حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تم لوگ دیکھو گے کہ تین سو سال کا عرصہ نہیں گزرے گا کہ جماعت کی ترقی ہو گی۔ تو ابھی ایک سو تیس سال ہوئے ہیں، ہم جلدی کریں،اپنی اصلاح کرتے رہیں، اپنی نسلوں کی اصلاح کرتے رہیں، اپنے دین کی جو اللہ تعالیٰ سے تعلق کی روح ہے وہ پیدا کرتے رہیں، تو ان شاء اللہ باقی حالات جلدی بہتر ہو جائیں گے مورخہ۱۸؍ مئی ۲۰۲۵ء بروز اتوار امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکینِ نیشنل مجلسِ عاملہ مجلس انصار الله فِن لینڈ کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےفِن لینڈ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ بعد ازاں تمام شرکاء کو اپنا تعارف کروانے کا موقع میسر آیا۔مزید برآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضور انور سے مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پوچھنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تعارف کے سلسلے میں حضور انور نے ایک گھانین شریکِ مجلس سے گفتگو فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ گھانا سینٹرل ریجن کے علاقےAjumako Mandoسے تعلق رکھتے ہیں اور گذشتہ گیارہ سال سےفِن لینڈ میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں۔ جب حضور انور نے اُردو زبان کے حوالے سے دریافت فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ بچپن میں وہOsu مشن ہاؤس میں مولوی عبد الوہاب بن آدم صاحب سے ہر اتوار کو اُردو سیکھا کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ Guard of Honour کے leader بھی تھے۔ گفتگو کے دوران حضور انور نے Ajumako Mando کے جغرافيائي محلِّ وقوع، Mankessim, Ekroful اور Cape Coast Road سے اس کے تعلق کے بارے ميں بھي دلچسپي لي۔حیر ت انگیز طور پر حضور انور کو وہ علاقہ ابھی تک یاد تھا اور حضور انور نے اس علاقہ کی پسماندگی کے متعلق بھی دریافت فرمایا ۔ حضور انور کی جانب سے اس علاقے کو یاد رکھنے پر موصوف بہت خوش اور متاثر نظر آئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ پہلے کی نسبت یہ علاقہ اب بہت بہتر ہوچکا ہے اور پہلے جو gravel road (کچي سڑک) تھي، وہ اب tarred road (پکّي يا تارکول والي سڑک)بن چکي ہے۔ ایک شریکِ مجلس نے دریافت کیا کہ انصار اپنی صحت کو مستقل طور پر کس طرح بہتر رکھ سکتے ہیں؟ حضور انور نے اس کے جواب میں نہایت محبّت، حکمت اور مزاح کے حسین امتزاج سے ورزش اور جسمانی فٹنس کے حوالے سے نہایت جامع اور عملی راہنمائی عطا فرماتے ہوئے تاکید کی کہ exerciseکریں۔ واک کریں۔ جتنا جتنا پیٹ بڑھتا جائے، اتنی ڈھیلی ٹراؤزرز خریدنے یا شلوار کا نالہ کھولنےیا بیلٹ کا پوائنٹ پیچھے کرنے کی بجائے، کوشش یہ کریں کہ ہمارے جو کپڑے ہیںاُن کے اندر اپنے آپ کو فِٹ کرنا ہے۔ حضور انور نے زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تلقین فرمائی کہ صبح اُٹھیں، تہجّد پڑھیں، نماز پڑھیں۔ انصار کی عمر تو ایسی ہے کہ اس میں تو کچھ کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر تک تو آرام سے کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد توچلو ہو جاتا ہے کہ جی! بوڑھے ہو گئے، بعض مجبوریاں ہوتی ہیں، آنکھ نہیں کھلتی یا تھکاوٹ ہو جاتی ہے، لیکن اس عمر تک تو کر سکتے ہیں۔ حضور انور نے سائل سے استفسار فرمایا کہ آپ ابھی ساٹھ سال کے تو نہیں ہوئے، کتنے سال کے ہیں؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ وہ چھپن (۵۶)سال کے ہیں۔ جس پر حضور انور نے فرمایا کہ چلیں! صفِ دوم ابھی آپ نے کراس کی ہے، تو واک کیا کریں۔ حضور انور نے مثال دے کر ورزش کی اہمیت کو اُجاگر کیا کہ اب کل ہی مَیں یہاں پھر رہا تھا، تو ہمارے ایک ڈاکٹر مجیب الحق صاحب ہیں، وہ کھڑے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ آپ راؤنڈ کر رہے تھے تو مَیں نے کہا کہ آپ کوآتے آتے اِتنی دیر لگ جائے گی، تو مَیں اُتنی دیر میں واک کرتا ہوں۔ تو تین میل کی واک کر کے وہ آ گئے۔ بڑے فِٹ اور سمارٹ ہیں۔ آپ لوگ بھی اس طرح کریں۔صبح اُٹھیں، نماز پڑھیں ، اس کے بعد exerciseکریں یا آدھے گھنٹے کی واک کریں ۔ انصار اللہ کی صفِ دوم کو تو خاص طور پر سائیکل چلانا چاہیے۔ حضور انور کے دریافت فرمانے پر سائل نے عرض کیا کہ وہ چودہ سال سے فِن لینڈ میں مقیم ہیں، ان کے پاس سائیکل ہے، لیکن وہ روٹین سے نہیں چلاتے۔یہ سماعت فرما کر حضور انور نے تبصرہ فرمایا کہ سائیکل گھر میں رکھا ہوا ہے، دیکھ لیتا ہوں، خوش ہو جاتا ہوں، میرے پاس سائیکل ہے۔ مزید سائیکلنگ میں مستقل مزاجی اختیار کرنے کی بابت حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ کم از کم ہفتے میں تین چار دن چلا لیا کریں۔ نیز فرمایا کہ اگر سائیکل نہیں چلاتے تو روزانہ چار پانچ میل کی واک کریں ۔ گھنٹہ، پونا گھنٹہ لگے گا، اتنی واک کریں، پیٹ اندر ہوجائے تو healthyہوں گے۔ خوراک کی بابت حضور انور نے انتہائی سادہ مگر پُر اثر الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ خوراک کی احتیاط رکھیں۔ صبح ناشتہ احتیاط سے کریں، دوپہر کا ہلکا پھلکا کھانا کھائیں، رات کو ذرا جلدی کھانا کھا لیں۔ حضور انور نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سُنّتِ مبارکہ کی روشنی میں یاددہانی کروائی کہ حدیث یاد رکھیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھوک چھوڑ کے کھاؤ۔توبھوک چھوڑ کے کھائیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مزیدار کھانا ہے، کہیں گھر میں بریانی پکی ہوئی ہے تو مَیں چار پلیٹیں بریانی کی کھا جاؤں ، یا قورمہ پکا ہوا ہے تو قورمہ کھاتا چلا جاؤں۔بیوی اور کھانے کی تعریف کرتا رہوں اور کھاتا چلا جاؤں۔ اپنی ڈائٹ کنٹرول رکھیں۔ بھوکے نہیں رہنا، ڈائٹنگ نہیں کرنی، لیکن حدیث کے مطابق بھوک چھوڑ کے کھانا ہے۔ واک کرنی ہے، exerciseکرنی ہے۔ اسی طرح انصارفِٹ رہیں گے تو تبھی مددگار بن سکتے ہیں، نہیں تو پھر بُڈھے ہو گئے، جلدی جلدی یہاں سے اُٹھتے جائیں گے اور کیا ہو گا؟ ایک شریکِ مجلس نے حضور انور سے عالمی ٹیرف کی وجہ سے موجودہ معاشی مسائل اور اس کے علاوہ آرٹیفشل انٹیلی جنس (AI)کے مرتّب ہونے والے اثرات کی بابت راہنمائی طلب کی۔ حضور انور نےامریکن صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ آدھی تو ہار گیا ۔اس نے چین سے بھی ٹیرف ۱۲۵؍فی صد کم کر دیا ہے ، دوسری جگہوں اور یہاں سے بھی کم کر دیا ہے۔ چین نے اس کے بدلے میں ان کا بھی کم کر دیا ہے۔ تو اس کا خیال ایک دھمکی دیناتھا کہ کسی طرح مَیں آنکھیں دکھاؤں گا تو شاید یہ لوگ ڈر جائیں گے اور جب اَگلوں نے آنکھیں دکھانی شروع کر دیں تو پھر خاموشی سے اس نے مان لیا۔ [قارئین کی دلچسپی کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ ٹیرف(tariff) سے مراد وہ سرکاری ٹیکس یا فیس ہے جو بیرونِ ملک سے آنے والی اشیاءپر لگایا جاتا ہے تاکہ مقامی مصنوعات کو فائدہ ہو۔مثال کے طور پرجب ایک ملک دوسرے ملک سے کوئی چیز منگواتا ہے، جیسے چائنا سے موبائل فون یا دیگر مصنوعات، تو اس پر جو اضافی رقم حکومت وصول کرتی ہے، وہ ٹیرف کہلاتا ہے۔ اس کا مقصد مقامی صنعت کو تحفظ دینا اور ملکی معیشت کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔] حضور انورنے اس صورتحال کو ایک دلچسپ اور سبق آموز مثال کے ذریعے واضح فرمایا کہ اس ملازم کی طرح کہ جس کو کسی نے بھڑکایا تھا کہ اپنے مالک سے کہو کہ میری تنخواہ بڑھاؤ، تو اس نے کہا کہ مالک بڑا سخت ہے، نہیں بڑھائے گا۔ کہنے والے نےکہا کہ نہیں! ذرا سختی سے کہو کہ بڑھاؤ نہیں تو پھر مَیں کام چھوڑ دوں گا یا یہ کر دوں گا تو دھمکی دینا۔ لیکن بہرحال وہ ملازم ڈرا ہوا بھی تھا ۔ تو مالک کو اس نے کہا کہ کام اتنا زیادہ لیتے ہیں، میری تنخواہ بڑھائیں ورنہ! اس نے کہا کہ ورنہ کیا کرو گے؟ مَیں تمہیں نکال دیتا ہوں۔ تو ملازم نے کہا کہ ورنہ اسی تنخواہ پر کام کر لوں گا۔ معاشی پالیسیز، قدرتی وسائل اور مختلف جغرافیائی خطوں میں مخصوص زرعی پیداوار کی بابت حضور انور نے بیان فرمایا کہ دنیا میں معاشی حالات ویسے ہی خراب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اس طرح امریکہ کی اکانومی کو بہتر کرنے کی ایک کوشش کی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اکنامکس کو بہتر کرنے کے بھی کوئی اصول، ضوابط اور قاعدے ہوتے ہیں۔ایگریکلچر کی ٹراپیکل ملکوں میں جو پیداوار ہو رہی ہے، اس پر تمہارے ٹیکس لگانے سے، وہ پیداوار امریکہ میں تو نہیں ہو سکتی۔ اگر وہاں موسم کی اتنی جوrequirementہے، وہ پوری نہیں ہوتی یا زمین کی جو fertility ہے یا جیسی بھی ہے، زمین جو چاہتی ہے اس کو وہ پورا نہیں کرتی۔ ایک ہی ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ میں فرق ہو جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں باسمتی چاول عمدہ قسم کا شیخوپورہ،گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے کچھ علاقے میں لیکن زیادہ تر گوجرانوالہ کے علاقے میں ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ خوشبو بھی ہوتی ہے، اس کا مزہ بھی اَور ہوتا ہے۔ وہی چاول آپ پنجاب کے دوسرے حصّوں میں لگاتے ہیں تو پیداوار کے لحاظ سے تو وہ اُتنا ہو جاتا ہے لیکن اس میں وہ خوشبو اور کوالٹی پیدا نہیں ہوتی۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے قانون قدرت میں رکھا ہوا ہے اور ہر زمین کی ایک خاصیت رکھی ہوئی ہے تو یہ چیزیں کس طرح ہو سکتی ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ میرے ملک میں آ کے پیدا کرو۔ امریکی تجارتی حکمتِ عملی، کم لاگت پیداوار اور چائنا کے ماڈل پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور نے بیان فرمایا کہ یہاں انڈسٹری ہے، وہ پیدا ہو سکتی ہے، لیکن جو Industrialist ہیں انہوں نے دیکھنا ہے کہ لیبر کہاں سستی ہے؟ چین، انڈیا یا کسی اور ملک میں لیبر سستی ہے۔وہاں جو بھی چیز بناتے ہیں پھر وہ اس کو امریکہ بھیجیں گے تو وہ کم قیمت میں اس کو بھیج سکتے ہیں۔ مارکیٹ سے competeکر سکتے ہیں ۔ امریکہ میں لیبر مہنگی ہے اور مہنگائی زیادہ ہے، وہاں اگر کریں گے تو اس کی کئی گنا cost ہو جائے گی، اس لیے اس نے کہا کہ کیونکہ کئی گنا cost ہو جائے گی تو اس لیے ان پر بھی ٹیکس لگا دو تا کہ ان کا مقابلہ ہو جائے۔ چائنا کا جہاں تک سوال ہے تو انہوں نےمقابلے کے لیے تین کیٹیگریز کی چیزیں بنائی ہوتی ہیں۔ ایک نمبر مال ،دو نمبر مال اور تین نمبر مال۔ تو کیا ہے کہ وہ ان کو اسی قیمت پر دو نمبر مال بھیج دیں گے، ٹیکس لگ بھی جائے گا تو فرق نہیں پڑتا، لیکن بہرحال اب تو ان کا معاملہ settle ہو گیا ہے کہ ٹیکس کم ہو جائے گا۔ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی جانے والی ٹیرف کی جنگ اور اس کے منطقی انجام کی بابت حضور انور نے فرمایا کہ عقل سے کام لینا چاہیے۔ صرف یہ نہیں کہ ہم نے کر دیا ،مَیں نے کر دیا اور میرا نام ہو جائے تو کر دو۔ اس نے اپنے نام کی مشہوری کروانی تھی وہ کروا لی، اس کے بعد آخر میں پھر ہار بھی مان لی۔ایک لحاظ سے اکانومسٹ تو یہی کہتے ہیں کہ ہار مان لی۔ لیکن عمومی طور پر دنیا میں مہنگائی ہو رہی ہے اور آبادی بڑھ رہی ہے، اس کی وجہ سے ڈیمانڈ بھی بڑھ رہی ہے، لوگوں کوawarenessزیادہ ہو رہی ہے ۔بعض ماڈرن ٹیکنالوجیز اور ماڈرن چیزوں کاافریقہ میں ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا تھا ۔ پہلے جب ہم وہاں رہتے تھے کہ روزانہ خبریں بھی سننی ہیں، ٹی وی ہے یا نہیں ہے۔ ٹی وی کا تو کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ بجلی نہیں ہوتی تھی۔ لالٹین جلایا کرتے تھے۔ اب یہاں کہتے ہیں کہ اگرہمارے پاس فریج اور فریزر نہ ہو تو ہمارا گزارا نہیں ہوتا ۔افریقن مبلغ بھی ہمیں کہہ دیتے ہیں۔ تو جس جس طرح دنیا سے رابطہ بڑھ رہا ہے، خواہشات بڑھ رہی ہیں اور اس کی وجہ سے ڈیمانڈز بھی بڑھ رہی ہیں اور جب وہ بڑھ رہی ہیں تو پھر جو پیدا کرنے والا ہے، وہ کہتا ہے کہ اچھا! میری چیز کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے اور میری سپلائی کم ہے تو مَیں قیمت بڑھا دوں۔ تو عمومی طور پر اس کی وجہ سے دنیا میں ایک inflation پیدا ہو چکی ہے۔ وہ تو اب جاری رہے گی۔سوائے اس کے کہ تیسری جنگِ عظیم شروع ہوجائے۔ آدھی دنیا مر جائے تو ٹھیک ہے،پھر دوبارہ اسی نہج پر آجائیں گے کہ چلو! نئے سرے سے پھر شروع کرو تو اَور بات ہے۔ اسی ریٹ پر اگر دنیا کی پاپولیشن بڑھتی رہتی ہے اور یہی خواہشات کا ذریعہ بنا رہتا ہے تو مہنگائی بڑھتی چلی جائے گی۔ اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ تو یہی ہے کہ جو لوگ مارکیٹ میں competeکر سکتے ہیں، وہ surviveکر جائیں گے، جو نہیں کر سکتے وہ بیٹھ جائیں گے۔ اے آئی (AI)کے بڑھتے ہوئے استعمال اور نتیجے میں مستقبل میں ملازمتوں کو درپیش چیلنجز کی بابت حضور انور نے فرمایا کہ اوپر سے آپ آئی ٹی (IT)والوں نے اے آئی کے چکر میں ڈال کر لوگوں کی جو تھوڑی بہتskillتھی، اس کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اب ہر چیز میں آپ کہتے ہیں کہ اے آئی سے کام کرا لو۔ اب اگر اے آئی سے کام کرا لیں گے تو اگلے دس سال میں آپ کو پتا لگے گا کہ لاکھوں جابز جو ہیں وہloseہوجائیں گی۔ خود آپ لوگ کہتے ہیں کہ پھر تو پتا نہیں کہ آپ کو روٹی بھی کھانے کو ملے گی کہ نہیں؟ نیز فرمایا کہ اگر اچھا جاب کر رہے ہیں، تو اس لیے مقابلے پر کوئی اور بھی جاب کر لینی چاہیے۔ ایک سوال حضور انور کی خدمتِ اقدس میں یہ پیش کیا گیا کہ آئندہ آنے والے حالات کے مطابق کون سی skills ہمیں خود بھی اور بچوں کو بھی سکھانی چاہئیں؟ اس پر حضورر انور نے راہنمائی فرمائی کہ خود exploreکریں۔آپ سارے فیلڈ میں بیٹھے ہیں کہ کون کون سی skills ہو سکتی ہیں؟ کام کرنا سکھانا چاہیے۔ hard workingسکھانی چاہیے۔ بس محنت کی عادت ہونی چاہیے۔ اپنے آپ اور بچوں میں بھی محنت کی عادت پیدا کر لیں تو بس باقی سب ٹھیک ہے۔ ایک شریکِ مجلس نے راہنمائی طلب کی کہ پاکستان میں احمدیوں پر جاری مظالم کو انٹرنیشنل، سوشل میڈیا اور ایم ٹی اے کے ذریعہ کس طرح مزید مؤثر طریقے سے عالمی دنیا تک پہنچایا جا سکتا ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ پہنچانا تو ہمارا کام ہے، وہ ہم کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر جہاں تک پہنچانا ہے، مرکز جتنی کوشش کرتا ہے، کر رہا ہے۔ یہاں مختلف cellsبنے ہوئے ہیں، وہ اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں، ہمارے اپنے لوگ کر رہے ہیں۔ توجو ذرائع سیاستدانوں کو پہنچانے، حکومتوں کو پہنچانے یا کسی بھی فورم پر مسائل کو لے جانے کے ہیں وہ ہم استعمال کر رہے ہیں۔ لوکل سطح پر بھی جو ہوسکتا ہے وہ جماعت کر رہی ہے۔ باقی ایک دفعہ جو کھلی چھٹی دے دی اور ایک وقت کی حکومت نے کچھ ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیا ،تحریکِ لبیک جیسے لوگوں کو ، کہ کھڑے ہو جاؤ اور فساد پیدا کرو۔ اس سے اب وہ خود بھی تنگ آئے ہوئے ہیں۔ وہ اب ان کے مقابلے پر ہے۔ اکثر ہمارے خلاف ہی نہیں، وہ شیعوں کے بھی خلاف ہیں، اہلِ حدیث کے بھی خلاف ہیں، انہوں نے پاکستان میں اہل ِحدیث کی بھی کئی مسجدیں سیل کروا دی ہیں ۔ تو شیعوں کی بھی ایک امام بارگاہ پر انہوں نے حملہ کیا تھا اوروہاں لوگ مارے تھے۔ تو اب وہاں لوگ خود realiseکر رہے ہیں کہ اس کو کسی طرح بند کرنا ہے۔ تو ایک وقت آتا ہے، کسی بھی چیز کی انتہا جب ہونے لگتی ہےتو پھر اللہ تعالیٰ کا ایک قانون چلتا ہے اور اس کا پھر زوال بھی شروع ہو جاتا ہے، تو ان شاءاللہ! ہو جائے گا۔ آپ لوگوں کو دعائیں کرنے کی ضرورت ہے، اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کرتے رہیں گے تو آپ جلدی یہ حالات دیکھ لیں گے ۔ جس دن آپ سست ہوتے جائیں گے، حالات خراب ہو جائیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی مثال دی ہے کہ وہ بگڑ گئے تھے تو چالیس سال ان کو اللہ میاں نے کہا کہ چلو! پھر دنیا میں چکر کاٹتے رہو، لیکن اس کا مطلب ہے کہ وہ ہمارے سے بہتر تھے کہ چالیس سال بعدان کی اصلاح ہو گئی۔ تواپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تا کہ ہم جلدی اس زمانے کو دیکھ لیں۔ حضور انور نے حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئی کے ضمن میں عالمی جماعتی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ لیکن یہ بہرحال یقین ہے کہ جس طرح جماعتِ احمدیہ دنیا میں باقی جگہوں پر بھی پھیل رہی ہے، آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو تین سو سال سے زائد کا عرصہ ہوا تھا تو دنیا میں عیسائیت پھیلی، صحیح رنگ میں یا غلط رنگ میں، لیکن ان کےاصحابِ کہف جو تھے وہ اپنے غاروں سے باہر آ گئے، جو موحد تھے وہ کم از کم باہر تو آ گئے، اسی طرح تم لوگ دیکھو گے کہ تین سو سال کا عرصہ نہیں گزرے گا کہ جماعت کی ترقی ہو گی۔ تو ابھی ایک سو تیس سال ہوئے ہیں، ہم جلدی کریں، اپنی اصلاح کرتے رہیں، اپنی نسلوں کی اصلاح کرتے رہیں، اپنے دین کی جو اللہ تعالیٰ سے تعلق کی روح ہے وہ پیدا کرتے رہیں، تو ان شاء اللہ باقی حالات جلدی بہتر ہو جائیں گے۔ دنیاوی ذرائع اور رعایتِ اسباب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے اپنے حلقۂ احباب کے ذریعے مؤثر آواز بلند کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے، حضورِ انور نے ہر احمدی کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ باقی جو دنیاوی اسباب، ذریعے اورطریقے ہیں، وہ جس حد تک ہم سے ہو سکتا ہے، ہم اختیارکرتے ہیں، آپ بھی اپنے اپنے حلقے میں اختیار کریں۔ ہر احمدی جو ہے، اس کا کوئی نہ کوئی حلقۂ احباب لوکل لوگوں میں ہے ، کوئی پولیٹیشن واقف ہوں گے، کونسلر واقف ہوں گے، کوئی جرنلسٹ واقف ہوں گے، اپنے پیشے میں جہاں کام کرتے ہیں وہاں لوگ واقف ہوتے ہیں، جو influence رکھنے والے ہیں تو ان کوapproachکریں ، ان کو سمجھائیں تو جس جس طرح آپ شور مچائیں گے اور اگر دنیا کے سارے سیاستدان یا پڑھے لکھے لوگ سوشل میڈیا پر کہنا شروع کر دیں کہ ظلم ہو رہا ہے، اس کو بند کرو تو اس کا ایک اثر پڑتا ہے ۔اور ہر ایک احمدی اس میں involveہو سکتا ہے۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے کے سلسلے میں عالمی برادری کی بیداری کی بابت حضور انور نے روشنی ڈالی کہ اب اسرائیل کے سامنے کوئی بات بھی نہیں کر سکتا تھا، لیکن بعض اخباروں نے اب گذشتہ چند دنوں سے اس کے خلاف لکھنا شروع کر دیا ہے کہ فلسطینیوں کو جو مار رہے ہویہ genocideہو رہا ہے۔ بعض ایم پیز نے بولنا شروع کر دیا ہے۔امریکہ کے اپنے کانگریس مین اور سینیٹرز میں سے بعضوں نے بولنا شروع کر دیا ہے۔تو پتھروں میں بھی، بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ایسی حالت پیدا کردیتا ہے کہ اس میں سے بھی آوازیں آنے لگ جاتی ہیں۔ تو یہ پتھر دل جو ہیںیہ لوگ نرم ہو جاتے ہیں۔ بہرحال بعض حرکتیں تو انہوں نے کرنی ہیں ،جو وہ کر رہے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق مہدی کے زمانے میں وہی عمل مسلمانوں سے ہونے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہو رہے ہیں۔ تو اس کے علاج کا پھر اللہ تعالیٰ نے ایک وقت رکھا ہوا ہے، وہ کرے گا، لیکن جلدی کروانا ہے تو ہمیں اپنی اصلاح جلدی کرنی ہو گی۔ یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ بیلجیم کی نیشنل مجلس عاملہ و ناصرات الاحمدیہ کے ایک وفدکی ملاقات