https://youtu.be/kdcJ7TYEaK0 متردّدین کو خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ الہامات مؤلف نے خود عمداً بنا لئے ہیں یا بلا ارادہ واختیار ان کی حالت خواب میں ان کے دماغ و خیال نے گھڑ لئے ہیں۔ اس گھڑت و بناوٹ کا خیال الہامات انگریزی میں (جس سے صاحب الہام کی زبان۔ کان۔ دل و خیال کو کسی قسم کا تعلق نہیں) کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ طبیعت و خیال کو اسی چیز تک رسائی ہوتی ہے جس سے اُس کو کسی وجہ سے تعلق ہو۔ ہندی نژاد (جو عربی سے محض ناآشنا ہو) کا خیال عربی نہیں بنا سکتا جیسے مچھلی اُڑ نہیں سکتی اور چڑیا تیر نہیں سکتی براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو اعتراض اوّل کا جواب اِس اعتراض کا ماحصل یہ ہے کہ اِن الہامات میں بعض غلطیاں ہیں۔ جن سے الہام ھذی الیک بجذع النخل میں مؤلف کا بہ صیغہ تانیث خطاب اور الہام یا مریم اسکن انت و زوجک الجنۃ میں مریم علیھا السلام کا صیغہ تذکیر سے خطاب۔ الجواب۔ پہلے الہام میں غلطی کا دعویٰ محض افترا ہے۔ کتاب میں لفظ ھذی یا ے سے جو صیغہ تانیث ہے کہیں نہیں اس میں بصفحہ ۲۲۷ لفظ ھذ بحذف یا ہے اور الہام یا مریم اسکن انت و زوجک الجنۃ میں لفظ مریم سے مؤلف مراد ہے۔ جس کو ایک روحانی مناسبت کے سبب مریم سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ وہ مناسبت یہ ہے کہ جیسے حضرت مریم علیھا السلام بلا شوہر حامل ہوئی ہیں۔ چنانچہ ظاہر قرآن کی دلالت ہے۔ اور انجیل میں تو اِس پر صاف تصریح ہے۔ (دیکھو اشاعۃ السنۃ نمبر ۲ و ۳ جلد ۴) ایسے ہی مؤلف براہین بلاتربیت و صحبت کسی پیر فقیر ولی مرشد کے ربوبیت غیبی سے تربیت پا کر مورد الہامات غیبیہ و علوم لدنیہ ہوئے ہیں۔ اِس تشبیہ کی ایک ادنیٰ مثال نظامی کا یہ شعر ہے جس میں اُنہوں نے اپنی طبیعت کو مریم سے تشبیہ دی ہے۔ ضمیرم نہ زن بلکہ آتش زن ست کہ مریم صفت بکر آبستن ست اِس صورت میں مریم کا خطاب بہ صیغہ تذکیر محل اعتراض نہیں (حاشیہ:کسی کو یہ شبہ نہ گذرے کہ برعایت لفظ مریم لفظ اسکن کوکیوں مؤنث نہ کیا گیا۔ اِس لئے کہ لفظ مریم میں تانیث لفظی نہیں۔ تا کہ لفظ کی رعایت ہوتی۔ معنوی تانیث تھی جو اس مقام میں مؤلف کی مراد ہونے سے نہ رہی۔) اور اس کے نئے زوج کا اثبات بھی مستبعد نہیں اور یہاں تو زوج سے مؤلف کی اتباع و رفقاء مراد ہیں۔ (دیکھو صفحہ 260 رسالہ ہٰذا) اعتراض دوم کا جواب اِس اعتراض کا ماحصل یہ ہے کہ بعض الہامات انگریزی زبان میں ہوئے ہیں جس کا پڑھنا بولنا کفر ہے۔ پھر اِس میں الہام و خطاب کیونکر ممکن ہے۔ الجواب۔ انگریزی کے پڑھنے بولنے کو کفر کہنا انہی لوگوں کا کام ہے جن کا دل و دماغ کفر کا خزانہ یا سانچہ یا میشین (یعنی کَل) ہے یا اُنہوں نے کفر کا ٹھیکہ لے رکھا ہے پس وہ جس کو چاہتے ہیں کافر بنا دیتے ہیں۔ دین اسلام میں تو اس حکم کفر کا کہیں پتہ و نشان نہیں نہ کتاب و سُنّت میں ا س پر کہیں شہادت پائی جاتی ہے۔ نہ تصانیف علماء امت میں مؤلف نے براہین احمدیہ کے صفحہ ۳۰۹ میں خود بھی ثابت کر دیا ہے کہ زبانیں (انگریزی ہوں خواہ ہندی عربی ہوں خواہ فارسی) سبھی خدا کی تعلیم سے ہیں اور اشاعۃ السنۃ نمبر ۶ جلد ۵ میں اِس مسئلے کی قرآن و حدیث سے کافی تحقیق ہو چکی ہے جو نظارہ ناظرین کے لائق ہے۔ پس اگر کسی زبان کے بولنے پڑھنے پر فتویٰ کفر لگایا جائے تو یہ فتویٰ کفر خدائے تعالیٰ کی طرف عائد ہوتا ہے۔ یہ کفر (بقول اِن جہلا مکفرین کے) خدا ہی نے لوگوں کو خود سکھلایا ہے اور اِس کفر کی استعمال پر لوگوں کو مفطور و مجبور کر دیا۔ بالفعل ہم اس اعتراض کے جواب میں اِس سے زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتے خصوم معترض شہادت کتاب و سنت و اقوال علماء امت سے یہ ثابت کر دیں گے کہ انگریزی کا بولناپڑھنا کفر ہے اور یہ زبان خدا کی سکھائی ہوئی نہیں تو اس وقت اس کے جواب میں کچھ اور بھی کہیں گے اِس وقت تک تو ہم اِس اعتراض کو لائق خطاب و مستحق جواب نہیں سمجھتے۔ ہاں بجائے اِس اعتراض کے اگر یہاں یہ سوال کیا جائے کہ باوجودیکہ مؤلف براہین احمدیہ کی مادری زبان ہندی ہے اور مذہبی و علمی زبان عربی اور صرف علمی و استعمالی فارسی انگریزی نہ ان کی مادری زبان ہے نہ مذہبی نہ علمی نہ اِس زبان سے ان کو کسی قسم کی واقفی ہے پھر ان کو انگریزی میں کیوں الہام ہوتے ہیں اور اس کا سر و فائدہ کیا ہے تو یہ سوال لائق خطاب و مستحق جواب ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اِس زبان میں (جس سے مؤلف کی زبان۔ کان۔ دل۔ خیال کسی کو آشنائی نہ تھی) مؤلف کو الہام ہونے میں ایک فائدہ و سر تو یہ ہے کہ اِس میں سامعین و مخاطبین کو مؤلف کی طبیعت یا خیال کی بناوٹ کا احتمال و گمان نہ ہو۔ ہندی۔ فارسی۔ عربی (جو ان کی مادری و مذہبی و علمی زبانیں ہیں) کے الہامات میں یہ بھی احتمال اور متردّدین کو خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ الہامات مؤلف نے خود عمداً بنا لئے ہیں یا بلا ارادہ واختیار ان کی حالت خواب میں ان کے دماغ و خیال نے گھڑ لئے ہیں۔ اس گھڑت و بناوٹ کا خیال الہامات انگریزی میں (جس سے صاحب الہام کی زبان۔ کان۔ دل و خیال کو کسی قسم کا تعلق نہیں) کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ طبیعت و خیال کو اسی چیز تک رسائی ہوتی ہے جس سے اُس کو کسی وجہ سے تعلق ہو۔ ہندی نژاد (جو عربی سے محض ناآشنا ہو) کا خیال عربی نہیں بنا سکتا جیسے مچھلی اُڑ نہیں سکتی اور چڑیا تیر نہیں سکتی۔ شائد امرتسری معترضین و منکرین جو اہل حدیث کہلا کر حدیث کے نام کو بدنام کر رہے ہیں۔ یہ اعتراض کریں کہ انگریزی زبان کے الہام میں طبیعت یا خیال کی بناوٹ کا احتمال نہیں تو یہ احتمال تو ہے کہ یہ انگریزی الہام شیطان کی طرف سے ہو جو انگریزی عربی فارسی ہندی وغیرہ سبھی زبانیں جانتا ہے اور جو اِس میں غیب کی باتیں اور پیشین گوئیاں ہیں وہ شیطان نے آسمان سے چھپ کر سُن لی ہوں کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِھِمْ تَشَابَھَتْ قُلُوْبُھُمْ۔ یہی بات پہلے مشرکین عرب نے آنحضرتؐ کے الہامات عربی کی نسبت کہی تھی پس جو اس کا جواب خدائے تعالیٰ نے آنحضرتؐ کی طرف سے دیا ہے وہی ہم اِس مقام میں مؤلف براہین کی طرف سے دے سکتے ہیں۔ الجواب۔ سورۃ شعرامیں اللہ تعالیٰ نےمشرکین کی اسی بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیٰطِیْنُ۔ وَ مَا یَنْبَغِیْ لَھُمْ وَ مَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۔ اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۔ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ۔ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ۔ یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ۔ (شعراء ع ۹) اِس قرآن کو شیطانوں نے نہیں اتارا اور نہ ان کو یہ طاقت ہے وہ تو آسمانوں کی خبریں سننے سے آگ کے شعلوں کے ساتھ (اب) روکےجاتے ہیں۔ ہم تمہیں بتا دیں شیطان کن لوگوں پر اترتے ہیں۔ وہ بڑے جھوٹے گنہگاروں پر اُترتے ہیں اور ان کو وہ جو کچھ چوری سے (انگار پہنچنے سے پہلے) سن پاتے ہیں پہنچاتے ہیں۔ وہ اکثر باتوں میں جھوٹے نکلتے ہیں۔ اِس جواب کا ماحصل (چنانچہ بیضاوی و امام رازی نے بیان کیا ہے) یہ ہے کہ قرآن جو آنحضرت پر نازل ہوا ہے دو وجہ سے القائے شیطانی نہیں ہو سکتا۔ اوّل یہ کہ جن لوگوں کے پاس شیطان اُترتے ہیں وہ اپنے افعال و اعمال میں شیطانوں کے دوست اور بھائی ہوتے ہیں بڑے گنہگار اور بڑے جھوٹے۔ اور یہ باتیں آنحضرت صلعم میں پائی نہیں جاتیں وہ تو شیطان کے دشمن ہیں اور اُس کو لعنت کرنیوالے جھوٹ اور گناہوں سے مجتنب اور ان سے منع کرنیوالے دوم وہ باتیں جو شیطان لاتے ہیں اکثر جھوٹی نکلتی ہیں اور آنحضرت کے قرآن کی ایک بات بھی جھوٹی نہیں۔ یہی جواب ہم الہامات مؤلف براہین کی طرف سے دے سکتے اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ شیطان اپنے ان دوستوں کے پاس آتے ہیں اور اُن کو (انگریزی خواہ عربی میں) کچھ پہنچاتے ہیں جو شیطان کی مثل فاسق و بدکار اور جھوٹے دوکاندار ہیں اور مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کے رُو سے (واللہ حسیبہ)شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں اور نیز شیطانی القا اکثر جھوٹ نکلتے ہیں اور الہامات مؤلف براہین سے (انگریزی میں ہوں خواہ ہندی و عربی وغیرہ) آج تک ایک بھی جھوٹ نہیں نکلا (چنانچہ اُن کے مشاہدہ کرنے والوں کا بیان ہے گو ہم کو ذاتی تجربہ نہیں ہوا) پھر وہ القاء شیطانی کیونکر ہو سکتا ہےکیا کسی مسلمان متبع قرآن کے نزدیک شیطان کو بھی یہ قوت قدسی ہے کہ وہ انبیاء و ملائکہ کی طرح خدا کی طرف سے مغیبات پر اطلاع پائے اور اس کی کوئی خبر غیب صدق سے خالی نہ جائے۔ حاشا و کلا۔ شاید یہاں ہمارے معترض مہربان مؤلف براہین احمدیہ کے ساتھ ہم کو بھی ملائیں اور ہم پر بھی فتویٰ کفرلگائیں اور یہ فرمائیں کہ اس جواب میں مؤلف براہین کو آنحضرت سے ملایا گیا ہے اور ان کے الہامات کو وحی نبوی کی مانند تصرف شیطانی سے معصوم ٹھہرایا گیا ہے۔ لیکن میں ان کے فتویٰ کفر سے نہیں ڈرتا کیونکہ میں خود اُن پر فتویٰ کفر لگا سکتا ہوں۔ جو ان کے پاس آلہ یا سانچا یا میشین تکفیر ہے وہ میں بھی کہیں سے مستعار لے کر کام چلا سکتا ہوں۔ ہاں ان کی بات کا یہ جواب دیتا ہوں کہ مؤلف براہین احمدیہ (جبکہ اُس کے الہامات صادق ہوں اور ولایت مسلم) یا اور اولیاء امت محمدیہ اپنے الہامات میں نبیوں کی مثل معصوم نہیں تو محفوظ تو ہوسکتے ہیں خصوصاً ان الہامات میں جو قرآن اور دین اسلام کے موافق اور مؤید ہوں۔ ان الہامات میں حفاظت کا حصہ وہ بطور ورثہ بحکم العلماء ورثۃ الانبیاء عصمت انبیاء سے پاتے ہیں۔اِن میں اُن میں فرق یہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام عموماً (یعنی اپنے ہر ایک الہام میں) معصوم ہوتے ہیں اور اولیاء خصوصاً ان الہامات میں (جو شرع نبی کے مخالف نہ ہوں) اور ان الہامات پر وہ قائم و ثابت ہی ہوں محفوظ ہوتے ہیں۔ انبیاء کے الہامات کی عامہ خلائق کو پابندی واجب ہے۔ اولیاء کے الہامات کی پابندی غیر پر واجب نہیں۔ الہامات انبیاء اصل ہیں۔ یہ الہامات ان کی ظل۔ اسی مناسبت کی نظر سے ہم نے اِس جواب کو مؤلف کی طرف سے پیش کیا ہے۔ اس پر جو چاہو فتوے لگاؤ۔ یہاں بھی قلم دوات حاضر ہے کما تدین تدان ۔ ہمارے اِس بیان کی تائید رسالہ نمبر ۷ جلد ۷ میں بصفحہ ۲۱۵ وغیرہ بھی ہو چکی ہے اور پوری تائید اِس کی جواب اعتراض سوم میں آتی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دوسرا فائدہ و سرّ الہام انگریزی زبان کا یہ ہے کہ اس وقت مؤلف کے مخاطب اور اسلام کے منکر و مخالف (عیسائی آریہ برہمو وغیرہ) اکثر انگریزی خوان ہیں۔ ان کا افہام یا افحام (ساکت کرنا) جیسا کہ الہامات انگریزی سے ممکن ہے عربی یا فارسی وغیرہ الہامات سے ممکن نہیں۔ عربی وغیرہ مشرقی زبانوں کے الہامات کو (وہ ان کے مضامین سے آنکھ بند کر کر) یقینا مؤلف کا ایجاد طبع سمجھتے۔ اب (جبکہ وہ انگریزی الہامات پڑھتے اور مؤلف کا انگریزی زبان سے محض اُمّی و اجنبی ہونا سنتے ہیں) وہ ان الہامات مؤلف کو تعجب کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور بے اختیار ان کو خرق عادت و برخلاف عام قانون قدرت (جن کو وہ غلطی سے قدرت خداوندی کا پیمانہ سمجھ رہے تھے) ماننے لگے ہیں۔ (جاری ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا ترجمہ قرآن بمع تفسیری نوٹس