اسلام نے حج انہی لوگوں کے لیے فرض قرار دیا ہے جو سفر حج کے اخراجات ادا کرسکتے ہوں۔…پس جب اسلام نے حج کے لیے زاد راہ کا ہونا ضروری قرار دیا ہے اور حج کی دوسری شرائط میں سے یہ بھی ایک اہم شرط قرار دی ہے تو پھر جو لوگ بغیر کافی سفر خرچ لیے حج کو جاتے ہیں اور وہاں جا کر بھیک مانگتے اور روتے چلاتے ہیں وہ اسلام کے نام کو بدنام کرتے ہیں مفلس حجاج کا مسئلہ جب برطانوی حکومت نے اپنی مسلمان رعایا کے لیےفریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سازگار حالات فراہم کیے تو دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں بھی یہ خواہش جاگی کہ وہ بھی یہ فریضہ ادا کریں، جب کہ اسلام نے سفر حج کے لیے استطاعت اور سہولت کو بنیادی شرائط قرار دیا ہے۔ برطانوی ہندوستان کی انتظامیہ ان حاجیوں کی واپسی پر بھاری رقم خرچ کرتی تھی جو صرف یکطرفہ ٹکٹ خرید کر ارض حجاز پہنچتے۔ بمبئی کے شعبہ حج کو صرف سال ۱۹۱۲ء کے موسم حج میں ۲۵؍ہزار روپے کی خطیر رقم خرچ کرکے ۴۰۰۰ مفلس حاجیوں کی واپسی کا انتظام کرنا پڑا تھا۔ (National Archives of India (NAI), Foreign Department, Internal-B, 20 December 1912, 349,352) ایسے ’’مفلس حاجی‘‘( سرکاری خط و کتابت میں ان کے لیے destititute pilgrimsکی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی ) جدہ کی بندرگاہ پر وطن واپسی کے منتظرپڑے رہتے، اور بعض کھانے یابنیادی ضروریات کے لیے سڑکوں پر بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے۔(NAI, Foreign Department, Internal-B, August 1913, Government of Bombay to Government of India, 15 March 1912, No 349-352) یہ صورت حال نہ صرف عثمانی حکام کی نظر میں ناپسندیدہ تھی، بلکہ جدہ میں متعین برطانوی ہندوستان کے نائب قونصل بھی، جو حاجیوں کے امور کی نگرانی کے ذمہ دار تھے، اس پر ناخوش و بیزار رہتے۔ عثمانی حکومت اس صورت حال کو برطانوی اہلکاروں کے حج کے انتظامات کرنے میں ناکامی کے طور پر دیکھتی اور اس نااہلی کا پروپیگنڈا کیا جاتا جسے جدہ میں متعین ہندوستانی افسران سلطنت برطانیہ کی شان و شوکت سے سراسر منافی اور اس کی اعلیٰ ساکھ پر ایک دھبہ سمجھتے تھے۔(Maharashtra State Archives (MSA), File 768, Vol 140, Bombay Government Resolution, 11 December 1913, General Department) الغرض تب یہ مفلس و نادار حاجی جدہ میں مہینوں پھنسے رہتے، گلیوں میں بھیک مانگ کر گزارہ کرتے، یوں کبھی شدید بیمار ہو جاتے،اور کبھی ہیضہ یا دیگر مہلک وباؤں کا شکار ہوجاتے۔بعض بھوک سے مر جاتے کیونکہ یہ سب لوگ وطن واپسی کے لیے حکومتی انتظامات کے رحم و کرم پر ہوتے۔ اورواپسی کا انتظام ایک ایسا عمل تھا جس پر کئی مہینے لگ جایا کرتے۔ (NAI, Foreign Department, Internal-B, No 349,352, Hajj Report 1911-1912 by Dr S Abdurrahman, Vice-Consul Jeddah) مفلس حاجیوں کا بحران برطانوی ہندوستانی حکومت کے لیے عشروں تک ایک الجھا ہوا معاملہ بنا رہا، حتیٰ کہ یہ مسئلہ کسی حد تک اُس وقت جا کر حل ہوا جب پہلی جنگ عظیم کے بعدمحدود پیمانے پرہندوستان سے سفرِحج کا دوبارہ آغاز ہوا۔ اس طویل عرصہ کے دوران کئی حج کمیٹیاں بنائی گئیں، فلاحی کاموں میں پیش پیش مسلمان شخصیات کو شامل کیا گیا، عام مسلمانوں کی رائے لی گئی، بااثر مسلم راہنماؤں کو شاملِ مشورہ کیا گیا۔ لیکن اس سادہ سے حل پر اتفاق نہ ہو سکا کہ حج کے سفر کو واپسی کے ٹکٹ کی پیشگی خریداری سے مشروط کر دیا جائے۔ (Responses from Muslim leaders and influential figures from Bhopal, Ajmer, Quetta, Gwalior, Indore, Punjab etc in NAI, Foreign Department, Internal-B, September 1907, NO 111-140) ایسی کسی بھی تجویز کی سب سے زیادہ مخالفت مسلمانوں کی جانب سے ہوتی جو اس شرط کو حکومت وقت کی طرف سے مذہبی آزادی میں مداخلت اور ایک اسلامی فریضے میں رکاوٹ تصور کرتے تھے۔(Ibid, Rai Itbar-ul-Mulk Sayyid Muhammad Iftikhar Husein Muztir, Superintendent Court of Wards, Gwalior State, 28 February 1906) کیسا مضحکہ خیز اور عجیب تضاد ہے کہ مسلمان ہی ایسی تجویز کی مخالفت کررہے تھے جو درحقیقت اسلام کے شرعی حکم کے قریب تر تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ حج کی فرضیت سفر کی استطاعت اور موافق حالات سے مشروط ہے۔ الغرض تب ایسے جذبات برطانوی ہندوستان کے حکمرانوں کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے تھے جو مسلمانوں کی وفاداری کھونا نہیں چاہتے تھے، اس خوف سے کہ مبادا وہ ان کے مذہبی فرائض اور ریاست کے درمیان رکاوٹ سمجھے جائیں۔حکام کا یہ رویہ خیر خواہی یا ہمدردی پر نہیں بلکہ زیادہ سیاسی مصلحت پر مبنی تھا۔ ۱۹۱۲ء کا حج اس بحران کے حوالے سے ایک اہم موڑ تصور کیا جاتا ہے، جب جدہ میں ایک ہزار سے زائد ہندوستانی حاجی ’’انتہائی بدحالی‘‘ کی حالت میں موجود تھے جیسا کہ جدہ کے وائس قونصل کی رپورٹوں میں ذکر ہوا ہےاوران میں سے کئی افراد سخت حالات کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ (MSA, Commissioner of Police, Bombay to Secretary, Government of Bombay, 24 July 1911, General Department, 1911, File 62A) یہ مسئلہ ہر سال حج کے موسم میں ہندوستانی پریس میں موضوعِ بحث بنتا، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ یقیناً اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے۔ اس علمی واقفیت کے ساتھ اب اُن کا اس المیہ پر چشم دید، ذاتی مشاہدہ بھی شامل تھا۔ آپؓ کی یہ نئی آگہی اُن ادارتی کالموں کی صورت میں ظاہر ہوئی جو الفضل کے شمارہ جات ۲۵ جون، ۲؍جولائی اور ۱۶؍جولائی ۱۹۱۳ء میں شائع ہوئے۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے یہ مشاہدات اس وقت حاصل کیے تھے جب آپ عثمانی حکام کی کڑی نگرانی میں تھے اور کسی بھی وقت گرفتاری کا خطرہ موجود تھا۔ جماعت احمدیہ کی تجاویز اُس زمانہ میں حج ایک ایسا انتظامی عمل تھا جو زیادہ تر ان مسلمان اہلکاروں کے ذریعے چلایا جاتا تھا جنہیں ہندوستان میں برسر اقتداربرطانوی حکومت نے مقرر کیا ہوتاتھا۔ (John Slight, The British Empire and the Hajj: 1865-1956) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پیش نظر ریاست حیدرآباددکن کی مثال تھی، کیونکہ نظام حیدر آبادکی حکومت نے حاجیوں کے لیے سفر کو آسان بنانے کے لیے بہت سے اہم اور مفید اقدام کیے تھے یہاں تک کہ ان افراد کے لیے بھی مواقع پیدا کیے جو مالی استطاعت نہ رکھنے کے باعث شریعت کے مطابق حج کے اہل نہیں تھے۔اگرچہ حیدرآباد کو بھی بعض مفلس حاجیوں کی واپسی کا بندوبست کرنا پڑتا، لیکن وہاں یہ کام زیادہ منظم انداز میں کیا جاتاتھا کیونکہ سفرِحج کے لیے خطیر رقم مختص کی جاتی۔ یہ نظام کی طرف سے ایک فلاحی اقدام تھا۔ (Eric Lewis Beverley, Hyderabad, British India, and the World: Muslim Networks and Minor Sovereignty, c 1850-1950, Cambridge University Press, 2015) مگر حکومتِ ہند براہِ راست ریاست حیدرآباد کی حج پالیسی میں مداخلت نہیں کرتی تھی۔اوراُس زمانہ میں بمبئی کی بندرگاہ ہی پورے برصغیر میں حج کی روانگی اور واپسی کا مرکزی مقام تھا۔ تب بمبئی کی وسیع بندرگاہ سے نہ صرف پورے ہندوستان کے بلکہ ایران، چین اور یہاں تک کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے مسلمان بھی استفادہ کیا کرتے تھے۔ (Nile Green, Bombay Islam: The Religious Economy of the West Indian Ocean, 1840-1915, Cambridge University Press,) یوں اتنے حاجیوں کے لیے اتنے وسیع پیمانے پر قریباً بین الاقوامی سطح کے انتظامات کرنے کی وجہ سے برطانوی حکام کا نظام حیدرآباد سے کسی بھی طرح مقابلہ نہ تھا،لیکن پھر بھی برطانوی حکومت نے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، سیاسی مصلحت کے پیش نظر مفلس حاجیوں کواولاً بمبئی سے حج پر روانہ ہونے کی اجازت دینا جاری رکھا اور بعد میں ہزاروں افراد کی واپسی کے انتظامات بھی کیے۔ البتہ اتنا ضرور تھا کہ ریاست حیدرآباد کے انتظام حج کے تتبع میں، تاج برطانیہ کے صیغہ انتظام حج کی پالیسی تھی کہ صرف مسلمان عملہ ہی حج کے انصرام کے لیے بھرتی کیا جائے خواہ وہ بمبئی میں ہو یا جدہ میں۔یہ اہتمام غالباً اس لیے بھی تھا تا مترجمین کی ضرورت ہی نہ پڑےاور مقامی مسلمان عملہ ا پنے ہم وطن اور ہم مذہب حاجیوں سے بلاواسطہ گفتگو کر سکے۔اگرچہ حکومت کا صیغہ انتظامِ حج اور اس سےمنسلک مختلف حج کمیٹیاں تو مسلمان عملہ ہی بھرتی کرتی تھیں، لیکن ہندوستان بھر میں حج ایجنٹوں اور دلالوں کا نیٹ ورک بھی مکمل طور پر مسلم کاروباری شخصیات پر مشتمل تھا۔ یہ کاروبارگو بظاہر دینی خدمت کی آڑ میں ہوتے، لیکن حقیقت میں مکمل طور پرتجارتی مفادات پر مبنی تھےاورحکومت کے خفیہ ادارے ان دلالوں کو’’بددیانت اور دھوکہ باز‘‘ سمجھتے تھے۔ (MSA, Report on Pilgrim Season Ending 30 November 1909, General Department, 1910, File 615, Vol 134) معمولی مفاد کی ہوس سے مجبور یہ ایجنٹ شہر شہراورقریہ قریہ سفر کرتے اور غریب مسلمانوں کو حج پر جانے پر آمادہ کرتے۔ وہ انہیں یقین دلاتے کہ سفر ِحج کی لاگت اور دیگر اخراجات کی کثرت تو محض ایک جھوٹ ہے جس پر یقین نہ کیا جائے۔یوں یہ ایجنٹ معمولی رقم کے عوض ان سادہ لوح مسلمانوں کو حج کا پیکج فروخت کرنے کا دھوکہ دیتے اور صرف جدہ تک کا یک طرفہ ٹکٹ تھما دیتے، جس پر اَن پڑھ مسلمان عوام خوشی سے پھولے نہ سماتے کہ ان کا زندگی بھر کا خواب پورا ہونے جا رہا ہے۔ (Amir Ahmad Alawi, Journey to the Holy Land: A Pilgrim’s Diary, trans Mushirul Hasan & Farkhanda Jalil, Oxford University Press, 2009) اس طرح جب وقت کے ساتھ ساتھ مفلس حاجیوں کا مسئلہ برطانوی حکومت کے لیے ایک مستقل مصیبت بن گیا، تو مشورے کے لیے مختلف انجمنوں، علماء اور بااثر افراد سے رجوع کرنا پڑا۔اور ظاہر ہے کہ یہ سب لوگ مسلمان ہی تھے۔ایسی ہی ایک مشاورتی انجمن ’’بمبئی حج کمیٹی‘‘ تھی جو۱۹۰۸ءمیں قائم کی گئی۔ اس میں ہندوستان و حجاز کے مابین تجارت میں دلچسپی رکھنے والے تاجر، حجاز میں مسافر خانوں کے مالک، اور’’پرشین گلف اینڈ اسٹیم نیویگیشن کمپنی‘‘ کے اہل کاروں جیسی بااثر مسلمان شخصیات شامل تھیں۔ (MSA, Haj Committee Rules and Regulations, Government Resolution No 5497, 5 September 1908, General Department, File 1088, Vol 143) لیکن جب حکومت نے دیکھا کہ کئی برسوں کے بعد بھی اس کمیٹی کی کارکردگی کماحقہ نہیں ہے اور ایسے شواہد ملے کہ یہ لوگ تومحض ذاتی اور تجارتی مفادات کے حصول کے لیے اس کمیٹی کا ناجائز استعمال کررہے ہیں تو یہ کمیٹی برخاست کر دی گئی۔ (MSA, Resolution on Re-appointment of Hajj Committee Members, 4 October 1912, General Department 1912, File 1368, Vol 128) معروف مسلم راہنمامولانا شوکت علی نے بھی ’’انجمن خدامِ کعبہ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جس کی شاخیں پورے ہندوستان میں تھیں اور جس کا مقصد ہندوستانی حاجیوں کے مسائل کا حل نکالنا تھامگر جب اِن کی خلافتِ عثمانیہ سے وفاداریاں ظاہر ہونا شروع ہوئیں توبرطانوی حکومت نے اس انجمن کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔(David Page, Prelude to Partition: The Indian Muslims and the Imperial System of Control, p 24, OUP, Delhi, 1982) اسی سلسلہ میں بمبئی کی مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے بااثر مسلمان مولوی رفیع الدین احمد نے بمبئی پولیس کو خط لکھاجس میں انگریز حکومت کو مسلم شہریوں سے ہمدردی پر سراہا، لیکن واپسی ٹکٹ کی شرط کی تجویز کو مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کیااور کہا ہے کہ یہ تو مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے۔ (MSA, Rafiuddin Ahmed to Commissioner of Police, Bombay, 29 January 1906, General Department 1912, File 768, Vol 132) الغرض یہ وہ پس منظر اور حکومتی تجاویزکی وجہ سے پیدا شدہ ماحول تھاجس کے ردّعمل میں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحبؓ کے اداریے شائع ہوئے۔تب بمبئی حکومت کا ارادہ تھا کہ آئندہ حج پر جانے والے افراد کے لیے کئی شرائط عائد کی جائیں، جن میں سے ایک شرط یہ تھی کہ حاجی صرف جدہ کا یک طرفہ ٹکٹ خریدنے کی بجائے واپسی کا ٹکٹ لازماً خریدیں۔مسلمان حلقوں نے ان اصلاحات کو مذہبی جذبات کی توہین اورمذہبی آزادی میں مداخلت کے مترادف قرار دیا۔ (Mark Harrison, Quarantine, pilgrimage, and colonial trade: India 1866-1900, in Indian Economic and Social History Review, Vol 29, No 2, 1994) حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے اس مسئلے کی جڑ مسلمانوں کی شریعتِ اسلامی کی غلط تفہیم کو قرار دیا اور برملا لکھا کہ حج سے متعلق اسلامی تعلیمات کے بارے میں خودمسلمانوں کا علم ناقص ہے۔آپؓ نے واضح کیا کہ اگرچہ حج ہر صاحبِ استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے، مگر اس کی بعض شرائط ہیں جن کا خیال اور انتظام سفر کے آغاز سے قبل کرنا چاہیےجیسا کہ جسمانی صحت۔ مالی استطاعت۔ عائلی ذمہ داریوں سے فراغت اور سفر کے دوران اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیےبنیادی ضروریات اور مکمل وسائل کی دستیابی وغیرہ۔ آپ نے نشاندہی فرمائی کہ ایسے حاجی جوبوجوہ مفلس و نادار شمار ہوں، جیسا کہ سرکاری دستاویزات میں بعض اوقات انہیں pauper pilgrim (مفلس حاجی) کہا جاتا تھا، وہ دراصل ان شرائط کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں جنہیں خوداسلام نے حج کے لیے لازم قرار دیا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک بات یہ کہ مسلم اہلِ علم و دانش بھی حکومت کی طرف سے ایسے اقدامات مثلاً واپسی کا ٹکٹ لازماً خریدنے کی شرط کی حمایت پر آمادہ نہ تھے۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے اس افسوسناک حقیقت کو نمایاں کیا اور مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ جہاں حکومت کی کوئی تجویز معقول ہو، وہاں اس سے تعاون کریں اور اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو تو صرف مخالفت برائے مخالفت کے بجائے مثبت اور مفید مشورہ دیں۔(الفضل ۲۵؍جون ۱۹۱۳ء) بمبئی حکومت کے حج سے متعلق ریکارڈ اس امر کے شواہد سے بھرے پڑے ہیں کہ مسلمان بااثر افراد نے بارہا حکومت کی اصلاحی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالیں۔ہم اوپر بھی کچھ مثالیں دیکھ چکے ہیں اور دیگر کئی حوالہ جات بھی مختلف تحقیقی کتب میں موجود ہیں۔ (Details: Radhika Singha, Passport, ticket, and India-rubber stamp: ‘The problem of the pauper pilgrim’ in colonial India c 1882-1925) اس سلسلہ مضامین کے دوسرے حصے میں، حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے یہ سوال اٹھایا کہ کیامفلس حاجیوں کا مسئلہ ایک حقیقت ہے بھی یا نہیں؟