جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یشوع بن نون سے مشابہت تھی یہاں تک کہ نام میں بھی تشابہ تھا ایسا ہی حضرت ابو بکر اور مسیح موعود کو بعض واقعات کے رُو سے بشدّت مشابہت ہے اور وہ یہ کہ ابو بکر کو خدا نے سخت فتنہ اور بغاوت اور مفتریوں اور مفسدوں کے عہد میں خلافت کے لئے مقرر کیا تھا ایساہی مسیح موعود اس وقت ظاہر ہوا کہ جبکہ تمام علامات صغریٰ کا طوفان ظہور میں آچکا تھا اور کچھ کبریٰ میں سے بھی۔اور دوسری مشابہت یہ ہے کہ جیسا کہ خدا نے حضرت ابوبکر کے وقت میں خوف کے بعد امن پیدا کر دیا اور برخلاف دشمنوں کی خواہشوں کے دین کو جماد یا ایسا ہی مسیح موعود کے وقت میں بھی ہوگا کہ اس طوفانِ تکذیب اور تکفیر اور تفسیق کے بعد یکد فعہ لوگوں کو محبت اور ارادت کی طرف میلان دیا جائے گا اور جب بہت سے نور نازل ہوں گے اور ان کی آنکھیں کھلیں گی تو وہ معلوم کریں گے کہ ہمارے اعتراض کچھ چیز نہ تھے اور ہم نے اپنے اعتراضوں میں بجز اس کے اور کچھ نہ دکھلایا جو اپنے سطحی خیال اور موٹی عقل اور حسد اور تعصب کے زہر کو لوگوں پر ظاہر کر دیا۔اور پھر اس کے بعد ابو بکر اور مسیح موعود میں یہ مشابہت ظاہر کر دی جائے گی کہ اس دین کو جس کی مخالف بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں زمین پر خوب جما دیا جائے گا اور ایسا مستحکم کیا جائے گا کہ پھر قیامت تک اس میں تزلزل نہیں ہوگا۔اور پھر تیسری مشابہت یہ ہوگی کہ جو شرک کی ملونی مسلمانوں کے عقیدوں میں مل گئی تھی وہ بکلی اُن کے دلوں میں سے نکال دی جائے گی۔اس سے مراد یہ ہے کہ شرک کا ایک بڑا حصہ جو مسلمانوں کے عقائد میں داخل ہو گیا تھا یہاں تک کہ دجال کو بھی خدا کی صفتیں دی گئی تھیں اور حضرت مسیح کو ایک حصہ ٔمخلوق کا خالق سمجھا گیا تھا یہ ہر ایک قسم کا شرک دُور کیا جائے گا جیسا کہ آیت يَعْبُدُوْنَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا (النور:۵۶) سے مستنبط ہوتا ہے۔ایسا ہی اس پیشگوئی سے جو مسیح موعود اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں مشترک ہے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح شیعہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے ہیں اور اُن کے مرتبہ اور بزرگی سے منکر ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی تکفیر بھی کی جائے گی اور ان کے مخالف ان کے مرتبہ ولایت سے انکار کریں گے کیونکہ اس پیشگوئی کے اخیر میں یہ آیت ہے وَ مَنْ كَفَرَ بَعد ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔اور اس آیت کے معنے جیسا کہ روافض کی عملی حالت سے کھلے ہیں یہی ہیں کہ بعض گمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقام بلند سے منکر ہو جائیں گے اور ان کی تکفیر کریں گے پس اس آیت سے سمجھا جاتا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی کیونکہ وہ خلافت کے اس آخری نقطہ پر ہے جو خلافت کے پہلے نقطہ سے ملا ہوا ہے۔یہ بات بہت ضروری اور یادر کھنے کے لائق ہے کہ ہر ایک دائرہ کا عام قاعدہ یہی ہے کہ اُس کا آخری نقطہ پہلے نقطہ سے اتصال رکھتا ہے لہٰذا اس عام قاعدہ کے موافق خلافت محمد یہ کے دائرہ میں بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے یعنی یہ لازمی امر ہے کہ آخری نقطہ اُس دائرہ کا جس سے مراد مسیح موعود ہے جو سلسلہ خلافت محمدیہ کا خاتم ہے وہ اس دائرہ کے پہلے نقطہ سے جو خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نقطہ ہے جو سلسلہ خلافت محمدیہ کے دائرہ کا پہلا نقطہ جو ابوبکر ہے وہ اس دائرہ کے انتہائی نقطہ سے جو مسیح موعود ہے اتصالِ تام رکھتا ہے جیسا کہ مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ آخر نقطہ ہر ایک دائرہ کا اس کے پہلے نقطہ سے جاملتا ہے۔اب جبکہ اوّل اور آخر کے دونوں نقطوں کا اتصال ماننا پڑا تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو قرآنی پیشگوئیاں خلافت کے پہلے نقطہ کے حق میں ہیں یعنی حضرت ابوبکر کے حق میں وہی خلافت کے آخری نقطہ کے حق میں بھی ہیں یعنی مسیح موعود کے حق میں اور یہی ثابت کرنا تھا۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزا ئن جلد۱۷ صفحہ۱۸۹۔۱۹۱) مزید پڑھیں: سچے مذہب کی شناخت