https://youtu.be/KqSfhYFMB_A (سابق انچارج مرکزی ٹرکش ڈیسک) مکرم و محترم ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب مربی سلسلہ جرمنی میں ہمارے ریجنل مربی تھے۔ آپ بے شمار خوبیوں کےمالک انتہائی ذہین و فطین اور عالم با عمل مربی سلسلہ تھے۔ بعض شخصیات کو دیکھ کر بے اختیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی یہ عبارت ذہن میں آتی ہے کہ ’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹)آپ بھی ان میں سے ایک تھے۔ اس مضمون میں آپ کے بے شماراوصافِ حمیدہ میں سے چند ایک کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے بہترین انداز: یہ سنہ ۲۰۰۰ء کی بات ہے۔خاکسار اس وقت اطفال الاحمدیہ میں تھا۔ ہماری فیملی آخن (Aachen) منتقل ہونے کے بعدمربی صاحب کی صدارت میں پہلے ماہانہ اجلاس میں شرکت کرنے جا رہی تھی۔ رسمی کارروائی کے بعد مربی صاحب نے تقریر کی۔ آپ جوں جوں نصائح فرماتے گئے توں توں میری دلچسپی بڑھتی گئی۔مجھے مربی صاحب کی باتیں اچھی لگ رہی تھیں اور آپ کا اندازِ بیان آپ کی باتوں کو میرے دل میں راسخ کر رہا تھا۔آپ بہت ہی قادر الکلام مقرر تھے۔ تقریرکے بعد مربی صاحب موصوف، اطفال کی طرف متوجہ ہوئے اور بچوں کو قرآن کریم کی کوئی سورت سنانے اور ایم ٹی اے کے موضوع پر تقریر کرنے کو کہا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار قرآن کریم کی ایک سورت (سورۃ التین ) سنانے اور ایم ٹی اے پر تقریر کرنے میں کامیاب رہا۔ مربی صاحب نے میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی، میرے والدین کا پوچھا ۔ اس پہلی ملاقات میں ہی مربی صاحب نے گویا کہ مجھے اپناگرویدہ بنا لیااور یہ ان کا بچوں کی تربیت کا بہترین انداز تھا۔ حقیقت میں مجھے اس روز بہت لطف آیا اور مربی صاحب سے اس وقت ہی ایک لگاؤ سا ہو گیا۔ اس کے بعد جب بھی مربی صاحب آخن تشریف لاتے میرے لیے یہ ضروری ہو چکا تھا کہ مَیں ان کی مجلس میں ضرور شامل ہوں۔ ایک مرتبہ مجلس انصار اللہ کا کوئی پروگرام منعقد ہوا جس میں خاکسار بھی موجود تھا۔ پروگرام کے بعد مربی صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ کوئی پڑھائی بھی کرتے ہو؟ اس وقت میں نے اپنی پڑھائی کی تفصیل بتائی تو انہوں نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور پڑھائی کے حوالے سے نصائح بھی کیں۔ مالی امداد کرنے والے: آپ نہایت ہمدرد اور افراد جماعت کی ضرورتوں کا احساس کرنے والے تھے۔ ایک مرتبہ ایک احمدی دوست کو غالباً نوکری ختم ہونے کی وجہ سے کچھ مالی مدد کی ضرورت پڑی تو آپ نے اس کی مالی اعانت بھی کی۔ایک واقفِ زندگی کا اپنے الاؤنس سے اس طرح مالی مدد کرنا یقیناً ہمدردیٔ خلائق کی اعلیٰ مثال ہے۔ تبلیغی مہمانوں کے ساتھ مختلف زبانوں میں سوال و جواب: آخن میں تبلیغی میٹنگز بھی باقاعدگی سے ہوا کرتی تھیں۔ایک مرتبہ تبلیغی میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں جرمن مہمانوں کے علاوہ ترکی اور عربی بولنے والے غیر از جماعت احباب بھی شامل تھے۔جس زبان میں مربی صاحب سے سوال پوچھا جاتا اُسی زبان میں آپ جواب دیتے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ زبانوں پر اس قدر عبور ہونا محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔اور مربی صاحب کی ذہانت اور فطانت پر دلالت کرتا ہے۔ دورانِ میٹنگ اچانک ایک صاحب کہنے لگے کہ میری عربی کمزور ہے لیکن میں فارسی روانی سے بولتا ہوں۔ کیا میں فارسی میں سوال کر سکتا ہوں؟ مَیں نے سوچا اب کیا ہوگا۔ فارسی؟ مربی صاحب نے بڑے اطمینان سے فارسی میں سوال پوچھنے کی اجازت دی اور جواب بھی فارسی میں دیا۔ اس روز مجھ پر انکشاف ہوا کہ مربی صاحب فارسی بھی روانی سے بولتے ہیں۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ سرائیکی بھی بول لیتے تھے۔ موقع شناسی اور دُور اندیشی: مربی صاحب نے اپنے قول و فعل سے ہماری تربیت کی اور ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جماعت و خلافت کی محبت پیدا کی۔