’’اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جدہ سے مکہ تک کا سفر نہایت کٹھن ہے۔…مجھے بھی سخت تکلیف ہوئی اور تمام بدن کے جوڑ جوڑ ہل گئے۔ لیکن بڑی نعمتیں بڑی قربانیاں بھی چاہتی ہیں۔ اس بڑی نعمت کے لئے یہ تکلیف کیا چیز ہے۔ مدینہ کا راستہ اور بھی طویل اور کٹھن ہے لیکن چند دن کی تکلیف ان پاک مقامات کے دیکھنے کے لئے جہاں رسول کریم ؐفداہ ابی و امی نے اپنی بعثت نبوت کا ایک روشن زمانہ گزارا کیا چیز ہے۔‘‘(حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ) مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ و مدینہ جب سلطنت عثمانیہ کے زیر انتظام تھے اور برصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) پر سلطنت برطانیہ کا راج تھا،تب عازمینِ حج وعمرہ کے سفر کے احوال اورپیش آمدہ واقعات پر مشتمل بہت سا مواد موجود ہےلیکن ایسی تحقیقات زیادہ تر مختلف علاقوں کی مقامی آبادیوں اور ان کے نوآبادیاتی حکمرانوں کے باہمی سیاسی تعلقات کے گردہی گھومتی نظر آتی ہیں۔اسی طرح ارض حرم میں مختلف وقتوں میں پھوٹنے والی وباؤں پر بھی بہت کچھ لکھاگیا ہے، مگر یہ مواد بھی زیادہ تر مختلف نوآبادیات کی جغرافیائی حدود اور ان کی نگرانی اور متفرق حفاظتی اقدامات کے بارے میں ہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور میں ہونے والے حج کے دوران مسلمانوں کے باہمی فرقہ وارانہ تنازعات پر بھی کچھ محققین نے گفتگو کی ہے، تاہم ایک جماعت جس کا شاذ ہی کبھی تذکرہ ہوتا ہے، وہ جماعت احمدیہ ہے، جس پر نہ صرف ان کے اپنے ہم مذہب مسلمانوں نے قدغنیں عائد کیں بلکہ حکومتوں نے بھی ان پر پابندیاں لگانے اور مشکلات کھڑی کرنے کی کوششیں کیں۔ (الفضل ۹؍جولائی ۱۹۱۳ صفحہ ۴ کالم ایک) بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانیؑ کے صاحبزادےحضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے ۱۹۱۲ء کے اواخر میں حج کے ارادے سے ارض حرم کا سفر اختیار فرمایا۔ یہ واقعہ اُن کے خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے سے دو سال قبل کا ہے۔ آپؓ کے ہمراہ آپؓ کے ناناحضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اور ایک اور ساتھی عبدالمحی عرب صاحبؓ تھے۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۲ء کو قادیان سے روانہ ہوئے، ۱۶؍اکتوبر کو بمبئی سے جہاز کے ذریعے پورٹ سعید روانہ ہوئے اور ۷؍نومبر کو جدہ کے راستے مکہ مکرمہ پہنچے۔ اِن احباب کے اِس سفر کا مقصد صرف مناسک حج کی ادائیگی ہی نہیں تھا بلکہ مکہ کی مقدس سرزمین میں احمدیت کی تبلیغ بھی ان کے پیشِ نظر تھی۔ جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ کے اس سفر کی روداد اُن خطوط کی بنیاد پر بیان ہوئی ہے جو آپؓ نے دوران سفر اور حجاز میں اپنے قیام کے دوران قادیان میں حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ، خلیفۃالمسیح الاول کے نام لکھے تھے۔ اخباری رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبزادہ صاحب ابتدائے سفر ہی سے تبلیغ اسلام میں مصروف رہے اور بحری جہاز کے سفر کے دوران کئی دہریہ افراد سے گفتگو فرمائی اورجب قافلہ اواخر ماہ اکتوبر پورٹ سعید میں قیام پذیر تھا تو وہاں کے شیخ الاسلام سے بھی ایک ملاقات ہوئی، جس میں عبدالمحی عربؓ نے عقیدہ وفاتِ مسیح پر گفتگو کی۔الغرض پیغام حق پہنچاتےیہ لوگ جدہ پہنچے، اور وہاں سے اونٹوں پر سوار ہوکر مکہ روانگی تک تبلیغ کا یہ سلسلہ جاری رہا۔