رتی، جسے اردو میں گھونگچی اور سائنسی دنیا میں Abrus precatorius کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسا پودا ہے جو اپنے دلکش بیجوں کی وجہ سے زمانہ قدیم سے انسانی دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ اس کے بیج نہایت چمکدار، سرخ رنگ کے ہوتے ہیں جن پر عموماً ایک سیاہ دھبہ پایا جاتا ہے۔ ان بیجوں کو نہ صرف ان کی خوبصورتی کی وجہ سے جانا جاتا ہے بلکہ وزن ناپنے کے لیے ایک اکائی ’’رتی‘‘کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ایک رتی تقریباً 0.1215 گرام کے برابر سمجھی جاتی ہے، اور زیورات میں سونے وغیرہ کا وزن ناپنے کے لیے ان کا استعمال عام تھا۔ یہ پودا زیادہ تر گرم اور مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے اور عموماً جھاڑی دار بیل کی صورت میں زمین پر یا کسی سہارے اور درخت کے ساتھ چڑھتا ہے۔ برصغیر، افریقہ، انڈونیشیا، چین اور دیگر ایشیائی و کیریبین ممالک میں یہ کثرت سے پایا جاتا ہے۔ رتی کے بیجوں میں ایک زہریلا پروٹین ’’ابرین‘‘ (Abrin) موجود ہوتا ہے، جو Ricin سے بھی زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ یہ زہر خلیاتی سطح پر کام کرتا ہے اور خلیات میں پروٹین بنانے کے عمل کو روک دیتا ہے، جس کی وجہ سے خلیہ مرنے لگتا ہے۔ اگر کوئی انسان یہ بیج چبا لے یا ان کی سطح سے زہر جذب ہو جائے تو اس کے جسم میں مہلک اور خطرناک علامات پیدا ہو سکتی ہیں، جن میں متلی، قے، پیٹ درد، خونی اسہال، بخار، جسمانی کمزوری، سانس لینے میں دشواری اور دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی شامل ہوتی ہیں۔ اگر بروقت طبی امداد نہ ملے تو یہ علامات موت پر منتج ہو سکتی ہیں۔ محض تین سے چار چبائے ہوئے بیج بالغ انسان کی جان لے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین ان بیجوں کے استعمال میں بے حد احتیاط برتنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، صدیوں سے حکمت اور روایتی طب میں رتی کے بیج استعمال ہوتے آئے ہیں، تاہم ان کا استعمال انتہائی محتاط طریقے سے کیا جاتا ہے۔ حکماء ان بیجوں کو مخصوص انداز میں زہر سے پاک کرتے ہیں، جیسے انہیں دودھ یا پانی میں بھگو کر، ابال کر یا دیگر روایتی طریقوں سے صاف کرکے زہریلے اجزا کو نکال دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بیج مختلف معجونوں، سفوف، حبّات اور دیگر ادویات میں شامل کیے جاتے ہیں۔ یونانی طب، آیورویدک اور چینی طب میں ان بیجوں کا استعمال کئی امراض میں تجویز کیا گیا ہے۔ روایتی نسخوں میں رتی کو عام طور پر جنسی کمزوری، مردانہ بانجھ پن، اعصابی تھکن، ضعف باہ، جوڑوں کے درد، اور بعض اوقات یرقان اور برونکائٹس کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ تحقیقاتی مطالعات کے مطابق یہ بیج ضدِ سوزش (anti-inflammatory)، ضدِ آکسیڈنٹ (antioxidant)، ضدِ بیکٹیریا (antibacterial)، اور بعض اقسام کی رسولیوں کے خلاف مفید اثرات رکھتے ہیں۔ چین میں روایتی ادویات میں اس کا استعمال برونکائٹس، لارنژائٹس اور ہیپاٹائٹس کے علاج میں بھی رپورٹ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، رتی کے بیج خوبصورتی کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ مختلف ثقافتوں میں ان بیجوں کو زیورات میں استعمال کیا جاتا ہے، خصوصاً چوڑیاں، مالائیں اور جھمکوں میں انہیں رنگین موتیوں کے طور پر پرویا جاتا ہے۔ بعض قبائلی معاشروں میں یہ بیج تعویذ، جادو ٹونے یا تقدس کی علامت کے طور پر بھی رکھے جاتے ہیں۔ تاہم، یہ یاد رکھنا بے حد ضروری ہے کہ جب یہ بیج کسی زیور میں استعمال ہوں تو وہ مکمل طور پر محفوظ طریقے سے بند کیے جائیں تاکہ ان کی زہریلی سطح انسانی جلد یا منہ کے قریب نہ آئے۔ حیاتیاتی سطح پر، اس پودے کے مختلف حصے طب میں استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے اس کے پتے، جڑیں اور پھلیاں۔ ہر حصے کی الگ تاثیر ہے، لیکن بیج سب سے زیادہ طاقتور اور زہریلے مانے جاتے ہیں۔ رتی کا بیج قدرت کا ایک ایسا تحفہ ہے جس میں افادیت بھی ہے اور احتیاط کا پیغام بھی۔ یہ ہمیں فطرت کی اس حکمت کی یاد دلاتا ہے کہ خوبصورتی ہمیشہ بے ضرر نہیں ہوتی اور جو چیز نظر کو بھلی لگتی ہے، وہ ضروری نہیں کہ جسم و جان کے لیے بھی محفوظ ہو۔ علم، فہم اور تجربہ ہی ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم ایسے قدرتی عناصر سے فائدہ بھی اٹھائیں اور نقصان سے بھی بچ سکیں۔ (مرسلہ: ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون) مزید پڑھیں: سیاہ الائچی:بے شمار طبّی فوائد کاخزانہ