https://youtu.be/9vZyFpYeaQI یہاں ان ممالک میں آ کر مذہب کو نہ بھولو۔ مذہب کو یاد رکھو اور مذہب کو یاد رکھنے کے لیےاللہ تعالیٰ نے جو بہترین طریقہ بتایا ہےوہ یہی ہے کہ اس کی عبادت کرو۔پانچ وقت نمازیں فرض ہیں، ان کو پڑھو۔استغفار کرو اور دنیا کی، یہاں کی ویسٹرن جوattractions اور charmes ہیں ان کے پیچھے نہ پڑ جاؤ بلکہ اپنے مقصد کو یاد رکھو مورخہ۱۷؍مئی ۲۰۲۵ء بروز ہفتہ، امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ایسٹ ریجن کے ایک تئیس(۲۳) رکنی وفدکو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر محض حضور انور کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے اور آپ کی بابرکت صحبت سے روحانی فیض حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کوحضور انور سے مختلف نوعیت کے متفرق سوالات کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے حضور انور سے دریافت کیا کہ آپ امریکی حکومت کے موجودہ رجحانات کو خاص طور پر حالیہ عالمی حالات کے تناظر میں کس نظر سے دیکھتے ہیں اور ہم احمدیوں کو دائیں بازو کی قوم پرست اور فسطائی نظریات کے بڑھتے ہوئے اثرات، جو معاشرے میں تفریق اور ظلم کو جنم دے رہے ہیں، کے مقابل پر کیا ردّعمل اختیار کرنا چاہیے؟ حضور انور نے اس کے جواب میں موجودہ مغربی رجحانات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کل تقریباً ہر مغربی ملک میں عوام کے اندر یہ رویّہ پایا جاتا ہے کہ وہ مہاجرین کے خلاف ہیں اور دائیں بازو کی سیاست کے نظریات کی طرف مائل ہیں۔ لیکن امریکہ اور کینیڈا ملٹی نیشنل ممالک ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ امریکی صرف ایک ہی نسل کے لوگ ہیں اور وہاں صرف گورے لوگ رہتے ہیں، درست نہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ وہاں ایک بڑی تعداد اُن افراد کی ہے، جن کا تعلق افریقہ سے ہے، جو کینیڈا یا امریکہ ہجرت کر کے آئے یا بطور غلام وہاں لائے گئے ہوں۔ حضور انور نے قوم پرستی کے اُبھرتے ہوئے نظریات کی سنگینی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اب جو ایک نیا نظریہ اُبھر رہا ہے، وہ ملک بھر میں پھیل رہا ہے کہ ہم قوم پرست ہیں، ہم مہاجروں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اسی دوران حضور انور نے سائل سے استفسار فرمایا کہ تم یہاں توپیدا نہیں ہوئے؟ جس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیتے ہوئےعرض کیا کہ ان کی پیدائش پاکستان کی ہے۔ حضور انور نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا لہٰذا وہ کسی وقت بھی کوئی ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں جس کے ذریعہ وہ آپ کو ملک سے نکالنے کی کوشش کریں۔ حضور انور نے اس تناظر میں امریکہ میں بسنے والے احمدیوں پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی روشنی میں ہم آہنگی اور فکری شعور بیدار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ایسے میں ہمارا فرض ہے کہ ہم محنت سے کام کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ ہم اس ملک کے مخلص شہری ہیں۔ ہم اپنے وطن سے محبّت کرتے ہیں۔ بطور امریکی ہم اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور جو یہ نظریہ اپنایا جا رہا ہے، اس کے ذریعہ مختلف قوموں اور نسلوں کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جا رہا ہے۔اب جبکہ ہم اس ملک میں آ چکے ہیں اور ہمیں اس ملک کی شہریت بھی مل چکی ہے تو سیاستدانوں اور دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ ملک کے امن کو برباد نہ کریں۔ انہیں چاہیےکہ وہ ہمیں بھی اس ملک کا حصّہ سمجھیں اور ہم اس ملک کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔ جواب کے آخر میں حضور انور نے تبلیغ اور اصلاحِ معاشرہ کی حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کو وطن سے محبّت اور اس کے لیے خلوص کی حقیقی روح سے آگاہ کریں۔ اس طریقے سے آپ یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام اور احمدیت کی تعلیمات کی رُو سے آپ کو چاہیے کہ ان لوگوں کو تبلیغ بھی کریں اور انہیں یہ سمجھانا چاہیے کہ وطن سے محبّت کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔یہی وہ طریق ہے جس سے آپ کم از کم اس نظریہ کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔ ایک خادم نے حضور انور سے عرض کیا کہ جب انسان کی کوئی خواہش ہو جس کےلیے وہ شدت سے دعا کرتا رہا ہو، جیسے کہ گرایجویٹ سکول میں داخلہ وغیرہ، اگر وہ قبول ہو جائے تو اس کے بعد وہ کس طرح عاجزی اور اخلاص کے ساتھ اسی جذبے کے ساتھ دعا کرتا رہے؟ حضور انور نے اس کے جواب میں نصرتِ الٰہی کے شعور کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو یہ شعور اور ادراک ہے کہ آپ کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ہے اور آپ کو داخلہ صرف آپ کی محنت سے نہیں بلکہ آپ کی دعاؤں کی وجہ سے ملا ہے، تو پھر آپ کو چاہیےکہ آپ زیادہ استغفار کریں، اللہ کے حضور جھکیں اور پہلے سے بڑھ کر عاجزی اختیار کریں۔ حضور انور نے حصولِ کامیابی کے بعد عاجزی کو دوام دینے کے گہرے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ جو کچھ آپ حاصل کر رہے ہیں ، وہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے اور اگر یہ بات دل و دماغ میں راسخ ہو جائے کہ آپ کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ اللہ کے فضل، آپ کی دعاؤں، آپ کی عاجزی اور آپ کی محنت کا نتیجہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ثمر آور ہوئی ہیں، تو آپ ہمیشہ عاجز رہیں گے۔ حضور انور نے اس روحانی ادراک کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مَیں آپ کو یہ بات کیسے سمجھاؤں؟ اگر آپ یہ بات سمجھ جائیں کہ جو کچھ آپ نے حاصل کیا ہے یا جو کچھ آپ کے پاس ہے، وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے، ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میرے شکرگزار بندے بنو گے کہ اللہ کے فضل سے فلاں کام ہوا ہے تو مَیں تمہیں مزید دوں گا۔ حضور انور نے جواب کے آخر میں الله تعالیٰ کے فضل کے مزید حصول کے لیے اس بنیادی اصول کا اعادہ فرمایا کہ یہ بات یاد رکھیں کہ اگر ہم عاجز رہیں گے تو پہلے سے بڑھ کر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے مستحق بنیں گے۔ ایک خادم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ پیارے حضور! پچھلے کچھ سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ممالک میں کافی مہاجرین آ رہے ہیں تو ان کو بہتر طور پر integrateکرنے کےلیے بحیثیت مجلس خدام الاحمدیہ ہم کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟ حضور انور نے اس کے جواب میں مہاجرین کی اصل شناخت کے تناظر میں ان کے بنیادی مقصدِ ہجرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان سے ہی آ رہے ہیں ناں؟ تو ان کو بتاؤ کہ تم پاکستان سے چھوڑ کر آئے ہو، اگر تو اس لیے آئے ہو کہ وہاں تمہارے پر سختیاں تھیں، ہمیں نماز نہیں پڑھنے دیتے، ہمیں مسجدوں میں نہیں جانے دیتے، ہم آزادی سے عبادت نہیں کر سکتے، اپنے دین کا اظہار نہیں کر سکتے۔ احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ وجہ تو مذہب ہے۔جب مذہب وجہ ہے تو یہاں آ کر مذہب کو نہ بھولو۔مذہب کو یاد رکھو اور مذہب کو یاد رکھنے کے لیےاللہ تعالیٰ نے جو بہترین طریقہ بتایا ہے، وہ یہی ہے کہ اس کی عبادت کرو۔ پانچ وقت نمازیں فرض ہیں، ان کو پڑھو۔استغفار کرو اور دنیا کی، یہاں کی ویسٹرن جوattractions اور charms ہیں ان کے پیچھے نہ پڑ جاؤ بلکہ اپنے مقصد کو یاد رکھو۔ حضور انور نے تہذیبی اثرات کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے نہایت حکیمانہ انداز میں متنبہ فرمایا کہ یہی تمہارا مقصد ہے، اگر یہ نہیں کرو گے تو ایک وقت آئے گا کہ تم تباہ ہو جاؤ گے اور تمہاری نسلیں بھی تباہ ہو جائیں گی۔ تو پیار سے اور عقل سے ان کو سمجھاؤ، سمجھ جائیں گے، یہی ہو سکتا ہے۔ حضور انور نے عملی مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مجلس خدام الاحمدیہ کی ذمہ داری کا تعین فرمایا کہ نوجوانوں اور بڑوں کو بھی سمجھاؤ کہ صرف ڈالر کمانے پر نہ لگ جاؤ، آج کل تو ویسے ہی ٹرمپ کی پالیسی کے بعد مہنگائی بڑھ رہی ہے، تو اس لیے پہلے جو ایک روٹی دو ڈالر کی آتی تھی ، اب شاید چار ڈالر کی آتی ہے۔ اس پر خادم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئےعرض کیا کہ کافی فرق ہے،almost doubleہو رہا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ بہت سارے لوگ جو ہیں، وہ ٹرک ڈرائیور بن گئے ہیں، ٹرک کے بزنس میں یا اس طرح کے بزنسز میں چلے گئے ہیں ۔ وہ راتیں گھروں سے باہر رہتے ہیں، بچوں پر توجہ نہیں دیتے۔بچے ماؤں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ تو ان کو پھر خدام الاحمدیہ سنبھالے اور ان سے رابطہ رکھے، تاکہ وہ اِدھر اُدھر نہ ہوں۔ ایک شریکِ مجلس نے حضور انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ پیارے حضور! دنیا بھر میں جماعت کے اتنے زیادہ لوگ ہیں ، پھر بھی یہ بہت حیرت کی بات ہے کہ آپ کو بہت سارے لوگوں کی باتیں اور ان کے نام وغیرہ بھی یاد ہیں، تو ہم خدام کو بھی کوئی نصیحت فرمائیں کہ جس سے ہم بھی اپنی یادداشت آپ کی طرح اتنی اچھی رکھیں کہ جب ہم بڑے ہوں؟ اس پر حضور انور نے سادہ مگر گہری حقیقت پر مبنی جواب عنایت فرمایا کہ جس سے تعلق ہو وہ یاد رہتا ہے۔میرا تمہارے سے تعلق ہےاس لیے تم یاد رہتے ہو۔ تم بھی آپس میں تعلق پیدا کر لو تو تم بھی یاد رکھو گے۔پھر حضور انور نے اپنے جواب کو ایک جملے میں سمیٹ کر سادہ الفاظ میں باہمی تعلق کی اہمیت کو یوں اُجاگر فرمایاکہ “If you have good relations with each other.” فرمایا کہ جس طرح اپنے بھائی کو یاد رکھتے ہو، تو اسی طرح اپنے ان بھائیوں کو بھی یاد رکھو تو تمہیں یاد رہے گا۔یہ تو آپس کے تعلق کی بات ہے۔ ملاقات کے اختتام پر خدام کو حضور انور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے اور بطورِ تبرک قلم کا تحفہ حاصل کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے شعبہ اشاعت اور آئی ٹی ٹیم کے ایک وفدکی ملاقات