(بدر قادیان، ۱۲؍دسمبر۱۹۱۲ء) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے مکہ تک کے اس سفر حج کی صعوبتوں کے متعلق قادیان کولکھے گئے ایک خط میں بتایا کہ ’’اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جدہ سے مکہ تک کا سفر نہایت کٹھن ہے…مجھے بھی سخت تکلیف ہوئی اور تمام بدن کے جوڑ جوڑ ہل گئے۔ لیکن بڑی نعمتیں بڑی قربانیاں بھی چاہتی ہیں۔ اس بڑی نعمت کے لیے یہ تکلیف کیا چیز ہے۔ مدینہ کا راستہ اور بھی طویل اور کٹھن ہے لیکن چند دن کی تکلیف ان پاک مقامات کے دیکھنے کے لیے جہاں رسول کریم ؐ فداہ ابی و امی نے اپنی بعثت نبوت کا ایک روشن زمانہ گزارا کیا چیز ہے۔ ‘‘ آپؓ نے اپنے ایک اَور خط میں لوگوں کے مسلمان کہلواکر بھی دین سے بےپرواہی اوردنیاداری کا مشاہدہ کرکے اپنی دلی تکلیف کا اظہار بھی کیا کہ کیسی دکھ کی بات ہے کہ حج کی نیت سے اس مقدس ترین مقام پر حاضر ہوکر بھی لوگ حقیقی ایمان سے دُور ہیں۔ ان خطوط کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کس طرح بیک وقت آپ دکھ اور امید کے جذبات کے ساتھ موسم حج میں ارضِ حرم میں موجود تھے۔ مکہ میں آپؓ کی آمد کی خبر آناً فاناً مشہور ہوچکی تھی اور ہر جگہ آپ کا چرچا ہونے لگا تھا۔ آپؓ جہاں سے گزرتے لوگ بعض دفعہ اشارہ کرکے ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ ’’ابن قادیانی‘‘ (قادیانی کا لڑکا)اور آپؓ کو لوگوں سے معلوم ہوا کہ علماء نے جماعت احمدیہ کے متعلق بہت غلط باتیں مشہور کررکھی ہیں مثلاً بانیٔ جماعت احمدیہ نعوذ باللہ شرعی نبوت کے مدعی ہیں نیز آپؑ نے جہاد کو قطعی حرام قرار دے دیا ہے۔ (الحکم قادیان، ۷؍جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۹) وہاں ایک شخص نے جورشتہ میں آپ کے ماموں تھے اور بھوپال کے رہنے والے تھے، بھوپال کے ایک خالد نامی رئیس کے ساتھ مل کر آپؓ کے خلاف سخت شورش بھی شروع کردی اور لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑکانے لگے کہ یہ قادیانی ارضِ حرم میں کفر پھیلاتے ہیں۔ تب تک آپؓ کو اس اشتعال انگیزی کا کوئی علم نہ تھا،یہاں تک کہ ایک دن آپ ایک عرب عالم مولانا عبدالستار کبتی کو جو شریف مکہ کے بچوں کے استاد تھے،کے پاس اسلام احمدیت کی تبلیغ کے لیے گئے۔ احمدیت کا پیغام سن کر کبتی صاحب نے آخر پر کہا کہ آپ نے مجھے تو تبلیغ کرلی ہے اور آپ کی باتیں بھی معقول ہیں لیکن میرے سوا کسی اَور کو تبلیغ نہ کریں ورنہ آپ کی جان کی خیر نہیں اور خطرہ ہے کہ کوئی شخص آپ پر حملہ نہ کر بیٹھے یا حکومت ہی آپ کو قید نہ کردے۔ کیونکہ آپ کے خلاف تو مکہ میں اشتہار بھی دیا جاچکا ہے۔ انہی مولانا کبتی نے آپؓ کو اطلاع دی کہ دو آدمیوں نے حجاز کی حکومت کو ’’قادیانیوں ‘‘کے خلاف سخت ایکشن لینے پر اکسایا ہے کہ یہ تبلیغ کیوں کرتے پھر رہےہیں۔ اس موقع پر سیدنا محمودؓ کویاد آیا کہ وہ تو ابھی کل ہی ایک معروف مقامی عالم کو تبلیغ کرکے آئے ہیں، جہاں اس عالم نے گفتگو سننے کے بعد غصہ اور جوش کی حالت میں کہا تھا کہ نہ ہوئی تلوارہمارے قبضہ میں، ورنہ تمہارا سر قلم کر دیتا۔(الحکم قادیان۔شمارہ ۷تا ۱۴؍جنوری۱۹۱۳ء) اسی طرح ایسے نازک حالات میں آپؓ کی شریف مکہ سے بھی قریباً ایک گھنٹہ طویل ملاقات ہوئی،جس کی زیادہ تفصیلات تو میسر نہیں ہیں، البتہ ایک موقع پر حضورؓ نے خود لکھا ہے کہ ’’شريف مکہ نہايت خلیق آدمي ہيں۔ ان سے ملاقات ہوئي تو میں نے ان کي خدمت ميں عرض کيا کہ مکہ کي صفائي کي طرف کچھ توجہ نہيں۔ ہمارے بلاد ميں تو صفائي کا بہت لحاظ رکھتے ہيں۔ آپ کے ہاں اسطرف توجہ ہوني چاہيے انہوں نے جوابديا کہ يہ سب ہندوستانيوں کا قصور ہے يہاں آکر گليوں ميں پڑ رہتے ہیں اور وہيں پاخانہ و پيشاب کرتے ہيں۔ ہزاروں آدميوں کے گند کو ہرقت کيونکر صفا کيا جائےميں نے کہا آپ گليوں ميں پڑ رہنے سے منع کرديں کسي کو اجازت نہ ہو کہ وہ گلي ميں آرام کرے يا کسي قسم کي غلاظت پھيلائے انہوں نے جوابديا کہ يہ لوگ اپنے وطنوں سے نکلکر یہاں آگئے ہیں۔اگر ہم ایسا حکم جاری کردیں تو انکے پاس خرچ تو ہے نہیں کہ مکان لے لیں جنگل میں مرجائینگے یہ تو آپ لوگوں کا کام ہے کہ ایسے آدمیونکو آنے ہی نہ دیں اس جواب پر مجھے خاموش ہی ہونا پڑا۔‘‘ (الفضل ۹؍جولائی ۱۹۱۳ صفحہ ۴ کالم ایک) اور تقریباً ایک دہائی بعد جب آپؓ ایک موقع پر اپنے حج کے تجربے کا ذکر کررہے تھے تو فرمایا:’’اُس وقت تو وہاں جس کو چاہتے گرفتار کرسکتے تھے مگر میں نے تبلیغ کی اور کھلے طور پر کی۔ لیکن جب ہم وہ مکان چھوڑ کر واپس ہوئے تو دوسرے دن اس مکان پر چھاپا مارا گیا اور مالک مکان کو پکڑ ا گیا کہ اس قسم کا کوئی شخص یہاں تھا۔‘‘(الفضل قادیان، ۷؍مارچ ۱۹۲۱ء) اس سفرِ حج کی تفصیلات میں ہے کہ تب حجاز میں ہیضہ کی وبا پھوٹنے کی وجہ سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ اور آپ کے ساتھی بحری جہاز میں جگہ ملتے ہی فوراً واپس ہندوستان روانہ ہوگئے۔ سلطنت عثمانیہ کی درپردہ کارروائیاں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کو سفر حج میں جن مشکلات اور مظالم کا سامنا کرنا پڑا، وہ حالات یوں اچانک ہی نمودار نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کی بنیاد تو اُس وقت ہی رکھ دی گئی تھی جب قافلہ ابھی بمبئی سے روانہ بھی نہ ہوا تھا۔ کیونکہ جب ۱۶؍اکتوبر ۱۹۱۲ء کو یہ لوگ حجاز جانے والے بحری جہاز پر سوار ہوئے، اسی روز استنبول میں عثمانی وزارتِ خارجہ نے حجاز کی وزارتِ داخلہ کو ایک مراسلہ ارسال کیا، جس میں لکھا : ’’قسطنطنیہ میں سلطنت عثمانیہ کا دربار؍باب عالی وزارتِ خارجہ محکمۂ عمومی برائے سیاسی امور نمبر: قونصلیٹ بمبئی کی رپورٹ مورخہ ۱۶؍اکتوبر مرزا غلام [اصل میں] محمود احمد،عمر ۲۳ سال، جو پنجاب کےقصبہ قادیان سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے والد مرزا غلام احمد نے اپنی زندگی میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، کل اپنے قافلے کے ہمراہ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز روانہ ہوگئے ہیں۔ محمود احمد کے ساتھ ایک شخص عبدالحی بن عبداللہ بھی ہے۔ یہ شخص حِلّہ سے ہے لیکن درحقیقت حلیہ کا رہائشی ہے۔ جب اس نے قونصل خانے میں پاسپورٹ کے لیے درخواست دی تو اسے اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے گواہ لانے کو کہا گیا۔ بعدازاں جب اس نے ایرانی قونصلیٹ سے حاصل کردہ اپنے پاسپورٹ پر ویزالینے کی کوشش کی تو انکشاف ہوا کہ اس کے ارادے نیک نہیں، جس پر اس کا پاسپورٹ کچھ عرصے کے لیے ضبط کر لیا گیا۔ بالآخر ہم نے اسے ایک سفری دستاویز جاری کردی۔اگرچہ اس شخص کی کتاب بظاہر معمولی دکھائی دیتی ہے، تاہم اس کے مندرجات نقصان دہ ہیں۔ یہ شخص حکیم نورالدین کا پیروکار ہے، جسے احمد نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا۔ اس کے حجاز جانے کا مقصد اپنے مذہب (فرقہ کے مذہبی عقائد) کی تبلیغ کرنا ہے۔ نورالدین کی بعض کتابوں میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ احمد ہی مہدی ہیں۔ خود احمد نے بھی اس موضوع پر کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ چنانچہ میں نے حجاز کے صوبائی حکام کو ایک خط بھیج کر ہدایت دی ہے کہ ان افراد کو فتنہ پھیلانے اور اپنی کتابوں کی تقسیم سے روکنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ حکم اسی کا ہے جس کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں۔‘‘( Ottoman Archives, DH.SYS.31.8.3) اسی ادارے نے چند دن بعد اسی مکتوب الیہ کو ایک یاددہانی بھی بھیجی، جس میں مزید تفصیلات فراہم کیں جہاں پہلے مراسلے میں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ ’’ان افراد کو فتنہ انگیزی اور کتابوں کی تقسیم سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں‘‘، وہاں اس یاددہانی میں ایک قدم آگے بڑھ کر یہ حکم دیا گیا کہ ’’ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔‘‘ ’’باب عالی وزارتِ خارجہ محکمۂ عمومی برائے سیاسی امور نمبر: ۲۵۴۷۵؍۱۲۴۹ برائے وزارتِ داخلہ خلاصہ: پنجاب سے تعلق رکھنے والے مرزا غلام محمود احمد اور ان کے قافلے کے بارے میں۔ مرزا غلام [اصل میں] محمود احمد، جو پنجاب کے شہر قادیان سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے والد مرزا غلام احمد نے اپنی زندگی میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، ۱۵؍نومبر کو اپنے قافلے کے ہمراہ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز پہنچے۔ ان کے ہمراہیوں میں سے ایک فرد عبدالحی بن عبداللہ کے متعلق موصول شدہ منفی اطلاعات کے پیشِ نظر اس کی شناخت کی تحقیقات کی گئی اور اس کی تحریر کردہ ایک کتاب کا معائنہ کیا گیا۔ اس امر کا قوی امکان پایا گیا کہ ان افرادکے پاس تبلیغی مواد اور کتابیں بھی ہیں۔ بمبئی قونصلیٹ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ یہ لوگ فتنہ انگیزی نہ پھیلا سکیں اور اپنی کتابوں کی تقسیم نہ کر سکیں۔ ہم نے قونصلیٹ کا خط آپ کی خدمت میں ارسال کردیا ہے۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ کی وزارت اس ضمن میں ضروری اقدام کرے۔ ۲؍دسمبر ۱۹۱۲ء برائے وزیرِ خارجہ، معتمدِ وزارت۔‘‘(Ottoman Archives, DH.SYS.31.8.2) ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی جواب موصول نہ ہوا تو وزارتِ خارجہ نے آئندہ مہینوں میں حجاز کے حکام کے ساتھ اس معاملے پر استفسار جاری رکھا، اور یہ سب کارروائیاں اُس وقت مسلسل جاری رہیں جب حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ حجاز میں مقیم تھے: ’’وزارتِ داخلہ شعبۂ مواصلات شاخ نمبر ۲ حوالہ: ۱۲۴۹ تاریخ: ۹؍دسمبر ۱۹۱۲ء بیروت کے راستے صوبۂ حجاز کو خفیہ نظام کے تحت بھیجا گیا تار ’’ہم توقع کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اس تفتیش سے مطلع کریں گے جو آپ نے اس خط کی وصولی کے بعد کی، جو بمبئی قونصل خانے کی جانب سے مرزا غلام محمود احمد اور ان کے ہمراہیوں کے بارے میں آپ کے صوبے کو بھیجا گیا تھا، جو پنجاب کے باشندے ہیں۔ وزارتِ خارجہ میں معتمد کے حکم پر تحریر کردہ دستاویز فائل میں موجود ہے۔‘‘(Ottoman Archives, DH.SYS.31.10.1.1) اس نوعیت کی مسلسل خط و کتابت کے نتیجے میں، گورنر حجاز نے باب عالی (عثمانی دارالحکومت) کو مندرجہ ذیل جواب ارسال کیا: ’’صوبہ حجاز رجسٹر دفتر حوالہ: ۱۰۰ برائے معزز وزارتِ داخلہ مہربان اور عالی مرتبت جناب! آپ کی وزارت کے خفیہ نظام کے تحت بھیجے گئے تار مؤرخہ ۱۱؍دسمبر ۱۹۱۲ء کے جواب میں عرض ہے کہ ہمیں تاحال بمبئی قونصل خانے کی طرف سے غلام محمود احمد اور ان کے قافلے کے بارے میں کوئی مراسلہ موصول نہیں ہوا۔ ہم نے قونصل خانے کو ایک خط ارسال کر کے اس معاملے پر وضاحت طلب کی ہے۔ موصول ہونے والے جواب کی روشنی میں ضروری اقدام کریں گے۔ حکم اسی کا ہے جس کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں۔ ۲۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء گورنر حجاز‘‘ (Ottoman Archives, DH.SYS.31.10.2.1) اب تک قارئین کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ کے سفر حج کو کس قدر اہمیت اور توجہ سے جانچا جا رہا تھا اور حکام کے مابین ایسے رموز میں پیغام رسانی ہو رہی تھی جنہیں پہلے حل کرنا ضروری ہے۔مثلاً مندرجہ بالا یاددہانی (۹؍دسمبر ۱۹۱۲ء) کے جواب میں، گورنر حجاز نے بالآخر ۳؍اپریل ۱۹۱۳ء کو تحریر فرمایا: ’’صوبہ حجاز رجسٹر دفتر حوالہ: ۲۴ خلاصہ: پنجاب سے تعلق رکھنے والے مرزا غلام [بشیر الدین]محمود احمد اور ان کے قافلے کے بارے میں، جو گزشتہ موسم حج میں مکہ آئے تھے اور بغیر کسی گڑبڑ کے اپنے وطن واپس چلے گئے۔‘‘ ’’برائے معزز وزارتِ داخلہ، مہربان و عالی مرتبت جناب! یہ ہمارے دفتر کے اس مراسلے کے ساتھ منسلک ہے جو ۲۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء کو نمبر ۱۰۰ کے تحت بھیجا گیا تھا۔ پنجاب کے باشندے غلام محمود احمد اور ان کا قافلہ ماہ ذوالحجہ کے آغاز میں مکہ مکرمہ پہنچا۔ حج کی ادائیگی کے بعد وہ اسی ماہ کی ۱۹؍تاریخ کو اپنے قافلے سمیت جدہ روانہ ہوئے۔ جدہ کے حکام نے اطلاع دی کہ ان کے قیام کے دوران کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا اور پھر وہ اپنے ملک واپس چلے گئے۔ اس بابت بمبئی قونصل خانے کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔ حکم اسی کا ہے جس کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں۔ ۳؍اپریل ۱۹۱۳ء گورنر حجاز‘‘ (Ottoman Archives, DH.SYS.31.10.3.1) یہ معاملہ صرف عثمانی سلطنت کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کے درمیان باہمی خط و کتابت میں ہی زیرِغور نہ تھا، بلکہ عثمانی سلطنت کے دارالخلافہ استنبول میں موجود عثمانی شاہی آرکائیوز میں محفوظ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ عثمانی وزیراعظم جو سلطنت عثمانیہ میں سلطان معظم کے بعد دوسرا سب سے بڑا منصب تھا، بھی ان ’’قادیانیوں‘‘ کے مسئلے میں گہری دلچسپی لے رہا تھا جو حجاز میں وارد ہوئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے صدر دفتر یعنی باب عالی کے اعلیٰ حکام اب یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ احمدیت کیا ہے اور قافلہ کے افرادممکنہ طور پر کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ ابھی مکہ مکرمہ میں مقیم تھے (۷ نومبر تا ۲۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء) کہ وزارتِ داخلہ نے ۲؍دسمبر ۱۹۱۲ء کو وزارتِ خارجہ کو ایک مراسلہ بھیجا: ’’وزارتِ داخلہ شعبہ عمومی مواصلات شاخ نمبر ۲ حوالہ: ۱۲۴۹ دفتر میں وصولی کی تاریخ: ۴؍دسمبر ۱۹۱۲ء رجسٹریشن کی تاریخ: ۹؍دسمبر ۱۹۱۲ء برائے وزارتِ خارجہ آپ کے جنرل ڈائریکٹریٹ برائے سیاسی امور کے ۲؍دسمبر ۱۹۱۲ء کے خط نمبر ۱۲۴۹/۲۵۴۷۵ کے جواب میں ہے کہ بمبئی قونصل خانے سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی، پنجاب کے قصبہ قادیان سے شائع شدہ امام مہدی کے متعلق تحریر کی گئی چند کتابیں حاصل کرکے بھیجے۔