https://youtu.be/7dHOs98ckWY (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ی ۲۶؍ مئی ۲۰۱۷ء) وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا۔ وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور:56) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ یہ آیت جیسا کہ اس کے مضمون سے واضح ہے اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں سے اس وعدے کو بیان کر رہی ہے کہ اسلام میں خلافت قائم رہے گی۔ ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق مسلمانوں کے عمل اور ایمان کی حالت کی وجہ سے یہ انعام مسلمانوں سے ایک عرصہ کے لئے چِھن جائے گا۔ لیکن ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق مضبوط ایمان والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں اور اللہ تعالیٰ کے اس آخری کامل اور مکمل دین پر چلنے والوں میں یہ نظام دوبارہ قائم ہو گا اور خلافت علی منہاج نبوت پھر دنیا میں قائم اور جاری ہو گی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 285حدیث 18596 مسندنعمان بن بشیرؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء) مسلمان علماء کے غلط نظریات، قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشادات کی گہرائی کو نہ سمجھنے اور صرف سطحی تشریحیں اور تفسیریں کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت اس بات کو سمجھتی ہی نہیں کہ خلافت کا نظام کس طرح قائم ہو گا۔ اور ایک بہت بڑا طبقہ مسلمانوں میں ایسا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی خلافت کی ضرورت نہیں ہے اور جو جو جس جس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اس پر عمل کرے اور یہی کافی ہے کیونکہ آجکل مسلمانوں کی دنیا کے سامنے جو حالت ہے اور جس طرح اسلام بدنام ہو رہا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ جو جس طرح رہ رہا ہے، رہے۔ ایک مسجد کے امام ہیں بلکہ وہ مولوی صاحب اپنا ایک ادارہ بھی چلاتے ہیں۔ بظاہر دین کا علم رکھنے والے ہیں۔ انہی مغربی ممالک میں رہتے ہیں۔ ہم احمدیوں سے ان کے تعلقات بھی اچھے ہیں۔ وہ احمدیوں کو برا بھی نہیں سمجھتے۔ انہوں نے خود مجھے کہا کہ میں جس اسلامی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہوں ان کے بزرگوں نے یہی کہا ہے کہ کسی کے دین کو چھیڑو نہ اور اپنا دین چھوڑو نہ۔ اب جو ایسے نظریات رکھنے والے ہیں اور علماء کہلاتے ہیں وہ اپنے ماننے والوں اور پیچھے چلنے والوں کو یہی سبق دیں گے کہ کسی ایک خلافت پر متحد ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک ذاتیات اور فرقے مسلم اُمّہ کے وسیع تر مفاد اور ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پس جب قرآن کریم کی تعلیم کو نہ سمجھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر غور نہ کریں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی بلکہ کہنا چاہئے کہ مسلمان علماء کی کم علمی اور جہالت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’بعض صاحب آیت وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کی عمومیت سے انکار کر کے کہتے ہیں‘‘(عمومی طور پر جو اس کے معنی ہیں اس کا انکار کر کے کہتے ہیں ) ’’کہ مِنْکُمْ سے صحابہ ہی مراد ہیں اور خلافت راشدہ حقہ اُنہیں کے زمانے تک ختم ہو گئی‘‘۔ (صحابہ کے زمانے تک خلافت راشدہ رہی۔) فرمایا ’’اور پھر (ان لوگوں کے نزدیک) قیامت تک اسلام میں اس خلافت کا نام و نشان نہیں ہو گا۔ گویا ایک خواب و خیال کی طرح اس خلافت کا صرف تیس برس تک ہی دَور تھا۔ اور پھر ہمیشہ کے لئے اسلام ایک لازوال نحوست میں پڑ گیا۔‘‘نعوذ باللہ۔ آپ فرماتے ہیں ’’مگر مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا کسی نیک دل انسان کی ایسی رائے ہو سکتی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت تو یہ اعتقاد رکھے کہ بلاشبہ ان کی شریعت کی برکت اور خلافت راشدہ کا زمانہ برابر چودہ سو برس تک رہا۔ لیکن وہ نبی جو افضل الرسل اور خیر الانبیاء کہلاتا ہے اور جس کی شریعت کا دامن قیامت تک مُمتد ہے اس کی برکات گویا اس کے زمانہ تک ہی محدود رہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ کچھ بہت مدّت تک اس کی برکات کے نمونے اس کے روحانی خلیفوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوں۔ ایسی باتوں کو سن کر تو ہمارا بدن کانپ جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ وہ لوگ بھی مسلمان ہی کہلاتے ہیں کہ جو سراسر چالاکی اور بیباکی کی راہ سے ایسے بے ادبانہ الفاظ منہ پر لے آتے ہیں کہ گویا اسلام کی برکات آگے نہیں بلکہ مدّت ہوئی کہ ان کا خاتمہ ہو چکا ہے‘‘۔ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 330) ایک جگہ آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر صرف تیس سال تک ہی خلافت رہنی تھی اور اس کے بعد کچھ نہیں تھا اور یہی اسلام کی کل عمر تھی تو اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس سال اَور زندگی دے دیتا اور ترانوے سال کی زندگی کوئی ایسی زندگی نہیں جو غیر معمولی ہو۔ پھر خلافت کی ضرورت کیا تھی۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزا ئن جلد6 صفحہ 354) پس ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسے نظریات رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی دنیاوی حکومتوں کے بل بوتے پر اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں خلافت کسی طاقت کی وجہ سے قائم ہو جائے گی۔ اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس واضح پیغام کو نہیں سمجھتے کہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ یہ وعدہ مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عابد بننے والوں کے ساتھ یہ وعدہ مشروط ہے۔ عام مسلمانوں کے اس غلط نظریے کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتوں نے بھی اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کے لئے ایسی تنظیموں کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا اور مدد دینی شروع کی جنہوں نے خلافت کے نام پر اپنے آپ کو منظم کیا۔ لیکن یہ کچھ عرصہ تک دنیاوی مقاصد حاصل کرکے دنیاوی آقاؤں کی مددنہ ملنے کی وجہ سے یا ان کے مقاصد پورے ہونے کی وجہ سے ختم ہو رہی ہیں۔ تین سال ہوئے آئرلینڈ میں مجھے ایک جرنلسٹ نے پوچھا کہ اسلامی دنیا میں یہ جو خلافت کا اب دَور شروع ہوا ہے، اس کی کیا حقیقت ہے اور یہ پھیلے گی؟ تمہاری جو خلافت ہے اس کو اس سے کیا خطرہ ہے؟ تو مَیں نے اس کو یہی جواب دیا تھا کہ یہ خلافت نہیں۔ یہ اسی طرح شدّت پسند لوگوں کا ایک گروہ ہے جس طرح پہلے گروہ کام کر رہے ہیں اور اس کا انجام بھی آخر میں وہی ہو گا جو باقی شدت پسند گروہوں کا ہو رہا ہے۔ جب تک دنیاوی آقا ان سے خوش رہیں گے یہ کام کرتے رہیں گے۔ جب وہ اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے تو آہستہ آہستہ یہ کمزور ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ان لوگوں نے دین کو کیا تمکنت دینی ہے اور کیا امن انہوں نے قائم کرنا تھا۔ ہاں دنیا نے یہ دیکھا کہ انہوں نے اسلامی دنیا کے امن کو تباہ و برباد کر دیا۔ اسلام مخالف طاقتوں کا اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کا ایک ایجنڈا تھا وہ انہوں نے پورا کر دیا اور اس میں مسلمان حکومتوں کے سربراہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی کرسیاں بچانے کے لئے رعایا کا خون کیا اور ابھی تک بجائے امن کے مسلمان مسلمان کے لئے ہی خوف کا باعث بنا ہوا ہے اور پھر غیر مسلم دنیا کے امن کو بھی یہی لوگ برباد کر رہے ہیں۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ایک درد مند مسلمان جب یہ دیکھتا ہے کہ دنیا میں معصوموں کے قتل اور تباہی پھیلانے میں کسی مسلمان کا ہاتھ ہے تو دل کڑھتا ہے، بے چینی ہوتی ہے۔ خلافت کا نظام جو خوف کو امن میں بدلنے والا نظام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے تمکنت دین کا ذریعہ بننے والا ہے، اس کا تعلق اس ذریعہ سے قائم ہونے والی خلافت سے ہے جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل میں آنا ہے۔ مزید پڑھیں: رشتہ تلاش کرنے کے متعلق ہدایات و نصائح