آپؓ نےاس کا جواب اثبات میں دیا اور فرمایا کہ آپ اس کے گواہ خود ہیں کیونکہ آپ نے گذشتہ سال حجاز کے سفر کے دوران اپنی آنکھوں سے یہ صورتِ حال دیکھی تھی۔آپؓ نے دیکھا کہ ایجنٹ معصوم عوام کو حج کے مکمل اخراجات سے متعلق غلط اور گمراہ کن معلومات دیتے ہیں اور محض مالی فائدے کے لیے انہیں صرف یک طرفہ ٹکٹ بیچ دیتے ہیں۔ پھر آپؓ نے ان مشکلات کی فہرست پیش کی جو حاجی کم وسائل یا ناکافی تیاری کے ساتھ سفر کا آغاز کرنے پر جھیلتے ہیں۔جدہ سے مکہ اور پھر مدینہ تک کا سفرعوام کی عمومی توقعات سے کہیں زیادہ مہنگا ثابت ہوتا ہے۔مکہ میں رہائش کے اخراجات انتہائی زیادہ ہوتے ہیں۔ناکافی یا غیر معیاری رہائش کے نتیجے میں حاجی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اورسفرحج کے دوران خوراک ایک ایسا بڑا خرچ ہے جو اکثر حاجیوں کی دسترس سے باہر ہو جاتا ہے۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے درج ذیل تجاویز پیش فرمائیں: ۱۔ واپسی کا ٹکٹ خریدنے کی شرط لازماً عائد کی جائے۔ ۲۔ حکومت یا اس کے ایجنٹس اور حج کمیٹیوں میں موجود نمائندے لوگوں کو حج سے متعلق اسلامی تقاضوں سے آگاہ کریں، مگر کسی کو یہ اختیار نہ ہو کہ وہ کسی مسلمان کو اس سفر سے روکے۔ ۳۔ حکومت کسی ایک بحری کمپنی کو حج کے سفر پر اجارہ داری قائم نہ کرنے دے، کیونکہ اس سے حاجیوں کو مجبوری میں انتہائی تنگ جگہ پر مشکل حالات میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ ۴۔ حکومت کو چاہیے کہ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے سے ایک سال قبل ٹینڈرز جاری کرے تاکہ بہتر سفری سہولیات کے مواقع سامنے آ سکیں۔ ۵۔ حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ حج کے فوراً بعد جہاز روانہ ہوں تاکہ حاجیوں کو جدہ میں دنوں یا ہفتوں تک قیام نہ کرنا پڑے جب کہ ان کے پاس مالی وسائل ختم ہو چکے ہوں۔ اس ضمن میں حضورؓ نے ڈچ حکومت کی مثال دی، جس نے جاوا کے حاجیوں کے لیے ایسا انتظام کیا کہ وہ حج کے بعد فوراً جدہ کی بندرگاہ سے روانہ ہو جاتے ہیں اور وہاں مزید قیام کی مشکلات سے محفوظ رہتے ہیں۔ ۶۔ سفر حج میں استعمال ہونے والے بحری جہاز اس قابل ہوں کہ روانگی سے قبل یا سفر کے دوران خراب نہ ہوں، جیسا کہ اکثر ہوجاتا ہے۔ ۷۔ وہ جہاز جو تیز رفتاری سے سفر کر سکتے ہوں، وقت کی بچت کے ساتھ زیادہ حاجیوں کو مناسب طریق پر واپس پہنچانے میں مؤثر ہو سکتے ہیں۔ ۸۔ جدہ سے روانہ ہونے والے جہازوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ حاجیوں کو حرکت کرنے اورٹہلنے کی جگہ میسر آ سکے، کیونکہ موجودہ حالات میں وہ بےحد تنگی اور بھیڑ میں سفر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے بیماریاں لگنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ۹۔ بااثر مسلمانوں کی ایک کمیٹی قائم کی جائے جو حکومت اور عوام کے درمیان حج سے متعلق مسائل کے ضمن میں رابطے کا ذریعہ بنے۔ ۱۰۔ اگر کوئی حاجی حجاز میں وفات پا جائے یا واپسی کے لیے رجوع نہ کرے تو اس کا واپسی کا ٹکٹ بحری کمپنی کو دینے کے بجائے کسی حج کمیٹی کے سپرد کیا جائے تاکہ یہ رقم آئندہ آنے والے حاجیوں کی فلاح و بہبود میں استعمال ہو سکے۔ ۱۱۔ ان کمیٹیوں میں سے ایک افسر ہمیشہ جدہ میں مقیم ہو، جو حاجیوں اور جدہ میں موجود قونصل کے درمیان رابطے کا فریضہ انجام دے، کیونکہ اکثر حاجی مالی تنگی اور عدم اعتماد کے باعث قونصل کے دفتر تک جانے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ ۱۲۔ ان کمیٹیوں کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ جہازوں کی حالت کا معائنہ کر سکیں تاکہ حاجیوں کی خیریت اور صحت کا مناسب خیال رکھا جا سکے۔ یہ تمام تجاویز تحریری شکل میں مرتب کی گئیں اور ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ہارڈنگ کو بھیجی گئیں، جن کی جانب سے نہ صرف ان کی وصولی کی باقاعدہ رسید موصول ہوئی بلکہ یہ بھی بتایا گیا کہ ان تجاویز کو متعلقہ محکمے کو بھجوا دیا گیا ہے۔ (الفضل ۱۴؍جولائی ۱۹۱۴ء) مگر تب یہ بحث تقریباً ایک سال تک جاری رہی اور مسلمانوں کے دباؤ اور حکومت کی سفارتی حکمت عملی کے نتیجے میں ’’واپسی ٹکٹ لازمی خریدنے کی تجویز‘‘ واپس لے لی گئی اور یوں مفلس حاجیوں کا مسئلہ جوں کا توں برقرار رہا۔مگر یہی دیرینہ مسئلہ ۱۹۱۴ء میں ایک دفعہ پھرنئی شد ت کے ساتھ سامنے آیا، وہی خدشات، وہی بحث مباحثہ، اور وہی انجام۔یعنی کوئی حل نہ نکل سکا۔ جماعت احمدیہ کے آرگن الفضل نے اتمام حجت کے لیے پچھلے سال کی وہی تجاویز دوبارہ شائع کیں اور اس امر پر زور دیا کہ حکومت کو ایسے سنگین مسائل اپنے ایجنٹوں کے سپرد کر کے خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے اور مسلمانوں کو بھی بغیر دلیل کے حکومت کی ہر تجویز کی مخالفت کی عادت سے باز آنا چاہیے۔(الفضل قادیان۔ ۲۵؍جون ۱۹۱۳ء) نیز الفضل نے زور دیا کہ واپسی کے ٹکٹ کو لازمی قرار دیا جائے۔ مزید یہ کہ حکومت کی جانب سے صرف مسلمانوں کے ردعمل کے خوف سے مؤثر اقدامات سے گریز نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ آج مؤرخین جب اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ ’’مسلم دانشور طبقہ‘‘ خود اس مسئلے کے حل میں رکاوٹ بنا رہا۔اس حوالے سے John Slight اوررادھیکا سنگھا (Radhika Singha) جیسے مؤرخین نے ٹھوس شواہد پیش کیے ہیں۔بطور مثال رادھیکا سنگھا کی تحقیقات میں سے صرف ایک اقتباس کا اردومفہوم پیش ہے۔ لکھا کہ ’’جہاں حکومت خود سیاسی، تجارتی اور انتظامی مفادات کے باعث پوری طرح یہ مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی، وہاں مسلمان اشرافیہ میں سے بھی بعض اس راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔‘‘ (Radhika Singha, Passport, ticket, and India-rubber stamp: ‘The problem of the pauper pilgrim’ in colonial India c 1882 -1925, p. 50) اوریہ وہی بنیادی مسئلہ تھا جس کی نشاندہی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے ابتدائی مرحلے میں ہی کر دی تھی اور وقت کے بااثر مسلمانوں اور حکومت، دونوں کو متوجہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے کو گہرائی میں جا کر حل کریں۔ پھر۱۹۱۴ء میں پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہوا، جس نے حج سمیت ہر قسم کے بین الاقوامی سفر کو بری طرح متاثر کیا۔ جنگ کے اختتام پر برطانوی سلطنت کو اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنی پڑی اور ہر سطح پر ازسرِ نو منصوبہ بندی کی گئی۔بالآخر۱۹۲۵ء میں Indian Merchant Shipping Act میں ترمیم کی گئی، جس کے تحت ہر حاجی کے لیے ‘‘pilgrim permit’’ کو جہاز کے ٹکٹ سے مشروط کر دیا گیا اور اس طرح خودبخود یہ یقینی بنا دیا گیا کہ کوئی حاجی اپنے مکمل سفری اخراجات کا انتظام کیے بغیر حج پر نہ جا سکے۔ یوں یہ ترمیم، گویا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ کی پیش کردہ تجاویز کی تائید تھی، اگرچہ تاخیرزدہ۔(Indian Merchant Shipping Act of 1923, amended by Act XI, 1925) اسی مناسبت سے، الفضل نے مارچ ۱۹۲۵ء میں ایک نیا سلسلہ مضامین شائع کیا جس میں اس قانون سازی کو سراہا گیا اور اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ آخر کار انہی اصلاحی تجاویز کو عملی شکل دی گئی جس کی بنیاد حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے برسوں پہلے رکھی تھی۔