مجھے تو کم از کم ان [میر محمود احمد صاحب ناصر]جیسی کوئی مثال ابھی نظر نہیں آتی۔اللہ کے خزانے میں تو کوئی کمی نہیں ہے اللہ کرے کہ ایسی مثالیں اَور بھی پیدا ہو جائیں اورایسے باوفا اور مخلص اور تقویٰ پہ چلنے والے مددگار اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو عطا فرماتا رہے بعض سرایا کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان جماعت کے ایک بزرگ اور جید عالم باعمل، خلافت کے فدائی، دین کے بے مثل خادم،خلافت کے ایک عظیم معاون و مددگار اور جاںنثار ، کامل اطاعت گزار اور وفاشعار سلطانِ نصیر محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر اور دورانِ اسیری کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر طاہر محمود صاحب شہید کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ16؍مئی 2025ء بمطابق16؍ ہجرت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ آج بھی میں سرایا کا ذکر کروں گا۔ جو میرے پاس مواد ہے اس میں فتح مکہ سے پہلے ان سرایا کا بھی ذکر ملتا ہے۔ یہ مختصر سا ذکر ہے۔ اس کے بعد دوسرا مضمون بیان کروں گا۔ سریّہ ابوقتادہؓ انصاری کا ذکر ملتا ہے جو بطرفِ خَضِرَہ تھا۔ یہ سریّہ شعبان آٹھ ہجری میں ہوا۔ اس سریّہ کے امیر ابوقتادہؓ تھے۔ خَضِرَہ مدینہ منورہ کے شمال مشرق میں بنو مُحَارِب کی سرزمین میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ تِہَامَہ کا علاقہ بھی تسلیم کیا جاتا تھا جو کہ نجد میں شامل ہے۔ یہاں بنو غَطَفَانکی ایک شاخ رہائش پذیر تھی۔ بنو غطفان اسلام دشمنی پر مسلسل مائل تھے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ نجد کےعلاقے خَضِرَہ میں رہائش پذیر بنو غَطَفَان ریاست مدینہ کے خلاف شرانگیزی پھیلانے میں مصروف تھے۔ (غزوات و سرایا ازمحمداظہرفریدشاہ صفحہ438فریدیہ پبلیشرز ساہیوال) حضرت عبداللہ بن اَبِی حَدْرَدْ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سُراقَہ بن حَارِثہؓ کی بیٹی سے شادی کی۔ یہ بدر کی جنگ میں شہید ہو گئے تھے۔ مجھے دنیا سے جو بھی حاصل ہوا ان چیزوں میں وہ مجھے اس کے مرتبے سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ میں نے اس کا مہر دو سو درہم قرار دیا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا جو میں اسے دیتا۔ میں نے کہا اس مہر کی ادائیگی اللہ اور اس کا رسولؐ ہی کروائیں گے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے کتنا مہر مقرر کیا ہے۔ میں نے کہا دو سو درہم۔ اے اللہ کے رسول!اس کے مہر میں میری مدد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تو میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس سے میں تمہاری مدد کروںلیکن میرا ارادہ ہے کہ میں ابوقتادہؓ کو کچھ آدمیوں کے ساتھ ایک سریّہ میں بھیجوں گا کیا تم اس میں نکلنا چاہتے ہو؟ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری بیوی کا مہر بطور غنیمت عطا فرما دے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر ہم نکلے اور ہم کل سولہ آدمی تھے۔ حضرت ابوقتادہؓ ہمارے امیر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجد کی جانب قبیلہ غطفان کی طرف بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو چلنا اور دن کو چھپ جانا اور اچانک حملہ کرنا اور عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا۔ پھر ہم نکلے یہاں تک کہ غطفان کی ایک جانب پہنچ گئے۔ ( ماخوذازکتاب المغازی جلد2صفحہ 224دار الکتب العلمیۃ بیروت) جب اندھیرا چھا گیا تو ابوقتادہ نے ہمیں خطبہ دیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کی اور دو دو آدمیوں کی جوڑیاں بنا دیں اور کہا کہ ہر آدمی اپنے ساتھی سے جدا نہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ شہید کردیا جائے یا اس کی مجھے خبر دے اور کوئی ایسا آدمی میرے پاس نہ آئے کہ میں اس سے سوال کروں تو وہ کہے مجھے دوسرے کا علم نہیں ہے۔ ضرورساتھ ساتھ رہنا ہے اور جب میں تکبیر کہوں تم بھی تکبیر کہو اور جب میں حملہ کروں تم بھی حملہ کرو اور تعاقب کرنے میں دُور تک نہ جانا۔ زیادہ تعاقب نہیں کرنا اگر دشمن دوڑ جاتا ہے تو اس کو جانے دینا۔ چنانچہ ہم نے وہاں پر موجود لوگوں کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت ابوقتادہؓ نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور تکبیر کہی اور ہم نے بھی اپنی تلواروں کو نیاموں سے نکال لیا اور آپؓ کے ساتھ تکبیر کہی۔ چنانچہ ہم نے وہاں پر موجود لوگوں پر حملہ کیا۔ (سبل الھدیٰ والرشادجلد6صفحہ 185-186دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان1993ء) کہتے ہیں اچانک میں نے دیکھا کہ اس میں سے ایک دراز قد آدمی ننگی تلوار سونتے آہستہ آہستہ چل رہا تھا اور کہہ رہا تھا اے مسلمان!آؤ جنت کی طرف۔ میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ کافر تھا وہ طنزیہ انداز میں کہہ رہا تھا کہ جنت چاہیے ناں تمہیں تو آؤ جنت کی طرف۔ وہ جنت جنت کہہ کر ہمارا مذاق اڑا رہا تھا۔ میں جان گیا کہ وہ مڑ کر آئے گا۔ میں اس کے پیچھے نکل پڑا۔ میرا ساتھی کہنے لگا دُور مت جانا۔ ہمارے امیر نے ہمیں ڈھونڈنے کے لیے نکلنے سے منع کیا ہے۔ بہر حال کہتے ہیں مَیں نے اسے پا لیا اور اس کی ننگی کمر کی طرف تیر پھینک دیا۔ اس نے پھر طنزیہ انداز میں کہا: اے مسلمان! جنت کے قریب ہو۔ مَیں نے دوبارہ اس کی طرف تیر پھینکا اور اسے قتل کردیا۔ میں نے اس کی تلوار لے لی۔ میرا دوست مجھے پکار رہا تھا کہ تم کہاں چلے گئے تھے۔ اللہ کی قسم!میں ابوقتادہ کی طرف گیا۔ انہوں نے مجھ سے تمہارے متعلق پوچھا تو میں نے انہیں بتا دیا۔ میں نے کہا کیا امیر نے میرے بارے میں پوچھا؟ اس نے کہا ہاں اور وہ مجھ پر اور تم پر غصہ ہو رہے تھے۔ اس نے مجھے بتایا کہ مسلمانوں نے اموالِ غنیمت جمع کر لیے ہیں اور ان کے سرکردہ لوگوں کو قتل کر دیا ہے۔ چنانچہ میں حضرت ابوقتادہؓ کے پاس آیا تو آپؓ نے مجھے ملامت کی۔ میں نے کہا میں نے ایک آدمی کو قتل کیا جس کا معاملہ یوں تھا اور وہ ایسے ایسے کہہ رہا تھا۔ پھر ہم نے جانوروں کو ہانکا اور عورتوں کو سوار کر لیا۔ہماری تلواریں پالان کے ساتھ لٹکی ہوئی تھیں۔ صبح ہوئی تو میرے اونٹ سے قطرے بہ رہے تھے۔ ایک عورت نے جو ہرن کی طرح بار بار پیچھے دیکھ رہی تھی اور رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا دیکھ رہی ہو؟ اس نے کہا اللہ کی قسم!