آپ نہایت ایماندار اور افراد جماعت کی عزت کرنے والے تھے۔ عاجزی اور انکساری آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ مسجد بیت النصر Kölnمیں سوال و جواب کا پروگرام منعقد ہوا۔ خاکسار بھی وہاں موجود تھا۔ ایک صاحب نے سوال کیا جس کا جواب مکرم مربی صاحب نے دیا۔ اس کے بعدسائل نے پھر اپنی بات منوانی چاہی جس پر مربی صاحب نے انہیں مزید سمجھایا لیکن وہ پھر بھی اپنی بات پر مُصر رہے۔ اس پر ایک غیر مناسب سا ماحول پیدا ہو گیا۔ لیکن مربی صاحب نے بہت اچھے انداز میں ان کی تسلی بھی کروا دی اور سارے معاملے کو رفع دفع بھی کر دیا۔ منصفی کی عمدہ مثال: خاکسار کی ہمشیرہ نے ایک نہایت ایمان افروز واقعہ سنایا۔ وہ کہتی ہیں کہ غالباً ۲۰۰۱ء کا واقعہ ہے۔مَیں اس وقت ناصرات الاحمدیہ میں تھی۔مسجد بیت النصر Köln میں ہمارا ریجنل اجتماع ہو رہا تھا اور میں نے حفظ قرآن کے مقابلے میں حصہ لیا۔مربی صاحب کی بیٹی نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا۔مقابلے کے آخر پر جب سب بچیوں نے حفظ سنا دیا تو مربی صاحب نے مجھے کہا کہ مَیں دوبارہ سناؤں اور پھر اپنی بیٹی کو کہا کہ وہ بھی دوبارہ سنائے۔ اس طرح انہوں نے ہم دونوں سے تین چار مرتبہ حفظ سُنا۔ ہم دونوں کے نمبربرابر آ رہے تھے۔ آخر پر انہوں نے کہا : چلیں ٹھیک ہے۔ اب رُک جائیں۔ جب فیصلہ آیا تو مَیں اوّل تھی اور مربی صاحب کی بیٹی دوم تھی۔ اس حساس موقع پر اگر مربی صاحب بطور منصف چاہتے تواپنی بیٹی کو اور مجھے مشترکہ اوّل پوزیشن بھی دے سکتے تھے۔ اورمیرا ذاتی خیال ہے کہ اس طرح کے مقابلے میں دونوں اوّل ہوتے ہیں۔ بہر حال اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مربی صاحب بہت ایماندار، ہر موقع پر انصاف پر قائم رہنے والے اور اپنے کام کو نہایت سنجیدگی سے ادا کرنے والے تھے۔ انتظامی صلاحیتوں کے مالک: جماعت احمدیہ آخن کو یہ سعادت حاصل ہے کہ امیر المومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۲۰۰۵ء میں آخن تشریف لائے۔ جماعت آخن کے پاس اس وقت کوئی مسجد نہیں تھی اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمارے ایک کرائے پر لیے ہوئے ہال میں نمازِ ظہر و عصر کی ادائیگی فرمائی۔ مربی صاحب نے حضورِانور کی تشریف آوری سے قبل جب انتظامات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اذان دینے کے لیے کوئی صاحب مقرر نہیں ہیں۔ چنانچہ اچھی آواز والے تمام احباب سے ایک ایک کر کے اذان سنی اور سب سے اچھی آواز اور تلفظ میں اذان دینے والے کو مؤذن کے طور پر مقرر کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں ذکرِ خیر: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۲۰۲۳ء میں آپ کا ذکر خیر ان الفاظ میں فرمایا:’’ہمارے دیرینہ خادم سلسلہ، مربی سلسلہ، مبلغ سلسلہ ڈاکٹر محمدجلال شمس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا جنازہ تو میں نے کل پڑھا دیا تھا لیکن ذکر میں چاہتا تھا کہ جمعہ پہ بھی کر دوں۔ ایک قابل، لائق اور سادہ اور وفا دار واقفِ زندگی تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی اناسی۷۹سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ۱۹۶۹ء میں جامعہ سے شاہد کی ڈگری انہوں نے اچھے نمبروں سے حاصل کی اور کچھ عرصہ پاکستان میں مختلف جگہوں پہ کام کیا۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے ارشاد پر ترکی زبان سیکھنے کے لیے پاکستان میں اسلام آباد بھجوا دیے گئے ۔ پھر ترکی زبان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۷۴ء میں ان کو ترکی بھجوایا گیا جہاں سے انہوں نے ترکی زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اچھے نمبروں میں حاصل کی اور پھر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر یوکے (UK)آئے۔ یہاں آپ کو برطانیہ اور پھر جرمنی میں بطور مبلغ سلسلہ خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اس لیے آپ کو جاننے والے جو مختلف لوگ لکھ رہے ہیں وہ ترکی سے بھی ہیں اور جرمنی سے بھی، یوکے سے بھی ہیں۔ کافی وسیع ان کا حلقۂ احباب تھا اور واقفیت تھی۔ بہرحال بعد ازاں برطانیہ میں ان کو انچارج ترکی ڈیسک مقرر کیا گیا اور تادم وفات اس عہدہ پر نہایت اخلاص اور محنت سے خدمت بجا لاتے رہے۔ کمال درجہ کی ذہانت اور فطانت اور زیرکی سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا۔ ترکی میں آپ نےجب ترکش زبان کی ڈگری حاصل کی تو استنبول یونیورسٹی نے آپ کو پروفیسر کے طور پر جاب کی آفرکی اور اچھی جاب تھی، تنخواہ بھی غیر معمولی تھی۔ آپ نے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس سلسلہ میں راہنمائی چاہی تو حضورؒ نے یہ نہیں کہا کہ کر لو یا نہ کرو بلکہ انہوں نے فرمایا کہ آپ ہی دعاؤں کے ساتھ فیصلہ کرو اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کروکہ تم کیا چاہتے ہو۔ تب آپ نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے وقف کو فوقیت دی اور اس جاب کا انکار کر دیا۔ ۲۰۰۲ء میں ترکی کے ایک دورے کے دوران ترکی میں آپ کو دو ساتھیوں کے ساتھ اسلام احمدیت کی تبلیغ کے جرم میں قید کر لیا گیا اور ساڑھے چار ماہ آپ کو اسیری کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کے اہم کارناموں میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قرآن کریم کا ترکی زبان میں ترجمہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ترجمہ کرنے اور دیگر بہت سے تربیتی، تبلیغی پمفلٹس، ٹریکٹ اور کتب ترکش زبان میں لکھنے اور شائع کرنے کی بھی توفیق ملی۔ آپ علمی شخصیت تھے، مطالعہ کتب کا شوق تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی کتب اور خطابات کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کرتے۔ کتب پر ہی نوٹس لیتے رہتے تھے۔ جماعتی کتب کے علاوہ غیر جماعتی مختلف علوم و فنون کی کتب پڑھنے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ بہت نکتہ رس شخصیت تھے اور دوستوں اور عزیزوں سے بھی جو علمی گفتگو کرتے تو اس میںبڑی باریکی سے نکتے بیان کرتے۔ جہاں مشکل پیش آتی یا جب ان کو سمجھ نہیں آتی تھی تو یہ نہیں تھا کہ کسی قسم کا تکبّر ہو بلکہ جونیئر مربیان سے بھی راہنمائی لیتے تھے۔ زبانیں سیکھنے کی خداداد صلاحیت تھی اور ملکہ حاصل تھا۔ اردو پنجابی تو مادری زبانیں تھیں اس کے علاوہ ترکی زبان میں بھی آپ نے پی ایچ ڈی کی اور غیر معمولی مہارت حاصل کی۔ پھر اسی طرح انگلش، عربی، جرمن اور فارسی بھی بول لیتے تھے بلکہ بعض جگہ انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی مجالس میں عربی جاننے والا جب کوئی نہیں تھا تو عربی میں ترجمہ بھی کیا۔ سرائیکی بھی بول لیتے تھے۔ خطبہ کا شروع میں خطبہ کے فوراً بعد ترجمہ کیا کرتے تھے اور ترکی کے جو اہلِ زبان تھے وہ بھی آپ کی ترک زبان اور vocabularyکی بڑی تعریف کرتے تھے۔ تقریر و تحریر کا ملکہ بھی آپ کو بہت اچھا تھا۔ بہرحال مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی کمال حد تک بجا لاتے تھے۔ رشتہ دار ہوںیا غیررشتہ دار ہوں سب سے یکساں محبت کرنے والے۔ بہت سے لوگوں نے مجھےخط لکھے ہیں۔ ہمدرد اور بے تکلف وجود تھے۔ ملاقات کے بعد یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے تھے۔ متوکل علی اللہ انسان تھے۔ غرباء، مساکین اور قابلِ امداد افراد کی خاموشی سے مدد کرتے تھے۔ خلافت سے بہت پیار اور والہانہ عشق رکھتے تھے۔ سچی خوابیں دیکھنے والے صاحبِ رؤیا تھے۔ ذکر الٰہی بہت زیادہ کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کو، ان کی اہلیہ کو سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔ آپ کو جنت الفردوس میں اپنے پیاروں کے ساتھ جگہ دے ۔ آمین مزید پڑھیں: ڈاکٹر شیخ محمد محمود شہید آف سرگودھا