(الفضل قادیان ۱۸ اور ۲۵؍مارچ ۱۹۲۵ء) انڈین شپنگ ایکٹ ۱۹۲۳ء (ہندوستانی جہاز رانی کا قانون ۱۹۲۳ء) میں قانون حج کے سلسلہ میں شق ۲۰۸(الف)کا حسب ذیل اضافہ کیا گیا ہے۔ شق ۲۰۸(الف): حجاج کے لیے واپسی کے ٹکٹ کے حصول کی شرائط کے ضمن میں کہا گیا کہ ’’کسی بھی زائر؍حاجی کو ہندوستان کے کسی بندرگاہ یا مقام سے کسی حجاج بردار جہاز پر اس وقت تک نچلے درجے (سب سے کم درجے) میں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ(الف) وہ واپسی کے ٹکٹ کا حامل نہ ہو، یا(ب) اس نے مقررہ شخص کے پاس وہ رقم جمع نہ کروا دی ہو جو واپسی کے ٹکٹ کے اخراجات پورا کرنے کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے متعین کی گئی ہو شق ۲۰۸(ب) کے مطابق جہاز کے مالکان پابند ہوں گے کہ وہ زائرین/حاجیوں کو پورے سفر کے دوران مقررہ مقدار اور معیار کے مطابق خوراک اور پانی بلا کسی اضافی قیمت کے فراہم کریں۔ شق ۲۰۸(ج) کے تحت یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی زائر؍حاجی کسی وجہ سے اپنا سفر مکمل کیے بغیر جہاز سے اترتا ہے یا اتار دیا جاتا ہے، تو اسے وہ تمام کرایہ واپس کرنے کا حق حاصل ہو گا جو اس نے ادا کیا ہو، نیز شق ۲۰۸(الف) کے تحت جمع کروائی گئی کوئی بھی رقم اسے واپس دی جائے گی۔ اور یہی شق اس امر کی بھی ضمانت دیتی ہے کہ’’اگر کوئی زائر؍حاجی دورانِ سفر یا حجاز میں وفات پا جائے، تو وہ شخص جسے اُس نے مقررہ طریقہ کار کے مطابق تحریری طور پر اس مقصد کے لیے نامزد کیا ہو، یا اگر کوئی نامزد شخص نہ ہو تو اُس کا قانونی وارث، ۲۰۸(الف) کے تحت جمع کرائی گئی رقم کی واپسی کا حقدار ہو گا۔ اور اگر حاجی کے پاس واپسی کا ٹکٹ موجود تھا، تو اُس کے ادا کردہ کرایہ کا نصف اسے (نامزد فرد یا وارث کو) واپس کیا جائے گا۔‘‘ جبکہ شق ۲۰۹(ب) بحری جہازوں کا انصرام کرنے والی کمپنیوں پر لازم قرار دیتی ہے کہ وہ مکمل سفری شیڈول (itinerary) جہاز پر سوار حاجیوں ؍ زائرین کی مقررہ تعداد، جہاز کا وزن (tonnage) اور عمر، ہر درجے کا کرایہ، اور جدہ پہنچنے کی متوقع تاریخ کا اعلان کریں۔ اسی شق کے تحت جہاز کے ’’مالک، کپتان یا ایجنٹ‘‘ پر سخت نگرانی عائد کی گئی کہ وہ سفر سے متعلق کسی بھی قسم کی غلط معلومات یا جھوٹے وعدے نہ کریں۔ بلاشبہ یہ قانونی ترمیم ہندوستانی حاجیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کی جانے والی پہلی سنجیدہ کوشش تھی خواہ وہ ہندوستانی باشندے اپنے وطن میں ہوں یا سلطنتِ عثمانیہ کی سرزمین پرہوں۔ حرف آخر جماعت احمدیہ کے افراد کو جماعت کے قیام سے ہی عامۃالمسلمین کی طرف سے گمراہ اور دائرۂ اسلام سے خارج قراردیا گیا اور ان کے خلاف فتوے جاری کیے گئے جن کی رو سے، وہ مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات میں داخلے کے بھی اہل نہ تھے۔اوربرصغیر کی تقسیم کے بعد تو یہ امتیازی سلوک تب ایک نئی انتہاکو پہنچا جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے مملکت کے آئین کی رو سے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ مذہب کے خانہ میں خود کو ’’احمدی‘‘ لکھا کریں تاکہ ان کی الگ سے شناخت کی جا سکے اور ان کے لیے حج کے راستے مسدود کردیے جائیں، حتیٰ کہ مسلم دنیا میں کسی بھی اسلامی عبادت کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی۔ اگرچہ یہ آئینی قدغنیں نسبتاً حالیہ ہیں، کیونکہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف یہ امتیازی سلوک تو ایک صدی قبل ہی جب عرب دنیا پر عثمانیوں کا غلبہ تھا، حکومتوں اور سرکاری اداروں کی نگرانی میں جاری ہوچکا تھا۔ تب سلطنت عثمانیہ نے نہ صرف سیاسی طور پر تاج برطانیہ کی ہر پیش قدمی کو شک کی نظر سے دیکھا بلکہ خلافت جیسے مذہبی حوالوں کو بھی ناپسندیدہ اور خطرہ خیال کیا۔ جیسے آج ہم سب آگاہ ہیں، بالکل ویسے ہی تب عثمانی جانتے تھے کہ ۲۰؍ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں سلطنت برطانیہ کی سفارتی چالوں میں ارض حجاز میں ایک متوازی خلافت کا قیام بھی شامل تھا اور مکہ کے شریف حسین سے بڑھ کر اس خواب کی تعبیر کس کو عزیز ہو سکتی تھی؟ اور مسلم دنیا میں مزید دراڑیں ڈالنے کے لیے برطانیہ کو اور کیا چاہیے تھا؟ سلطنت عثمانیہ کے انتظامی مرکز باب عالی میں جو ہلچل ’’قادیانی‘‘ حاجیوں سے متعلق رپورٹس پر برپا ہوئی، وہ محض دینی غیرت سے زیادہ سیاسی خدشات پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔جماعت احمدیہ میں تو بانی سلسلہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کی وفات (۱۹۰۸ء) کے معاً بعد خلافت کا نظام قائم ہوچکا تھا اور ۱۹۱۲ء میں جب عثمانی حکام نے فکرمند ہوکر یہاں وہاں خطرے کی گھنٹیاں بجائیں،تب تک خلافت احمدیہ کے زیر قیادت جماعت اپنے مبلغین کو بیرونی دنیا میں بھجوانا شروع کر چکی تھی مثلاً خواجہ کمال الدین صاحب ستمبر ۱۹۱۲ء میں انگلستان پہنچ چکے تھے۔حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ اور ان کا وفد ممکنہ طور پر اس سرکاری خط و کتابت سے واقف نہ تھا جس کا ذکر اس مضمون کے آغاز میں کیا گیا ہے، مگر یہ لوگ براہ راست قتل کی دھمکیاں سن چکے تھے، انہیں گلی کوچوں میں ہراساں کیا گیا، گالیاں دی گئیں اور ان کی قیام گاہ پر گرفتار کرنےاور مقدمہ چلانےکے لیے چھاپے مارےگئے۔ گو یہ لوگ گرفتاری سے بال بال بچ گئے۔ یہ سب نوجوان مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ذاتی مشاہدات اور تجربات تھے اورانہیں یہ اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا کہ احمدیوں پر حج کے دروازے بالآخر بند ہوسکتے ہیں، مگر اس کے باوجود حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے اپنے ہم مذہب حاجیوں، وہ بھی جو انہیں اور ان کی جماعت کو کافر قرار دےچکے تھے، کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ خاکسار اس تحریر کا اختتام الفضل کے اس زوردار اداریہ کے ایک اقتباس پر کرتا ہے، جس میں ذکر ہے کہ حجاج کے انتظام کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے جدہ میں متعین مسلمان نائب قونصلوں نے سڑکوں پر بھیک مانگنے والے ہندوستانی حاجیوں کے بارے میں برطانوی حکومت سے شکایت کی اورایک مفید تجویز دیتے ہوئے مفلس و نادار حاجیوں کے معاملہ کو ’’شاہی وقار‘‘ کے لیے باعثِ شرم قرار دیا: ’’اس تجویزمیں اگر ’’ہندوستان کی عزت قائم رکھنے‘‘ کی بجائے ’’اسلام کی عزت قائم رکھنے‘‘ کے نام سے اس طرف توجہ دلائی جاتی تو زیادہ موزوں ہوتا۔ کیونکہ اسلام نے حج انہی لوگوں کے لیے فرض قرار دیا ہے جو سفر حج کے اخراجات ادا کرسکتے ہوں۔…پس جب اسلام نے حج کے لیے زاد راہ کا ہونا ضروری قرار دیا ہے اور حج کی دوسری شرائط میں سے یہ بھی ایک اہم شرط قرار دی ہے تو پھر جو لوگ بغیر کافی سفر خرچ لیے حج کو جاتے ہیں اور وہاں جا کر بھیک مانگتے اور روتے چلاتے ہیں وہ اسلام کے نام کو بدنام کرتے ہیں۔ اور ان کے متعلق کوئی انتظام ہوسکے تو یہ ’’ہندوستان کی عزت قائم رکھنے‘‘ کی بجائے ’’اسلام کی عزت قائم رکھنے‘‘ کا باعث ہوگا۔‘‘ (الفضل ۳۱؍مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۳) مزید پڑھیں: برطانوی ہندوستان اور سلطنتِ عثمانیہ میں حج کا مسئلہ اور جماعت احمدیہ(قسط اوّل)