آج کل مذاہب کی عجیب حالت ہے۔گھر گھر ایک نیا مذہب بن رہا ہے اور تلاش کرنے والے کے واسطے ایک حیرت کا مقام ہو رہا ہے اور اس وقت طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعی انسان کو نجات دینے والا سچا مذہب کون سا ہے؟ اس کا جواب ہر ایک شخص اپنے اپنے رنگ میں دے گا۔لیکن اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ ہر ایک مذہب میں یہ دیکھنا چاہیے کہ خدا کے ساتھ اس کے معاملات کیسے ہیں۔اس کی عظمت جبروت اور خوف کس قدر دل پر غالب ہے۔انسان شر سے طبعاً نفرت کرتا ہے اور جس چیز کے فوائد اور منافع مرکوزِ خاطر ہو جائیں اس سے طبعاً محبت کرتا ہے۔مثلاً ایک جگہ انسان کو رات رہنا ہو اور اس جگہ سانپ ہو تو گوارا نہ کرے گا کہ وہاں رہے۔یا کسی گاؤں میں طاعون ہو تو طبعاً اس بات سے نفرت کرے گا کہ اس میں داخل ہو۔فائدہ مند چیز کی طرف رغبت کرتا ہے۔بری چیز سے نفرت رکھتا ہے۔پس جس شخص کے دل میں خدا کی واقعی عظمت ہو جاوے اور اس کو منافع دینے والا یقین کرلے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں اپنی ہلاکت پر پورا ایمان قائم کرلے تو پھر باوجود اس نظارہ کے وہ کس طرح خدا کی خلاف مرضی کر سکے گا۔ انسان کو چلتے چلتے سونے کا خزانہ نظر آجائے تو ضرور اس کو لینے کی سعی کرتا ہے۔پس اصل بات یقین اور ایمان ہے جس کے ذریعہ سے تمام بدیوں سے بچ کر نیکی کی طرف انسان آسکتا۔اب وہ یقین اور ایمان کس طرح سے حاصل ہو؟ سچا مذہب وہ ہے جو اس یقین کے واسطے صرف قصہ اور کہانیوں پر مدار نہ رکھے کیونکہ یہ کہانیاں تو سب میں پائی جاتی ہیں۔کیا وجہ ہے کہ ہم مسیح کے معجزات کا قصہ مان لیں اور ایک ہندو کے دیوتاؤں کے معجزات جو اس کی پرانی کتابوں میں درج ہیں نہ مانیں۔تاریخی امور میں سب قومیں تواتر پیش کرتی ہیں۔یہ ایک تحکم ہے کہ ایک کی بات مانی جائے اور دوسرے کا انکار کیا جائے۔یہ نا مناسب ہے کہ انسان اپنے مذہب کے قصے کو درست جانے اور باقی سب کو غلط مانے۔غلط قصوں کے ذریعہ سے حق کے تلاش کرنے کا سفر بہت دور دراز کا ہے جو طے نہیں ہو سکتا۔اس کے سوائے آسان راہ یہ ہے کہ خدا جیسا پہلے قادر تھا اب بھی قادر ہے۔جیسا پہلے معجزات ظاہر کر سکتا تھا اب بھی ظاہر کر سکتا ہے۔جیسا پہلے سنتا تھا اب بھی سنتا ہے اور جیسا پہلے بولتا تھا اب بھی بولتا ہے۔یہ کیا وجہ ہے کہ پہلے تو سننے اور بولنے کی دونوں صفتیں اس میں تھیں مگر اب سننے کی صفت تو ہے لیکن بولنے کی نہیں۔پس سچا طالب وہ ہے جو سب باتوں کو چھوڑ کر اس لَمْ یَزَلْ ازلی ابدی خدا ہمیشہ کی قدرتوں والے خدا کی طرف جھک جائے۔اس خدا کی طرف توجہ کرے جو اَب بھی وہی صفات اور اخلاق رکھتا ہے جو موسیٰ کے وقت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت رکھتا تھا۔وہ اب بھی چاہتا ہے کہ گم گشتہ اس کے پاس آئے۔وہ اب بھی محبت کرتا ہے کہ کوئی اس کے حضور میں آئے۔سچا وہی ہے جو ایسے خدا کو ڈھونڈتا ہے۔جس مذہب کا مدار صرف قصوں پر ہے وہ مردہ مذہب ہے۔سچا مذہب وہ ہے جس میں وہ خدا اب بھی بولتا ہے۔جو تعصب نہیں رکھتا ہے وہ محض خدا حیّ قیوم کا طالب ہو کر اس کو پاتا ہے۔خدا اس دل کو دوست رکھتا ہے جو اس کو ڈھونڈنے والا ہو۔ (ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۸ تا ۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: بہشتی مقبرہ کی الہامی بنیاد