٭…اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مسیح و مہدی کی آمد کے بعد ایک ایسا دور شروع ہوگا جو اسلام کی نشأة ثانیہ کا دور ہوگا۔ اور اس میں خلافت کا نظام بھی شروع ہوگا ٭… خلافت کے فیض کا وعدہ کامل اطاعت کرنے والوں سے ہے۔ اللہ کی کامل اطاعت کرنے والے وہ ہیں جوعبادت کرنے والے ہیں ٭…ڈاکٹر کرنل پیر محمد منیر صاحب سابق ایڈمنسٹریٹر فضل عمر ہسپتال اور سلیمہ زاہد صاحبہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۰؍مئی ۲۰۲۵ء بمطابق ۳۰؍ہجرت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۳۰؍مئی۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کے بعد سورة النور کی آیات ۵۴ تا ۵۷ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہوئے ۱۱۷؍سال گزر چکےہیں۔ یہ نظام ۱۹۰۸ء میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق قائم ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ہم ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ مسیح و مہدی کی آمد کے بعد ایک ایسا دَور شروع ہوگا جو اسلام کی نشأة ثانیہ کا دَور ہوگا۔ اور اسی دور میں خلافت کا نظام بھی شروع ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تك اللہ چاہے گا كہ تم میں نبوت رہے تو نبوت رہے گی، پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اٹھانا چاہے گا اٹھالے گا۔ پھر نبوت كے طریقے پر خلافت علیٰ منہاج النبوة قائم ہوگی، جب تك اللہ چاہے گا خلافت رہے گی، پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اٹھانا چاہے گا اٹھالے گا۔ پھر ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی جب تك اللہ چاہے گا یہ بادشاہت رہے گی، جب اللہ تعالیٰ اسے اٹھانا چاہے گا اٹھالے گا، پھر اس سے بڑھ کر جابربادشاہت قائم ہوگی جب تك اللہ چاہے گا یہ رہے گی، پھر جب اسے اٹھانا چاہے گا اٹھا لے گا، پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔(مشکوٰة المصابیح کتاب الرقاق باب الانذار و التحذیرروایت نمبر۵۳۷۸) پس یہ پیشگوئی تھی جس کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے ایک نیا دور اسلام کی نشأة ثانیہ کا شروع ہوا اورپھر آپؑ کے وصال کے بعد خلافت کا دور شروع ہوا۔ حضورِانور نے خطبے کے آغاز میں تلاوت کردہ آیات کا ترجمہ پیش کر کے فرمایا کہ پس ان آیات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ تم میں نظام خلافت قائم ہوگا۔ خلفائے راشدین کا زمانہ تیس سال تک رہا۔ اب یہ وعدہ تیس سال کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ ایک مکمل وعدہ تھا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ خلافت علیٰ منہاج نبوت تھی پھر بادشاہت تھی، پھر جابر بادشاہت تھی، پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہوئی جو مسیح موعودؑ کے زمانہ میں قائم ہوئی۔پس ہم احمدیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کو مان کر اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا ایک عہد کیا ہے۔اور اس عہد کی ایک شرط یہ ہے کہ ہم ہمیشہ خلافت کے ساتھ جڑے رہیں گے۔ اسی کی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی ہے او ر اسی کے بارے میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے۔ جب تک ہم اس سے جڑے رہیں گے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے،لیکن اس کے لیے بھی شرائط ہیں پس ان شرائط کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے رسالہ الوصیت میں جماعت کو خلافت کے بارے میں خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزے کو دیکھتا ہے۔ …سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو۲ قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو۲ جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعامیں لگے رہیں۔ اس وقت جب یہ ارشاد فرمایا تھا جماعت احمدیہ کی غالب تعداد ہندوستان میں تھی اور چند ایک لوگ باہر تھے۔ لیکن یہ پیشگوئی فرما دی کہ آئندہ ایک زمانہ آئے گا کہ جماعت احمدیہ پھیل جائے گی اور آج ہم وہ زمانہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں جماعت احمدیہ پھیلی ہوئی ہے اور ہر جگہ خلافت سے وفا، پیار اور محبت کا تعلق نظر آتا ہے جو دُور دراز کے ملکوں میں بھی ہے۔ خلافتِ خامسہ کے انتخاب میں بھی آپ نے دیکھاکہ کس طرح دنیا میں پھیلے ہوئے تمام لوگوں نے نظامِ خلافت کے ساتھ جڑنے کا عہد کیا اور بیعت کی اور یہ بیعت ان شاء اللہ آئندہ بھی قائم رہے گی اور آئندہ ہمیشہ اس کے مطابق خدا تعالیٰ ہمیں ان فضلوں سے نوازتا چلا جائے گا۔کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ یہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی ہے۔ یہ حضرت مسیح موعودؑ کا اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر خوشخبری کا پیغام ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ خلافت کے ساتھ جڑے رہیں اور خلافت کے نظام کو قائم کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اگر ہم ایسا کرتے رہیں گے تو تاقیامت ہم اور ہماری نسلیں خلافت سے وابستہ رہیں گی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاید جماعت احمدیہ میں بھی خلافت ملوکیت میں بدل جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے اور رسول اللہﷺ کی پیشگوئی اور جو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی جو خلافت ہے وہ ان شاء اللہ روحانی خلافت رہے گی۔ اور اس کا سلسلہ قیامت تک رہے گا اور اس میں کوئی ایسا دور نہیں آئے گا کہ اس میں ملوکیت آ جائے۔ یہ کبھی نہیں ہوگا بلکہ روحانی خلافت قائم رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نےوعدہ فرمایا کہ تم میں خلافت اسی طرح قائم رہے گی جیسے پہلے لوگوں میں رہی، وہ ملوکیت کی خلافت نہیں تھی۔ ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک مضمون لکھا ان کا خیال تھا کہ شاید ایک زمانہ آئے کہ ملوکیت کا نظام آ جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ کو جب پتا لگا تو اس کی بڑی سختی سے تردید فرمائی اور فرمایا کہ ملوکیت جماعت احمدیہ میں نہیں آئے گی جب تک روحانیت اور تقویٰ قائم ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور یہ قائم رہے گی اور اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعودؑ سے وعدے فرمائے ہیں جب تک وہ وعدے پورے نہیں ہوتے کوئی ایسا نظام نہیں آئے گا جو خلافت کے نظام کو گزند پہنچائے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ خلافت کے مقام کا ادراک رکھنے والے اور کامل وفا سے خلافت سے جڑے ہوئے تھے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ اس کے علاوہ رائے رکھتے۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی معاملے میں مَیں کوئی رائے رکھتا ہوں اور خلیفة المسیح اس کے خلاف فیصلہ فرما دیں تو میرے دل میں دوسرا خیال نہیں آتا کہ میری بھی کوئی رائے تھی۔ یہ تھی کامل وفا۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ یہ وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قائم ہوا اور اس کے مطابق چلتا رہے گا۔ نہ کہ کوئی دنیاوی بادشاہت اس میں آئے گی۔ خلیفۂ وقت تو نمازوں میں راتوں کو اٹھ کر افرادِ جماعت کے لیے دعا کرتا ہے۔ کیا کوئی بادشاہ ایسا ہے جو یہ عمل کرتا ہو! پس اس بات کو اگر ہم یاد رکھیں اور اس کے مطابق عمل بھی کریں تو پھر ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ یہ انعام ان لوگوں کو ملے گا جو اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے۔ پس جو اطاعت کرتے رہیں گے تو اس وعدے سے حصہ پاتے رہیں گے۔ اگر نہیں تو ایسے لوگ تو علیحدہ ہو جائیں گے لیکن خدائی وعدہ کبھی نہیں ٹلے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے خلافت کو جاری رکھنے کے لیے اور فیض پانے کے لیے ہم لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ جو منسلک ہوں گے وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں اور اس کے حکموں پر عمل کریں۔ مسلمانوں کو دیکھ لیں، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خلافتِ راشدہ اس وقت تک قائم رہی جب تک وہ لوگ اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر رکھے رہے۔ جب اطاعت سے باہر نکلے تو خلافت سے بھی محروم ہوگئے۔ یاد رکھیں کہ جماعت احمدیہ سے منسلک ہوکر اس سے فیض پانا ہے تو خلافت سے جڑنا بھی فرض ہے اور خلافت کی کامل اطاعت کرنا اور حکموں پر عمل کرنا اور وفا کا تعلق رکھنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے۔ تبھی وہ ہدایت یافتہ ہو گا اور اس سے فیض یاب بھی ہوتا رہے گا۔ خلافت کا یہ نظام ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود دلوں کو پھیرتا ہے۔یہی تائید الٰہی ہے۔ ہمیشہ ہر خلافت کے زمانے میں ہم نے اس امر کا مشاہدہ کیا ہے۔ حضرت خلیفةالمسیح الاوّلؓ جب خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات رہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے زمانے میں بھی باوجود فتنہ و فساد کے اللہ تعالیٰ کی تائیدات آپؓ کے ساتھ تھیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا کرنے والی تھیں۔ اور جماعت احمدیہ ایک ہاتھ پر اکٹھی ہوئی اور جو خلافت کے نظام کے مخالف تھے اور الگ ہوئے ا ن کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ پھر خلافت ثالثہ اور خلافت رابعہ میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح لوگ جمع ہوئے اور پھر خلافتِ خامسہ میں بھی کس طرح لوگ جمع ہوئے۔ یہ ایک اپنی مثال ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ دُوردراز ملکوں کے لوگ اکٹھے ہوئے۔ دنیا میں جماعت احمدیہ ہی ہے جو ایک نظام میں پروئی ہوئی ہے۔ اور پھر جماعت اور خلافت سے وابستہ رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بہت فضل بھی ہیں۔ دشمنوں کی جانب سے ظلموں کی بھر مار ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب اپنے ایمان پر قائم ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ یہ تکلیفیں ہمیں ہمارے دین سے نہیں ہٹا سکیں۔ پاکستان میں دیکھ لیں ۱۹۷۴ء میں جو جماعت کے خلاف فساد ہوا پھر بھی جماعت دنیا میں پھیل گئی۔ ۱۹۸۴ء میں جماعت کے خلاف جو قانون پاس ہوئے، اس سے جماعت کی ترقی میں کوئی روک پیدا نہیں ہوئی۔ خلیفہ وقت کو ربوہ مرکز سے باہر نکلنا پڑا۔ کوئی روک پیدا نہیں ہوئی بلکہ باہر نکل کر ایک نئی شان سے خلافت کے زیرِ سایہ اور خلافت پر اللہ تعالیٰ کی بارش برساتے ہوئے ایک نیا دور شروع ہوا۔ خلافتِ رابعہ میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح جماعت ترقی کر گئی۔ اور اس طرح اب بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جماعت ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ باوجود اس کے کہ دشمن نے ظلم کی انتہا کر دی۔ خاص طور پر ۲۰۱۰ء میں جب مخالفین نے ہماری مساجد پر حملہ کر کے بڑی تعداد میں احمدیوں کو شہید کیا۔ اس کے بعد پھر وقتاً فوقتاً شہادتیں ہوئیں۔ کبھی زیادہ کبھی کم۔ خلافت خامسہ کے دور میں تو بے شمار شہادتیں ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایمان متزلزل نہیں کرتا بلکہ اس میں ترقی ہو رہی ہے۔ بعض لوگ کمزور ایمان ہوتے ہیں کچھ پیچھے بھی ہٹے ہوں گے لیکن اکثریت اپنے ایمانوں پر قائم ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا، باہر نکلنے کا موقع مل گیا۔ دنیاوی ترقی سے بھی نوازا۔ اور ملکوں میں کثرت سے جماعت پھیلتی چلی جارہی ہے۔ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ کا خلافت کے ساتھ تھا جس کے یہ نتیجے ظاہر ہورہے ہیں کہ آج ہم ۲۱۳-۱۴ ملکوں میں جماعت احمدیہ کے نظام کو قائم کرنے والے ہیں۔ اور مخلصین کی جماعت قائم کرنے والے ہیں۔ دوردراز مقامات، افریقہ میں خلافت سے تعلق رکھنے والے ہیں باوجود نقصانات کے اپنے ایمان پر قائم ہیں۔ برکینافاسو میں ڈوری میں احمدیوں کی شہادتیں ہوئیں، انہوں نے اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ان کی اولادیں ایمان پر قائم ہیں۔ اور وہ کہتی ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ پر اسی طرح ایمان رکھتے ہیں جس طرح ہمارے شہیدوں نے رکھا۔ اور وہ خلافت کے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔ ایسے ایسے محبت کے پیغام بھیجتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسے لوگ جنہیں ہم بظاہر اَن پڑھ سمجھتے ہیں ان میں بھی ایمان کی حرارت ہے۔ یہ ناقابلِ مثال چیز ہے۔ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ یہ دائمی ہوگی اس طرح پورا ہوا کہ دُور دراز بیٹھے ہوئے لوگوں کے دلوں میں خلافت کی محبت پیدا کردی ہے۔ افریقہ کے ایک ملک میں مَیں گیا۔ ایک شخص جس کے بازو بھی صحیح کام نہیں کر رہے تھے۔ معذور تھا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور اس زور سے جکڑا کہ لگتا تھا کہ میرا ہاتھ کسی شکنجے میں آگیا ہے۔ کوئی جان پہچان نہیں۔ پہلے کبھی ملے نہیں۔ صرف خلافت سے محبت تھی۔ لوگ گلے مل کر روتے تھے۔ حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے خلافت سے محبت پیدا کر دی ہے۔ بچوں، عورتوں، بڑوں کے بے شمار محبت بھرے خطوط ملتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خلافت، اسلام اور حضرت مسیح موعودؑ کے لیے محبت اور اسلام کی ترقی کے لیے کتنا درد اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا کہ ایمان میں ترقی کرنے والے شرک سے بچنے والے ہیں۔ پس ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے شرک سے بچیں۔ یوکے کی شوریٰ میں مَیں نے یہی مضمون بیان کیا تھا کہ اگر ہمارے اندر انا ہے، تکبر ہے، کسی عہدیدار یا کسی بھی احمدی میں، تو ہمارے اندر شرک کی ملاوٹ ہے۔ اس سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ نماز کا قیام کرنے والے ہیں، زکوٰة کی ادائیگی کرنے والے ہیں۔ اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ ان پر االلہ تعالیٰ رحم فرمائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ انعام کا سلسلہ، خلافت کے انعام کا سلسلہ شروع فرمایا ہے تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے فیض کا وعدہ کامل اطاعت کرنے والوں سے ہے۔ اللہ کی کامل اطاعت کرنے والے وہی ہیں جو اسے یاد رکھتے ہیں اور اس کی عبادت کرنے والے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نمازوں کے قیام کی تشریح میں فرمایا کہ صلوٰة کا بہترین حصہ جمعہ ہے۔ جہاں امام خطبہ دیتا ہے اور نصائح کرتا ہے اور خلیفہ وقت حالات و ضروریات کے مطابق نصائح کرتا ہے، جس سے قومی اتحاد اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اصل تصویر ہمارے سامنے ہے۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ خلیفہ وقت کا خطبہ ہر علاقے، شہر، گاؤں میں سنا اور دیکھا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ یہ خطبے صرف سامنے بیٹھنے والوں کے لیے ہیں، نہیں بلکہ افریقہ، ترکی، روس سے خطوط آتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ یہ باتیں ہماری حالت کے مطابق ہیں۔ خلافت کا نظام ایسا ہے کہ ہمیں اکائی میں پرو دیتا ہے۔ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں کئی باتیں قدرے مشترک ہیں ہر کسی کو اصلاح کا موقع مل جاتا ہے۔ آج کل میں رسول اللہﷺ کی سیرت کے متعلق باتیں کر رہا ہوں، اس سے تاریخِ اسلام اور اسلام کی بنیادی باتوں کا علم ہوا ہے۔ سیرتِ صحابہ اور رسول اللہﷺ کے اسوے کا علم ہوا ہے۔ کئی باتیںذاتی اصلاح کے لیے ہیں۔ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔پس خلافت ہی وہ ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے پیدا کیا ہے او دنیا کے ۲۱۵؍ممالک میں رہنے والے احمدی ایک اکائی بن کر اس سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰة کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ یہ تزکیہ اعمال کے لیے ضروری ہے۔ اس میں باقی مالی قربانیاں بھی شامل ہیں۔آج صرف جماعت احمدیہ میں یہ مالی نظام جاری ہے خلیفہ وقت کی اطاعت میں دنیا میں چندہ دینے کی وجہ سے افرادِ جماعت کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ ایک ملک میں کمی ہے تو دوسرے ملک کے ذریعے سے وہ کمی پوری ہو رہی ہے۔ افریقہ میں احمدی بہت قربانی کرتے ہیں۔ سکولوں، ہسپتالوں، مشن ہاؤسز، اور مساجد کا نظام چل رہاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک نظام میں رکھ کر فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ مخالفین ان لوگوں جاکر کہتے ہیں کہ قادیانیت، مرزائیت یا احمدیت کو چھوڑ دو۔ لیکن لوگ ان کو یہی جواب دیتے ہیں کہ اب تک تو تم نے ہمیں کچھ سکھایا نہیں آج جماعت احمدیہ نے ہمارے قصبوں، شہروں میں سہولیات مہیا کیں، تربیت کی، نماز اور قرآن اور ترجمہ سکھایا تو تم ان کو چھوڑنے کا کہہ رہے ہو۔ اگر یہ مسلمان نہیں تو پھر دنیا میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔ یہ جواب ہوتا ہے نو مبائعین کا۔ پس اس سے غریبوں کی پرورش، ضرورتمندوں کی ضرورت پوری ہو رہی ہے اور اسلام کی اشاعت بھی ہو رہی ہے۔ بعض جگہوں میں مشکلات بھی ہیں۔ بنگلہ دیش، افریقہ، پاکستان، فلسطین میں احمدی بڑی مشکل میں ہیں۔ فلسطین میں تو ظالمانہ طور پر اوربہیمانہ طور پر سب پر ظلم روا رکھا جارہا ہے۔ ظالموںکی کوشش تو ہے کہ ان کی نسل کشی ہی کر دی جائے۔ لیکن احمدی اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ نظام خلافت قائم ہے جو تسلی بھی دیتا ہے اور ہماری ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے۔ بعض قدرتی آفات ہیں، کچھ انسان کی غلطیوں اور اناؤں کی وجہ سے۔ اگر ان لوگوں نے ابھی اصلاح نہ کی تو دنیا میں ایک تباہی آنے والی ہے۔ پس نظام خلافت سے جڑنے والوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو تباہی سے بچانے کا عہد کریں اور کوشش کریں۔دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف لائیں۔اس کے لیے حتی الوسع وسائل کو بروئے کار لائیں۔ اپنی جان اور مال قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اس طرح بڑھائیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں۔ پس یاد رکھیں کہ خلافت احمدیہ کے ساتھ جڑنے میں ہی دنیا کی بقا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ کچھ وعدے جو ہیں وہ آپؑ کی زندگی میں پورے فرما دے گا اور کچھ آپؑ کے بعد۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ آج تک پورے کرتا چلا جا رہا ہے۔نظام خلافت کے ساتھ جڑے رہنے والے اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے چلے جائیں گے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر جو خوشخبریاں ہمیں دی ہیں ان سے حصہ پانے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے فیض کے وعدے سے فیض اٹھانے کے لیے خدا کی عظمت دلوں میں بٹھانے والے بنیں۔ اپنے دلوں میں بھی اور دنیا کے دلوں میں بھی اور اپنی نسلوں کے دلوں میں بھی اور عملی طور پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اظہار کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے ہر فرد خلافت احمدیہ کو قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار رہے۔ اور جو ہم عہد کرتے ہیں ذیلی تنظیموں میں بھی، اس کو پورا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں ایسا زمانہ لائےکہ جب ہم دیکھیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا جھنڈا ہر جگہ لہرا رہا ہے۔ آنحضرتﷺ کی غلامی میں لوگ جوق در جوق آرہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبرداروں میں سے بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب یہ ہوگا تبھی وہ دن ہوگا جو ہمارے لیے خوشی کا دن ہوگا۔ وہی دن ہے جو بابرکت دن ہوگا۔ جب ہم کہیں گے کہ جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا تھا اس کی برکات سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہی دن دنیا کو تباہی سے بچانے والے دن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی بھی توفیق عطا فرما ئے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔آمین خطبہ جمعہ کے اختتام پر حضورِانور نے دو مرحومین مکرم کرنل ڈاکٹر پیر محمد منیر صاحب سابق ایڈمنسٹریٹر فضل عمر ہسپتال ربوہ اور مکرمہ سلیمہ زاہد صاحبہ اہلیہ مکرم سمیع اللہ زاہد صاحب مربی سلسلہ حال کینیڈا کا ذکرِ خیر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ مرحومین سے رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ آمین مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ16؍مئی 2025ء