یہ معتمد کے حکم کے تحت کیا گیا ہے۔‘‘(Ottoman Archives, DH.SYS.31.8.1.1) جماعت احمدیہ کے متعلق لٹریچر اور مواد کے حصول کا یہ عمل اگلے سال تک جاری رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ براہِ راست قادیان سے بھی کچھ کتب حاصل کی گئیں، جیسا کہ ذیل میں درج رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے، جس میں ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے شماروں سمیت تب رسالہ کے مدیر، مولوی محمد علی صاحب کا خط موصول ہونے کا ذکر ہے: ’’سلطان معظم کے معزز چیف سیکرٹری حوالہ: ۱۲۴ پنجاب سے کتاب ’’رسالہ الادیان‘‘ کے مصنف محمد علی نامی ایک شخص نے مرزا غلام احمد خان کی تصنیف کردہ کتاب ’’تعلیمِ اسلام‘‘ کے ساتھ ایک خط ہمیں بھیجا ہے۔ یہ خط اور کتاب وزارتِ تعلیم کو جائزہ لینے کے لیے روانہ کر دی گئی ہے۔ حکم اسی کا ہے جس کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں۔ ۲۹؍جولائی ۱۹۱۳ء چیف سیکرٹری برائے سلطان معظم’’(Ottoman Archives, i.MBH.12.99.2.1) وزیراعظمِ سلطنت عثمانیہ (صدر اعظم) نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی تصنیف کو ایک اہم کتاب قراردیتے ہوئے وزارتِ تعلیم کو بھیج دیا: ‘‘دفترِ صدرِ اعظم شاخ نمبر ۲ حوالہ: ۱۳۴ تاریخ: ۳۰؍جولائی ۱۹۱۳ء برائے وزارتِ تعلیم ہمیں محمد علی کا دستخط شدہ ایک خط موصول ہوا ہے، جو ’’رسالہ الادیان‘‘ کے مصنف ہیں، جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ مرزا غلام احمد خان کی کتاب ’’تعلیمِ اسلام‘‘ وزیرِ اعظم کے دفتر کو ارسال کی گئی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر ایک اہم کتاب ہے۔ سلطان معظم کے معزز وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ یہ کتاب وزارتِ تعلیم کو بھیجی جائے۔ مذکورہ بالا کتاب آپ کی وزارت کو روانہ کر دی گئی ہے۔‘‘(Ottoman Archives, BEO.4201.315060.1.1) بعد ازاں، حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تالیفات مختلف سرکاری محکموں میں گردش کرتی رہیں جہاں پہلے ان کے حصول پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا، پھر انہیں محاسبہ (اکاؤنٹس) کے شعبہ کو بھیجا گیا، اور بالآخر ۱۶؍ستمبر ۱۹۱۳ء کو انہیں رجسٹریشن آف ڈاکیومنٹس کے ڈائریکٹریٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب قافلہ حج کے لیے روانہ ہوئے ایک سال گزر چکا تھا بلکہ قافلہ واپس ہندوستان بھی جاچکا تھا۔(Ottoman Archives, DH.SYS31.8.4) یہ تمام واقعات سلطان محمد خامس (محمد پنجم) کے عہدِحکومت (۱۹۰۹ء–۱۹۱۸ء) میں پیش آئے۔ اگر یہ سلطان عبد الحمید ثانی کے دور میں ہوتا تو جماعت احمدیہ اور اس کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سلطنتِ عثمانیہ کے اعلیٰ حکام کے لیے اجنبی نہ تھے کیونکہ سلطان عبد الحمید ثانی نہ صرف حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام سے واقف تھے بلکہ انہوں نے اپنے ایک سفیر، حسین کامی، کو قادیان بھیجا تھا تاکہ کسی طرح خلافتِ عثمانیہ کے زوال پذیر اقتدار کو تعاون کے ذریعے سہارا دیا جا سکے، اگرچہ یہ کوشش ناکام رہی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: روزنامہ الفضل انٹرنیشنل لندن کے ۲۴؍مارچ اور یکم اپریل ۲۰۲۱ءکے شماروں میں شائع شدہ ’’تین سلطنتوں کی دلچسپ کہانی: برطانوی، عثمانی اور آسمانی ‘‘از مولف۔ قسط اول اوردوم) حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ نے ۱۹۱۲ء میں حج کا فریضہ ادا کیا اور یہ وہی وقت تھا جب ہندوستان میں برطانوی حکومت کے لیے ہندوستانی مسلمان حجاج کرام سے متعلق مسئلہ پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک تھا۔ آپؓ ۶؍جنوری ۱۹۱۳ء کو ہندوستان واپس تشریف لائے اور قادیان سے ایک اردو اخبار جاری کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے، جو ’’الفضل‘‘کے نام سے موسوم ہے۔اس کا پہلا شمارہ ۱۹؍جون ۱۹۱۳ء کو سامنے آیا۔ آپؓ اس کے بانی اور مدیر تھے۔ تاہم اس اخبار کے اجرا کے محض ایک سال بعد آپ مسند خلافت پر متمکن ہو گئے۔ اردو زبان کا یہ اخبار الفضل جلد ہی جماعت احمدیہ کی نمائندہ آواز بن گیا،اور پورے ہندوستان میں وسیع پیمانے پر تقسیم ہونے لگا۔ ہندوستان میں برسر اقتدار برطانوی حکومت کی انتظامیہ کی جانب سے لندن بھیجے جانے والے اخباری خلاصوں میں الفضل کی خبریں اور اداریے باقاعدگی سے شامل کیے جاتے تھے۔ اسی طرح پنجاب کے سیاسی منظر نامے کے متعلق مرتب کی جانے والی سرکاری رپورٹوں میں دیگر مقامی اخبارات کے ساتھ ساتھ الفضل کے مضامین اور رجحانات کا تجزیہ بھی شامل ہوتا تھا۔ الفضل کے پہلے شمارے میں ’’حاجیوں کے لیے نیا انتظام‘‘کے عنوان سے ایک اعلان شائع ہوا، جس میں بتایا گیا کہ اگلے شماروں میں حجاج کرام کو درپیش مسائل پر تفصیل سے بحث شائع کی جائے گی۔ اورالفضل کے دوسرے شمارے سے تین اقساط پر مشتمل ’’گورنمنٹ اور حجاج‘‘ کے عنوان سے اداریے شائع ہونے شروع ہوئے۔ مگر جماعت احمدیہ کی جانب سے برطانوی ہندوستان کے حج سے متعلق مسائل کے حل میں اہم کردار کو سمجھنے سے قبل، تب حاجیوں کے مسائل کے گرد جاری بحث اور درپردہ امورکو سمجھنا ضروری ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام تک برطانیہ نے مسلم دنیا کے ایک وسیع رقبے کو اپنی نوآبادیاتی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ ہندوستان سے لے کر افریقہ کے کئی مسلم ممالک تک یا تو بلاواسطہ برطانوی تسلط میں تھے یا پھر برطانوی بالادستی کے ما تحت۔یوں برطانوی راج دنیا کی سب سے بڑی ’’مسلمان سلطنت‘‘ بن چکی تھی، کیونکہ دنیا کی اکثریتی مسلم آبادی اس کی رعایا تھی۔ اُس دور میں جب خلافتِ عثمانیہ خود کواکلوتی مسلم سلطنت کہنے پر فخر کیا کرتی تھی، ایک اور عالمی طاقت یعنی برطانوی سلطنت کا مسلمانوں کی کثیر تعداد کے حاکم کی حیثیت سے ابھرناعثمانیوں کو ایک آنکھ نہ بھاتا۔ اس پر مستزادیہ کہ عثمانی سلطنت اور انگریز پہلے ہی کئی محاذوں پر جغرافیائی سیاست کی کشمکش سے نبردآزما تھے،الغرض باہمی پیچیدگیوں میں اضافہ ہونا لازمی امر تھا اور ایسا ہی ہوا۔ ایسے میں عثمانی سلطنت نے برطانیہ کو اپنے زیر تسلط علاقوں کے لیے ایک خطرہ سمجھااور زمینی حقائق بھی بجا طور پرایسے ہی تھے۔ کیونکہ یہ سب ایسے وقت میں ہورہا تھا جب برطانیہ نے انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں قبرص، مصر، کویت، عدن اور جزیرہ نما سینا پر قبضہ حاصل کر لیااور اس نئی صورتِ حال نے جان سلائٹ (John Slight) کے درست ترین تجزیہ کے مطابق عثمانی حکمران سلطان عبدالحمید ثانی کو Anglophobe (انگریزوں؍ برطانیہ سے شدید ہراساں رہنے والا) بنا دیاتھا۔یہی رجحان عثمانی حکومت کے ایوانِ بالا؍باب عالی (Porte Sublime) میں بھی منتقل ہوگیا، جووقت کے ساتھ ساتھ نمایاں ہوکراپنا رنگ دکھاتا رہا، یہاں تک کہ ۱۹۲۴ء میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے خلافتِ عثمانیہ کا ہی مکمل خاتمہ کر دیا۔