میں ایک شخص کو دیکھ رہی ہوں۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو ہمیں تم سے بچا لیتا۔ میرے دل میں یہ بات آئی کہ وہ شاید وہی ہے جسے میں نے قتل کر دیا اور یہ اس کی تلوار ہے جو پالان کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے۔ کہنے لگی کہ اللہ کی قسم!یہ اس کی تلوار کی نیام ہے۔ اس کے پاس اس کی تلوار کی نیام تھی۔ اس میں داخل کر کے دیکھ اگر تُو سچا ہے۔ میں نے داخل کی تو وہ پوری آ گئی۔ چنانچہ وہ عورت رونے لگی۔ پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹ اور بکریاں لے کر آئے۔ ( کتاب المغازی جلد2صفحہ 224تا225دار الکتب العلمیۃ بیروت) ایک روایت کے مطابق صحابہؓ اس مہم میں پندرہ راتیں باہر رہے اور دو سو اونٹ ایک ہزار بکریاں اور بہت سے قیدی لائے۔ خمس الگ کیا گیا اور ہر ایک کے حصے میں بارہ اونٹ آئے۔ (سبل الھدیٰ والرشادجلد06صفحہ187دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان1993ء) ا یک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا گیا جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق اس سریّہ میں دو سو اونٹ، دو ہزار بکریاں اور بہت سے قیدی غنیمت میں حاصل ہوئے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ 273دار الکتب العلمیۃ بیروت) (الطبقات الکبریٰ جلد2صفحہ101دار الکتب العلمیۃ بیروت) پھر ایک ذکر سریّہ حضرت ابوقتادۃ بطرف وادی اِضَمْ کا ہے۔ یہ رمضان آٹھ ہجری جنوری 630ء میں ہوا۔ اِضَمْ مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلے پر مشرق کی طرف نجد کے علاقے میں ایک وادی ہے جہاں غطفان کی ایک شاخ بنو اشجع آباد تھے۔ اس سریّہ کا سبب یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے لیے مکہ کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو قتادہؓ کو وادی اِضَمْکی طرف روانہ فرمایا جو مدینہ سے مشرق کی طرف ہے جبکہ مکہ جنوبی جانب ہے تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی مکہ کی طرف نہیں بلکہ اِضَمْ کی جانب ہو گی۔ ایک روایت کے مطابق اس سریّہ کے قائد حضرت عبداللہ ابن ابی حَدْرَدْؓ تھے۔ حضرت ابوقتادہؓ کے ساتھ آٹھ صحابہؓ تھے جن میں سے ایک حضرت مُحَلِّمْ بن جَثَّامَہ لَیْثِیؓ بھی تھے۔ حضرت عبداللہ بن ابی حدردؓبیان کرتے ہیں کہ جب ہم وادی اِضَمْ پہنچے تو وہاں عامر بن اَضْبَطْ اَشْجَعِی ہمارے پاس سے گزرا۔ اس شخص نے ان کے پاس آ کر انہیں اسلامی طریق کے مطابق سلام کیا۔ اس پر مسلمانوں نے اس پر ہاتھ اٹھانے سے گریز کیا کیونکہ اسلامی طریقے سے سلام کیا اس لیے تعلیم تو یہی ہے منع ہو گئے مگر حضرت مُحَلِّم کا اس شخص کے ساتھ پہلے سے کوئی جھگڑا تھا اس لیے انہوں نے عامر بن اَضْبَطْ پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا اور انہوں نے اس کا سامان اور اونٹ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس کے علاوہ کسی جتھے سے صحابہؓ کا سامنا نہ ہوا چونکہ انہیں صرف مشرکین کی توجہ بٹانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس لیے صحابہؓ وہاں سے واپس ہولیے۔ اسی دوران میں انہیں خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی اسی طرف مڑ گئے یہاں تک کہ راستے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے۔ جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو لکھا ہے کہ، انہوں نے یہ جو قتل کیا تھا اس قتل کا سارا واقعہ آپؐ کوبتایا تو اس تاریخ کی کتاب میں لکھا ہے کہ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا (النساء:95) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کر رہے ہو تو اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو اور جو تم پر سلام بھیجے اسے یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں ہے تم دنیاوی زندگی کے اموال چاہتے ہو تو اللہ کے پاس غنیمت کے کثیر سامان ہیں اس سے پہلے تم اسی طرح ہوا کرتے تھے پھر اللہ نے تم پر فضل کیا۔ پس خوب چھان بین کر لیا کرو یقیناً اس سے جو تم کرتے ہو وہ بہت باخبر ہے۔ یعنی اس سے منع کیا گیا ہے کہ جو سلام کرے اس سے کوئی تعرض نہیں کرنا۔ اس سے کوئی سختی نہیں کرنی۔ اس کو قتل نہیں کرنا یا سزا نہیں دینی۔ یہ غزوہ جیسا کہ بیان ہوا ہے آٹھ ہجری میں ہوا ہے لیکن یہ آیت سورۂ نساء کی ہے اور یہ روایت سیرت ابن کثیر میں لکھی ہے اور سورۂ نساء کے بارے میں زیادہ اتفاق یہی ہے کہ یہ ہجرت کے تیسرے اور پانچویں سال کے درمیان نازل ہوئی تھی۔ ( فرہنگ سیرت صفحہ45 زوار اکیڈمی ) (سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد نہم صفحہ 111 دار السلام) (سیرت ابن کثیر،جزء3 صفحہ 423) (ترجمہ قرآن کریم از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ 123) یہ ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کے پتالگنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر اظہارِ ناپسندیدگی فرمایا ہو۔ بہرحال اس بات سے آپؐ نے ان کو اس آیت کے حوالے سے منع فرمایا۔ اس کے بعد اب آگے آئندہ ان شاء اللہ فتح مکہ کا امید ہے ذکر شروع ہو گا۔ اب میں جماعت کے ایک بزرگ اور جید عالم۔ خلافت کے فدائی۔ دین کے بےمثل خادم کا اس وقت ذکر کروں گا جن کی گذشتہ دنوں میں وفات ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک اَور فدائی مخلص احمدی کا جو اِن دنوں اسیر تھے وہیں ان کی وفات ہوئی اور جو شواہد ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ اس لحاظ سے ان کا شہادت کا ہی رتبہ ہے۔ بہرحال پہلا ذکر مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کا ہے جو حضرت سید میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے۔ یہ گذشتہ دنوں چھیانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ حضرت اماں جان حضرت نصرت جہاں بیگمؓ کے بھتیجے تھے اور حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مریم صدیقہ صاحبہ کے داماد اور جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے بیٹے اور آپ کی والدہ کا نام صالحہ بیگم تھا۔ آپ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے پوتے تھے۔ ان کی والدہ کا نام صالحہ تھا جو حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کی بیٹی تھیں جو حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کے صاحبزادے تھے۔ سید محمود احمد صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ مارچ 1944ء میں اپنے والد حضرت سید میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی وفات والے دن زندگی وقف کی۔ ان کے بیٹے عزیزم محمد احمد نے بھی مجھے لکھا ہے کہ 17مارچ کو یہ بڑا اہمیت کا دن کہا کرتے تھے تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک یہ اہمیت کا دن کیوں ہے؟ تو انہوں نے کہا اس دن میرے والد کی وفات ہوئی تھی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سارا دن ہمارے گھر میں گزارا تھا بلکہ نمازیں بھی وہیں پڑھائی تھیں اور حضرت مصلح موعودؓ نے وہاں ایک مختصر سی تقریر کی جس میں میر صاحب کی دینی خدمات اور ان کی وقف کی روح اور علمیت وغیرہ کا ذکر کیا۔ میر محمود احمد صاحب کہتے ہیں کہ یہ سن کر مَیں کھڑا ہوا اور وہیں حضرت خلیفہ ثانی ؓ کو کہا کہ حضور میں وقف کرتا ہوں۔ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی جذباتی کیفیت ہو گئی۔ آپؓ نے اس کو بڑا سراہا۔ اس وقت سید میر محمود احمد صاحب کی عمر چودہ سال تھی اور پھر اس وعدے کو ایسا نبھایا کہ اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ آپ کی جماعتی خدمات یوں ہیں۔ 1954ء تا 1957ء آپ یہاں انگلستان میں تھے۔ جہاں آپ نے بطور مبلغ کام کیا اور اسی دوران SOAS (سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن سٹڈیز) میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر تعلیم بھی حاصل کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی، اکٹھے دونوں پڑھتے تھے۔ کچھ عرصہ لندن مشن کے سیکرٹری کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ 1957ء سے 1959ء تک وکالتِ دیوان میں بطور ریزرو مبلغ رہے۔ پھر 1960ء میں جامعہ میں بطور استاد مقرر ہوئے۔ 1978ء تک یہ فرائض انجام دیے۔ 78ء سے 82ء تک امریکہ میں مبلغ رہے۔ 82ء سے 86ء تک سپین میں خدمت کی توفیق ملی۔ 86ء سے 89ء تک بطور وکیل التصنیف کام کیا۔ 86ء سے 2010ء تک جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل کے طور پر خدمت کی۔ اس دوران 94ء تا جولائی 2001ء وکیل التعلیم بھی رہے۔ اسی طرح ریسرچ سیل کے انچارج تھے، واقعہ صلیب سیل کے انچارج تھے۔ 2005ء میں نور فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیاتو اس کے صدر مقرر ہوئے اور آخر تک اسی خدمت پر مامور تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو 3 جون 1962ء کو مجلس افتاء کا ممبر مقرر فرمایا اور نومبر 1972ء تک آپ اس کے ممبر رہے۔ اس کے بعد دسمبر 1989ء میں دوبارہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کو افتاء کا ممبر مقرر فرمایا اور تاحیات اس پر قائم رہے۔ خدام الاحمدیہ میں بھی ان کو مختلف حیثیتوں سے بطور مہتمم اور بطور نائب صدر خدمت کی توفیق ملی۔ علمی میدان میں بھی ان کی بڑی وسیع خدمات ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا جو ترجمہ قرآن کریم ہے اس کی تیاری میں بھی انہوں نے کافی معاونت کی جس کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی ذکر فرمایا ہے اور اظہارِ تشکر فرمایا ہے اور ربوہ کے معاونین کا ذکر کرتے ہوئے جن میں صوفی بشارت الرحمٰن صاحب،مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب،سید عبدالحئی صاحب،مولانا دوست محمد صاحب،جمیل الرحمٰن رفیق صاحب وغیرہ کوخدمت کی توفیق ملی، آپؒ نے یہ بھی فرمایا کہ میر محمود احمد صاحب بھی ان میں شامل تھے اور اللہ کے فضل سے یہ لوگ مسلسل میرے ساتھ شامل رہے اور آپؒ نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ (ماخوذ از ترجمہ قرآن کریم از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، اظہار تشکر) صحاح ستہ کا مکمل اردو ترجمہ کرنے کے بعد مسند احمد بن حنبل کا ترجمہ جاری تھا۔ اسی طرح صحیح مسلم کی شرح بھی جاری تھی۔ شمائل ترمذی کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا۔ بائبل کے متعلق بیسیوں علمی مقالہ جات تحریر کیے جو مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئے۔ بائبل میں سے استثناء اور اناجیل میں سے تین کی تفسیر لکھی۔ اسی طرح کفن مسیح، مرہم عیسیٰ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی ہجرت کے متعلق بہت اعلیٰ پائے کے تحقیقی کام کیے۔ اس وقت ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب اور مواد یہ ہے:سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن۔ اس کے تین حصے ہیں۔ ایک ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری باتیں۔ اسی طرح ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے تین سو پینسٹھ دن۔ یہ نماز کے بعد روزانہ درس کے لیے انتخاب ہے۔ پھر ایک ہے فلسطین سے کشمیر تک۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی رو سے سیرت النبی۔ انہوں نے اس کا مواد اکٹھا کیا ابھی غیر مطبوعہ ہے۔ صحیح بخاری سے انتخاب کیا۔ یہ بعض تربیتی عناوین ہیں۔ اسی طرح جب ایک دفعہ پرانے پوپ نے ایک سوال اٹھا دیا تھا تو اس کا بھی انہوں نے ردّ کیا۔ مسجد بشارت سپین کے سنگ بنیاد کے موقع پر جس بنیادی پتھر پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے دعا کروائی تھی وہ پتھر حضرت محترم میر صاحب نے اٹھایا ہوا تھا۔ اسی طرح مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر بھی ان کو اور ان کی اہلیہ کو خدمت کا موقع ملا جس کا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ذکر بھی فرمایا تھا۔ (ماخوذ از خطبات طاہر جلد اول صفحہ139۔ خطبہ بیان فرمودہ 10 ستمبر1982ء) 1955ء میں جلسہ سالانہ کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے نکاحوں کا اعلان فرمایا تھا۔ یہ آٹھ نکاح تھے۔ ان میں میر محمود احمد صاحب کا نکاح بھی تھا جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی بیٹی امۃ المتین صاحبہ کے ساتھ پڑھا تھا اور اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ عام طریق کے مطابق تو نکاح 29 دسمبر کو ہوا کرتے تھے مگر ان نکاحوں میں کچھ مستثنیات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک نکاح میری اپنی لڑکی امۃ المتین کا ہے جو سید میر محمود احمد ابن میر محمد اسحٰق صاحب سے قرار پایا ہے۔ پھر اس پہ تفصیل بیان کی۔ پھر یہ بھی بیان فرمایا کہ محمود احمد اس وقت لندن میں بی اے میں پڑھ رہے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے خیریت رکھی تو ارادہ ہے کہ اگلے سال مئی میں وہ واپس آ جائیں۔ میں اپنے تینوں بچوں کو، آپؓ نے تینوں بچوں کا ذکر کیا، پھر خلیفہ ثانی نے ان کے نام لیے کہ محمود احمد کو جو داماد ہے اور داؤد احمد کو جو داماد ہے۔ سید میر داؤد احمد صاحب کا ذکر ہے اور طاہر احمد کو جو ام طاہر مرحومہ کا لڑکا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ذکر کیا وہاں چھوڑ آیا ہوں تاکہ وہ تعلیم پائیں اور آئندہ سلسلہ کی خدمت کریں۔ ان کو تاکید ہے کہ انگریزی میں لیاقت حاصل کریں۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ اگر انگریزی تعلیم اچھی طرح حاصل ہو جائے تو چونکہ یہ تینوں مولوی فاضل ہیں اور عربی تعلیم بھی ان کی نہایت اعلیٰ ہے۔ اگر انگریزی تعلیم بھی اعلیٰ ہو گئی تو قرآن شریف کا ترجمہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا ترجمہ انگریزی میں کر کے وہ سلسلہ کی اشاعت میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ریویو آف ریلیجنز بھی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کا کوئی اچھا اور لائق ایڈیٹر ہو اس غرض کے لیے میں اپنے بچوں کو وہاں چھوڑ آیا ہوں ۔گو اس بیماری اور کمزوری میں اتنے اخراجات برداشت کرنا کہ تین بیٹے، دو داما د اور ایک بیٹا وہاں پڑھیں، مشکل ہے مگر میں نے سمجھا کہ جماعت کی مشکل میری مشکل سے بڑی ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 3صفحہ 672 تا 674،فرموده 26 دسمبر1955ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا کہ جماعت کی خاطر ہر قربانی کرنی ہے۔ اس کے لیے ہر قسم کی قربانی کی۔ اپنا مال وقت اپنے بچوں کو قربان کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1982ء میں ان کے سب سے بڑے بیٹے کا نکاح پڑھایا۔ اس میںحضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی اولاد کا ذکر اور ان کی اولاد کے ذکر کے ضمن میں سید میر محمود احمد صاحب کا ذکر کیا۔ اس میںآپؒ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا یعنی حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی دعاؤں کو سنا اور اپنے ساتھ ان کے پیار کو دیکھ کر یعنی حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے پیار کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کے تینوں بچوں کو وقف کرنے کی توفیق عطا کی۔ تینوں کی طبیعت ایک دوسر ے سے مختلف ہے جیسا کہ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لیکن اس چیز میں جہاں تک میں نے غور کیا حضرت خلیفہ ثالثؒ فرماتے ہیں کہ جہاں تک مَیں نے غور کیا تینوں میں ایک ہی چیز پائی جاتی تھی یعنی جو کچھ خدا نے دیا جتنا دے دیا اس پر انسان کو راضی رہنا ہی نہیں بلکہ خوش رہنا چاہیے۔ صرف راضی نہیں رہنا بلکہ خوشی سے راضی رہنا ہے۔ فرمایا کہ سید میر داؤد احمد صاحب اپنے رنگ کے تھے لیکن یہ چیز ان میں پائی جاتی تھی۔ میر مسعود احمد آجکل کافی عرصہ سے ڈنمارک میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں وہ اپنے رنگ کے ہیں لیکن یہ چیز ان میں بھی پائی جاتی ہے اور ان کے چھوٹے بھائی میر محمود احمد جن کے بچے کے نکاح کا میں اعلان کروں گا وہ اپنے رنگ کے واقف زندگی ہیں لیکن یہ چیز ان ساروں میں common ہےکہ خوشی سے رہنا اور جو جماعت دے اس کو قبول کرنا اور کسی قسم کا مطالبہ نہ کرنا۔ فرماتے ہیں کہ ان کے باپ کا یہ ورثہ پوری نسل میں آگے چلا ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت ماموں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد پر یعنی میر اسحق صاحب کی اولاد پر بڑا فضل کیا ہے۔ اس واسطے جماعت کے لیے جو یہ نمونہ بھی قائم ہوا اور جماعت کے سامنے یہ ہر حالت میں ہنستے اور بشاش چہرے بھی آئے جو ہر وقت خدا تعالیٰ کے شکرگزار بندے بنتے ہوئے اس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گزارنے والے ہیں۔ (ماخوذ از خطبہ نکاح 10 مئی 1982ء، خطبات ناصر جلد 10 صفحہ 728-729) پھر آپؒ نے آگے دعا دی کہ دعا کریں ان کی اگلی نسل بھی ان چیزوں کو حاصل کرنے والی ہو۔ شعر و شاعری سے بھی آپ کو شغف تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر اور کلام محمود کے شعر تو یاد تھے ہی اس کے علاوہ خود بھی نظمیں کہتے تھے۔ پھر ایک دفعہ انہوں نے مربیوں کو جو جامعہ میں آنا چاہتے ہیں اور مربی بننے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ابھی آئے نہیں ایک نصیحت کی اور ایک لائحہ عمل دیا وہ بڑا اچھا لائحہ عمل ہے۔ مربیوں کو بلکہ ہر شخص کو جو جامعہ میں آنا چاہتا ہے اور جو آ چکا ہے ان کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ پہلی بات یہ لکھی کہ روزانہ صبح تین بجے اٹھ کر وضو کر کے، پاکستان کے وقت کے مطابق تو وہی تہجد کا وقت بنتا ہے کہ تہجد ادا کریں۔ روزانہ پانچ وقت نماز باجماعت مسجد میں جا کر ادا کریں اور وہاں ربوہ میں رہنے والوں کو نصیحت کی کہ مسجد مبارک میں کم از کم ایک نماز ادا کریں۔ پھر روزانہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لیے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کے لیے خلافت کی محبت کے لیے دعا مانگیں۔ پھر پانچویں بات یہ کہ تسبیح، درود شریف، استغفار کو اپنا شعار بنائیں۔ چھٹی بات یہ کہ حضرت صاحب یا خلیفہ وقت کی خدمت میں محبت اور عقیدت کے جذبات کے ساتھ دعا کی درخواست کرتے ہوئے خط لکھا کریں۔ ساتویں بات یہ کہ اپنے موجودہ فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریق پر ادا کریں۔ آٹھویں بات یہ کہ اپنے والدین کی خدمت کریں اور اگر وہ دور ہیں تو انہیں دعاؤں میں یاد رکھیں۔ نویں بات یہ کہ قرآن شریف کا ترجمہ لفظی اور بامحاورہ سیکھنے کی کوشش کریں۔ دسویں بات یہ کہ روحانی خزائن کا کم از کم تین دفعہ مطالعہ کریں۔ گیارہ یہ کہ روزانہ الفضل اور ایک عام اخبار پڑھیں۔ روزانہ خدمتِ خلق کا ایک کام کم از کم ضرور کریں۔ ان کے بیٹے سید غلام احمد فرخ ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔ چند باتیں پیش کرتا ہوں کہ ابا کو اللہ تعالیٰ سے جو محبت تھی اس کا اظہار نمازوں اور ذکرِ الٰہی سے ہوتا تھا۔ ان کی نمازوں کو تو مَیں نے بھی دیکھا ہے۔ مسجد میں۔ا یک طرف کونے میں لگے جس خشوع و خضوع سے پڑھا کرتے تھے۔ جو گھر میں نمازیں ہیں وہ تو ہوتی ہوں گی ان کو ہم نہیں جانتے لیکن باہر بھی ان کی نماز کے وقت ایک عجیب کیفیت ہوتی تھی۔ ایک ایسا فطری اور بے تکلف تعلق تھا جس کا لوگوں کے سامنے اظہار نہیں کرتے تھے لیکن پھر بھی بعض دفعہ اظہار ہو جاتا ہے لوگ خود ہی نوٹ کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پہ انہوں نے لکھا ہے کہ میں ابا کی نوٹ بک دیکھتا ہوں اس پر ہر روز اللہ لکھا ہوا نظر آتا۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ جب بھی اپنے قلم میں روشنائی، سیاہی بھرتے تو پہلا لفظ اللہ لکھتے ہیں اور اس طرح بعض اوراق یا ڈائریوں پر کئی کئی لائنوں میں صرف اللہ لکھا ہوا تھا۔ آپ نے آخری سالوں میں اپنے کمرے میں ایک فقرہ لکھا تھا۔ اے میرے اللہ تی آ مو۔ تو میں نے پوچھا اس کا مطلب کیا ہے؟ کہتے ہیںیہ اٹالین زبان کا لفظ ہے تی آ مو کہ I love you۔ اللہ تعالیٰ کو لکھا ہے انہوں نے۔ حمد باری تعالیٰ پر ان کی ایک نظم بھی ہے جس کا ایک شعر یہ ہے کہ مجھ کو حاصل رہے مجھ کو دائم ملے تیرا دیدار بھی تیری گفتار بھی بیماری کے دنوں میں ان کا ایک دفعہ اپنڈیکس کا آپریشن ہوا تو السلام علیکم کی آواز آئی۔ صحت یاب ہو گئے۔ ان کی عبادت اور نمازوں کا فلسفہ بھی تعلق باللہ سے ہی وابستہ تھا۔ ان دوکو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کئی مرتبہ نماز تہجد میں اپنی دعا کا طریق بتایاکہ پہلے حمد باری اور تعلق باللہ کے لیے دعائیں کرتا ہوں۔ ایک دن کہتے ہیں مجھے بتایا کہ میں روزانہ تہجد میں اپنے چچا جان یعنی حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظم کے اشعار پڑھتا ہوں جو چچا جان نے بعنوان ’’تم‘‘ لکھی تھی اس کا پہلا شعر یہ ہے کہ علاجِ دردِ دل تم ہو ہمارے دل رُبا تم ہو تمہارا مدعا ہم ہیں ہمارا مدعا تم ہو نماز تہجد میں دعا کا طریق بھی بتایا جو اختصار سے پیش کرتا ہوں۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ حمد باری اور درود شریف کے بعد حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کی آل اور خلفاء حضرت مسیح موعودؑ اور ان کی آل پر، حضرت مصلح موعودؓاور آپؓ کی آل پر الگ سے، پھر اپنے دادا حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ سے شروع کرتے تھے اور درجہ بدرجہ نیچے آتے جاتے تھے۔ اپنی اولاد میں سب سے پہلے اپنی بیٹی کے لیے پھر بیٹوں کے لیے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کا اصل ذریعہ دعا کو ہی سمجھتے تھے۔ خلافت سے محبت چھلکتی تھی ہی لیکن سب سے بڑھ کر ان کی محبت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی ۔عشق تھا ایک۔ اتباعِ سنتِ رسولؐ کی کوشش کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے اس کا اظہار ہوتا تھا ۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ ایک دو مرتبہ اس طرح ہوا کہ آپ کسی بے آرام کرسی پہ بیٹھے ہوئے تھے اور میں کسی دوسری کرسی پہ آرام سے بیٹھا تھا۔ میں اٹھا اور ان کے لیے کرسی خالی کی لیکن وہ اس پر نہیں بیٹھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے سے منع فرمایا ہوا ہے۔ بےشک تم میرے بیٹے ہو لیکن یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے کہ دوسرے کی کرسی، بیٹھنے کی جگہ پہ قبضہ کیا جائے اس لیے میں نہیں بیٹھوں گا۔ اسی طرح راستہ میں آتے جاتے سلام کرنے میں پہل کرنے کی کوشش کرتے۔ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بعد اور عصر کی نماز کے بعد دعا کرنے میں مشغول رہتے اور اس بات کو ناپسند کرتے کہ اس دوران میں کوئی ان سے ملنے بھی آئے کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہم بچے بھی اس سے گریز کرتے تھے کہ ان کے پاس اس وقت میں جائیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت اور یوم وفات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یوم ولادت اور یوم وفات پہ تاکیدی طور پر درود شریف کثرت سے پڑھنے کی نصیحت کرتے تھے اور خود بھی اکثر سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّد۔پڑھتے رہتے۔ کہتے ہیں میں ایک دفعہ قادیان گیا تو مجھے یہ دعا لکھ کے دی کہ دارالمسیح کے ہر کمرے میں سب سے پہلے ایک دفعہ میری طرف سے یعنی میر صاحب کی طرف سے یہ دعا پڑھنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر بھی دعا کرنا۔ 1990ء میں آپ پر ایک مقدمہ قائم ہوا جو مجلس شوریٰ میں اظہار رائے پر تھا۔ مقدمہ 298C کا تھا لیکن جج نے آپ کو کہا کہ آپ نے تقریر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی توہین کی ہے۔ اس پر آپ نے بڑی سختی سے جج کے سامنے اس کا ردّ کیا اور مجھے بتاتے تھے کہ مجھے اس بات کی بڑی تکلیف تھی۔ جج نے آپ کو کہا کہ میر محمود احمد نے بحث کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس پر میر محمود احمد صاحب نے کہا کہ یہ مجھ پر الزام ہے! یہ سراسر جھوٹ ہے! جھوٹ ہے! جھوٹ ہے! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی دل سے تعظیم کرتا ہوں اور ان کی رسالت پر پختہ ایمان رکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں سید ہوں اور ان کی آل سے ہوں اور جھوٹ بولنے والے پہ لعنت بھیجتا ہوں۔ جج کے سامنے انہوں نے بڑی جرأت سے یہ بیان دیا۔ آخری بیماری کے دنوں میں تو خاص طور پر دعاؤں میں درود شریف بہت زیادہ پڑھتے تھے اور یہ الفاظ بڑے دہراتے تھے کہ میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی محبت کا اظہار تھا اور یہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ 1989ء میں روزنامہ الفضل ربوہ نے جماعت کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر سلسلہ کے بزرگوں سے انٹرویو لیے۔ آپ نے صرف یہ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ سب سے بڑا معجزہ ہے کہ انسان کا زندہ خدا سے دوبارہ تعلق جوڑ دیا۔ اس قسم کے الفاظ تھے ان کے۔ بیماری کے دنوں میں بعض دفعہ قادیان کی بھی تیاری ہوتی تھی لیکن نہیں جا سکتے تھے اور پروگرام کینسل ہوتے تھے لیکن ایک محبت تھی قادیان سے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پہ حاضری کا ایک شوق تھا جس سے پھر آخر وقت میں آپ تکلیف اٹھا کے چلے جایا کرتے تھے۔ مطالعہ کے بارے میں لکھا ہے۔ قرآن کریم،بخاری،روحانی خزائن کا مطالعہ آپ کی روزانہ زندگی کا معمول تھا اور ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ جو لوگ ملنے آتے ان کو بھی مطالعہ کی تلقین کرتے۔ 1990ء میں ان پہ مقدمہ ہوا۔ ایک رات چنیوٹ کے حوالات میں بھی رہے۔ کہتے ہیں میں ملنے گیا تو انہوں نے کہا مجھے بالٹی اور مَگ اور براہین احمدیہ لا دو تو میاں خورشید احمد صاحب ساتھ تھے انہوں نے کہا کہ اتنی تنگ حوالات میں اتنی گرمی میں اتنی مشکل کتاب تم کس طرح پڑھو گے۔ انہوں نے کہا کوئی نہیں میرے لیے مشکل نہیں ہے پہلے بھی اس کو پانچ دفعہ پڑھ چکا ہوں۔ بہرحال وہاں چھوٹی سی جگہ گرمی کے دن، ایک دن بھی بڑی تکلیف میں انہوں نے گزارا کیونکہ طبیعت نفیس تھی، نفاست تھی طبیعت میں اس لیے ان کے لحاظ سے یہ بہت بڑی تنگی تھی لیکن اس موقع پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب پڑھنے کی فکر تھی۔ دینی علوم جن میں اسلام کے علاوہ یہودیت، عیسائیت وغیرہ کا بھی مطالعہ تھا اس پہ بہت دسترس تھی۔ موازنہ مذاہب میں آپ کو خاص مہارت تھی۔ روایتی فقہ سے نالاں تھے۔ ہمیشہ اس بات کی نصیحت کرتے تھے کہ قرآن کریم، سنتِ رسولؐ، صحیح احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے علم کلام سے راہنمائی حاصل کرو۔ دنیاوی علوم خاص طور پر سائنسی علوم کا مطالعہ، تاریخ کا مطالعہ اور اسی طرح تفریح کے لیے ہائیکنگ کے علوم پر بھی کتابیں کثرت سے پڑھتے تھے۔ انگریزی شعراء کے کلام اور اسی طرح اردو شعراء کے کلام کو بھی پڑھا ہوا تھا اور بہت سے شعراء کے شعر یاد تھے۔ اپنے آئی پیڈ پر شعراء کے کلام کو سنتے بھی تھے۔ زبانیں سیکھنے کا ملکہ تھا۔ اردو، عربی، انگریزی کے علاوہ سپینش، اٹالین اور عبرانی پر خاصہ عبور ہو گیا تھا۔ اٹالین کے پروگرام تو ٹی وی اور آئی پیڈ پر باقاعدگی سے دیکھتے تھے۔ اس کے لیے وجہ یہ تھی کہ آپ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی زمانے میں اٹالین زبان سیکھنے کا کہا تھا اور اس بات کا اظہار فرمایا تھا کہ حضور ان کو اٹلی بھیجیں گے۔ یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ زبان سیکھو۔ میں سیکھ رہا ہوں اس حکم کو منسوخ تو نہیں کیا تھا اور آج تک میرے لیے یہ حکم جاری ہے تو اس لیے میں جاری رکھوں گا۔ مالی قربانی خاص جوش سے کرتے تھے۔ پھر اسی طرح جو بھی ان کے حصے میں ورثہ میں جائیداد آئی اس کا فوری طور پر حصہ جائیداد ادا کیا۔ مبشر ایاز صاحب جو آجکل جامعہ کے پرنسپل ہیں لکھتے ہیں کہ میر صاحب نے ایک نہایت معصومانہ اور پاکباز زندگی بسر کی۔ انتہائی نفیس لیکن عاجز اور منکسر المزاج، قناعت اور توکل کی ایک اعلیٰ مثال بن کر رہے۔ علم و عرفان کا ایک سمندر تھے۔ بہت بڑے عالم تھے۔ باتیں سب ٹھیک ہیں۔مفسر بھی تھے۔ محدث بھی تھے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کے یہ پہلے خوش نصیب عالم ہیں جنہیں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ پوری صحاح ستہ کا اردو ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ میر صاحب کی زندگی عبارت تھی اس بات سے کہ کام کام اور بس کام۔ چھٹی کا لفظ میر صاحب کی زندگی کی لغت میں نہ تھا۔ میر صاحب بلا شبہ خلافت نما وجود تھے جنہوں نے خلافت کی اطاعت اور خلافت سے محبت کر کے ہمیں دکھایا اور سمجھایا۔ اپنے عمل سے دکھایا کہ خلافت کا احترام اس کو کہتے ہیں۔ سائیکل پہ وقت پہ جایا کرتے تھے سات بیس پہ جامعہ لگتا تھا سات بیس پہ پہنچ جاتے تھے۔ دو تین دفعہ سائیکل سے بھی گرے۔ ایک دفعہ بیمار تھے، طبیعت خراب تھی تو ان کو مَیں نے کہا کہ آپ دس بجے تک انتظار کیا کریں دس بجے جامعہ جایا کریں اور اس کو بھی انہوں نے حکم سمجھا اور پھر دس بجے ہی دفتر جاتے تھے۔ بلکہ ایک دن مبشر صاحب نے یہ بھی لکھا کہ باہر آ کے دس بجے سے پہلے برآمدے میں ٹہل رہے تھے تو میں نے تھوڑی دیر ان کا انتظار کیا پھر ان سے جاکے پوچھا کہ آپ باہر کیوں ٹہل رہے ہیں؟ اندر نہیں آتے۔ تو انہوں نے کہا ابھی دس نہیں بجے اور مجھے یہ حکم ہے خلیفہ وقت کا کہ دس بجے دفتر جانا ہے اس لیے میں دس بجے دفتر جاؤں گا۔ ایک مثالی اطاعت تھی ان کی۔ ایک ماڈل تھے وہ لوگوں کے لیے۔ افسروں کے لیے بھی، ماتحتوں کے لیے بھی۔ تنویر ناصر صاحب مربی قادیان میں ہیں کہتے ہیں کہ ان کی ایک یاد جو ہمیشہ میرے دل میں رہتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک دن قادیان میں مسجد مبارک میں مَیں بیٹھا ہوا تھا تو میر صاحب مسجد کی پہلی صف میں ٹہل رہے تھے۔ مجھے ان کا یہ ٹہلنا اور زیرِ لب دعائیں کرنابڑا اچھا معلوم ہوا اور میں بڑا لطف اٹھا رہا تھا۔ تو کچھ دیر کے بعد مجھے ہمت ہوئی میں نے آگے بڑھ کےعرض کیا کہ آپ مسجد کی پہلی صف میں ٹہل رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس جگہ ٹہلتے ہوئے دیکھا تھا اور میں بھی انہی کے خطوط اور نقش پر ٹہل رہا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ سے تو عجیب محبت تھی۔ فیروز عالم صاحب لکھتے ہیں کہ میرے زمانہ جامعہ کے دوسرے یا تیسرے سال میں یہ پرنسپل بن کے آئے۔ ہماری خوش نصیبی ہے انہوں نے تعلیم سے کہیں زیادہ اپنی مثالی شخصیت کے ذریعہ عالم باعمل ہونے کے لحاظ سے ہماری تربیت کی۔ میں ان کے دروس وغیرہ جہاں تک ممکن تھا سنتا اور ان پہ عمل کرنے کی کوشش کرتا۔ انہوں نے ہمیں موازنہ مذاہب پڑھایا۔ اکثر ہمیں وہ دلائل لکھاتے اور سمجھاتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں پیش فرمائے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے بارے میں ہمیں پڑھا رہے تھے۔ اچانک سوالیہ انداز میں فرمایا کہ کیا آج بھی معجزات رونما ہوتے ہیں؟ پھر اپنا ایک تجربہ سناتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ جلسہ کے دنوں میں کہیں ان کی ڈیوٹی کے دوران ایسا ہوا کہ کھانا بہت تھوڑا تھا اچانک کافی سارے مہمان آگئے جو معمولی سا کھانا آیا اسے تقسیم کرنا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ برکت دیتا گیا۔ سب نے کھایا اور کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ ان کے پوتے عزیزم حاشر احمد مربی ہیںوہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بڑی محبت تھی۔ ایک عجیب اثر چھوڑا تھا اللہ تعالیٰ کی محبت کا ہر ایک کے دل میں بڑوں میں چھوٹوں میں۔ تہجد میں باقاعدہ تھے۔ نمازوں میں باقاعدہ تھے۔ اب یہ مربی بن گئے ہیں ا ن کو بھی چاہیے کہ اپنے دادا کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم سے محبت ایسی تھی کہ ایسا عشق کبھی نہیں دیکھا۔ لمبی لمبی تلاوت کیا کرتے تھے فجر کے بعد۔ کہتے ہیں میں طفل تھا تو مجھے کچھ عرصہ ان کے گھر رہنے کا موقع ملا اور تہجد پڑھنے کے بعد نماز فجر کے لیے مجھے اٹھاتے۔ پھر لمبی تلاوت کرتے۔ بڑے غور اور محبت سے پڑھا کرتے تھے۔ مجھے اس کا بڑا اثر تھا اور کہتے ہیں میں جامعہ میں داخل ہوا، کینیڈا جامعہ میں داخل ہوئے تو جب وہاں جاتا تھا پوچھتے تھے قرآن کریم ترجمہ اور تفسیر الگ الگ پڑھاتے ہیں یا اکٹھے تو میں نے انہیں کہا الگ الگ۔ اس پر خوش تھے کہ ایسا ہونا چاہیے لوگوں کو تفسیر آ جاتی ہے اور ترجمہ نہیں آتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کا ذکر انہوں نے اس طرح کیا ہےکہ روحانی خزائن کے دیوانے تھے۔ مجھے بہت مرتبہ یہ کہا کہ میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب بہت مرتبہ پڑھی ہیں مگر ہر دفعہ نئے مضامین نکلتے چلے آتے ہیں۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ روحانی خزائن پڑھ لو تو تمہیں قرآن،حدیث،سیرت سب کی سمجھ آ ئے گی۔یہ بات تو مجھے بھی انہوں نے ایک دفعہ بتائی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب تین دفعہ تو ضرور پڑھ لی ہیں اور بعض کتابیں تین سے زائد مرتبہ بھی پڑھی ہوئی ہیں لیکن عاجزی کی انتہا تھی کبھی علمیت کا اظہار نہیں کیا۔ کہتے ہیں ایک دفعہ گھر میں خطبہ سن رہے تھے کہ بجلی بند ہو گئی۔ ربوہ میں، پاکستان میں بجلی اکثر بند ہو جاتی ہے تو ٹی وی بند ہو گیا۔ میں چھوٹا تھا۔ میں اٹھ کےجانے لگا تو انہوں نے کہا کہ بیٹھو اور دعائیں پڑھتے رہو، جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس میں بھی بڑی برکت ہوتی ہے۔ تمہیں کیا پتاہے کس وقت بجلی آجائے اور خلیفہ وقت کا خطبہ دوبارہ شروع ہو جائے اور تم اتنے الفاظ مِس کر دو۔ تو یہ برداشت نہیں تھا۔ ایک دفعہ کوئی فنکشن تھا جہاں میرا خطاب ہونا تھا۔ ان کو اطلاع نہیں ملی وہ سن نہیں سکے۔ ایم ٹی اے لگایا تو اس وقت ختم ہو چکا تھا۔ کسی خادم کو کہا اس نے آئی پیڈ پہ لگانے کی کوشش کی تو اس میں اَور زبان میں آرہا تھا لیکن وہ بھی سنتے رہے۔ پھر جب میں آیا تو میں نے ان کو اردو میں لگا کے دیا تو بڑے خوش تھے اور بڑی شکر گزاری تھی ان کے اندر کہ تم نے یہ میرے لیے لگادیا۔ میری بہت مدد کی اور مجھ پر بہت احسان کیا ہے۔ بچوں سے بھی شکرگزاری کے اظہار کرتے تھے۔ عامر سفیر صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز ہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے بھی اطاعتِ خلافت کا عجیب غیرمعمولی نمونہ ان میں دیکھا ہے۔ کہتے ہیں میں اس شعبہ میں آیا تو انہوں نے آ کے مجھے کہا بلکہ میں نے خود ہی عامر صاحب کو کہا تھا کہ آپ علماء کو کہیں کہ ریویو کے لیے مضمون لکھا کریں اور مَیں نے چند علماء کے نام بتائے تھے ان میں مَیں نےمیر محمود احمد صاحب کا بھی بتایا تھا۔ تو کہتے ہیں اس وقت وہ پاکستان میں تھے میں نے پتاکیا کہ اس وقت سو تو نہیں رہے ہوں گے۔ رات کے دس گیارہ بجے کا وقت تھا تو ان کے رشتہ داروں نے کہا کہ نہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے فون کیا۔ ان کی اہلیہ نے فون اٹھایا تو میں نے ان سے کہا کہ اس طرح بات کرنی ہے۔ انہوں نے کہا وہ تو سو رہے ہیں لیکن اس دوران میر صاحب کی آنکھ کھل گئی انہوں نے فون کی گھنٹی کی آواز سنی یا باتوں سے آنکھ کھل گئی تو انہوں نے بات کی تو میں نے کہا اس طرح خلیفۃ المسیح نے یہ کہا ہے کہ آپ ریویو کے لیے فلاں موضوع پہ لکھیں۔ کہتے ہیں اس وقت تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی صبح میں بتاؤں گا۔ بہرحال اگلے دن انہوں نے، میر صاحب نے پندرہ صفحے کا ایک مضمون لکھ کے مجھے بھجوا دیا تو میں نے عامر سفیر کو بھیجا کہ یہ مضمون ان کی طرف سے آیا ہے اور میر صاحب نے لکھا تھا کہ رات کو ایک لڑکے کا فون آیا تھا جس نے یہ بات کی تھی کہ خلیفۃ المسیح کا یہ ارشاد ہے کہ تم یہ مضمون لکھو تو میں نے یہ لکھ دیا ہے۔ پہلی قسط بھیج رہا ہوں پندرہ صفحہ کی اور آئندہ بھی بھیجتا رہوں گا تو اس حد تک وہ اطاعت کرنے والے تھے۔ وقت کی اطاعت میں نے پہلے بتا دیا کہ دفتر میں اندر نہیں آئے کہ دس بجیں گے تو اندر آؤں گا۔ پھر جب ان کا پروگرام کفنِ مسیح کے بارے میںہوتا تھا اس بارے میں یہاں جلسہ پہ جو نمائش لگتی تھی اس میں بھی ہر سال شامل ہوتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں یہ سارا بیان دیا کرتے تھے اور عامر سفیر نے لکھا ہے کہ مربیان جب کسی علمی موضوع پر مطالعہ کرتے ہیں تو اصل یعنی جماعتی پہلوؤں کو چھوڑ کر دنیاوی حوالوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن ان کا طریق یہ تھا کہ سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور موقف مکمل طور پر سمجھتے اور پھر بعد میں غیر جماعتی یا سیکولرپہلوؤں کو دیکھتے نہ کہ اس کا الٹ۔ کہتے ہیں کہ میر صاحب بڑے اعتماد سے دنیا کے جو بڑے بڑے شراؤڈ کے ماہرین ہیں ان کے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ پیش کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ کے صلیب سے زندہ بچ جانے کا جو واقعہ ہے، اس پہ جو ریسرچ ہوئی تھی اس کا یہ واقعہ ہے کہ ریویو آف ریلیجنز کی ٹیم کافی عرصہ سے اس موضوع پر مختلف زاویوں اور پہلوؤں سے کام کر رہی تھی۔ ان کی کوشش تھی کہ شراؤڈ سے متعلق جملہ سائنسی تاریخی اور نظریاتی پہلو پیش کر کے جماعتی موقف کو تقویت دی جائے لیکن اس کے برعکس میر صاحب کی حکمتِ عملی اس سے مختلف تھی۔ ان کا یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرہم عیسیٰ پر زور دیا ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان نکات کو بنیاد بنایا جائے اور باقی پہلوؤں کو اضافی حیثیت دی جائے۔ وہ بار بار یہی موقف پیش کرتے رہے اور مرہم عیسیٰ ہی وہ کڑی ہے جو واقعہ صلیب کو سمجھنے کی کلید ہے۔ ریویو کی ٹیم کی کاوشوں سے اگرچہ جماعت کا اخلاقی تاثر مضبوط ہوا اور ماہرین سے تعلق اچھے ہوئے مگر علمی سطح پر فیصلہ کن اثر نہ پڑ سکا لیکن کہتے ہیں میر صاحب کی اپروچ نے آخر کار اپنا اثر دکھایا۔ شراؤڈ کے اس وقت کے سب سے مشہور ماہر اور فوٹو گرافر بیری شوارٹز (Barrie Schwortz)نے خود اعتراف کیا کہ اگر آپ واقعی مرہم عیسیٰ سے متعلق اپنا نکتہ ثابت کر دیں تو مجھے ماننا پڑے گا کہ عیسیٰ واقعی صلیب سے بچ گئے تھے۔ ان کے بےشمار واقعات لوگوں نے لکھے ہیں اَور بھی ہیں۔ ان کے بچوں کی طرف سے،ان کی اولادوں کی طرف سے اور لوگوں کی طرف سے، واقفین کی طرف سے، مربیان کی طرف سے جو بیان کرنے مشکل ہیں۔ ایک چیز ہے جو ہر مربی نے لکھی۔ اگر ہر ایک نے نہیں تو کم از کم بہت سارے ہیں جو کامن ہے اور وہ یہ کہ کہتے تھے ایک لفظ قبر پکڑ لو، اس پہ عمل کرو اور اس قبر کے معنی یہ بتاتے تھے کہ ’ق‘سے قرآن، ’ب‘ سے بخاری حدیث کی کتاب اور ’ر‘ سے روحانی خزائن۔ کہا کرتے تھے کہ اگر ان کے تم ماہر بن جاؤ، ان کو حاصل کر لو، اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو، اس سے علم سیکھنے کی کوشش کرو، اس سے روحانیت سیکھنے کی کوشش کرو تو تم اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔ ویسے بھی قبر کا لفظ خود بھی ایسا ہے کہ اگر انسان کو یاد رہے تو خدا تعالیٰ یاد رہتا ہے اور جب خدا تعالیٰ یاد رہے تو پھر انسان تقویٰ پر چلنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ بہرحال خلافت کے ایک عظیم معاون اور مددگار تھے، جاںنثار تھے حرف حرف پر عمل کرنے والے تھے۔ باوفا تھے۔ ایسے سلطان نصیر تھے جو کم کم ہی ملتے ہیں۔ عالم باعمل تھے۔ مجھے تو کم از کم ان جیسی کوئی مثال ابھی نظر نہیں آتی۔ اللہ کے خزانے میں تو کوئی کمی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسی مثالیں اَور بھی پیدا ہو جائیں اور ایسے باوفا اور مخلص اور تقویٰ پہ چلنے والے مددگار اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو عطا فرماتا رہے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے باپ کی دعاؤں کا حصہ دار بنائے اور ان کے عمل پر ان کی نصیحتوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دوسرا ذکر جیسا کہ میں نے کہا ایک احمدی کا ہےجن کی گذشتہ دنوں میں اسیری میں وفات ہوئی۔ ڈاکٹر طاہر محمود صاحب ابن غلام رسول صاحب کراچی کے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ بوقت وفات ان کی عمر 70سال تھی۔ تفصیلات کے مطابق مرحوم طاہر محمود صاحب صدر حلقہ ملیر کالونی کراچی اور دیگر دو احباب اعجاز حسین صاحب اور ایاز حسین صاحب کے خلاف ملیر کالونی کراچی میں اپنی مسجد کی طرز تعمیر اور وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کوجواز بنا کر پولیس نے ان کے خلاف چارج کیا اور گرفتاری عمل میں لائی اور پہلے قبل از گرفتاری ضمانت کروائی گئی تھی لیکن بعد میں ان کی ضمانت منسوخ ہو گئی اور ان کو گرفتار کر لیا گیا اور اس دوران میں جب کہ وہ ضمانت کے لیے عدالت میں تھے مخالفین کے ہجوم نے اور مخالف وکلاء نے ان پر حملہ کیا۔ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں بلکہ یہاں تک کہ پولیس کے ایک اہلکار نے ہجوم کو کہا کہ ان کو گولی مار دو اور پولیس سٹیشن میں بھی ان پر تشدد کیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے خلاف بدزبانی کرنے پر مجبور کیا گیا لیکن یہ ڈٹے رہے۔ استقامت دکھائی۔ اس کے بعد ان کو جوڈیشل کر کے جیل میں منتقل کیا گیا۔ جیل میں یہ دو ماہ رہے اور وفات سے چند دن قبل ان کے گردوں میں انفیکشن کی وجہ سے جیل میں طبیعت خراب ہوئی تو پھر ان کو وہاں سے ہسپتال بھیجا گیا لیکن چند دنوں بعد یہ وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ وفات کے وقت ہسپتال میں بھی ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں اور یہ جو ان کی وفات ہے یہ تشدّد کی وجہ سے بھی ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کو اندرونی چوٹیں بھی آئی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ سبب بھی یہی بنی ہو۔ اس لحاظ سے اسیری کی صعوبتیں برداشت کیں، مار کھائی، عدالت کے سامنے مار کھائی اور یہ ساری وجوہات، یہ شواہد ایسے ہیں کہ اس لحاظ سے ان کو شہادت کا مقام ہی ملتا ہے اور یہ شہیدوں کے زمرے میں ہی آئیں گے۔ نظامِ وصیت میں شامل تھے اور بطور صدر،سیکرٹری دعوت الی اللہ اور بہت ساری دوسری ذیلی تنظیموں میں خدمات کا بھی ان کو موقع ملا۔ ان کے تایا حکیم احمد دین صاحب کے ذریعہ ان کے خاندان میں احمدیت آئی تھی جنہوں نے حضرت مولوی امام دین صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توسط سے 1920ء کی دہائی میں خلافت ثانیہ کے دور میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کے بعد ان کے والد نے بھی احمدیت قبول کی۔ غریبوں کی پردہ پوشی کرتے۔ ان کی مالی مدد کرتے تھے۔ کئی غریب بچیوں کی شادی کروائی۔ جیل میں بھی قیدی ساتھیوں کی مدد کرتے رہے۔ جب یہ جیل میں تھے تو دورانِ ملاقات ان سے جب پوچھا جاتا کہ جیل میں کوئی تکلیف تو نہیں تو کہتے کہ تکلیف کیسی! میں تو یہاں دین کی خاطر آیا ہوں۔ مجھے تو موقع مل رہا ہے تبلیغ کرنے کا۔ اس وقت بھی بے خوف اور نڈر ہو کے تبلیغ کرتے رہے۔ طاہر محمود صاحب کے خلاف 17 جنوری1988ء کو پولیس سٹیشن ملیر کالونی کراچی میں ایک مقدمہ درج ہوا تھا اور مقدمہ یہ تھا کہ ایک مدعی نے کہا تھا کہ میرے چھوٹے بھائی کی انہوں نے بیعت کروائی ہے۔ اس وقت بھی یہ اسیر رہے تھے۔ یہ دوسری دفعہ ان کو اسیری کا شرف ملا تھا اور مخالفت کا سامنا بھی ان کو کرنا پڑا۔ تین دفعہ ان پہ حملے بھی ہوئے لیکن اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دیا اور انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک حملہ آور اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آ گیا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص جو دشمنی کرنے والا تھا وہ اپنے کسی جھگڑے میں قتل ہوگیا اور اس صورتحال سے دوسرے جو دو تھے انہوں نے مرحوم کے گھر آ کے اپنے فعل پہ معافی مانگی اور انہوں نے فوراً معاف کر دیا۔ کوئی مقدمہ نہیں کیا۔ مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے ساتھ ان کا رویہ مثالی تھا۔ جماعت کے لیے وقف تھے۔ رات کو واپس آتے تو میں نے کبھی ان سے کوئی شکوہ نہیں کیا، روکا نہیں کیونکہ مجھے دلی اطمینان تھا کہ مرحوم خاوند کے اس فعل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غیب سے ہمارے کام کر رہا ہے۔ ان کے بچوں میں سے ایک واقفِ زندگی مربی سلسلہ بھی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 1980ء کی دہائی میں اسیر راہ مولیٰ بننے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اس موقع پر پولیس نے آپ پر بہت تشدد کیا تھا تو جب کوئی تشدد کا کہتا تھا کہ اب آپ احتیاط کیا کریں تو بڑے جذباتی انداز میں کہتے تھے کہ میں نے اب پولیس کی مار کھا لی ہے۔ اس لیے اب مجھے کوئی ڈر اور خوف نہیں رہا۔ اب تو میں بے دھڑک ہو کے دعوت الی اللہ کرتا ہوں۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ محترمہ مبشرہ صاحبہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے شامل ہیں۔ بیٹے منیب محمود صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ پاکستان میں ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نماز کے بعد نماز جنازہ ہو گا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: غزوہ فتح مکہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز مکرم ڈاکٹر شیخ محمد محمود صاحب شہید کا ذکر خیر۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۳؍مئی ۲۰۲۵ء