اس دَور میں قرآن شریف سے والہانہ عشق و محبت کی بات ہو تو اوّل المومنین حضرت حکیم مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کا نام نامی بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ آپؓ نے اپنی زندگی قرآنی علوم کی ترویج واشاعت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد پر جب آپؓ نے قادیان دارالامان میں مستقل سکونت اختیار کی تو دن رات قرآن شریف کا پڑھنا پڑھانا اور سنانا آپؓ کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ یہاں تک کہ زندگی کے آخری لمحات میں بھی اس بابرکت کلام کے درس و تدرس اور اس کے معارف و نکات بیان کرنے میں مصروف رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : ” خدا تعالیٰ جو مجھے بہشت میں اور حشر میں نعمتیں دے تو میں سب سےپہلے قرآن شریف مانگوں اور طلب کروں تا کہ حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں، پڑھاؤں، سناؤں۔(تذکرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۱۷۵- سن اشاعت بماہ جون ۱۹۱۵ ء، ضیاء الاسلام پریس قادیان )حضور رضی اللہ عنہ کے قلب مطہر میں قرآن شریف سے جو والہانہ عقیدت و محبت موجزن تھی اُس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے : ما آنست فی قلب احد محبۃالقرآن، كما أرى قلبه مملوًّا بمودة الفرقان ( آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۸۶) میں نے کسی کے دل میں اس طرح قرآن کریم کی محبت نہیں پائی جس طرح آپ کا دل فرقان حمید کی محبت سے لبریز ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ آپؓ کے عشق قرآن کے بارہ میں فرماتے ہیں: ” حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم کا اتناعشق تھا کہ رات دن آپؓ قرآن پڑھاتے رہتے تھے۔“ ( روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۲۶/ جولائی۱۹۴۴ ء صفحہ ۲ کالم۴)حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرتبہ شیخ عبد الرحمٰن صاحب مصری لاہوری کو جو اس وقت مصر میں تعلیم حاصل کررہے تھے تحریر فرمایا: ” تمہیں وہاں سے کسی شخص سے قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ جب تم واپس قادیان آؤ گےتو ہمارا علم قرآن پہلےسے بھی ان شاء اللہ تعالیٰ بڑھا ہوا ہوگا۔ اور اگر ہم نہ ہوئے تو میاں محمود سے قرآن پڑھ لینا۔ اسی طرح آپؓ نے صاحبزادہ بشیر احمدصاحب کو فرمایا کہ میری زندگی میں قرآن ختم نہ ہوا تو بعد ازاں میاں صاحب سے پڑھ لینا۔“ (الفضل قادیان، یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۱کالم ۱)حضوررضی اللہ عنہ کے کلام الٰہی سےعشق و محبت کا اندازہ ۱۹۰۸ء میں آپؓ کےاُن درس قرآن سے بخوبی ہو سکتا ہے جو آپؓ نےرمضان المبارک میں دیے۔ اُن دنوں آپؓ رمضان کے آخری عشرہ میں ۷۰ سال کی عمر میں معتکف تھے۔ آپؓ پیرانہ سالی کے باوجودسارا سارا دن درسِ قرآن میں مصروف رہتے۔ اخبار بدر قادیان میں لکھا ہے: ”حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسلمین نورالدین ایدہ اللہ رب العالمین بیسویں تاریخ ماہ رمضان سے مسجد مبارک میں اعتکاف بیٹھ گئے ہیں۔ آپؓ کے ساتھ کانِ رسالت کا چمکتا ہوا ہیرا سیّد محمود بھی معتکف ہے۔ مولانا کی فیض رسان طبیعت اس خلوت میں بھی جلوت کا رنگ دکھا رہی ہے۔ قرآن مجید سنانا شروع کیا ہے۔ صبح سے ظہر کی اذان تک اورپھر بعد از ظہر عصر تک سے اورعصرسےشام تک اور پھر عشاء کی نماز کے بعد تک تین پارے ختم کرتے ہیں۔ مشکل مقامات کی تفسیر فرما دیتے ہیں۔سوالوں کے جواب بھی دیتے جاتے ہیں۔ یہ نہ تھکنے والا دماغ خاص موہبت الٰہی ہے۔ “(بدرقادیان ۲۲/ اکتوبر ۱۹۰۸ ءصفحہ ۸،کالم ۳،جلد۸)حضرت پیر سراج الحق نعمانی رضی اللہ عنہ نے حضور رضی اللہ عنہ کی تفسیر قرآن کے متعلق نہایت قابل توجہ تحریر لکھی ہے جس سے آپؓ کی تفسیر قرآن کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ” حضرت اقدس علیہ السلام بار بار مجھے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے صاحبزادہ ان سے قرآن پڑھا کرو اور ان کے درس قرآن میں بہت بیٹھا کرو اور سنا کرو۔اگر تم نے دو تین سیپارہ بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کرنے کا ملکہ ہو جاوے گا۔ یہ بات مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے شاید پچاس مرتبہ کہی ہوگی اور در حقیقت مَیں سراسر قرآنی اور تفسیر کلام رحمانی سے نا آشنا اورنا واقف تھا۔ پس میں حضرت اقدس علیہ السلام کے فرمانے سے درس میں بیٹھنے لگا اور قرآن شریف سننے لگا اور پھر ایک لطف ایسا آنے لگاکہ جس کا بیان میری خیز تحریر سے باہر ہے اور آپؓ کی ہی برکت سے مجھے قرآن شریف کی تفہیم ہوتی گئی اور خود حضرت اقدس علیہ السلام بھی مجھے پڑھایا کرتے تھے اور مطالب قرآن شریف سمجھایا کرتے تھے اور ایک شرف مجھے آپؓ سے یہ ہے کہ مَیں نے بخاری شریف کاکچھ حصہ آپؓ سے پڑھا ہے … درحقیقت قرآن شریف اور بخاری شریف کے سمجھنے کا حق بعد حضرت اقدس علیہ السلام، نورالدین ہی کاہے جس کا نام ہی نور دین ہو وہ نور قرآن سے حصہ نہ لے تو اور کون لے۔ حضرت خلیفۃ المسیح کو قرآن شریف کا یہاں تک عشق و محبت ہےکہ کوئی وقت آپؓ کا قرآن شریف سے خالی نہیں ہے اور اندرزنانہ مکان میں جا بجا قرآن شریف رکھے ہوئے ہیں تا کہ دیکھنے میں دیر نہ لگے اور سستی وکسل بر پا نہ ہو۔ جہاں ہوں وہیں قرآن شریف دیکھ لیں۔“ (تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ ۱۷۴-۱۷۵،سن اشاعت بماہ جون ۱۹۱۵ ء،ضیاء الاسلام پریس قادیان)اللہ تعالیٰ بہترین جزائے خیر عطا فرمائے حضرت مولانا مولوی میر محمد سعید رضی اللہ عنہ کو۔ آپ نے ذاتی دلچسپی سے حضرت مولاناالاعظم خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے درس قرآن میں بیان فرمودہ اردوترجمہ اور مختصر تفسیری نکات مرتب کر کے انہیں”اوضح القرآن مسمّٰی بہ تفسیر احمدی“ کے نام سے شائع کرنے کا اہتمام فرمایا۔ اس ترجمہ وتفسیر کی اولین اشاعت خلافت ثانیہ کے آغاز یعنی جون ۱۹۱۵ء میں حیدر آباد دکن میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت اور اجازت سے قرآن شریف کا یہ اردو ترجمہ مع تفسیر ۲۰۲۴ ء میں اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز یوکے،کے زیراہتمام شائع ہوا ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک !حضور رضی اللہ عنہ کے ترجمہ قرآن کی بعض خصوصیات مختصرً ادرج ذیل کی جارہی ہیں۔ ترجمہ معنی خیز، با مقصد اور عام فہم ہے۔ جس میں غیروں کے اعتراضات کا خیال رکھا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فارسی ترجمہ سے بہت ملتا ہے۔ حاشیہ میں اکثر آیات کی مختصر مگر جامع تفسیر درج ہے۔ جس میں اعتراضات کی وضاحت اور پیشگوئیوں کے بارہ میں مدلل اور مضبوط دلائل دیے گئے ہیں۔ قرآن کریم کی تفسیر عین قرآنی تعلیم کے مطابق ہے۔ یہ تفسیر احادیث صحیحہ سے مطابقت رکھتی ہے۔ مضامین سے استنباط کرتے وقت مومنانہ فراست سے کام لیا گیا ہے۔ تفسیر صحیح لغات سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ ترجمہ و تفسیر عام فہم ہے جس میں ضمائر کا استعمال کم سے کم کیا گیا ہے تا عوام کو سمجھنے میں سہولت اور پڑھنے میں دلچسپی ہو۔ مختلف لغات کے کئی کئی معنی بیان کر دیے گئے ہیں تا کہ پڑھنے والے کے علم میں اضافہ کا باعث بنیں اور وہ اپنے ذوق کے مطابق اپنی پسند کا ترجمہ اختیار کرلے۔ اگرچہ عبارت کی ترتیب میں عام طور پر کم الفاظ میں زیادہ مطالب بیان کیے گئے ہیں لیکن جن مقامات پر ذاتِ اقدس باری تعالیٰ پر کوئی نقص ظاہر ہونے کا احتمال ہو وہاں تشریحی ترجمہ بیان کیا گیا ہے تا کہ کوئی ابہام نہ رہ جائے۔ وہ آیات جن میں ضمیر واحد مخاطب سے کسی مکروہ امر کے نہ کرنے کی طرف حکم دیا گیا ہے اس سے اکثرمترجمین نے عموماً نبی کریم ﷺکی ذات اقدس مراد لی ہے جبکہ اس ترجمہ میں آدابِ نبوی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے اکثر الفاظ کے ترجمہ میں” مخاطب“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ترجمہ میں مسئلہ جبر و قدر و معصومیت انبیاء وغیرہ بہت سے مسائل پر خاص تشریحی نظر رکھی گئی ہے۔اس ترجمہ تفسیر کا پہلا ایڈیشن حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اجازت سے شائع کیا گیا۔ اوّلین اشاعت سے قبل حضرت مولانا خلیفۃالمسیح الاول مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کے شاگرد ر شید حضرت مولوی حافظ روشن علی رضی اللہ عنہ نے ترجمہ و تفسیر کی بعدقراءت و سماعت دستخط ثبت فرما کر تصدیق کی۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے درس القرآن میں شامل ہونے اور قرآن مجید کے علوم و معارف سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ آپؓ ان درس القرآن کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :” حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو قرآن شریف سے انتہاء درجہ کا عشق تھا جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اس لیے آپؓ نے قادیان آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے قرآن شریف کا درس شروع کر دیا۔ یہ درس مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتا تھا اور اوائل زمانہ میں کبھی کبھی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس درس میں چلے جایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ کے درس میں اعلیٰ درجہ کی علمی تفسیر کے علاوہ واعظانہ پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ کیونکہ آپؓ کا قاعدہ تھا کہ رحمت والے واقعات کی تشریح کر کے نیکی اور انابت الی اللہ کی رغبت دلاتے اور عذاب والے واقعات کے تعلق میں دلوں میں خشیت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے اور آپؓ کا درس بے حد دلچسپ اور ہر طبقہ کے لیےموجب جذب و کشش ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمد یہ کے علم التفسیر کا ایک کثیر حصہ بلا واسطہ یا بالواسطہ آپؓ ہی کی تشریحات اور انکشافات پر مبنی ہے۔ اور آپؓ کے درس میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ایک وسیع سمندر ہے جس کا ایک حصہ موجزن ہےاوردوسرا ساکن اور عمیق اور اس سے ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق پانی لے رہا ہے… افسوس ہے کہ اس وقت کے نوٹ لینے والوں نےپوری احتیاط سے آپؓ کے اس درس کے نوٹ قلم بند نہیں کیے اور آپؓ کی تفسیر کا معتد بہ حصہ ضبط تحریر میں نہیں آسکا …حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے قرآن کے درس کا نمایاں رنگ یہ ہوتا تھا کہ گویا ایک عاشق صادق اپنے دلبر معشوق کو سامنے رکھ کر اس کے دلر با حسن و جمال اور دلکش خدو خال کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ اللہ اللہ ! کیا مجلس تھی اور اس مجلس کا کیا رنگ تھا۔“ (روز نامہ الفضل لاہور مورخہ ۶/ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ۴(اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قرآن کریم کے اس ترجمہ و تفسیر کی اشاعت مبارک و با برکت فرماتے ہوئے شرف قبولیت عطا فرمائے اور اسےنافع الناس بنا کر مفید نتائج ظاہر فرما تا ر ہے۔ آمین ثم آمین مزید پڑھیں:حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں عمارات سلسلہ میں ترقی