بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان آج کل شدید مذہبی منافرت کا شکار ہے۔ پہلے ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے لوگوں کے ایمانوں کا فیصلہ کیا اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ پھر ضیاءالحق نے اپنے بدنام زمانہ آرڈیننس کے ذریعہ انتہائی مضحکہ خیز قوانین متعارف کرائے۔ جن میں پاسپورٹ پر مذہب کے خانے سے لے کر السلام علیکم کہنے تک پر قید وبند کی سزائیں دینا شروع کردی گئیں۔ ایسے وقت میں جیل کی کوٹھڑی سے ایک اسیر راہ مولیٰ منصور احمد منصور کی پرشوکت آواز ابھری کہ مگر اس طرح بھی تعصب کے مارو نہ ہم باز آئے تو پھر کیا کرو گے تعصب کی آگ میں جلنے والے مزید جلتے رہے اور کچھ عرصہ قبل عید لاضحی کی قربانیوں پر پابندی کی مہم نے زور پکڑا۔ پھر احمدیہ مساجد کے منارے گرائے جانے اور عبادات سے روکنے کا کام شروع ہوا۔پہلے ختم نبوت کے نام پر مختلف گروہ سرگرم تھے پھرکچھ عرصہ قبل ایک متشدد تنظیم بھی منظرِ عام پر آگئی جن کے راہنما کی بدزبانی اور چرب زبانی نے مختلف اوقات میںملک میں فسادات بھڑکائے رکھے۔ اب یہ ایک انتہائی امن پسند جماعت یعنی جماعت احمدیہ کے پیچھے لگ چکے ہیں اور کراچی، لاہور، خوشاب، ڈسکہ، سیالکوٹ، سرگودھا، فیصل آباد اور بہاولنگر میں احمدی مساجد اور قبرستانوں پر حملہ آور ہیں۔ اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کی دعویدار حکومتوںکی موجودگی میں احمدیوں کو بند کمروں میں عبادات سے بھی روکا جارہا ہے اور ان کی مساجد کے منارے گرائے جارہے ہیں۔ مورخہ ۱۰؍مارچ کی صبح بیت الطاہر چک نمبر ۱۶۶مراد، ضلع بہاولنگر کے مینار گرائے جانے کی خبر ساری دنیا کے احمدی احباب کے لیے غم وحزن کا باعث بنی رہی۔ چک نمبر ۱۶۶مراد پاکستان کی ایک معروف احمدی جماعت ہے۔ اس لیے دنیا بھر سے بہت سے احباب کے فون آتے رہے اور چک سے متعلق اور مقامی جماعت سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ چک نمبر ۱۶۶مراد کا تعارف: چک نمبر ۱۶۶مراد کو ۱۹۲۷ء میں آباد کیا گیا۔بکھو بھٹی، سیالکوٹ سے مکرم چودھری لاب دین صاحب نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی۔ وہ ہی سب سے پہلے یہاں ۱۶۶ مراد میں آئے۔ انہوں نے اپنے بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کو بھی یہاں آکر آباد ہونے کی تحریک کی۔ اسی تحریک کے نتیجہ میں ہی پھگواڑی،گرداس پور سے منہاس خاندان(جن کی بکھو بھٹی والے بھٹی خاندان سے رشتہ داریاں تھیں) یہاں آباد ہوئے۔ ساتھ ہی قریبی گاؤں ۱۶۸ مراد میں بہاولپور ریاست کے پہلے امیر جماعت چودھری احمد خاں صاحب بھی سیالکوٹ سے آکر آباد ہوئے۔ چودھری احمد خاں صاحب مکرم رانا محمد خاں صاحب سابق امیر ضلع بہاولنگر کے والد تھے۔ چودھری لاب دین صاحب پہلے بکھو بھٹی اور پھر ۱۶۶مراد کے پہلے صدر جماعت مقرر ہوئے۔ ان کے بعد چودھری محمد ابراہیم صاحب (مرحوم)، رانا نصرت احمد صاحب ناصر(مرحوم)، رانا ظہیر الدین صاحب، رانا محمد نواز صاحب(مرحوم) صدر رہے۔ گاؤں کے بہت سے احباب کو مختلف سطح پر جماعت اور ذیلی تنظیموں میں خدمات کا موقع ملتا رہا۔ مکرم میاں محمد احمد خاں صاحب (مرحوم) پہلے قائد ضلع مجلس خدام الاحمدیہ بہاولنگر اور قریبی شہر چشتیاں کے صدر جماعت رہے۔ ان کے علاوہ مکرم رانا نصرت احمد صاحب ناصر،مکرم میاں مجید احمد خاں صاحب منہاس، مکرم محمد رفیق عالم صاحب، مکرم منصور محمود منہاس صاحب، مکرم ناصر محمود بھٹی صاحب، مکرم ڈاکٹر طاہر محمود منہاس صاحب، مکرم عبدالحفیظ طاہر صاحب اور مکرم عطاءالرؤف ناصر صاحب مختلف اوقات میں قائدضلع وعلاقہ مجلس خدام الاحمدیہ بہاولپور،بہاولنگر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مکرم میجر (ر) بشیر احمد خاں صاحب طارق کراچی کے قائد ضلع اور کراچی میں مختلف حیثیتوں سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مکرم محمد سرور منہاس صاحب دس سال سے زائد عرصہ جرمنی کی دو جماعتوں بوڈنگن اور اورٹن برگ کے بانی صدر اور ناظم علاقہ انصار اللہ ہیسن مٹے جرمنی رہے۔ مکرم انس محمود منہاس صاحب نیشنل سیکرٹری وقف جدید، ایڈیشنل جنرل سیکرٹری جماعت جرمنی اور صدر حلقہ فضل مسجد لندن رہے۔ اسی طرح محترم ڈاکٹر غلام محمد حق صاحب معلم وقف جدید کے طور پر ایک بہت لمبا عرصہ چک ۱۶۶مراد میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ نئی نسل میںگاؤںسے تعلق رکھنے والے مربیان اور واقفین زندگی پاکستان، کینیڈا اور جرمنی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ چک نمبر ۱۶۶مراد واحد دیہاتی جماعت تھی جس نے اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پرمکرم محمد رفیق عالم صاحب(مرحوم) کی قیادت میں مکرم محمود بنگالی صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ سے عَلم انعامی حاصل کیا۔گاؤں میں ضلع کے اجتماعات، متبادل جلسہ ہائے سالانہ، تبلیغی نشستیں، سپورٹس ریلیاںاور دوسرے بہت سے پروگرام مسلسل منعقد ہوتے رہے۔۲۰۱۸ء تک لاؤڈ سپیکر پر مرکز کی اجازت سے باقاعدہ اذان بھی دی جاتی رہی۔ شہید شدہ منارہ ۱۶۶ مراد کی زمین لق و دق صحرا اور ریت کے ٹیلوں پر مشتمل تھی۔ زمینوں پر کام کرنے والے اورمختلف خدمات کے لیے زیادہ تر لوگ بھی ان بزرگوں کے ساتھ سیالکوٹ سے ہی آئے۔چودھری لاب دین صاحب اور میاں سلطان خاں صاحب منہاس نے اپنے اپنے خاندان کے لیے زمینیں نیم شبی دعاؤں اور شبانہ روز محنت سے آباد کیں۔بزرگ بتاتے ہیں کہ رات کوپانی کی نکاسی کے لیے کھال(نالے) نکلواتے لیکن صبح تک ہوا چلتی اور ریت اسے پھر برابر کردیتی۔ لیکن اللہ کے فضل سے ان کی محنت رنگ لائی جس نے دھرتی کا سینہ چاک کرکے انہیں ضلع کی بہترین اور زرخیز زمینوں میں تبدیل کیا۔ اردگرد کے غیرازجماعت خاندانوں میں بھی ان بزرگوں کا بہت نیک اثر اور اچھے تعلقات تھے۔ یہ تعلقات علاقے کے بااثر زمینداروں اور سیاستدانوں سے برادرانہ تھے۔ لوگ ان بزرگوں کے پاس اپنے معاملات لے کر آتے، ان سے فیصلے کرواتے، ان کے مشوروں پر عمل کرتے۔علاقے کے سیاستدان اور انتظامی افسران چودھری محمد ابراہیم، میاں محمد احمد خاں اور نصرت احمد صاحب ناصر کے پاس باقاعدگی سے آتے اور ان سے مشورہ اور تعلقات کو باعث فخر سمجھتے۔ جماعت کے ناظران، وکلاء،ذیلی تنظیموں کے سربراہان اور دوسرے عہدیداران بھی باقاعدگی کے ساتھ چک تشریف لاتے رہے۔احمدیہ مسجد تو یہاں آبادکاری کے وقت ہی بنا دی گئی تھی۔ لیکن۱۹۶۷ء میں عمارت کوپختہ کیا گیا۔ اس وقت کے صدر مجلس خدام الاحمدیہ حضرت میاں طاہر احمد صاحبؒ نے گاؤں تشریف لا کر اس کا سنگِ بنیاد رکھا۔پھر خلافت رابعہ کے دور میں ہی حضور انورؒ کی اجازت سے مکرم میجر بشیر احمد صاحب طارق نے اس مسجد کے پرانے مینار گرا کر نیا مینار بنوایا اور اعلیٰ درجہ کے سنگ مرمر سے اس کے فرش اور دیواروں کی تزئین کی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے نام پر ہی اس مسجد کا نام بیت الطاہر رکھا گیا۔ گاؤں کی ۹۸فیصد زمینیں احمدیوں کی ہیں۔گاؤں کے شروع میں پنج گرائیں کے نام سے ایک محلہ ہے جس میں دہائیوں سے احمدی بزرگوں کے ساتھ آئے لوگوں کی نسلیں آباد ہیں۔ اس سے آگے گاؤں کی مرکزی آبادی احمدیوں کی ہے۔ چوک میں احمدیہ بیت الذکر ہے اور ارد گرد کے تقریباً سارے گھر احمدیوں کے ہیں۔ کچھ برسوں سے مقامی لوگ بھی تلاش معاش اور بہتر ماحول کی وجہ سے آکر آباد ہونا شروع ہوگئے۔ یہ لوگ بھی احمدی زمینداروں کی زمینوں اور باغات میں کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے گاؤں کے اوپرٹیلے پر ان کی اضافی بستی قائم ہوتی گئی۔ پنج گرائیں اور اضافی بستی دونوں جگہ اہل سنت کی مساجد کے قیام میں بھی زیادہ تر مالی تعاون احمدیوں نے کیا۔ حالیہ واقعات: ایک نام نہاد سیاسی و مذہبی جماعت نے چند سال پہلے مختلف جماعتوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا۔ بااثر جماعتیں خصوصیت سے ان کا ٹارگٹ تھیں۔ چک میں بھی اضافی بستی کے امام مسجد نے کچھ مقامی نوجوانوں کو ان کی تنظیم میں شامل کرایا۔ وہ لوگ جو دہائیوں سے احمدیوں کے دست نگر تھے، ان میں سے کچھ نوجوانوں نے احمدیوں کے خلاف دشنام طرازی کی مہم شروع کردی۔ ان کی تنظیم کی طرف سے انہیںباقاعدہ فنڈنگ کی جاتی۔ پچھلے دوسالوں میں انہوں نے وقتاً فوقتاً کچھ جلسے منعقد کرائے۔ ان جلسوں کے ذریعہ اور تنظیم سازی کے ذریعہ مقامی آبادی کو احمدیوں سے نفرت پر ابھارنا شروع کردیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ قابل ذکر اکثریت کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ اضافی بستی کے انہی شرپسندوں نے پنج گرائیں کا رخ کیا اور وہاں کے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ پنج گرائیں سے انہیں سخت ناکامی بلکہ آگے سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صرف ایک ہی گھر کو متاثر کرسکے (جس گھر کے لڑکے امجد نصیر سائیں کی موت کو حالیہ تنازع کی وجہ بنایا گیا)۔ چند ماہ قبل پہلے پنج گرائیں کی مسجد میں انہوں نے ایک شر انگیز جلسہ کرانے کی کوشش کی۔ مقامی افراد نے انہیں مسجد میں ایسا کوئی جلسہ کرنے سے منع کردیا۔ پھر اسی امجد مرحوم نے انہیں اپنا پانچ مرلہ کا گھر جلسے کے لیے پیش کیا اور انتظامیہ سے اجازت حاصل کرلی۔ یہ جلسہ ایک چھوٹے سے گھر میں ممکن نہیں تھا انہوں نے ملحقہ خالی احاطے میں،جو ایک غیراحمدی کا تھا، جلسے کے انتظامات شروع کردیے۔ احاطے کے مالک نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا کہ میری جگہ پر آپ یہ جلسہ نہیں کرسکتے۔ محلے کے دوسرے لوگوں نے بھی منع کیا کہ یہ محض شرارت ہے آپ کے پاس اضافی بستی میں مسجد موجود ہے وہاں جاکر جلسہ کریں۔ لڑائی تک نوبت پہنچ گئی، پولیس آئی اور ایس ایچ او نے جلسے کی اجازت منسوخ کردی۔ یہ سراسر پنج گرائیں کے شریف الطبع غیر احمدی احباب کی وجہ سے ممکن ہوا۔ شرارتی عناصر اس ناکامی پر بھڑک اٹھے، ان کے غیض و غضب میں اضافہ ہوا اور انہوں نے مختلف موقعوں پر ان غیراحمدی شرفا سے الجھنا اور طعن و تشنیع سے کام لینا شروع کردیا۔ ان کی ناکامی پر ان کی تنظیم بھی پیچ وتاب کھاتی رہی اور مختلف قسم کی شرارتوں میں اُکسانے میں مصروف ہوگئی۔ چند ہفتے قبل پہلی دفعہ یہ شرارتی عناصر گاؤں کے چوک میں احمدی گھروں کے پاس جمع ہوئے، احمدیہ بیت الذکر کے پاس آکر نعرے بازی کی اور ویڈیو ریکارڈ کرائی کہ ہم اس کے منارے ختم کرکے دم لیں گے۔مقصد یہی تھا کہ کوئی فساد ہو جس کی بنیاد پرہم ہنگامہ برپا کریں۔ جمعرات ۶؍مارچ کو پنج گرائیں کے کچھ نوجوان اضافی بستی کسی کام سے گئے جہاں اسی مذموم پلاننگ کے تحت اس نام نہاد مذہبی جماعت کے شر پسندوں نے ان کو گالیاں دیں اور ان سے الجھے۔ جمعہ۷؍مارچ کو یہ شر پسند پنج گرائیں میں پہنچے جہاںانہوں نے مقامی غیراحمدی لوگوں کے خلاف نعرے بازی کی اور ان کے لڑکوں کو گالیاں دیں۔ اگلے دن ۸؍مارچ کو دوبارہ یہ مرحوم امجد کے گھر پنج گرائیں پہنچ گئے اور اردگرد کی آبادی سے دوبارہ بدتمیزی کی اور اشتعال دلانا شروع کردیا۔ مقامی آبادی کے نوجوانوں سے ان کا جھگڑا ہوگیا جو پہلے ہی ایسا کرنا چاہتے تھے۔پنج گرائیں کے لوگوں نے مقامی تھانے میں بھی اطلاع دی۔ اس دوران (پولیس کی موجودگی میں) امجد نصیر نامی اس نوجوان کی، جو پہلے ہی دل کا مریض تھا، طبیعت خراب ہوگئی۔ اسے گاڑی میں ڈال کر شہر لے گئے جہاں یہ دم توڑ گیا۔ ان دونوں دنوں میںاس جگہ کے قریب کوئی بھی احمدی موجود نہیں تھا۔ نہ ہی اس جھگڑے میں کسی بھی احمدی کی کسی قسم کی کوئی ہدایت،مشورہ، معاونت یاہلاشیری شامل تھی۔یہاں تک کہ غالباً یہ کہنا بھی ددرست ہو گا کہ کوئی احمدی ان کولڑتے ہوئے دیکھنے والوں میں بھی شامل نہیں تھا۔ اب اس تنظیم کو اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کے لیے ایک لاش مل گئی۔ ماہ مقدس رمضان میں انہوں نے پورے پاکستان میں سوشل میڈیا پر بے سَروپا جھوٹا اور زہریلاپراپیگنڈا شروع کردیا اور اس قسم کے اعلانات مسلسل پورے پاکستان میں پھیلنے لگ گئے کہ’’قادیانیوں نے ہمارے بھائی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا ہے‘‘۔ ’’بااثرقادیانیوں کی غنڈہ گردی سے ہمارا مجاہد شہید‘‘ وغیرہ اور ساتھ ہی لوگوں کو مقامی تھانے ڈاہرانوالہ پہنچنے کی اپیل شروع کردی۔ شام تک ان بلوائیوں کی تعداد چار ہزار کے قریب پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے مقامی پولیس افسران سے بھی بد تمیزی کی اور دھکم پیل شروع کردی۔ضلع بھر سے پولیس وہاں طلب کرلی گئی۔ اس نام نہاد مذہبی تنظیم کے عہدیدار بھی وہاں پہنچنے شروع ہوگئے۔ انہوں نے پولیس کو دھمکانا شروع کردیا اور مطالبہ رکھا کہ ان کی مرضی کی ایف آئی آر کاٹی جائے اور احمدیہ مسجد کے مینار گرائے جائیں۔ ان کی طرف سے انتظامیہ کو مختلف الٹی میٹم دیے گئے۔ کئی دفعہ پولیس اور بلوائیوں میں شدید جھڑپ اور خون خرابے تک کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ پولیس کو ان کی مرضی کی جھوٹی ایف آئی آر لکھنا پڑی جس میں دجل سے کام لیتے ہوئے مقامی صدر جماعت اور ایک نوجوان کو بھی نامزد کردیا گیا۔ پنج گرائیں کے شرفاء میں سے بھی سات افراد کو نامزد کردیا گیا۔ پولیس نے نعش تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کردی۔پوسٹ مارٹم کی ابتدائی(زبانی) رپورٹ یہی تھی کہ امجد نصیر کی موت قدرتی ہے اور کسی لڑائی یا چوٹ کا نتیجہ نہیں۔ ان شرپسندوں نے انتظامیہ سے دوسرا مطالبہ یہ کیا کہ تدفین پھر ہوگی جب مسجد کے منارے گرائے جائیں گے۔اس دوران ان بلوائیوں نے گاؤں میں موجود سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے۔ ۹؍مارچ کی رات امجد نصیر کا جنازہ چک ۱۶۶مراد لایا گیا۔ اس وقت تک امجد نصیر سائیں، ’’حاجی غازی امجد نصیر شہید رحمۃ اللہ علیہ ‘‘بن چکا تھا۔ انہوں نے گاؤں میں جنازہ رکھ کر اشتعال انگیز تقریریں شروع کردیں۔انتظامیہ نے اس دوران چوک میں بیت الطاہر کے علاقے میں کرفیو نافذ کردیا۔ گاؤں کی بجلی بند کردی اور مشینری لا کر مسجد کے منارے توڑنے شروع کردیے۔ بیت الطاہر کی چھت پر چھوٹے مینار جلد ہی ٹوٹ گئے لیکن صحن میں موجود مینار جو کنکریٹ اور لوہے کے سٹرکچر کا بنا ہوا تھا، توڑنا مشکل ہوگیا۔شرپسندوں کا دباؤ تھا کہ یہ مینار ٹوٹے گا تو تدفین کی جائے گی۔ اس دوران کچھ عناصر احمدی گھروں میں گھس کر وہاں بھی لوٹ مار کرتے رہے جن میں پنکھے، گندم، کیمرے اور دوسری اشیا شامل ہیں۔ بالآخر کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد اڑھائی بجے صبح کے قریب بڑا مینار ٹوٹا اور تین بجے کے قریب تدفین عمل میں لائی گئی۔ یوں رمضان المبارک میں سحری کے قریب ان کا جھوٹ، دجل اور شرپسندی بظاہر جیت گئی اور بیت الطاہرکے مینار گرنے سے ان کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔اللھم مزقھم کل ممزق و سحقھم تسحیقا رضائے الٰہی پہ گردن جھکائے جو ہم مسکرائے تو پھر کیا کرو گے سرِِ دار بھی گر اناالحق کے نعرے،جو ہم نے لگائے تو پھر کیا کرو گے یہ مانا جلیں گے نشیمن ہمارے، چمن پھونک دو گے، اجاڑو گے گلشن مگر اس طرح بھی تعصب کے مارونہ ہم باز آئے تو پھر کیا کرو گے سوئے دار منصور بن بن کے چلنا روایت ہماری، حکایت ہماری تم اپنی سناؤ جو قدرت کسی دن، تمہیں آزمائے تو پھر کیا کرو گے (منصور احمد منصورؔ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلافت سے وابستگی۔ کامیابی کی ضامن