(Azmi Ozcan, Pan-Islamism: Indian Muslims, the Ottomans and Britain (1877-1924), in The Ottoman Empire and its Heritage, V 12, 1997) اُس زمانے میں ہندوستان سے جانے والے عازمینِ حج چونکہ برطانوی رعایا تھے اور سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِانتظام عرب علاقوں میں حج کے لیے سفر کیا کرتے، اور برطانیہ اور عثمانیوں کے باہمی تعلقات میں شدید کشیدگی کے باعث یہ معاملہ عثمانیوں کے لیے مستقل دردِ سر بنا ہوا تھا۔ تاہم دونوں سلطنتیں اپنی اپنی مسلم رعایا کے لیے حج کے انتظامات مہیا کرنے میں سنجیدہ تھیں تاکہ مسلمانوں کی وفاداری اپنے ساتھ منسلک رکھ سکیں۔عثمانی حکومت نہ صرف برطانوی راج سے محتاط تھی بلکہ ان کے مسلم رعایا سے بھی تحفظات رکھتی تھی۔ اگرچہ ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں خلافت عثما نیہ سے ہمدردی اور تعلق کا ایک واضح جذبہ تھا (جو بعد میں تحریک خلافت کی صورت میں ظاہر ہوا ) مگرتب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بیک وقت اپنے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں سے وفاداری کا واضح اظہار کرتی رہی۔ اور یہ حقیقت اُس وقت کھل کر سامنے آئی جب جنگ عظیم اول کے دوران ہندوستانی مسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کی بجائے برطانوی تاج کے ساتھ اپنی وفاداریوں کا اعلان اور اظہار کیا۔ (The War: Muslim Feeling, Expressions of Loyalty, File IOR/4265/1914, L/PS/10/519, India Office Records, British Library) ہندوستانی مسلمانوں کی وفاداری ان دونوں متحارب سلطنتوں کے لیے نہایت قیمتی اثاثہ تھی، چنانچہ دونوں ہی اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے یعنی تاج برطانیہ، اپنی مسلم رعایا کا ہمدرد اور خیرخواہ بننے کے لیے، جبکہ عثمانی خلافت، اپنی حکومت و اقتدار کو ’’خادمِ حرمین شریفین‘‘ کی حیثیت سے سیاسی اور مذہبی جواز دینے کے لیے۔ مگر اُس دور میں سلطنت عثمانیہ کے حکام اُن ہندوستانی مسلمانوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو ارض حجاز میں آ کر آباد ہو رہے تھے، مگر ساتھ ہی اپنی ہندوستانی شہریت کوبھی برقرار رکھے ہوئے تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر عثمانی حکومت ان کے ساتھ کچھ بھی سختی کرتی تو وہ برطانوی تحفظ میں آجاتے۔ایک اور شک جس نے عثمانی حکام کی نیندیں حرام کی ہوئی تھیں، وہ عرب علیحدگی پسندوں سے برطانوی حکام کے روابط اور ان کی کارروائیوں میں دلچسپی تھی،تب سلطنت عثمانیہ سے برگشتہ یہ گروہ ایک نئے نظام خلافت کے قیام کےلیے کوشاں تھا۔ (IOR/L/PS/18/B222, secret file titled: Correspondence with the Grand Sherif of Mecca, India Office Records, British Library (being the secret correspondence between JMC Cheetham, Acting High Commissioner at Cairo, and Hussein ibn Ali, the Sherif of Mecca) اور اگر تب ملک عرب میں خلافت قائم ہو جاتی، جوظاہر ہے کہ عثمانی خلافت کے متوازی ہوتی، تو یہ عثمانی سلطنت کے تاج کے واحد نگینے، یعنی خلافت کے دعوے،کے لیے کاری ضرب ثابت ہو سکتی تھی۔ اِن پسِ پردہ عوامل کے تناظر میں ۱۹۱۲ء میں احمدی عازمینِ حج کے خلاف عثمانی اہلکاروں اور مرکزی اداروں کی تفتیش اور احمدیوں کے خلاف قانونی کارروائیوں کو دیکھیں تو صورت حال مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ (باقی منگل ۳؍جون ۲۰۲۵ء کو ان شاءاللہ) مزید پڑھیں: خلافت جو تلوار سے تھی تراشی سمٹ کر فقط رہ گئی ہے حواشی