از طرف صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان، ممبرات مجلس عاملہ، کارکنات دفتر و ممبرات لجنہ اماءاللہ پاکستان مورخہ ۱۱؍ مئی ۲۰۲۵ء کو مکرم و محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اور ربوہ کی فضا کو سوگوار کر گئے۔ اے ہمارے پیارے رب راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب ایک نجیب الطرفین وجود، سلسلہ کے مخلص اور جید عالم دین تھے۔ آپ حضرت سیدہ نصرت جہاں صاحبہ ام المومنینؓ کے بھتیجے تھے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے پوتے تھے۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے داماد تھے اور مکرمہ صاحبزادی امۃالمتین صاحبہ کے شو ہر محترم تھے۔ آپ کی جماعتی خدمات کی طویل فہرست ہے۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ آپ کو یہ نمایاں اعزاز حاصل ہے کہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے والد محترم حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات کے بعد زندگی وقف کرنے کا فیصلہ حضرت مصلح موعود ؓکی تقریر سے متاثر ہو کر کیا۔ اس تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت میر صاحب کی دینی خدمات، ان کی وقف کی روح اور علمیت کا ذکر کیا۔ اس مجلس میں آپ نے اپنے آپ کو وقف کے ليے پیش کر دیا اور ۱۴؍سال کی عمر میں کیے گئےاس عہد کو تادم آخر ۸۱؍ سال تک خوب نبھایا۔ الحمد لله ۱۹۵۴ء تا ۱۹۵۷ء انگلستان میں مبلغ کے طور پر خدمت کی۔ اس دوران جماعت کی خدمت کی خاطر ہی اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۷ء تا ۱۹۵۹ء وکالت دیوان میں ریز رو مبلغ رہے۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۸ء تک جامعہ احمدیہ میں بطور استاد فرائض انجام دیے۔ ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۲ء تک امریکہ میں مبلغ رہے۔ آپ کو اور آپ کی اہلیہ محترمہ کو ۱۹۸۲ء اور ۱۹۸۶ء میں سپین کی سرزمین میں سات سو سال بعد بننے والی پہلی مسجد کی تعمیر وافتتاح کی تقریب منعقد کروانے کی سعادت ملی۔ الحمد لله ۱۹۸۶ء سے ۲۰۱۰ء تک عرصہ چوبیس سال بطور پرنسپل جامعہ احمد یہ اپنے فرائض نہایت احسن رنگ میں ادا فرمائے۔ آپ کے زیر سایہ تربیت یافتہ مربیان کرام ساری دنیا میں خدمات بجالا رہے ہیں۔ مربیان کی تربیت ٹھوس بنیادوں پر فرماتے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق قائم کریں۔ نمازوں میں شغف ہو، درودپڑھنے میں التزام ہو اور روحانی خزائن کے مطالعہ سے اپنا علم مضبوط کریں تا صحیح نہج پر خدمت کر سکیں حضرت مصلح موعود کی یہ خواہش تھی کہ انگلستان میں رہ کر آپ انگریزی زبان پر عبور حاصل کریں اور کتب سلسلہ کی اشاعت میں معاونت کریں۔ آپ نے اس خواہش کو پورا کیا اور سلسلہ کے لٹریچر میں گراں قدر اضا فہ فرمایا۔ آپ پہلے عالم دین ہیں جنہیں صحاح ستہ کا مکمل اردو ترجمہ صحیح مسلم کی شرح، بائبل پر علمی مقالہ جات و دیگر کتب تحریر کرنے کی توفیق ملی۔ آپ ریسرچ سیل کے انچارج تھے اور اس کے تحت مثالی خدمات کی توفیق ملی۔ نیز کفن مسیح پر آپ نے تحقیق کی اور مرہم عیسیٰ کا نسخہ تیار کیا گیا۔ صرف اس ليے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر زور دیا ہے اور اس تحقیق میں وہ موقف اختیار کیے جانے کی ہدایت کی اور اس کو بنیاد بنایا گیا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ اس روشنی میں یہ تحقیق کی گئی اور نہایت کامیاب رہی۔ Shroud of Turin کے ماہر نے اس تحقیق کا اعتراف کیا اور مرہم عیسیٰ کا قائل ہو گیا۔ مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب ایک عظیم روحانی وجود تھے۔ آپ بلا شبہ اس حدیث کے مصداق تھے۔ ’’تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ ‘‘ آپ کی صحبت میں رہنے والے طلبہ و دیگر افراد کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا ہو جاتی۔ اپنے کمرے کے ماحول کو بھی آپ نے دعا کا ماحول بنایا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے جو محبت کا تعلق آپ کو خود حاصل تھا، اپنے ساتھ کام کرنے والوں، اپنے گھر والوں، دوست احباب سب میں منتقل فرماتے۔ آپ عالم با عمل انسان تھے۔ نمازوں سے شغف، تعلق باللہ، آنحضرت ﷺ سے عشق کا تعلق، اتباع سنت پر عمل کی کوشش ہر موقع پر ہوتی۔ اور یہ عشق کا تعلق آپ کے درس حدیث میں ایسے جھلکتا کہ انسان رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچ جاتا۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے دروس کو سننے والے افراد بھی یہی بات بیان کیا کرتے تھے۔ یقیناً آپ نے اپنے بزرگ والد سے ورثہ میں یہ خوبی بھی پائی تھی۔ آپ کا دعا کرنے کا دائرہ وسیع تھا۔ حقوق العباد کی ادائیگی کا اصل ذریعہ دعا کو ہی سمجھتے تھے۔ اور اپنے قریب رہنے والے افراد کو دعا کرنے کا طریق سکھایا کرتے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ حضرت اماں جانؓ کا پر شفقت سایہ نصیب ہوا اور تربیت حاصل ہوئی۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کے زیر سایہ تربیت حاصل کرنے اور لمحہ لمحہ سیکھنے کا موقعہ ملا۔ اس تربیت کی ایسی گہری چھاپ تھی کہ زندگی میں ہر جگہ حضور کے فقرات دہراتے اور حوالہ دیتے رہتے۔ پھر دامادی کی قربت حاصل ہوئی، اسے بھی آپ اپنے ليے باعث سعادت سمجھتے اور قدر فرماتے۔ چار خلفاء کی رفاقت ملی اور ان کے ادوار میں خدمت دین کی توفیق ملتی رہی۔ اور ہمیشہ خلافت کے معین و مددگار رہے۔ حضور اقدس ایدہ اللہ سے خاص قلبی تعلق تھا۔ آپ کی اطاعت فدائیت کا رنگ ليے ہوئے تھی۔ اس حد تک خیال تھا کہ اگر حضور کا کوئی ارشاد ملا ہے تو اسی وقت عمل شروع ہو جائے۔ آپ کی شخصیت کا نکھار ہی اللہ تعالیٰ کے بعد امام وقت کی کامل اطاعت میں تھا۔ آپ بلا شبہ خلافت نما وجود تھے۔ آپ نے اپنے عمل سے اطاعت خلافت کر کے دکھائی۔ ۱۹۹۰ء میں آپ پر توہین رسالت کا مقدمہ ہوا۔ آپ نے جج کے سامنے نہایت جرأت سے اپنے مؤقف کا اظہار کیا۔ توہینِ رسالت کا مقدمہ ہو جانے کی بے حد تکلیف تھی۔ اسی مقدمہ میں آپ کو اسیر راہ مولیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اور دوران اسیری پڑھنے کے ليے ’’براہین احمدیہ‘‘طلب فرمائی۔ آخری بیماری میں درود شریف کا کثرت سے ورد فرماتے۔ اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بے پناہ محبت و عقیدت کا تعلق تھا اور اس کا اظہار فرماتے کہ آپؑ کا سب سے بڑا معجزہ زندہ خدا سے تعلق جوڑ دینے کو سمجھتے تھے۔ لجنہ اماءاللہ پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ ۱۹۸۲ء تک جب تک مجلس مشاورت جماعت احمدیہ کے موقع پر لجنہ کی طرف سے نمائندگان مقرر کیے جاتے تھے۔ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے دور صدارت میں مکرم میر صاحب نے بطور نمائندہ لجنہ رائے کا اظہار فرمایا۔ اس کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اس طریق کو تبدیل فرما دیا تھا اور لجنہ کو براہ راست شوریٰ میں نمائندگی عطا فرمائی تھی۔ اس کے ليے لجنہ اماءاللہ آپ کی ممنون احسان اور دعا گور ہے گی۔ آپ کو گراں قدر علمی خدمات کی توفیق ملی۔ ردّ عیسائیت، یہودیت، موازنہ مذاہب، سائنسی علوم و تاریخ کا وسیع مطالعہ فرماتے اور ان موضوعات پر مضامین تحریر فرمائے جو جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہے۔ آپ ایک معمور الاوقات وجود تھے ہر لمحہ خدمت دین سے عبارت تھا۔ اس آخری عمر میں بھی زبانوں کو سیکھنے کا عمل جاری تھا۔ انگلش، اردو کے علاوہ سپینش، اٹالین اور عبرانی پر عبور حاصل ہو گیا تھا۔ اٹالین زبان تو حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر سیکھ رہے تھے اور تا وفات یہ عمل جاری رہا۔ رخصت یا چھٹی کا لفظ آپ کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ مالی قربانی کا خاص جوش تاوفات رہا۔ قناعتو تو کل کی بے مثال زندگی گزاری۔ حضور اید ہ اللہ نے خطبہ جمعہ ۱۶؍ مئی ۲۰۲۵ء میں شاندار الفاظ میں آپ کا ذکر خیر فرماتے ہوئے بیان فرمایا: آپ خلافت کے عظیم معاون و مددگار تھے، جاںنثار تھے۔ ہر حرف پر عمل کرنے والے تھے۔ باوفا تھے۔ ایسے سلطان نصیر تھے جو کم کم ہی ملتے ہیں۔ عالم با عمل تھے۔ مجھے کم از کم ان جیسی کوئی مثال ابھی نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کرے، اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں۔ اللہ کرے ایسی مثالیں اور پیدا ہو جائیں۔ ایسے باوفا مخلص اور تقویٰ پر چلنے والے مددگار اللہ تعالیٰ خلافت احمد یہ کو عطا فرما تا ر ہے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے باپ کی دعاؤں کا حقدار بنائے اور ان کے عمل پر اور ان کی نصیحتوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ہم ممبرات مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ پاکستان اس جماعتی نقصان پر سب سے پہلے اپنے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور سیدہ بیگم صاحبہ کی خدمت میں اظہار افسوس کرتی ہیں۔ نیز خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے افراد مکرم میر صاحب کی صاحبزادی، اور تمام صاحبزادگان اور بہوؤں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتی ہیں۔ اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کے درجات بلند فرمائے اور جو خلا ان کے جانے سے واقع ہوا ہے اسےمحض اپنے فضل سے پورا فرمائے۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: قرارداد تعزیت بروفات مکرم و محترم شیخ مبارک احمدصاحب(ناظردیوان صدرانجمن احمدیہ پاکستان)