہہ کر آپ بیتی کے پہلے صفحے پر اپنی افسرانہ شان کو دبوچ کر طاق میں رکھ دیتا ہے۔ اسی جملے سے آپ بیتی کے مزاج اور اسلوب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس آپ بیتی کا حُسن یہ ہے کہ اس کا مصنف کسی زعمِ پارسائی کا اسیر نہیں بلکہ بے نیازی کے حصار میں نیازمندانہ انداز میں سامنے آتا ہے۔ اِن سطور پر دھیان دیجیے:’’ممکن ہے نقّاد اس کتاب کو سوانح عمری کے کڑے معیار پر پورا اترتا ہوا نہ پائیں لہٰذا میں نقّادوں کے علاوہ قارئین کو بھی یہ اختیار دیتا ہوں کہ وہ چاہیں تو اس کتاب کو سوانح عمری سمجھ لیں یا ذاتی یادداشتوں کا مجموعہ، وہ اسے میرے دوستوں کا ایک دلپذیر تذکرہ بھی شمار کرسکتے ہیں،اسے میری کامیابیوں اور ناکامیوں کی ایک داستان سمجھ سکتے ہیں اور چاہیں تو اِسے محکمہ انکم ٹیکس کی ایک نامکمل سی تاریخ بھی شمار کرسکتے ہیں۔‘‘(صفحہ ۱۵) اِن سطور میں محمد دائود طاہر نے اپنی اس کتاب کے جن درجات کا ذکر کیا ہے یہ اُن سب سے بڑھ کر آپ بیتی ہی کے منصب پر فائز ہے جس میں درج بالا تمام جزئیات بھی سِمٹ آئی ہیں البتہ اس کتاب میں کسی سبب سے انہوں نے اپنے ذاتی کوائف کے حوالے سے اختصار سے کام لیا ہے۔ اُن کا کہناہے کہ اُن کے حالاتِ زندگی اور خاندانی احوال اُن کی کتاب ’’قریۂ جاوداں‘‘ میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں لہٰذا طوالت اور تکرار کے ڈر سے انہوں نے یہاں درج کرنے سے گریز کیا ہے تاہم اپنا تعارف ضرور کرا دیا ہے جس سے پڑھنے والے کی تسلّی ہوجاتی ہے۔ ’’جو بِیت گیا ہے وہ‘‘ کو محض ایک آپ بیتی ہی کا درجہ حاصل نہیں بلکہ اسے پاکستان کی بیوروکریسی، سیاست، معیشت، عمرانی اور ادبی تاریخ کہنا چاہیے۔ محمد دائود طاہر کو اگر میں ماہرِ پاکستانیات کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ وہ سیاسیات کی نظری معلومات تو رکھتے ہی تھے لیکن بیوروکریسی کے حلقے میں داخل ہوکر اُنہیں سیاسیات سمیت ہر شعبۂ زندگی کا عملی تجربہ بھی حاصل ہوگیا ہے۔ ادب کا ایک الگ دائرہ ہے جس میں انہوں نے جو کمالات دکھائے ہیں وہ ایک الگ کتاب کے متقاضی ہیں۔ اُن کی متاثرکن شخصیت کا یہ وہ رُخ ہے جس پر وہ ملک کے نام وَر ادیبوں سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ اُن کی شخصیت کا ادبی پہلو اُنہیں ورثے میں ملا۔ اُن کے والد مکرم محمد یعقوب طاہر مرحوم روزنامہ ’’الفضل‘‘ قادیان کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ ماہنامہ ’’مصباح‘‘ کی ادارت بھی اُن کے ذمہ تھی۔ اِسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات اور تقاریر محفوظ کرنے کے لیے شعبہ زُودنویسی کے انچارج رہے۔ والد محترم وسیع المطالعہ تھے۔ گھر کا ماحول بھی ادبی تھا۔ اُن کی بہن صالحہ بھی شعر و ادب میں دلچسپی رکھتی تھی چنانچہ کیسے ممکن تھا کہ محمد دائود طاہر پر اس ماحول کا اثر نہ ہوتا، وہ ادبی ذوق و شوق کے ساتھ پروان چڑھے اور بھرپور انداز میں اس کا اظہار بھی کیا۔ یہ اظہار سفرناموں کی صورت میں ہوا جنہیں اہلِ ادب و دانش کی بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اور کئی سفرنامے حکومت کی طرف سے انعام کے بھی حقدار پائے۔ یوں تو اُن کی ساری کتابیں اعلیٰ علمی معیاروں پر پوری اُترتی ہیں لیکن زیرِنظر آپ بیتی اس کی شاندار روشن مثال ہے۔ نو صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مندرجات پر ہی ایک نظر ڈال لیں تو مصنّف کی معروضیت، شفّافیت اور دوٹوک حقیقت نگاری کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یہ فہرست ایک آئینہ نما ہے جس میں اس کتاب کی جھلکیاں ہی نہیں، اس کا چہرہ اور خدّوخال بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔ مصنّف نے کتاب کے دیباچے کے آخر میں دوسطور میں اس کا تعارف کرادیا ہے کہ ’’زیرِنظر کتاب آپ کو آج سے کم و بیش چھپّن برس پیچھے لے جائے گی جب میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کیا اور حصولِ ملازمت کے لیے میری تگ و دَو شروع ہوئی۔ اگلے صفحات میں اسی تگ و دَو کی تصویر کشی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ (صفحہ ۱۸) اور یہ اگلے صفحات کُل ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہیں جو نوع بہ نوع واقعات اور خوبصورت دانش جُو اور اعلیٰ نسب چہروں کو اپنے دامن میں لیے سفر کرتے ہیں اور دورانِ مطالعہ قاری کو یوں باندھ کر رکھتے ہیں کہ وہ اس بندھن میں آسودگی کا سامان پاتا ہے اور اس سے آزاد ہونے کو جی کا زیاں خیال کرتا ہے۔ کتاب کے آخر میں محمد دائود طاہر نے ’’تحدیثِ نعمت اور درخواستِ دعا‘‘ کے عنوان سےچار صفحات قلم بند کیے ہیں۔ یہ صفحات ہر اہلِ دل کے خصوصی مطالعے کے متقاضی ہیں۔ یہ سطور پڑھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد کے نُور سے روشن ہوجاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’جب میں خود پر اللہ تعالیٰ کے افضال شمار کرتا ہوں تو اپنے اندر اس پاک ذات کا شکرادا کرنے کی ہمّت نہیں پاتا جس نے مجھے زندگی اور زندگی کی بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے۔ میرے دادا اور ابّاجی، دونوں چھپّن سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے چنانچہ جب میں چھپّن سال کا ہوا تو مجھے ہر وقت ایک دھڑکا سا لگا رہتا تھا لیکن وہ وقت خیریت کے ساتھ گزر گیا اور اَب اِس بات پر چوبیس سال ہونے کو ہیں۔ یہ اُسی کی مہربانی ہے جس نے مجھے طویل العمری کی نعمت سے نوازا حالانکہ میں اس عرصہ میں بعض ایسے حادثات سے دوچار ہوا جو خدانخواستہ میری زندگی کے اختتام پر منتج ہوسکتے تھے اور مجھے بعض ایسی بیماریوں سے شفا بھی ہوئی جو بہت سے لوگوں کے لیے مرضُ الموت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں… میں نے اپنی زندگی کا سفر عُسرت کے ماحول میں شروع کیا تھا جہاں میں نے سِول سروسز کا نام بھی نہ سنا تھا… اللہ تعالیٰ کو میری نہ جانے کون سی ادا پسند آئی کہ میں مشرقی اور مغربی پاکستان سے اس امتحان میں شامل ہونے والے ہزاروں امیدواروں میں چوّ نویں(۵۴ویں) نمبر پر رہا۔ یہ ایک ایسی کامیابی تھی جو میرے لیے محض ایک خواب تھی اور میرے بعض جاننے والوں کو بھی ابتداءً میری اس کامیابی کا یقین نہیں آیا۔‘‘(صفحہ۹۹۷) محمد دائود طاہر کے اثر آفریں قلم کا اعجاز ہے کہ اس آپ بیتی میں درج ہونے والا اُن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ زندۂ جاوید ہو کر ایک پیکر کی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ اس کے تناظر میں میری اور آپ کی زندگی کی کئی ایک جھلکیاں موجود ہوں گی لیکن ایک بات میں آپ کو پورے تیقُّن سے جِتانا چاہتا ہوں کہ یہ کتاب میرے اور آپ کی آئندہ نسل کے لیے کتنی مفید اور کارآمد ہوسکتی ہے اس کا شاید اس وقت آپ کو اندازہ نہ ہو لیکن اس کی خوانندگی کے بعد آپ صرف اسے دیکھنے پر ہی اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اسے ایک ارمغانِ نعمت جان کر محفوظ کرلینے پر بھی خود کو مجبور پائیں گے۔ میں مصنّف کی صحت و سلامتی اور درازی ٔ عمر کے لیے دُعا گو ہوں ۔ اللہ تعالیٰ اُن کے قلم کی توانائیوں اور جولانیوں کو ثبات بخشے۔ (آمین) (ڈاکٹر عبدالکریم خالد) مزید پڑھیں: اشتراکیت اور اسلام(از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ)