https://youtu.be/pl8dqBQa7IU یہی لگتا ہے کہ جس طرح اللہ کی ذات کی کُنہ معلوم نہیں ہو سکتی اسی طرح اس کے نام اَللّٰہ کی کنہ بھی معلوم کرنا دشوار ہے یَا اَللّٰہ کا مقولہ اردو میں بڑی کثرت سے رائج ہے۔ کسی بھی پریشانی کے موقع پر منہ سے یَا اَللّٰہ کے الفاظ نکلتے ہیں۔ دعا کرتے وقت بھی یَا اَللّٰہ کہتے ہیں، مگر چونکہ یَا اَللّٰہ اصل میں عربی زبان کا جملہ ہے اس لیے اس کی بناوٹ کی طرف بالعموم توجہ نہیں جاتی۔ یَا اَللّٰہ کی بناوٹ نہایت عجیب و غریب ہے۔ اَللّٰہ کا ہمزہ وصلی ہے جو درجِ کلام میں ہو تو تلفظ میں گر جاتا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یا اللہ میں ہمزۃ الوصل باوجود درجِ کلام میں آنے کے تلفظ میں پوری شان سے قائم رہتا ہے اور گرتا نہیں۔ یعنی ہم یَا اَللّٰہ کہتے ہیں مگر یَلّٰہُ نہیں کہتے۔ہاں لغۃ دارجہ (colloquial)میں کہہ لیتے ہیں۔ہم یہاں لغۃ فَصِیْحَۃ یا فُصْحیٰ کی بات کر رہے ہیں۔لیکن اللہ کے علاوہ اور کوئی بھی لفظ ہو تو اس کا وصلی ہمزہ تلفظ میں گر جائے گا۔ مثلاً یااِبْنُ کو یَبْنُ پڑھیں گے کیونکہ اِبن کا ہمزہ وصلی ہے، قطعی نہیں۔ ایک اور عجیب بات لفظ یَا اَللّٰہ میں یہ ہے کہ عربی قواعد کے لحاظ سے جس لفظ کے شروع میں تعریف کا ا ل آئے اس سے قبل صرف یَا لانا جائز نہیں بلکہ درمیان میں اَیُّھا لانا پڑے گا۔ چنانچہ یَا نَبیُّ میں اگر نبیّ پر ال لائیں اور اسے النَّبِیُّ کردیں تو یَا اَلنَّبِیُّ کہنا درست نہ ہوگا بلکہ یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ درست قراءت ہو گی۔ اور اگر وہ لفظ مؤنث ہو تو اَیَّتُھَا درمیان میں لائیں گے۔ مثلاً یَا اَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ کیونکہ نفس عربی میں مؤنث ہے۔ مگر اَللّٰہ کے شروع میں ا ل ہونے کے باوجود یَااَیُّھَا اللّٰہُ نہیں کہتے بلکہ یَا اَللّٰہ کہتے ہیں۔ اگر یہ خیال ہو کہ اللہ کے شروع میں ال تعریف کا نہیں بلکہ اَللّٰہ خود پورا لفظ ہے۔ تو اس پر یہ سوال ہوگا کہ اس صورت میں اَللّٰہ پر تنوین کیوں نہیں آتی۔یعنی یہ کیوں نہیں کہتے کہ ھُوَ اللّٰہٌ بلکہ ھُوَ اللّٰہُ کہتے ہیں۔ اگرکوئی خیال پیش کرے کہ اللّٰہ غیر منصرف ہے اس لیے تنوین نہیں آتی تو سوال یہ ہے کہ پھر اس پر زیر کیوں آ جاتی ہے، جیسے اِلَی اللّٰہِ۔ غیر منصرف ہونے کی صورت میں تو اسے اِلَی اللّٰہَ ہونا چاہیے تھا۔ ویسے اللّٰہ کے لفظ میں غیر منصرف ہونے کی شرط بھی موجود نہیں۔ ایسی صورت حال میں یہی لگتا ہے کہ جس طرح اللہ کی ذات کی کُنہ معلوم نہیں ہو سکتی اسی طرح اس کے نام اَللّٰہ کی کنہ بھی معلوم کرنا دشوار ہے۔ نحاۃ نے یہ کہہ کر کہ یہ سب کچھ شاذ ہے جان چھڑا لی ہے۔ اور کہہ دیا ہے کہ اَللّٰہ سے پہلے یَا آ جائے تو اَللّٰہ کا ہمزہ وصلی سے قطعی میں بدل جاتا ہے۔ یاد رہے قرآن کریم میںیَا اَللّٰہ ، ایک بار بھی نہیں آیا۔ بلکہ اَللّٰھُمَّ استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب یَا اَللّٰہ ہی ہے۔ اللہ کے آخر میں میم قائم مقام ہے یَا کی۔اور اس میم کا کوئی محلی اعراب نہیں۔ یَا اَللّٰہ کی بناوٹ میں جو پیچیدگی اوپر مذکور ہوئی ہے وہ ہمزہ کی وجہ سے ہے اور لطف کی بات ہے کہ ہمزہ بذاتِ خود عجیب و غریب حرف ہے جو عربی حروف ہجاء میں بالکل نرالا ہے۔عربی حروفِ ہجاء کل ۲۹؍ہیں۔ ہمزہ کو چھوڑ کر باقی ۲۸؍ حروف کا نام جب لفظ میں لکھیں تو ان کے شروع میں وہی حرف آئے گا جس کا وہ نام ہے۔ مثلاً س کو لفظ میں لکھیں (سِیْن) تو اس لفظ میں سب سے پہلے س ہی آئے گا۔ اسی طرح شین۔ دال۔ذال۔رَا۔ یَا۔ھا وغیرہ۔ مگر جب ہمزہ لکھیں تو پورے لفظ میں ہمزہ موجود ہی نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمزہ کی اپنی کوئی معین شکل نہیں۔کبھی یہ الف کی شکل میں لکھا جاتا ہے جیسے إسلام کبھی واؤ کی شکل میں جیسے مُؤْمن او ر کبھی ی کی صورت میں جیسے جِئْ۔ ایسی صورت میں ا۔ و اور ی پر ع کا سرا (ء) لکھا جاتا ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ ا۔ و اور ی ہمزہ کے لیے بطور عِوض استعمال ہوئےہیں۔ کیونکہ ہمزہ کی اپنی کوئی معین شکل نہیں، تو یہ ع کا سرا بھی ہمزہ نہیں بلکہ ہمزہ کا عوض ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہمزہ کے تعلق میں ایک حدیث: ہمزہ کے بارے میں ضمناً ایک حدیث قارئین کی دلچسپی کے لیے درج کرنی مناسب معلوم ہوتی ہے:قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ،صَلی اللّٰہ علیہ وسلم: یَانَبِیْءَاللّٰہِ۔ فَقَال: لَا تَنْبِرْ بِاسْمِیْ۔ (لسان العرب زیرِ نبر)یعنی ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا: اَے اللہ کے نَبِیْء، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے نام میں ہمزہ نہ ملاؤ۔ اس تعلق میں ہمزہ کے بارے میں ایک عظیم نحوی سِیبوَیْہِ کہتا ہے: … انَّھُمْ تَرَکُوْا الْھَمْزَ فِی النَّبِیِّ کَمَا تَرَکُوْا فِی الذُّرِّیَّۃِ وَالْبَرِیَّۃِ وَالْخَابِیَۃِ، اِلَّا اَھْلَ مَکَّۃَ، فَاِنَّھُمْ یَھْمِزُوْنَ ھٰذِہِ الْاَحْرُفِ وَلَا یَھْمِزُوْنَ غَیْرَھَا، و یُخَالِفُوْنَ العَرَبَ فی ذٰلِکَ۔ والْھَمْزُ فِی النَّبِیْءِ لُغَۃٌ رَدِیْئَۃٌ، یَعْنِی لِقِلَّۃِ اسْتِعْمالِھَا، لَا لِاَنَّ الْقِیَاسَ یَمْنَعُ ذٰلِکَ۔ (لسان العرب زیرِ نَبَأ)یعنی لفظ نبی میں عربوں نے ہمزہ ترک کر دیا ہے جس طرح کہ الذُّرِّیَّۃ اور الْبَرِیَّۃ اورالْخَابِیَۃ میں ترک کر دیا ہے۔ سوائے اہل مکہ کے کہ وہ ان الفاظ میں تو ہمزہ شامل کرتے ہیں،مگر اِن الفاظ کے علاوہ باقی لفظوں میں ہمزہ کو ترک کرتے ہیں، اور اس بارے میں باقی عربوں سے مخالفت رکھتے ہیں۔ اور النَّبِیْء میں ہمزہ ردی لغت ہے بوجہ قِلّتِ استعمال کے ورنہ یہ قیاس (یعنی قواعد) کے خلاف نہیں۔ مطلب یہ کہ النبیء کے ہمزے کو ترک کر کے اسے النبِیّ بنایا گیا ہے جس طرح الذُّرِّیَّۃ،الْبَرِیَّۃ اور اَلْخَابِیَۃ میں، جو اصل میں اَلذُّرِّیْئَۃ، اَلْبَرِیْئَۃ اور اَلْخَابِئَۃ تھے مگر ان میں ہمزہ کو ی میں بدل دیا گیا ہے، اسی طرح اَلنَّبِیْءُ میں بھی ہمزہ کو ی میں بدل کر اسے اَلنَّبِیُّ بنا دیا گیا ہے ۔ورنہ اصل لفظ اَلنَّبِیْءُ ہے کیونکہ ن ب ء کے مادّہ سے ہے۔ نبی کا لفظ ن ب و مادہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ لسان العرب میں اِس مادہ کے تحت لکھا ہے: اِنْ اَخَذْتَ النَّبِیَّ مِنَ النَّبْوَۃِ والنَّبَاوَۃِ وَ ھِیَ الِارْتِفَاعُ مِنَ الْاَرْضِ لِارْتِفَاعِ قَدْرِہٖ وَ لِاَنَّہٗ شُرِّفَ عَلٰی سَائِرِ الْخَلْقِ، فَاَصْلُہٗ غَیْرُ الْھَمْزِ۔ یعنی اگر تم نبی کے لفظ کو نَبْوَۃ اور نَبَاوَۃ -جس کا مطلب اونچی زمین ہے، سے لو تو نبی کی علوّ مرَتبت کی وجہ سے نیزاس لیے کہ وہ تمام باقی مخلوق سے فضیلت رکھتا ہے، تو پھر اس لفظ کی بنیاد میں ہمزہ شامل ہی نہیں۔ اس بیان کی وضاحت یہ ہے کہ اگرنبی کا لفظ ن ب و مادّہ سے لیا جائے تو اس کی صفۃ مشبہہ فَعِیْلٌ کے وزن پر نَبِیْوٌ ہو گی۔ اس لفظ میں چونکہ ی اور و جمع ہوگئے ہیں اور ان میں سے پہلا حرف (ی) ساکن ہے، لہٰذا قاعدے کے مطابق اس لفظ میں و کو ی میں بدلنا ضروری ہے۔ اس طرح یہ لفظ نَبِیْیٌ بن گیا۔اب دو ی جمع ہو گئیں تو اِدغام لازم ہو گیا۔ اور یہ لفظ نبِیٌّ بن گیا۔ اس میں ہمزہ شروع ہی سے موجود نہیں۔ اور چونکہ نَبْوَۃ کا مطلب ارتفاع ہے تو اس لفظ سے نبی کی رفعت شان ظاہر ہوتی ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر ن ب و مادّے میں اِرتفاع کا مفہوم ہے تو نبأ (ن ب ء) مادہ میں بھی ارتفاع کا مفہوم ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں نبأ کے تحت لکھا ہے: نَبَاَ نَبْأً و نُبُوْءًا: اِرْتَفَعَ۔ پس نبی کے دونوں مادّوں میں ارتفاع کا مفہوم ہے،لیکن ن ب ء سے مشتق ’نَبِیُّ اللّٰہ‘ میں اللہ سےخبریں پا کر آگے پہنچانے والے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، جو ن ب و والے مادہ میں نہیں۔ نحویوں کی موشگافیاں اپنی جگہ، خاکسار کی رائے میں آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ لَسْتُ بِنَبِیْ ءِ اللّٰہِ وَ لٰکِنِّیْ نَبِیُّ اللّٰہِ (لسان العرب زیر لفظ نبأ)، تو آپﷺ کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نَبِیْءُ اللّٰہ نہیں کہا بلکہ نَبِیُّ اللّٰہ کہہ کر مخاطب فرمایا ہے لہٰذا میں صرف وہی ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے قرار دیا ہے۔ اور یہ بات اس لیے بھی درست ہے کہ انبیاء اپنے طور پر کچھ ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کرتے بلکہ اللہ کے فرمودہ کے مطابق اعلان کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ الہام بھی یہی مفہوم رکھتا ہے: قُلْ ھٰذَا فَضْلُ رَبِّیْ وَ اِنِّیْٓ اُجَرِّدُ نَفْسِیْ مِنْ ضُرُوْ بِ الْخِطَابِ (تذکرہ صفحہ ۱۹۶،ایڈیشن ۲۰۰۴ء) یعنی کہہ یہ میرے رب کا فضل ہے اور میں تو اپنے آپ کو تمام قسم کے خطابات سے الگ رکھتا ہوں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلافت علیٰ منہاج النبوۃکی پیشگوئی جو دو دفعہ پوری ہوئی